The Latest
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی معاشرہ کی تعمیر و ترقی اساتذہ اور ڈاکٹر کی خدمات کے بغیر ممکن نہیں لیکن ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ان دونوں پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اساتذہ اور ڈاکٹر ز کو بھی حقوق کے لیے سڑکوں میں آنا پڑتا ہے اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ میں اساتذہ کی بے توقیر ی کے ساتھ ساتھ انکا معیار زندگی بھی قابل رحم ہوتا ہے جبکہ وہ قوم کی تابناک مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ جی بی میں این آئی ایس اساتذہ کے مسائل ایک بڑے عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں اورانہیں دلاسے پے دلاسے دئیے جارہے ہیں ۔ صوبائی حکومت ان اساتذہ کے ساتھ انصاف کرے اور ان کے مسائل حل کرے۔ان کے علاوہ کنٹرکٹ پر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر ز کے مطالبات کو فوری طور حل کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کسی طور صوبائی حکومت کے حق میں نہیں کہ ہر مسئلے پر عوام احتجاج کرے۔ بہت سار ے مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کرنے کے حکومت کو خود سے کردار ادا کرنا چاہیے۔آغا علی رضوی نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان میں تعلیم اور صحت پر توجہ دے اور دونوں محکموں میں موجود خامیوں کو دور کرے۔ ان دو نوں شعبوں کو نظر انداز کرنا قوم کے ساتھ خیانت ہے۔ گلگت بلتستان کے عارضی ڈاکٹر ز نے دور دراز علاقوں میں خدمات سرانجام دیں ہیں انکی خدمات کو فراموش کسی صورت نہیں کیا جاسکتا۔
وحدت نیوز(گلگت) ضلع ہنزہ نگر کے تعلیمی اداروں سے وزیر تعلیم کا عدم اطمینان اس بات کا متقاضی ہے کہ تعلیمی نظام کو درست کیا جائے اور اس نظام کی درستگی وزارت تعلیم کی ذمہ داری ہے ۔وزیر موصوف نے فقط عدم اطمینان کا بیان دیکر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین ضلع نگر کے رہنما شبیر حسین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سیاسی مداخلتوں کے باعث ہر ادارے کو کھوکھلا کردیا ہے محکمہ تعلیم بھی ان سیاسی مریضوں کی وجہ سے مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔علاقے کے عمائدین کی بارہا متعلقہ حکام سے اس با بت نوٹس لینے کی گزارشات کو وزارت تعلیم نے ردی کی ٹوکری میں ڈالا ہے۔وزیر موصوف کا بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے اور اگر وہ اس ادارے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو فوری ایکشن لیکر موقع پر ہدایات جاری کرسکتے تھے جو کہ انہوں نے گوارا نہیں کیا۔
جب بھی ادارے میں کوئی پوسٹ خالی ہوتی ہے تو میرٹ پر بھرتی کرنے کی بجائے من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے ۔ضلع نگر میں بہت سے اسکولوں کی اپ گریڈیشن کئی سالوں سے رکی ہوئی ہے اور ہر سکول میں سٹاف کی کمی کا رونا رویا جارہا ہے۔سیپ اساتذہ کی پوسٹوں میں ضلع نگر کیلئے محض سات اسامیاں رکھی گئی ہیں جو کہ ناکافی ہونے کے ساتھ ضلع نگر کے ساتھ ایک مذاق ہے۔انہوں نے وزیر موصوف کے ایکشن لینے اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے عزم کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ سکولوں کی حالت زار بہتر بنانے میں ضلع نگر کے عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔
وحدت نیوز (گلگت) سانحہ کوہستان وقوع پذیر ہوئے چھ (6 ) سال مکمل ہوئے لیکن قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔جس ملک میں سزا اور جزا کا قانون دم توڑ جائے اس ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ قاتلوںکا اتا پتامعلوم ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عارف قنبری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملت تشیع کیساتھ حکومت کی معاندانہ پالیسی کسی طور قابل قبول نہیں،قاتل کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سانحہ کوہستان میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے شہداء کے وارثین آج بھی حکومت سے انصاف کا تقاضا کررہے ہیں لیکن حکومت بااثر قاتلوں پر ہاتھ ڈالنے سے کترارہی ہے۔دہشت گردوں سے حکومت کے نرم گوشے نے انہیں جری بنادیا ہے آج بھی کوئٹہ اور ڈی آئی خان ان خونخوار بھیڑیوں کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے سانحہ کوہستان میں ملوث دہشت گردوں کی عدم گرفتاری پر حکومت کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے واقعے میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاکر غمزدہ خاندانوںکی دلجوئی اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے والے محب وطن شہریوں کو تحفظ کا یقین دلائیں۔
وحدت نیوز(گلگت) ینگ ڈاکٹرز کو مستقل کرکے حکومت اپنا وعدہ پورا کرے۔قوم کی خدمت کرنے والے ڈاکٹرز کے بنیادی مسائل سے حکومت کی چشم پوشی مضحکہ خیز ہے۔عوام کو دوردراز علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے ڈاکٹرز کو مستقل کرکے عوام میں پائی جانیوالی بے چینی کو دور کیا جائے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری سیاسیات غلام عباس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کنٹریکٹ بنیاد پر بھرتی کئے گئے ڈاکٹرز کو ان کی خدمات کا صلہ دینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔محکمہ صحت میں ڈاکٹرز کی انتہائی کمی ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خالی پوسٹوں کو پرُ کرکے عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سالہا سال حکومت نے ینگ ڈاکٹرز کی خدمات حاصل کی ہیں اگر انہیں مستقل نہ کیا گیا تو انتہائی زیادتی ہوگی۔ حکومت اپنے پروٹول میں تو کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں جبکہ عوام دربدر کی ٹھوکریں کھائیں انہیں کوئی پرواہ نہیں،حکومت کی بنیادی مسائل سے چشم پوشی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکومت اقتدار کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) آہ آج پھر مارچ آگیا کس کوپتہ تھا سات مارچ وہ دن تھا ہے،صرف فرق اتنا ہے کہ میں آج سے 23سال پہلے میں اس دن ساتویں جماعت کاطالب علم تھاصبح والد محترم کو خوشی خوشی خدا حافظی کر رہا تھالیکن کس آنکھ کو پتہ تھا کہ یہ والدمحترم کا آخری دیدار تھا اور اب میں خود ایک باپ بن چکا ہوں میرا بیٹا خود سات سال کا ہوچکاہے اور اب محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی اولاد کے لئے کتنی تمنائیں اور آرزو ئیں ہوتی ہیں یہی یقناً میرے والد کی آرزو ہو گی کہ وہ بھی اپنی اولاد کی خوشیاں اس دنیا میں دیکھیں لیکن ہر خوشی ان کی ادھوری رہی۔
لیکن خدا کا وعدہ سچا( جو لوگ) خدا کی راہ میں مارے گئے اُنہیں ہرگز مردہ تصور نہ کرو ،بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔
آج جب میں اپنے بیٹے کو اس کے عظیم دادا کے بارے میں بتاتا ہوں یا وہ پھر جب اپنے مظلوم دادا کی تصویر دیکھتا ہے تو اپنی دنیا میں کھو جاتا ہے کچھ یہی سوال اُس کے دل میں اٹھتے ہونگے بابا آپ تو کہتے ہیں کہ میرے دادا بہت بڑئے ڈاکٹر تھے اور مسیحا انسانیت تھے مفلس اور نادار غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے اور ادویات اور ضروریات زندگی مہیا کرتے تھے یتیموں ،بیوگان اور مستقبل کے معماران قوم کی ہرممکن مدد کرتے تھے تاکہ وہ علمی میدان میں آگے بڑھیں اور وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر یں اے میرے بابا کیا میرے شہید دادا کا یہ جرم تھا کہ وہ وطن عزیز پاکستان کے ایک با شعور محب وطن شہری تھے ؟بیٹے آپکے داد ا شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں 1962ء میں پیدا ہوئے اس دواران شہید ڈاکٹر کے والد سید امیر حسین نجفی جو نجف اشرف میں دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے اسی سال واپس آئے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لئے گئے شاید یہ خوش قسمتی تھی شہید کی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف اور کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا اور بولنا کربلا میں شاید یہ وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا
جینا علی ؑ کی صورت اور مرنا حسینؑ بن کر
اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی اس کے بعد والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا وہاں پر آپ نے سنیئیر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا بعد ازاں انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ GCکے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج King Edwardsسے ایم بی بی ایس کیا اور نوکری سرکاری سروسز ہسپتال میں کی۔Ansthesiaمیں Specialization کرنے کے ساتھ ساتھ دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض انجام دئیے۔
سینئیر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں آپ نے اسکا ؤٹنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس دوران اپنے آپ کو بہترین اسکاؤٹ ثابت کیا ،دوران تعلیم سینئیر کیمبرج میں آپ ایک اچھے Debater بھی تھے جس کی وجہ سے آپ کو Debating Society کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا آپ نے ایک Debater کی حثییت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔
آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈوکراٹے سے بھی واقف تھے اور آپ نے بچپن میں مولا علی ؑ کے قول پر عمل کرتے ہوئے تیرا کی بھی سیکھی اوربہترین تیراک کا ایواڈ بھی حاصل کیا اور ساتھ ہی گھڑسواری اور نشانہ بازی سیکھی ۔آپ بچپن سے ہی Stamp Collecting کا شوق تھاجوStampS آپ نے جمع کی وہ آج تک محفوظ ہیں جب کی معیاری کتب کا مطالعہ آپ کا بہترین مشغلہ تھا جسکا انداز اس لابئریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے جہاں ہزارہا انگلش، اردو، فارسی او ر عربی کی کتب موجود ہیں ۔ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں ان تمام کتب کا ڈاکٹر صاحب نے بغوار مطالعہ کیا ہوا تھا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مطالعہ میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے اور یہ اسی ہستی کی کوششوں کا ثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کے نیٹ ورک کی صورت میں آتا ہے۔
ڈاکٹرصاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لئے (ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے اس دوران آپ کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہوئی نظر آئی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش کر دی۔
ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب کے حکم کی اطاعت کی اور خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی ،ان واقعات کو شہید کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں ہم نے ڈاکٹر صاحب کو 18گھنٹے پڑھتے دیکھا ہے یہاں تک رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے تھے اگر نیند کا غالب آتی تو پانی منہ پر ڈال کر خود کو بیدار کرتے۔آخر کار محنت رنگ لائی آپ نے 70%نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ۔شہید ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت ؑ کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی Student Life میں محسوس کیا وطن عزیز مستقبل کے مماروں کی دینی اور فکری نشونما کے لئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرئے چونکہ اس دور میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کمیونیزم کی بحث اپنے عروج پر تھی اس لئے شہید نے ایکStudent Organizatoin کی بنیاد رکھی جو آج ایک تناور درخت کی صور تمیں وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سفر جا ری رکھا ہوا ہے شہیدڈاکٹرمحمد علی نقوی کی شہادت کے بعد آج پوری دنیا انہیں بانی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے جانتی ہے۔
