The Latest

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ الله تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ معاشروں میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے انسانوں کی تعداد میں مختلف حوالوں سے ایک توازن رکھتا ہے۔ جیسے مرد و زن کی تعداد میں ایک قدرتی توازن برقرار رہتا ہے اسی طرح معاشروں میں عقل و دانش اور ضروری ہنر و فن کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی ایک توازن برقرار رہتا ہے- مرد و زن کی تفریق اور دیگر صلاحیتوں کو متوازن رکھنے میں فرق صرف یہ ہے کہ مرد و زن کو ظاہری جسمی علامتوں سے تشخیص دینا آسان ہے جبکہ دیگر صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت کرنا قدرے محنت طلب کام ہوتا ہے۔ نظام تعلیم جہاں انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے وہاں ان صلاحیتوں کے حامل افراد کی شناخت میں مدد بھی دیتا ہے۔

آج کی دنیا میں ہمارا خطہ دو قسم کے بنیادی تعلیمی نظاموں میں تقسیم ہے_ انگریزی (جو دنیاوی علوم کے نام سے مشہور ہے) اور عربی (جو دینی علوم کے نام سے مشہور ہے)- میں انگریزی نظام تعلیم اس لئے کہتا ہوں کہ انگریز سرکار کے غلبہ کے بعد اس نظام کو رائج کیا گیا اور سر سید احمد خان کی حکیمانہ جدوجہد کے بعد مسلمانوں نے اسے وقت کی ضرورت کے تحت قبول بھی کر لیا جبکہ اس سے پہلے جو نظام تعلیم رائج تھا اس کی بنیاد وہ مسلمان بادشاہ تھے جنہوں نے صدیوں اس زمین پر اپنی حکومت قائم رکھی- اس نظام تعلیم کی بنیاد عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں رائج تعلیم کا سلسلہ تھا اور انہی تین زبانوں اور مقامی سنسکرت و ہندی کے امتزاج کے ساتھ اردو زبان معروف وجود میں آئی جو مسلمانوں کی زبان بن گئی اور اب ایک ورثہ کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں ہے-

انگریزی نظام تعلیم رائج کرنے والوں کی نظر میں یہ ہدف تھا کہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق  اسی معاشرے سے امور مملکت چلانے کے لئے افراد مہیا کئے جائیں جبکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والوں کے پیشِ نظر اچھے روزگار کا حصول اور مالی پریشانیوں سے پاک زندگی کا حصول تھا جو آج تک قائم ہے- اسی دور میں عربی نظام تعلیم بھی متبادل کے طور پر چلتا رہا اور ان اداروں کو مدارس کا نام دے دیا گیا جبکہ انگریزی تعلیم کے ادارے اسکول و کالج کہلائے- عربی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی تھی لہذا انہیں دینی مدارس بھی کہا جانے لگا-  یہی وہ وقت ہے جب دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم ہوئی- دینی علوم کے مدارس سے فارغ ہونے والے عوام کی دینی ضروریات جیسے نکاح و طلاق، امامت نماز، تراویح و خطبہ جمعہ کو پورا کرنے دھن میں لگ گئے جبکہ دنیاوی علوم نے اچھے کھاتے پیتے مغرب سے متاثر افراد تیار کرنے شروع کر دئے-

انگریزی نظام تعلیم نے معاشرے کے اعلیٰ اذہان کو فلٹر اور جذب کرنا شروع کر دیا- گویا اس نظام نے معاشرے کے اعلیٰ  اذہان کو چنا اور انہیں اپنے نظام کو چلانے کے لئے استعمال کیا- جب معاشرے کے بہترین ذہن انگریزی تعلیم کی طرف چلے گئے تو دینی مدارس کے پاس متوسط یا کمزور اذہان کے طالب علم آئے- البتہ چند استثنائات کو چھوڑ کر-

یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس کے تدارک کے لئے ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے- اگر‎ آج ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ منبر  رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں یا تفرقہ بازی کی باتیں ہوتی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی علوم سے معاشرے کے بہترین اذہان کو دور رکھا گیا ہے بلکہ ان دو نظام تعلیم کی تقسیم نے مہذب اور غیر مہذب افراد کو بھی الگ الگ کر دیا ہے۔

آج کا دور اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک منفرد دور ہے کیونکہ اس دور میں دین شناسی کی تڑپ میں اضافہ ہوا ہے- اس دور میں دینی علوم کے ماہرین سے دینی ہدایت اور راہنمائی طلب کی جا رہی ہے گویا ہدایت کا جو پیغمبرانہ کام تھا اس کا تقاضا کیا جارہا ہے- اب منبرِ رسول سے حکمت و دانش کی باتوں کی امید کی جا رہی ہیں- دینی راہنماؤں سے امت کو لڑانے کے بجائے انہیں جوڑنے کی فرمائش کی جا رہی ہے- دین کی ان تعبیروں کو زندہ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے جو ایک صاف ستھرے اور مہذب معاشرے کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے-

‎میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ہمارے ملک پاکستان میں عوامی اور ملکی سطح پر مذہبی رجحان بہت زیادہ بڑھا ہے۔ اس رجحان میں اضافے کی وجہ سے دینی ہدایت اور دینی راہنمائی اور قیادت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے۔

کیا ہمارے آج کے دینی مدارس اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا نفی میں جواب دینے میں شاید ہی کسی ذی فہم کو تامل ہو لیکن اگر ہم اس نظام تعلیم کی اصلاح کر سکیں جس کے ذریعے معاشرے کے بہترین اذہان کو ان علوم کی طرف مائل کر سکیں اور معاشرے کے مہذب گھرانوں کے افراد کی پہلی ترجیح دینی علوم کو بنا سکیں تو شاید یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا- کیونکہ ہدایت کا کام الله تعالیٰ نے ہمیشہ معاشرے کے بہترین انسانوں سے لیا ہے-

دنیاوی علوم کے مقاصد کو بھی صرف اچھے روزگار کے حصول سے موڑ کر کائنات کی حقیقت، اس کی ابتدا و انتہا اور اس دنیا میں ایک سعادت مند زندگی کے معیارات سمجھنے کا ذریعہ بھی بنانا ہو گا- آج کا دور معاشرے کے لئے بابو تیار کرنے کا دور نہیں ہے بلکہ دین فہم ، معاشرہ ساز ہادی بنانے کا دور ہے جو اصل میں انسان کا کام ہے-

تحریر۔۔۔پروفیسر سید امتیاز رضوی

وحدت نیوز (ٹنڈو محمد خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹنڈو محمد خان کیجانب سے ضلعی کابینہ کی نامزدگی کے سلسلے میں نو منتخب ضلعی سیکریٹری جنرل مولانامحمد بخش غدیری کے زیرصدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں ضلعی کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا گیا، ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا محمد بخش غدیری نے 16اراکین پر مشتمل ایم ڈبلیوایم ضلع ٹنڈومحمد خان کی کابینہ کا اعلان کردیا جس میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد اشرف،ڈپٹی سیکریٹری جنرل  سید مشتاق شاہ ،ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید نذیر شاہ،سیکریٹری تنظیم سازی فیاض علی ،سیکریٹری مالیات زوار حسین ،سیکریٹری روابط اسد عباس کربلائی،سیکریٹری نشرواشاعت نواز علی مشہدی،سیکریٹری میڈیا سیل جمشید جعفری،سیکریٹری  وحدت یوتھ میرغلام علی،سیکریٹری تبلیغات مولانا منظور احمد،سیکریٹری تربیت مولاناکاظم علی مطہری ،سیکریٹری تعلیم عاشق علی بھٹو،سیکریٹری فلاح بہبودسجاد علی،سیکریٹری آفیس نیاز علی،سیکریٹری تحفظ عزاداری سید بقادار شاہ اور سیکریٹری شماریات سید صدام شاہ،خادم حسین شامل ہیں ۔

وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین سمیت کسی بھی مرکزی رہنما کا شرکت نہ کرنا گلگت بلتستان سے پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آئی لیکن گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے متنازعہ بیانات کے سوا کچھ نہیں دیا۔گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے مقامی قائدین آئینی حقوق کے حوالے سے جھوٹے بیانات کے ذریعے گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ آئینی حقوق سے متعلق سیمینار میں پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین میں سے کسی ایک رہنما نے بھی شرکت نہ کرکے علاقے کے عوام اور ان کے بنیادی حقوق سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے ۔ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا گلگت بلتستان جو پاکستان کی شہ رگ ہے کو نظرانداز کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ شروع دن سے گلگت بلتستان کے عوام نے پیپلز پارٹی ویلکم کیا ہے اور تاحال ایک اکثریت پیپلز پارٹی سے والہانہ عقیدت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آکر اس علاقے کے عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مقامی رہنمائوں کو اپنے مرکزی قائدین کے رویے سے متعلق سوچنا ہوگا اور جب تک مقامی رہنما اپنی جماعت کے اندر گلگت بلتستان کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی نہیں لائینگے تب تک اس جماعت سے کوئی توقع رکھنا فضول اور عبث ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کو وقت دینے کیلئے تیار نہیں تو جب اقتدار میں ہونگے تو بعید نہیں کہ ہم سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہ ہونگے۔

وحدت نیوز (مشہد مقدس) مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے وفد نے انقلاب اسلامی ایران کی 39ویں سالگرہ کے موقع پر مشہد مقدس میں نکالی گئیں ریلیوں میں ایرانی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شرکت کی، وفد کی قیادت ایم ڈبلیو ایم مشہد مقدس کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام والمسلمین آقائی عقیل حسین خان نے کی، اس موقع پر پاکستانی علمائے کرام اور طلاب کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین کے پرچم اور بینر اٹھا رکھے تھے، مردہ باد امریکا اور اسرائیل کے نعرے لگا رہے تھے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) ملت جعفریہ کے اکابرین علامہ تصور حسین نقوی الجوادی کے ہمراہ 15 فروری کو سینٹرل پریس کلب مظفرآباد میں اہم پریس کانفرنس کریں گے۔ پریس کانفرنس میں علامہ تصور جوادی کیس کے متعلق لائحہ عمل اعلان کیا جائے۔ پندرہ فروری علامہ تصور جوادی پر حملے کا دن ہے۔ اس دن ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ آج تک مجرمان کا گرفتار نہ ہونا اور حکومتی عدم دلچسپی تشویشناک اور تکلیف دہ عمل ہے۔

اعلامیہ تفصیلات کے مطابق ملت جعفریہ مظفرآباد ڈویژن کا اہم اجلاس علامہ مفتی سید کفایت حسین نقوی کی رہائش گاہ پر ہوا۔ صدارت چیئرمین جعفریہ سپریم کونسل آزادکشمیر سید شبیر حسین بخاری نے کی۔ جبکہ سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے خصوصی شرکت کی۔ اجلاس میں علامہ سید فرید عباس نقوی ، علامہ احمد علی سعیدی ، مولانا سید طالب ہمدانی ، سید شجاعت علی کاظمی ، سید تصور عباس موسوی ، سید غفران علی کاظمی سید ذیشان حیدر ، پیر سید مہر علی شاہ ایڈوکیٹ ، سید تبریز علی کاظمی ، مولانا معصوم سبزواری ، مولانا حافظ کفایت نقوی ، مولانا خلیل نقوی ، مولانا مجاہد کاظمی ، مولانا سید فضائل نقوی سید محسن نقوی ، سید افضل سبزواری ، سید ضیاء الحسن ، پیر سید افتخار نقوی ، سید مشتاق کاظمی ، سید سعادت علی کاظمی ، سید منظور حسین نقوی ، سید منیر حسین شاہ ، سید صابر علی نقوی ، سید شاہد حسین نقوی ، سید کرامت علی کاظمی ، سید اسرار علی کاظمی ، تنویر احمد مغل اور دیگر بیسیوں مظفرآباد ، نیلم اور ضلع جہلم ویلی سے آئے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اکابرین ملت جعفریہ نے گزشتہ ایک سالہ انتظامیہ کی کارکردگی اور کیس کے حوالے سے کردار کو اجلاس کے سامنے پیش کیا۔