ڈاکٹر محمد علی نے اپنی زندگی میں مختلف فلاحی پروجیکٹس کا آغاز کیا جیسے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے المصطفیٰ اسکول سسٹم جس کہ تحت مختلف سکولوں کا آغاز کیا جس کے تحت دور حاضر میں پاکستان بھر میں مختلف ناموں سے یہ سکول کام کر رہے ہیں ان میں نمایاں کامیابیوں سے ہم کنار ہونے والا ادارا گلگت بلتستان میںCareer Guidance School And Collegeہیں اور اسی طرح اٹک میں جناح پیلک سکول اور میانوائی مں انڈس ماڈل سکول اینڈ کالج جھنگ کے علاقہ بھوانہ میں المصطفیٰ سکول قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح شہید نے میڈیکل کے شعبہ میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں،جسکی نظیر آج دنیا میں نہیں ملتی اُسی دوران میانوالی کے علاقہ کالاباغ میں انڈس ہسپتال میں انڑنیشنل ریڈ کراس ا ین جی او کے تحت افغان مہاجرین کے لئے طبی خدمات سرانجام دیں بعد ازاں شہر لاہور میں الزہرا زنبیہ کمپلکس میں بہترین خدمات سر انجام دیں تواس دورکے پاکستانی میڈیا پی ٹی وی ٹو پر تقربیاً پچیس منٹ کا پروگرام کر کے علاقے میں ہونے والی خدمات کا عتراف کیا گیااور آپ کا خصوصی انٹریو بھی نشر کیا گیا
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہادت سے قبل شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں رجسٹرار کےعہدے پر فائض تھے ان کیساتھ کام کرنے والوں کی آج بھی اُن کی یادوں میں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہ کہتے ہیں شہید وقت کی پابندی کرتے تھے کبھی بھی کام سے نہیں گھبراتے تھے یہ وجہ تھی شہادت کے بعد جب ایک دفعہ مجھے علاج کی غرض سے ہسپتال جانا ہوا ایمبولینس کے ڈرائیوار سے ملاقات ہوئی اس سے جب تعارف ہوا کہ میں شہید کا فرزند ہوں تو کہنے لگا باخدا اس جیسافرشتہ صفت انسان نہیں دیکھا تو کہنے لگا میں آپ کا خادم ہوں کیونکہ آپ ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں جہنوں نے دکھی انسانوں کی بلاتفریق خدمات کی۔ویسے تو ان کولوگ شیعہ کے لیڈر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میں ایک کرسچن ہوں میری نوکری فقط و فقط اُنہیں کی مرہون منت ہے شہید کی خدمات کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کیونکہ سیرت انہوں نے علی ابن ابطالب ؑ سے حاصل کی اور خود ایک پرائیویٹ کلینک بنایا جو آج بھی انسانیت کی خدمت میں بلا امتیاز مشغول عمل ہے ۔
آج شہید کی فلاحی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے ان سے محبت کرنے والوں نے ان کی خدمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے منسوب ایک NGOرجسٹرر کرائی ہے جس کا نام ہے MAWAمحمد علی ویلفیئر فاونڈیشن ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے جس کے قابل ذکر کام یہ ہیں فری میڈیکل کیمپس ،مستحق طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اسکالرشب پروگرام۔اسی طرح پاکستان میں قدرتی آفات سے بچنے لئے کے Management Disaster سیل کا قیام جس کے تحت بالخصوص پاکستان میں اور اسی طرح سیلاب کے بعد قابل ذکر خدمات سر انجام دیں گئی آج وقت آگیا ہے پھر ااس شہید کے روز شہادت پر اس سے عہد کریں دور حاضر کے طاغوت سے ٹکرائیں گے شہید انسانی محفل کی وہ روشن شمعیں ہیں جن کا نورتا ابد مہکتا رہے گا۔شہداء اپنے کاموں کے سبب ہر دور میں زندہ رہتے ہیں اور وہ کیوں نہ زندہ ہوں کہ ان کے زندہ رہنے کی گواہی خود قرآن نے دی ہے بسا اوقات انسانی معاشرے اپنی قوم کے ان عظیم مسیحوں کے نام تو یاد رکھتے ہیں لیکن ان کے افکار کو اور راہ علم سے یکسر غاغل ہو جاتے ہیں ۔انہی شہداء کا پاک و پاکیزیہ خون ہے جو اس سر زمین کی مٹی میں رچ بس گیا اور اسی نے ہمیں آج وہ قوت وطاقت عطا کی ہے جسکی بنا پر وطن عزیز کے کونے کونے سے دور حاضر کے شیطان و نمرود کے خلاف صدائے حق بلند ہو رہی ہے نوجوانان پاکستان آئی ایس او کی پہچان یہ نعرہ بن گیا ہے۔
ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے
تحریر۔۔۔۔سید دانش علی نقوی (فرزند شہید ڈاکٹر محمد نقوی ؒ)
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدتت مسلمین پاکستان کے صوبائی سیکرٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا کہ نادرا کراچی کی عوام کے ساتھ جاری ظلم و زیادتی بند کرے اور انہیں شناختی کارڈ کے حصول میں سہولیات مہیا کرے۔ خواتین، بزرگوں اور نوجوانوں کو گھنٹوں لائنوں میں لگنے کے بعد شناختی کارڈ کے اندراج کے لیے منع کر دیا جاتا ہے۔ نادرا کے اپنے ملازمین بھی اس صورتحال کی وجہ سے اذیت کا شکار ہیں اور آئے روز کے جھگڑوں سے تنگ ہیں۔ انتظامیہ عوام اور ملازمین کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور کراچی کی عوام کے ساتھ بد سلوکی بند کرے ۔ ان خیالات کا اظہارایم ڈبلیوایم سندھ کے سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے وحدت ہاوس سولجر بازار میں پولیٹیکل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مذید کہا کہ ایم ڈبلیو ایم عوام کے ساتھ نادرا کی انتظامیہ کی جانب سے جاری رویے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ عوام کی سہولت کے لیے ون ونڈو آپریشن کو یقینی بنایا جائے اور تمام تر ضروری دستاویزات ہونے کی صورت میں صارفین کو مقررہ مدت میں شناختی کارڈ مہیا کرکے ذہنی اذیت میں مبتلا ہونے سے بچایا جائے۔ شناختی کارڈ پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور بغیر کسی تفریق اور تکلیف کے اس کی پاکستانی قوم کو فراہمی نادرا انتظامیہ کی بنیادی زمہ داری ہے۔ نادرا کی انتظامیہ کراچی میں اپنے دفاتر اور کام کے طریقے کار کا ازسرِ نو جائزہ لے اور اپنی پالیسی مرتب کرنے میں اپنے ملازمین کو بھی شریک کرے تاکہ ان کے مسائل حل اور انکی کارکردگی بہتر ہو جس سے عوام کو ریلیف حاصل ہو سکے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کی بلااشتعال گولہ باری سے فوج کے دو نوجوانوں کی شہادت پرافسوس کااظہار کیا ہے۔انہوں نے کہ کہا کہ بھارت کا جنگی جنون پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔بھارت کی جانب سے رواں برس چار سو سے زائد مرتبہ فائر بندی کی خلاف ورزیاں تشویش ناک ہے۔مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی خاموشی عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔بھارت کو اس کے جارحانہ طرز عمل سے بازرکھنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو وحشیانہ مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔بھارتی جارحیت محض مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ اخلاقی و سفارتی تعلقات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کو بھی مسلسل نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں بھارت نے ماضی کی جنگوں میں جو ذلت اٹھائی ہے بھارت کو وہ یاد رکھنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ترنوالا خیال کرنے والے بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں بھارت کے ہاتھ سوائے ذلت کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ پاک فوج دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیے جانے میں ہے۔کشمیری عوام کو دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح آزادی رائے کا حق دیا جائے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی شاہ خرچیوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال رکھا ہے۔ریاست کے انتظامی امور موجودہ حکومت کی دسترس میں نہیں رہے۔حکومتی نا اہلی کی بنا پر ریاستی ادارے دن بدن تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبائی ہوئی ہے اسے مزید اذیت کا شکار نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے سارے وزرا اور انتظامی مشنری ایک نا اہل شخص کے دفاع میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔کسی کو عوامی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مخصوص انتخابی حلقوں میں سفری سہولیات پر سبسڈی دے رکھی ہے جس کا بوجھ پوری قوم پر ڈلا جا رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے روز مرہ استعمال کی تما م اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام مزید کسی بوجھ کے قطعی متحمل نہیں ہیں۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی کسی بھی تجویز پر غور نہ کیا جائے اور پٹرول کی قیمت کم کر کے عوام کو سستے داموں فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس طرح کے فیصلے انہیں عوام سے مزید دور کر دیں گے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک علی موسوی کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نیب کے شکنجے سے بچنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ نیب کیخلاف پنجاب اسمبلی میں حکومت کی جانب سے مذمتی قرارداد پیش کرنے سے حکومتی بوکھلاہٹ عوام کے سامنے ہے ۔ ن لیگ اداروں کو کمزرور کرنے کی سازش میں مصروف ہے ۔ یہ کبھی عدلیہ پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی فوج پر ، اس بار ن لیگ کا ہدف نیب نظر آ رہا ہے ۔ اسمبلی میں نیب کیخلاف قرارداد لانا نیب جیسے ادارے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور قوم 2018 کے الیکشن میں اس کرپٹ ٹولے کو معاف نہیں کرے گی ۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو اپوزیشن اور عدالتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی وجہ سے آج ان پارٹی صدارت کا خواب شرمندی تعبیر ہوا ہے ۔ پاکستان میں عوام کے دیرینہ مسائل بیروزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی ہیں جن کے خاتمے کے لیےپنجاب حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے، علامہ مبارک علی موسوی کا مزید کہنا تھا کہ اسمبلیوں میں عوامی مفادات کے قوانین پاس کرنے کی بجائے اداروں کیخلاف سازشیں کی جا رہی ہیں جو نہایت شرمناک عمل ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان فطرتاً فساد کو پسند نہیں کرتا، فساد صرف یہ نہیں کہ گھروں میں لڑائی جھگڑا عام ہو،بازاروں میں ملاوٹ شدہ اشیا بکتی ہوں، دفتروں میں رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہو، منبر و محراب سے بھائی کو بھائی سے لڑایا جائے بلکہ حقیقی فساد یہ ہے کہ معاشرے میں برائی اچھائی پر حاکم ہوجائے، کمینہ ، شریف پر حکومت کرے، رشوت خور لوگوں کے مسائل نمٹائے اور خائن شخص امین لوگوں کا سربراہ ہو۔حقیقی معنوں میں برائی اور برے لوگوں کی حکومت، فساد کی کامل ترین مصداق ہے۔
فساد کے علاج کو اصلاح کہا جاتا ہے اور جو اصلاح کرتا ہے اُسے مصلح کہتے ہیں۔جب کہیں پر یعنی کسی معاشرے میں فساد اس عروج پر پہنچ جائے کہ شرفا ، کمینوں کے ماتحت ہوں،ادارے رشوت خوروں کے ہاتھوں میں ہوں، بھرتیاں سفارش اور پرچی سے ہوتی ہوں، فیصلے دھونس اور دھاندلی سے ہوتے ہوں،سفر، صحت اور تعلیم کی سہولیات امیر و غریب کے لئے الگ الگ ہوں تو اس وقت اس معاشرے کی اصلاح اشیائے خوردونوش کی قیمتیں سستا کرنے سے نہیں ہو سکتی، اس وقت اصلاح چینی اور آٹے کے بہاو میں کمی سےنہیں ہو سکتی بلکہ اس وقت اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ کرپٹ اور خائن لوگوں کو اقتدار سے الگ کیا جائے۔
اللہ نے انبیائے کرام کو مصلح قرار دیا ہے، اگر انبیائے کرام لوگوں کو صرف نمازیں پڑھنا اور اللہ ھو کی ضربیں لگانا سکھاتے رہتے تو دنیا کے بادشاہ اُن کی مخالفت کیوں کرتے!؟
انبیائے کرام سے بادشاہوں کی مخالفت اسی وجہ سے تھی کہ انبیائے کرام معاشرے پر ظالموں، رشوت خوروں اور خائن لوگوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔
اپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے منافقین بھی اپنے آپ کو مصلحین کہتے ہیں، قرآن مجید کے بقول جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہیں۔
منافقین بھی ، عوامی حقوق، انسانی مساوات، عادلانہ حکومت اور اس طرح کے بڑے بڑے نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔معاشرے سے اس وقت تک فساد ختم نہیں ہو سکتا اور منافقین کے چنگل سے لوگوں کو نجات نہیں دلائی جا سکتی جب تک لوگوں کو حقیقی معنوں میں سیاسی شعور نہ دیا جائے۔
لوگوں کو بیدار کئے بغیر آپ ہزار تقریریں کریں ، لاکھوں ریلیاں نکالیں اور انواع و اقسام کے جھنڈے تقسیم کریں لوگ پھر بھی آٹے کی ایک بوری اور مزدوری کی ایک دیہاڑی کے عوض ووٹ ڈال کر آجائیں گے۔
ملی بیداری اور شعور کے لئے ہم میں سے ہر شخص کو اپنی سیاسی فعالیت پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم سیاسی طور پر معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہماری ذات سے ہمارے ارد گرد رہنے والوں کو کیا سیاسی شعور مل رہاہے!؟
یاد رکھئے معاشرے میں بڑے بڑے نیک لوگ اور خدمتگار موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں سیاسی شعور نہیں ہوتا، لوگوں کی خدمت کرنا ایک الگ بات ہے اور لوگوں کی سیاسی رہنمائی کرنا ایک دوسری چیز ہے۔
مثلا ایک حجام، نائی ، موچی ، ترکھان، ٹیچر یہ سب مقدس لوگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ معاشرے کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کے لئے سڑکیں پکی کروا دینا، سٹریٹ لائٹس لگوا دینا ، ہسپتال بنوا دینا یہ سب قومی خدمت ہے اور جو بھی یہ خدمات انجام دیتا ہے وہ قومی خادم تو ہے لیکن مصلح نہیں۔
مصلح وہ ہے جو قوم کو بدترین حکمرانوں، اذیت ناک زندانوں، رشوت خور افیسروں اور کرپٹ لیڈروں سے نجات دلائے۔
گزشتہ سو سالوں میں مسلمانوں میں جومصلحین گزرے ہیں اُن میں ایک بڑا نام سید جمال الدین افغانی کا بھی ہے۔سید نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کے سفر کئے اور و ہ عالمِ اسلام کی اصلاح کے لئے اس زمانے میں متعدد اسلامی ممالک کے گروہوں سے رابطے میں بھی تھے۔
سید جمال الدین افغانی کی تعلیمات و افکار کو اگر خلاصہ کیا جائے تو سید کے نزدیک مسلمانوں کو چار بڑے مسائل کا سامنا تھا:
۱۔ داخلی استبداد
۲۔ بیرونی استعمار
۳۔مسلمانوں کی بے خبری
۴۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت
داخلی استبداد سے مراد ملک کے اندر ظالم لوگوں کا حکمران بن جانا ہے، بیرونی استعمار کا مطلب بیرونی ممالک کا آبادکاری کے بہانے سے آکر وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لینا ہے اور مسلمانوں کی بے خبری سے مراد مسلمانوں کو پتہ ہی نہ ہونا کہ ہم کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ہمارے ووٹ کی کیا قدر و قیمت ہے جبکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت یہ ہے کہ دوسرے کی سچی اور اچھی بات کو بھی اس لئے نظر انداز کردیا کہ اس کا تعلق ایک دوسرے فرقے سے ہے۔
یہ چاروں مسائل گزشتہ کئی سو سالوں سے عالم اسلام کو لاحق ہیں۔ تئیس مارچ ۱۹۴۰ تک برصغیر کے مسلمان ان مسائل کو درک تو کر چکے تھے لیکن ان کے حل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تھا،تئیس مارچ ۱۹۴۰ کو پہلی مرتبہ مسلمانوں نے داخلی استبداد، بیرونی استعمار، باہمی بے خبری اور آپس کی فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر ایک آزاد وطن کا مطالبہ کیا تھا۔
آج خدا کا شکر ہے کہ وہ آزاد وطن حاصل کئے ہوئے ہمیں ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم بدستور داخلی استبداد، بیرونی استعمار،باہمی بے خبری اور فرقہ واریت میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے داخلی استبداد کا مقابلہ کرنا ہوگا، جب امین اور دیانتدار لوگ منتخب ہونگے تو وہ خارجہ پالیسی بھی آزاد انہ طور پر تشکیل دیں گے ۔ لیکن ایسے لوگوں کا انتخاب تبھی ہو سکتا ہے جب ہم خود بھی بے خبری اور فرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارا پائیں اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں ۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.