 اس موقع پر علامہ مفتی سید کفایت حسین نقوی، سید شبیر حسین بخاری ، علامہ فرید عباس نقوی ، علامہ احمد علی سعیدی ، مولانا سید طالب ہمدانی ، سید شجاعت علی کاظمی ، سید تصور عباس موسوی و دیگر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن تا حال علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ دہشتگردانہ حمل کرنے والوں کو گرفتار نہ کیا جانا افسوسناک عمل ہے۔ ہم نے ایک لمبا وقت دیا تا کہ انتظامیہ بغیر کسی مداخلت کے اچھا رزلٹ سامنے لائے۔ مگر ہمیں مایوس کیا گیا۔ ہماری خاموشی کو کمزوری گردانا گیا۔ لیکن واضح رہے کہ مجرمان کے کٹہرے میں آنے تک ہمارا ایک ایک فرد چین سے نہیں بیٹھے گا۔ بھمبر سے لیکر نیلم تک ہمارا ہر فرد مضطرب ہے اور جواب چاہتا ہے۔ 15 فروری کو پریس کانفرنس میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔ ہم ریاست کے شہری ہیں ہم سے ہمارا بنیادی حق یعنی حق زندگی نہ چھینا جائے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) آزاداور خود مختار الیکشن کمیشن کے بغیر شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ۔ الیکشن 2018سے قبل الیکشن کمیشن کے معاملات کا حل ہونا ضروری ہے ان خیالا ت کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایم ڈبلیوایم پولیٹکل ونگ کے عہدیداران سے ایک ملاقات میں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ جب تک الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی حوالے سے خود مختاری نہیں دی جائے گی الیکشن 2018کا شفاف انعقاد ممکن نہیں ۔بائیومیٹرک طریقہ کار کے تحت ہونے والے الیکشن کی حمایت کرتے ہیں ۔ بائیومیٹرک الیکشن کے انعقاد سے انتخابی دھاندلی کا راستہ رکے گا۔ مالی خود مختاری نا ہونے کے سبب الیکشن کمیشن کے لئے بائیومیٹرک سسٹم کے تحت الیکشن کا انعقاد کروانا ناممکن ہو گا ۔ انتظامی طورپر الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ ضروری ہے ۔

انہوں نے مزید کہاکہ  حالیہ لودھرں ضمنی الیکشن میں الیکشن کمیشن کی تنبیہ کے باوجود سیاسی لیڈران کا الیکشن کمپین میں حصہ لینا الیکشن کمیشن کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ۔پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن کے قوانین کا بھی ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ لگتا ہے سیاسی جماعتیں ہارس ٹریڈینگ کارستہ روکنا ہی نہیں چاہتیں ۔ہارس ٹریڈینگ کارستہ روکنے کے لئے فلورکراسنگ کے موجودہ قانون کو تبدیل کرنا ضروری ہے

متوقع الیکشن اور سیاسی بیداری

وحدت نیوز (آرٹیکل) لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض تالیاں بھی بجاتے ہیں اور بعض واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، شیخ رشید جب بلاول بھٹو کو ایک فلمی اداکارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لوگ  ہنستے ہیں، عمران خان جب آزاد کشمیر کے  وزیراعظم  کو زلیل اور گھٹیا انسان کہتے ہیں  تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور پیر طریقت  خادم رضوی جب  ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دوسروں کے بارے میں  نازیبا  زبان استعمال کرتے ہیں تو  مجمع واہ واہ اور سبحان اللہ کہتا ہے،مسلمانوں کے دینی  مدرسوں میں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے  تو لوگ آنکھیں موندھ لیتے ہیں، مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا جاتا ہے تو عوام قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایک فرقے کے اجتماع میں دوسرے فرقے کے خلاف  کافر کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو   لوگ اچھل اچھل کر نعروں کے جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ظاہر کر رہا ہے کہ  ہمارے  اجتماعی اورسماجی و  سیاسی کلچر کو اب  اسی سمت لے جایا جارہا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ دشمن طاقتیں ایکدم تو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بیزار اور متنفر نہیں کر سکتیں لہذا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں سے غیر ت ایمانی کے خاتمے اور حرام کاموں سے نفرت کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔

لوگ جب اپنے سیاستدانوں کی زبان سے نازیبا الفاظ سنتے ہیں تو انہیں اپنی روزمرّہ زندگی میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور اسی طرح جب ٹیلی ویژن پر فحاشی دیکھتے ہیں تو عام زندگی حتیٰ کہ اپنے گھرانوں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بے حجابی اور عریانیت سے کراہت محسوس نہیں کرتے۔

آج ایک دم سے لوگوں کا فر نہیں کیا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہاجاسکتا لہذا بتدریج لوگوں کے دلوں سے کفر اور حرام کی نفرت کو کم کیا جارہا ہے۔

آج لوگوں کو جہاد سے بیزار کرنے کے لئے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دئیے گئے ہیں  اور کفر جیسے لفظ کے وزن کو ختم کرنے کے لئے مشال جیسے بے گناہ طالب علم کو قتل کروا دیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کےمطابق بے حیائی صرف  ٹیلی ویژن پر گانے بجنے اور بے حجاب عورتوں کو دیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ گالیاں دینے والے،  بداخلاق، شرابی اور بدمعاشوں کا مسلمانوں سے اقتدار کے لئے ووٹ مانگنا بھی سراسر بے حیائی اور فحاشی ہی ہے۔

ہمارے معاشرے کو بداخلاق، بدزبان اور بے حیا لیڈروں کے بجائے شریف ، نیک اور متقی سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد ، بے عدالتی، ذخیرہ اندوزی ، گراں فروشی  اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے ایسے میں اگر ہم لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفا کی زندگی گزار رہے ہیں تو در اصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔

شرفا کی زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو ، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو ، لوگوں کو مفت تعلیم ، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں، بیت المال سے غربا کی کفالت کی جائے، ملک سے بے روزگاری اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو ، نوکریوں میں سفارش اور رشوت کے بجائے میرٹ کا بول بالا ہو۔۔۔

یہ سب آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگ تہِ دل سے پیغمبراسلامﷺ  کو اپنے لئے سیاست میں بھی نمونہ عمل تسلیم کریں اور ہمارے دانشور اور مفکرین ، دیندار اور متقی لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی اور سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے پتھر کھا کر، توہین اور اہانت برداشت کر کے، ہجرت کر کے، اپنے جلیل القدر اصحاب کی قربانیاں دے کر ، اپنے مقدس دانت شہید کروا کر، اپنے زمانے کے مظلومین، دبے ہوئے اور کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کو پستی سے نکال کر شریکِ اقتدار کیا۔

آپ نے مظلومین اور محکومین اور غلاموں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر کے انہیں اتنا مضبوط کیا کہ آپ نے ان مظلوموں کے ذریعے معاشرے پر حاکم وڈیروں، قبائلی سرداروں اور گناہ و زنا کے رسیا لوگوں کی طاقت کا طلسم توڑ ڈالا۔

جب سرورِ دوعالمﷺ نے سیاسی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو آپ کے مقابلے میں جہاں عرب کے متکبر، عیاش اور اوباش بادشاہ اور سردار تھے وہیں ایران اور روم کے بدمعاش بادشاہ بھی تھے۔

آپ نے گالیوں کا جواب گالیوں اور پتھروں کا جواب پتھروں سے نہیں دیا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے ، بد زبانی، بدکرداری اور بد اخلاقی پر خطِ بطلان کھینچ دیا۔

خودپیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :  إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق

مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا ہے، اسی طرح قرآن مجید نے آپ ﷺ کے بارےمیں فرمایا ہے :

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ. ''اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مرتبے  پر قائم ہیں،

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبرﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے اعلی ترین مقصد مکارم اخلاق کی تعمیل ہو اور جس پیغمبرﷺ کو خود قرآن خلق عظیم پر فائز قرار دے ، اس پیغمبر کی امت سے اقتدار کے لئے بدزبان، بدترین، اور بدمعاش لوگ منتخب کئے جائیں۔

آج ہمیں اپنی تمام تر عبادی و سیاسی و اقتصادی زندگی میں  اپنے نبی ﷺ کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب پیغمر اسلام نے جہالت قدیم کے عہد میں مستضعفین ، مظلومین اور محکومین کی نجات کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا تو ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا، مادہ پرستی، شراب و کباب، راگ و موسیقی، شہوت رانی، دست درازی اور زنا جیسی سماجی و اخلاقی برائیاں لوگوں میں رچ بس چکی تھیں، بلا روک و ٹوک  قبائلی سرداروں اور مالداروں کے ہاتھ غریبوں کی عزت و آبرو پر پڑتے تھے، شعرو شاعری میں عورتوں کو بطور جنس استعمال کیا جاتا تھا اور یہ صورتحال صرف عرب دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ  روم و ایران جیسی متمدن اور مہذب کہلاوانے والی اقوام میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، ایسے میں  معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے نبیؐ نے  جن مشکلات   کا سامنا کیا ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

 آپ نے اس معاشرے میں جہاں جاہلانہ رسوم و رواج کو بہادری اور عقلمندی کہا جاتاتھا ، آپ نے وہاں پر اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا، آپ نے کفر اور ضلالت اور ظلم و جہالت کے درمیان اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی اقتصاد ، اسلامی نظام عدل اور اسلامی  فوج کو قائم کیا ، آپ نے مشرق و مغرب  کی مخالفت مول لے کر بڑے بڑے بادشاہوں کو اسلام کے قبول  کرنے کی دعوت دی ۔آج جہالت جدید کے عہد میں بھی ہمارے ہاں پاکستان میں بھی  اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرا یا جا رہا ہے ۔

اس سماجی ابتری، معاشی ناانصافی، قبائلی مظالم، دینی اجارہ داری اور موروثی سیاست کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ہی راہ ِ حل ہے کہ ہم ان بدترین حالات میں صرف اور صرف  اپنی نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور صرف انہیں لوگوں کو ووٹ دیں جن کا کردار اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے نقشِ قدم  اور اسوہ حسنہ پر چلنے اور عمل کرنے والے ہیں۔

متوقع الیکشن میں سیاسی بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ  ختم النبیین ﷺ ہی ہمارے لئے  اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (جیکب آباد) انقلاب اسلامی کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین سندہ کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ دنیائے کفر و طاغوت کی تمام تر سازشوں کے باوجود انقلاب اسلامی اور فکر خمینی ؒ عالمی رخ اختیار کر چکی ہے، جس سے مستکبرین کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔دنیا اس عالمی انقلاب کی طرف بڑہ رہی ہے جو اقوام عالم کے لئے عدل و انصاف اور امن و ترقی کی بشارت لائے گا، ایسے صالح بندوں کی عالمی حکومت جو اپنے پاکیزہ کردار کے باعث عالم انسانیت کے لئے خیر و سعادت ہوں گے۔ نظام ولایت آج تیزی سے عروج کا سفر طے کر رہا ہے اور تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عالمی استکباری اور استعماری نظام کو چیلنج کر رہا ہے۔
               
انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نور ولایت کی تجلی بن کر چمکا جس نے دنیا کے اندھیروں کو روشنی سے بدل دیا۔امام زمانہ ؑ کے عالمی انقلاب کے لئے عالمی انقلابی تحریک کا وجود ناگزیر ہے، جو عالمی الٰہی نظام کے لئے زمینہ سازی کرے۔  نائیجریا سے لے کر یمن تک نظام ولایت سے وابستہ انقلابی تحریکیں صبح روشن اور تابناک مستقبل کی نوید ہیں جب مستضعفین کے ہاتھوں ظالموں کے تخت و تاج تاراج ہوں گے۔

وحدت نیوز (مشہد مقدس) انقلاب اسلامی کی انتالیسویں سالگرہ کے سلسلے میں دفتر مجلس وحدت مسلمین مشهد مقدس میں ایک نشست کا انعقاد ہوا،جس میں کثیر تعداد میں علماء کرام اور طلباء نے شرکت کی ،سٹیج سیکرٹری کے فرائض حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا ظہیر عباس مدنی نےانجام دیے،پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا ۔ تلاوت قرآن پاک کی سعادت برادر محترم مظهر عباس نے حاصل کی ۔ اور   شاعر اہلبیت جناب شمس الدین جعفری صاحب نے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین سے خوب داد وصول کی ۔ برادر وقاص نے قصیدہ پڑھا  بعد ازیں حجت الاسلام والمسلمین جناب عارف حسین نے انقلاب  اسلامی ایران پر روشنی ڈالتے ہوئے  کہا خلوص ،اتفاق و اتحاد اور رہبر و لیڈر کا عالم با عمل  ہونا یہ وہ اہم عناصر ہیں جو انقلاب لانے میں مؤثر ہیں۔

آخر میں نشست کے مہمان خصوصی عالم مبارز و مجاہد ملت جعفریہ حجت الاسلام والمسلمين  علامہ سید علی رضوی  سیکرٹری جنرل مجلسِ وحدت مسلمین گلگت  بلتستان نے دهیہ فجر اور انقلاب امام خمینی کے موضوع پر گفتگو کی، انہوں نے کہاکہ جو قوم  تلاش و کوشش  کرے  اور جنکا  رہبر دشمن شناس ہو وہ قوم ہی انقلاب  لا سکتی ہے۔علامہ سید علی رضوی کا کہنا  تھا، ایران میں اگر انقلاب اسلامی آیا ہے  تو اسکی بنیادی وجہ کوشش اور سعی اور ھدف کا مشخص ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انقلاب لانے کے لئے امام خمینی ؒکی سیرت پر عمل پیرا اور ان ہی جیسا ہی پر خلوص ہونا چاہیے اور انکے نقس قدم پر چل کر ہی ھدف تک پہنچا جا سکتا ہے،آخر میں انقلاب اسلامی کی سر بلندی اور رہبر معظم کی سلامتی کی دعا کے ساتھ اس نشست کا اختتام ہوا،سیکرٹری جنرل شعبہ مشھد مقدس عقیل حسین خان نے علامہ سید علی رضوی کا دفتر آنے پر استقبال کیا اور انکا شکریہ ادا کیا ۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع جنوبی کے تحت صوبائی سیکرٹریٹ سو لجر بازار میں شہدائے ملت جعفریہ ڈیرہ اسماعیل خان ،گلگت بلتستان کے سکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی کی مادرگرامی، صوبائی وزیر قانون آغا محمد رضا کی ہمشیرہ اور مرکزی سکریٹری اطلاعات بردار علی احمر کی والدہ کے ایصال ثواب و درجات بلندی کیلئے قرآن خوانی اور مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی رہنما ناصر حسینی ، کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل مولانا صادق جعفری ، ضلع جنوبی کے حسن رضا ، نظیر علی ، محمد عیسیٰ ، علی عباس،   محمد سعید ،عقیل احمد ایڈوکیٹ   اور کارکنان نے شرکت کی ۔

مجلس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ یہ مجلس شہدائے جعفریہ اور مرحومین کیلئے رکھی ہے اللہ تعالی انکے درجات بلند کرے آج کیونکہ انقلاب اسلامی کی انتالیسوں سالگرہ ہے یہ انقلاب اسلامی ملت تشیع کے  لئے معجزہ ھے اس انقلاب کیلئے تمام علماءکرام ، مجتہدین ،دانشوروں اور عوام نے بھرپور حصّہ لیا امام خمینی رضوان اللہ نے اللہ تعالی پر بھروسہ کیا اور انقلاب برپا ہو ا،اس انقلاب اسلامی سے مغرب خوف ذدہ ہے ،آج دشمنان اسلام اور عرب دنيا نے استعمار  طا قتوں کے ساتھ ملکر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ،انقلاب اسلامی کے صحیح رہبر یت نے تمام تر سازشوں کو بے نقاب کر کے عالم اسلام کے مسلمانوں کی تحفظ کیا ،آخر میں شہداء و مرحومین کے لئے فاتحہ کی گئی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree