The Latest
وحدت نیوز(مظفرآباد) 7مارچ تاریخی مارچ ہو گا، علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی تا حال عدم گرفتاری انتظامیہ و حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، ہم کسی طور پر بھی اب چپ نہیں رہ سکتے ، ان خیالات کا اظہا رمجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ترجمان سید حمید حسین نقوی نے ریاستی دفتر سے جاری پریس ریلیز میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 7مارچ تاریخی احتجاج ہو گا، اس حوالے سے رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ احمد اقبال رضوی نے کیا ۔
علامہ احمد اقبال رضوی نے مرکزی رہنماؤں ملک اقرار حسین ، ارشاد حسین بنگش ، ریاستی رہنماؤں مولانا طالب ہمدانی، سید حسین سبزواری ، سید غفران علی کاظمی اور سید ممتاز حسین نقوی کے ہمراہ کردلہ سیداں و جہلم ویلی کا دورہ کرتے ہوئے کیا۔ ان دورہ جات کے دوران انہوں نے کردلہ امامبارگاہ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دی ، جبکہ دورہ جہلم ویلی کے دوران انہوں نے مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہوئے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی۔ جبکہ اس کے علاوہ مولانا سید طالب حسین ہمدانی، علامہ سید فرید عباس نقوی ، سید غفران علی کاظمی ، سید حسین سبزواری ، سید عمران حیدر ، معروف سیاسی شخصیت سید تصور عباس موسوی، سربراہ انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی سید شجاعت علی کاظمی مختلف علاقوں کے دورہ جات پر ہیں ، جہاں و عوام و شخصیات سے ملاقاتیںکر کے احتجاجی مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں ۔
انہوں نے مذید بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین اب کسی صورت اس مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالنے دے گی ۔ 7مارچ نئے عزم سے تحریک کا آغاز کر رہے ہیں ۔ اگر جلد از جلد اس مسئلے کو منطقی انجام کی جانب نہ لے جایا گیا تو 7مارچ کے بعد یہ سلسلہ سخت و طویل ہو سکتاہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے انتظامیہ و حکومت ہوش کے ناخن لے اور ہمارے مطالبات پر غور کرے۔ورنہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔
وحدت نیوز(گلگت) چین کے صوبے شنجیانگ میں پاکستانیوں کی 50 سے زائد چینی شریک حیات کی گرفتاری کے خلاف گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی (جی بی ایل اے) نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کے مردوں کی بیویوں کو جیل سے آزاد کرائے۔جی بی ایل اے میں مجلس وحدت مسلمین کی رکن اسمبلی بی بی سلیمہ نے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ خنجراب پاس کے ذریعے چین اور پاکستانی شہری تجارت کی غرض سے ایک دوسرے کے ملک میں دورے کرتے ہیں اور اسی دوران چینی خواتین سے شادیاں بھی ہوئیں جو دونوں ممالک کے قوانین کے ہرگز منافی نہیں۔اس میں کہا گیا کہ کہ چین کی پولیس نے گزشتہ برس ان تمام خواتین کو حراست میں لے لیا جنہوں نے غیر ملکیوں سے شادیاں کیں اور ان میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے پاکستانی مردوں سے شادی کی تھی۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ چینی خواتین کی غیر قانونی حراست سے گلگت بلتستان میں بچوں سمیت اہل خانہ پریشانی کا شکار ہیں اس لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ چینی حکام سے مسئلے کے حل پر بات کریں۔
قرار داد کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما جاوید حسین نے کہا کہ گلگت بلتستان اور صوبہ شنجیانگ کے شہریوں میں شادی کی روایت 10 برسوں سے قائم ہے تاہم متعدد چینی خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ صوبہ شنجیانگ پہنچی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پاکستان میں ان کے اہل خانہ سخت پریشان ہیں۔جی بی ایل اے کے ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان نے کہا کہ چین کی جانب سے مذہبی انتہا پسند کے خلاف صوبے بھر میں کریک ڈاون جاری ہے جس کے باعث پاکستانی مردوں سے شادی کرنے والی چینی خواتین کو بھی مشتبہ قرار دے کر حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لی جانے والی تمام خواتین میں سے کسی کا بھی دہشت گردی یا انتہاپسندی سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔قرار داد میں کہا گیا کہ چینی ورکز اور انجینئرز کو خطے میں مقامی افراد سے کبھی کوئی شکایت نہیں رہی اور نہ ہی گلگت بلتستان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے راستے پاک-چین تجارتی تعاون کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہیں واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے تقریباً 50 مردوں نے چین کے پڑوسی صوبے شنجیانگ میں مسلم چینی خواتین سے شادی کی اور چین کی پولیس نے گزشتہ سال خواتین کو حراست میں لینا شروع کردیا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے نو منتخب سینٹرزکو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ہے ۔ ملک کو درپیش داخلی و خارجی مسائل سے چھٹکارے کے لیے اب جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لیے اراکین کو بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں کرنا ہوں گی ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری قوم کو مہنگائی ،عدم تحفظ ، بے روزگاری، معیاری تعلیم کا فقدان اور صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔پولیس اور دیگر ریاستی ادارے دہشت کی علامت بنتے جا رہے ہیں ۔سیاسی مخالفین کو انتقام کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اختیارات کے ناجائز استعمال نے عوام کے بنیادی حقوق کو غصب کر رکھا ہے۔قومی اداروں میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔وطن عزیزکو قائد و اقبال کا پاکستان بنانے کے لیے مقتدر شخصیات کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ہم نہ صرف داخلی مشکلات کا شکار ہیں بلکہ ہمیں خارجی مسائل میں بھی دانستہ طور پر الجھایا گیا ہے ۔بھارت کی طرف سے آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پڑوسی مسلم ملک افغانستان اور ہمارے درمیان اختلافات بھڑکانے کے لیے دہشت گردی کی کاروائیاں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان وہ قوتیں مغالطے پیدا کرنے میں مصروف ہیں جو دونوں ممالک کی مشترکہ دشمن ہیں۔ایسی صورتحال میں ایوان بالا کے نمائندگان کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں ان کو احسن انداز میں ادا کرنا ہو گا۔ سیاسی مخالفین بے جا الزام تراشیوں کی بجائے اپنی توجہ قومی ایشوز پر مرکوز رکھ کر عوامی خدمت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔سیاسی مخالفین نظریاتی اختلاف کو الزامات کی بجائے دلائل سے دور کرنے کی کوشش کریں۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ نومنتخب اراکین سینٹ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بروئے کار لائیں گے۔
وحدت نیوز (خیرپور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ درخت ، زمین کا حسن ہیں جو ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھتے ہیں، انہوں نے سندہ کے عوام اور تنظیمی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ شجرکاری مہم میں بھرپور حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ شجر کاری عبادت ہے روایات میں درخت کاشت کرنے والے کے لئے بے پناہ اجر و ثواب کا ذکر ملتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے، اس میں سے انسان ، جانور یا پرندہ کھائے تو یہ درخت لگانے والے کے لئے صدقہ شمار ہوگا۔
علامہ مقصودعلی ڈومکی نے مجلس وحدت مسلمین سندہ کے تمام اضلاع سے اپیل کی کہ وہ 6 مارچ سے شجر کاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے درخت لگائیں اور اس سلسلے محکمہ جنگلات ، ضلعی حکومت اور متعلقہ اداروں سے بھرپور تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ گرمی کی شدت میں درخت بہترین سہارا ہیں، جو گرمی کی شدت میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ ماحول کی خابصورتی اور پاکیزگی میں اضافے کا باعث ہیں۔
وحدت نیوز(ٹنڈومحمد خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹنڈو محمد خان کیجانب سے وحدت ہاؤس میں ایک اہم اجلاس ضلعی سیکریٹری جنرل مولانہ محمد بخش غدیری کے زیرصدارت ہوا جس میں ضلعی کابینہ کے اراکین نے ضلعی پولیس انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی میڈم نسیم آراءپنھور،ایس ایچ او اللہ ڈنو ،اے ڈی پنھور ڈی آئی بی انچارج شیرزماں، عبدالعلی خاصخیلی اسپیشل برانچ کے انچارج سید محبوب شاہ، اسد پتافی اور دیگر پولیس اہلکاروں کے ہم تہہ دل سے مشکور اور ممنون ہیں اور انہیں ایام فاطمیہؑ کے دوران ہونے والی مجالس میں فل پروف سیکیورٹی فراہم کرنے اور ہرقسم کا تعاون کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ ایام فاطمیہؑ کی مجالس ضلع بھر میں نہایت ہی عقیدت و احترام سے منعقد کی گئیں جس میں مومنین کا ہمارے ساتھ بھرپور تعاون رہا ہم تمام مومنین مشکور ہیں جنہوں نے مختلف مقامات پر ایام فاطمیہؑ کے سلسلے میں ہونیوالی مجالس میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔
وحدت نیوز(کراچی) پیٹرول کی قیمت موجودہ نرخ سے آدھی سطح پر لائی جائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکرری جنرل مولانا صادق جعفری نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ترین سطح پرآگئی ہے جس کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیئے اس لئے حکومت پٹرول کی فی لیٹر قیمت 40 روپے مقررکرکے عوام کوریلیف دے جب عالمی منڈی میں تیل کے نرخ میں اضافہ ہوتاہے تو پاکستان میں فوری طور پر نرخ بڑھادیئے جاتے ہیں جب عالمی سطح پر نرخ کم ہوتے ہیں تو حکومت پاکستان نرخ کم نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید کہاکہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اضافی ٹیکسوں کے نفاذکی صورت میں عوام سے بھتہ وصول کیا اب مسلم لیگ نواز سستا پٹرول خرید کرعوام کو مہنگا بیچ کر بھتہ وصولی میں مصروف ہے،اوگرا لٹیروں کا گڑھ بن چکا ہے،پاکستان میں پرائس کنٹرول اینڈ مینجمنٹ کا کوئی نظام عملاًدکھائی نہیں دیتا، عوام چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ حکمران جماعت کی اس بھتہ وصولی کا سختی سے نوٹس لیں اور عالمی منڈی میں کم ہونی والی پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ثمرات پاکستان کے غریب عوام کو بھی میسرلائیں جائیں ۔
وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان)مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام شہید سید حسن علی شہید موتی اللہ اور شہید افتخار حسین کےچہلم کا اجتماع تھلہ یلہ شاہ (خمینی چوک) پر منعقد ہوا، جس میں مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ احمد اقبال رضوی اور جنوبی پنجاب کے سیکرٹری علامہ اقتدار نقوی سمیت مختلف ذاکرین و علماء کرام نے خطاب کیا،علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ موجودہ کے پی کے حکومت جس سے امیدیں وابستہ تھی کہ وہ بہتر اقدامات کر کے عوام کو تحفظ دیتی لیکن وہ بری طرح ناکام رہی اور دہشت گرد دن دھاڑے شہریوں کا خون بہا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دشمن نے ہر حربہ اختیار کر لیا کبھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تو کبھی بم دھماکوں کا نشانہ بنایا تو کہیں شیعہ سنی کے اتحاد کو توڑنے کی ناکام سازش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا انشااللہ آپ کی یہ استقامت دوسروں کے لیے رول ماڈل ثابت ہو گی۔
علامہ اقتدار نقوی نے ایام فاطمیہ کے حوالے سے فضائل اور مصائب بیان کرتے ہوئے کیا کہ آج ہماری ماوں اور بہنوں کو سیرت فاطمی پر عمل کرنا چائیے اور اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنا چاہئے۔جبکہ علامہ احمد اقبال رضوی شہید موتی اللہ کے گھر فاتحہ خوانی کے لیئے بھی گئے اور شہید کے بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک آپ کو انصاف نہیں مل جاتا ۔
مجلس عزا کے بعد علامہ اقتدار نقوی اور علامہ اقبال بہشتی اور علامہ احمد اقبال رضوی مغربین کی نماز مسجد ابو تراب حسینی چوک میں ادا کی نماز کی امامت علامہ احمد اقبال رضوی نے کی اور بڑی تعداد میں مومنین نے نماز ادا کی اور نماز کے بعد مومنین سے مصافہ کرتے ہوئے ان سے حال حوال بھی دریافت کیا نماز کے بعد متولی تھلہ یلہ شاہ کے گھر چائے کی دعوت دی گئ جس میں کافی مومنین اکٹھے تھے اور ڈیرہ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور سوالات بھی کیے گئے جس کا علامہ احمد اقبال رضوی نے جواب بھی دیئے آخر پر کوٹلی امام حسین کے حوالے سے بحث ہوئی جس پر علامہ صاحب نے موقف دیا کہ کوٹلی امام حسین ایک قومی جگہ ہے مجلس وحدت مسلمین اس کا بھر پور دفاع کرے گی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص حدیثی بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔حدیث غدیر:
حدیث غدیر خم اسلام کے متواتراحادیث میں سے ہے جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نہیں کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے ۔۱۔غدیر خم کا واقعہ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا ۔جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے واپس آئےاور جو پیچھے رہ گئےتھے وہ بھی پہنچ گئے آپ ؐنے نماز ظہر باجماعت ادا کی اور اس کے بعد ایک منبر بنانے کا حکم فرمایا ۔منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنےپاس بلایا ۔ خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا:{من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ } جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی بھی مولیٰ ہیں۔
شیعوں کے نزدیک مولی ٰسے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولی ٰ کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطورمولیٰ دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے ان سب کا {علی}بھی مولیٰ ہے ۔بعبارت دیگر حضرت علی علیہ السلام بھی دوسروں پر ایسی ہی ولایت رکھتے ہیں ۔
اس نظریہ کی اثبات کے لئے بہت سارےعقلی و نقلی قرائن موجود ہیں جن میں سےچند قرائن بطورمختصر ذکرکرتے ہیں :
1۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کی ابتدائی حصہ میں مسلمانوں پر اپنی اولویت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:{النبی اولی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسہِمْ}۲بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے”۔ آیت کا یہ حصہ حدیث میں موجود لفظ {مولیٰ} کے لئے واضح قرینہ ہے ۔جیساکہ آپ ؐنے بعد میں فرمایا :{من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ}جسے اکثر راویوں نے اس مقدمے کو حدیث غدیر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔۳
2۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ{من کنت مولاہ ۔۔} کو بیان کرنے سے پہلے اسلام کے تین بنیادی اصول توحید،نبوت اور معاد کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے اس سلسلے میں اقرار بھی لیا اس کے بعد آپ ؐنے فرمایا:تمہارا مولیٰ کون ہے ؟ مسلمانوں نے جواب دیا :خدا اور اس کا رسول ۔اس وقت آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: جس کا خدا اور اس کا رسول مولیٰ ہے یہ {علی }بھی اس کامولیٰ ہے ۔اس پیغام کے اصول دین کے اقرار سےمربوط ہونے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ولایت سے مراد امت اسلامی کی رہبری اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ہونا ہے ۔
3۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے{من کنت مولاہ ۔۔}کو بیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؐمسلمانوں کی رہبری کے بارے میں فکر مند تھے اور اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرنا چاہتے تھے ۔
4۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں آیت کریمہ{الْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لکُمْ دِينَکُمْ۔۔}کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دین اسلام کے کامل ہونے اور مسلمانوں پر خدا کی نعمتوں کے تمام ہونےنیز خداوند متعال کا آپؐ کی رسالت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر راضی ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔واضح رہے کہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب امت اسلامی کی رہبری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ۔
5۔پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ عقلمند،حکیم اور مہربان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مومنین کے دوست ہیں یا مومنین پر واجب ہے کہ آپ ؑسے محبت و دوستی کریں - جسے ایک عام مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا ایمان کےضروریات میں سے ہے۔بنابریں اس واضح مسئلےکو اس غیرمعمولیٰ حالات میں اور وہ بھی گرم ترین علاقے میں اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنا حکیمانہ نہیں ہے۔جبکہ ہمیں تاریخ اسلام کے واقعات کی اس طرح سے تفسیر نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و تدبیر پر حرف آجائے لیکن امت اسلامی کی رہبری کا مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایسے سخت حالات اور تمہید کے ساتھ اس نکتے کی وضاحت کرنا عاقلانہ و حکیمانہ ہے ۔
غدیر کے واقعہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاج بیت اللہ کے کاروان کو شدید گرمی کے دنوں میں دوپہر کے وقت ایک بنجر اور بے آب و گیاہ سر زمین پر ٹھہرنے کا حکم فرمایا ۔گرمی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنی عبا کے آدھے حصے کو اپنے سروں پر اوڑھ لیا تھا اور باقی آدھے حصے کو اپنے نیچے فرش کے طور پر بچھایا تھا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس تمہید و اہتمام کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا کلام فرمانا ہوگا جو امت کی ہدایت میں کلیدی اہمیت کے حامل اور تقدیر ساز ہو۔حقیقت میں مسلمانوں کے جانشین کے تقرر کے علاوہ کونسی چیز کلیدی اور تقدیر ساز ہو سکتی تھی؟ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الہی کے پہنچانے کے بعد حاضرین سے چاہا کہ اس خبر کو غائبین تک پہنچائیں ۔لہذا یہ قرائن و شواہد دلالت کرتی ہےکہ آپ ؐنےغدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا تھا ۔ 5
2۔حدیث منزلت:
صحاح و مسانید کے موٴلفین و مصنفین نے تحریر کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مرتبہ فرمایاکہ حضرت علی علیہ السلام کا مقام آپ ؐکی نسبت وہی ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ آپ ؐکےبعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔حدیث منزلت کی عبارت یہ ہے :{یا علی انت منی بمنزلۃ هہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی}“اےعلی آپ کو مجھ سےوہی نسبت ہے جوہارون کو موسی سےحاصل تھی ہاں بے شک میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔” حدیث منزلت سند کے اعتبار سے متواتر اورقطعی ہے جسےشیعہ محدثین کے علاوہ اہل سنت کے محدثین نے بھی بیس سےزیادہ اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کیا ہے ۔۱۴اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت جو بھی مقام حاصل تھےوہ سب حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت حاصل تھے سوائے نبوت کے ۔ آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام مندرجہ ذیل مقام پر فائز تھے۔
1۔وزارت:{ وَ اجْعَل لیّ وَزِيرًا مِّنْ أَہْلی. ہَارُونَ أَخِی}اور میرے کنبے میں سے میراایک وزیر بنا دے۔ میرے بھائی ہارون کو۔
2۔مددگار و پشت پناہ:{ اشْدُدْ بِہِ أَزْرِی}اسے میراپشت پناہ بنا دے۔
3۔نبوت و رہبری میں مشارکت:{ وَ أَشْرِکہُْ فیِ أَمْرِی}6اور اسے میرےامر{رسالت} میں شریک بنا دے۔
4۔خلافت وجانشینی:{ وَ قَالَ مُوسیَ لاَخِيہِ ہاَرُونَ اخْلُفْنیِ فیِ قَوْمِی}7اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا۔
لہذا حضرت علی علیہ السلام بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت {وزارت،مددگار ،خلیفہ وجانشین اور امامت ورہبری میں مشارکت} جیسے منصب پر فائز تھے۔ یعنی آپ ؑپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں انکے وزیر و مددگار تھےجبکہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت اسلامی کے رہبر اور جانشین تھے ۔ یہاں یہ اعتراض کیا گیاہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضر ت موسی علیہالسلام کی زندگی میں خاص مورد میں جانشین مقرر ہوئے ۔یعنی جب حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن کے لئےکوہ طور چلے گئے تو اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام آپ کےجانشین تھے ۔جیساکہ حضرت علی علیہ السلام بھی غزوہ تبوک کے موقع پرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مدینہ میں آپ ؐکے جانشین تھے تا کہ آپ ؑمدینہ میں مسلمانوں کی رہبری کریں ۔لہذا اس حدیث سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد جانشینی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہرحکم اپنے موضو ع اورمقام کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے ۔8
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اصولی قواعد اور عقلی قانون کے مطابق انسانوں کے کلام میں مورد مخصص نہیں ہوتا بلکہ ظاہر لفظ معیار ہوتا ہے۔یعنی جب بھی ظاہر کلام عمومیت و اطلاق رکھتا ہو اس وقت اس عموم و اطلاق پر عمل کیا جاتا ہے اگرچہ وہ کسی خاص مورد کےلئے استعمال کیوں نہ ہو اہو ۔اس مطلب پرشاہد یہ ہے کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام ایک دفعہ پھر اپنی قوم کو چھوڑ دیتے اور کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کرتے تو اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ وہ امت کی رہبری کرے اورلوگوں پر بھی ان کی اطاعت واجب تھی۔ اگرحضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بعد بھی زندہ رہتے تو اس وقت بھی ان کا مقام یہی ہوتاکیونکہ بنی اسرائیل کو اب بھی کسی رہبر کی ضرورت تھی۔ بنابریں حقیقت میں حکم کا موضوع نبی کی عدم موجودگی میں لوگوں کا رہبر کی طرف محتاج ہونا ہے لہذا آپ ؑکا چالیس دن کے لئے میقات پر جانا اور کچھ مدت تک ان کے پاس نہ رہنے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے کہ حکم اسی کے ساتھ مختص ہو ۔
یہ اعتراض کہ حضرت موسی علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں حضرت ہارون علیہ السلام کی رہبری حضرت موسی علیہ السلام کے جانشین ہونے کی بنا پر نہیں تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام خود نبی تھے اور وہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی رہبری میں شریک تھے اور یہ بات کہ حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکیا ہےیہ تاکید کی خاطرہے۔9
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ مقام نبوت پر فائز تھے لیکن قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں امت کی رہبری اور امامت صرف آپ ؑکے ساتھ مخصوص تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام صرف ایک وزیر کی حیثیت سےان کے ساتھ شریک تھے۔اہل سنت کے مفسرین نےبھی اس آیت کی تفسیر میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے جیساکہ صاحب المنار لکھتے ہیں:جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر جا رہے تھے تو اپنے بڑے بھائی ہارون کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرےاور ان کے امور کو سنبھالے کیونکہ امت کی امامت اوررہبری حضرت مو سی علیہ السلام کے ذمہ داری تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام صرف ان کے وزیر تھے۔10
اصولاًیہ آیت مقام نبوت اور مقام امامت و رہبری کے جدا ہونےپر دلالت کرتی ہے یعنی اگر حضرت ہارون علیہ السلام مقام نبوت کے ساتھ مقام امامت و رہبری پر بھی فائزہوتے تو انہیں خلیفہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں اپنا خلیفہ و جانشین معین کیا لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اس مقام پر فائز نہیں تھے ۔11
3۔حدیث دار:
حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلا فصل پردلالت کرنےوالےنصوص میں سے ایک حدیث دارہے ۔{پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےدعوت ذو العشیرہ کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کےبارے میں فرمایا:{ان هذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم}12بے شک یہ تمھارے درمیان میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہے ۔}اس حدیث کی وضاحت گزرچکی ہے اس لئے دوبارہ تکرار کرنے سےصرف نظرکرتے ہیں ۔
4۔حدیث ائمہ اثنا عشر:
صحاح ، مسانید اوردوسری کتب احادیث میں مختلف سند کے ساتھ جابربن سمرۃ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرےبعد بارہ خلفاء مسلمانوں کی رہبری کریں گے جو سب قریش سے ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے {۔۔۔ یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمۃ لم اسمعہا فقال أبی أنہ قال : کلہم من قریش}13پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرےبعد بارہ امیر ہوں گے پھر آپ ؐکوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ نے فرمایا: کہ سب کےسب قریش سے ہوں گے ۔ اسی طرح صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے جیسے
:1۔{ان ہذا الامر لاینقضی حتی یمضی فیہم اثناعشرخلیفہ کلہم من قریش}یہ امر خلافت اس وقت تک ختم نہیں ہوگایہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں کہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔
2۔{لا یزال امر الناس ماضیا ما ولیہم اثنا عشر رجلا ، کلہم من قریش}لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے اور یہ سب خلفاء قریش سے ہونگے۔
3۔{لایزال الاسلام عزیزا الی اثنی عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}اسلام بارہ خلفاءکے پورے ہونے تک عزیز{غالب}رہے گا کہ سب قریشی
ہوں گے۔
4۔{لا یزال هذاالامر عزیزا الی اثنی عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}دین اسلام بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب رہے گا جو قریشی ہوں گے۔
5۔{لایزال هذا الدین عزیزا منیعا الی اثنی عشر خلیفۃ ، کلہم من قریش}یہ دین ہمیشہ بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب و بلند رہے گا کہ سب قریش کے خاندان سےہوں گے۔
6۔{لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعۃ اویکون علیکم اثنا عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}14دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے یا تم پر بارہ خلفاءحاکم ہوجائیں اور وہ سب قریشی ہوں گے ۔
5۔ حدیث نقباء بنی اسرائیل:
بارہ خلفاء کی خلافت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک ،حدیث نقباء بنی اسرائیل ہے ۔ احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مسروق سے نقل کیا ہے :ہم عبد اللہ ابن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے لئے قرآن کی تلاوت کر رہا تھا ۔اتنے میں ایک شخص نے اس سے پوچھا کیا تم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھاہے کہ اس امت پر کتنے خلفاء رہبری کریں گے؟ عبد اللہ بن مسعود نےکہا : ہاں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:بنی اسرائیل کےنقباء کے برابر بارہ خلفاءہوں گے۔15
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کی تعداد بارہ ہے اور ان کی خلافت بھی منصوص ہے کیونکہ بنی اسرائیل کے نقباء خداوند متعال کی طرف سے برگزیدہ تھے۔ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللّہ ُ مِيثَاقَ بَنیِ إِسرْ ءِيلَ وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنیَ عَشرَ نَقِيبًا}16اور اللہ نےبنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا”۔
جو خلفاء لوگوں کے انتخاب یا اپنی سعی و کوشش سے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں ان کی تعدادمعین نہیں ہوتی اور یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کہ اصحاب اس بارے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کریں ۔بنابریں یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان خلفاء کے بارے میں سوال کیا تھا جو خدا کی طرف سے امت اسلامی کی رہبری کے لئے منصوص تھے ۔17
6۔حدیث ثقلین:
شیعوں کے منابع کی بحث میں اس حدیث کے بارے میں تفصیلا بحث گزر گئی اور وہاں یہ مطالب بیان ہوئے کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے جس کےنتیجے میں ان کی علمی مرجعیت او ر رہبری بھی ثابت ہو جاتی ہیں۔ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے بارے میں مختلف شواہد موجود ہیں جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیاسی رہبری پر دلالت کرتی ہیں ۔پہلا شاہد یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض عبارتوں میں جوکہ مختلف ذرائع سے نقل ہوئی ہیں لفظ {خلیفتین} استعمال ہواہے جیسے:{انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب الله،حبل ممدود من السماء ﺇلی الارض،وعترتی،اہل بیتی، فانہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض}18میں تم
میں دو خلیفہ و قائم مقام چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا ، جو آسمان سے زمین تک لٹکی ایک رسی کی مانندہیں اور دوسری میری عترت یعنی اہلبیت اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
دوسرا شاہد یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس حدیث کوبیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی اور آپ ؐنے فرمایا:{یوشک أن یاتینی رسول ربی فاجیب}عنقریب میرے پروردگار کا پیغام رسان میرےپاس آئے اور میں اس کا جواب دوں”۔ واضح ہے کہ جب بھی کوئی رہبر اپنی موت کے بارے میں لوگوں کو خبر دیتا ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو یقینا اس سے مراد معاشرے کی سیاسی رہبری ہے ۔ علاوہ از ایں مسلم 19کے نقل کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کو غدیر کے دن بھی ارشاد فرمایاجیساکہ بعض نسخوں میں یہ جملہ {من کنت مولاہ فعلی مولاہ} بھی موجود ہے جبکہ اس جملے کو پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا ہے ۔ بنابریں غدیر خم کے دن دو مطالب بیان ہوئے:1۔ حضرت علی علیہ السلام کی امامت بطورخاص بیان ہوئی 2۔باقی ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت بطور عام بیان ہوئی ۔
یہاں اگر ہم اس فرض کو بھی قبول کریں کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی علمی رہبری ا ورمرجعیت کو بیان کرتی ہے تب بھی تمام مسائل میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔حتی امت کی رہبری اور امامت کےبارے میں بھی ان کی رائے معیار ہونا چاہیے جبکہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اموی و عباسی حکمرانوں کےخلافت کوناجائز قرار دیتےتھے اور اپنی حقانیت پر تاکید فرماتے تھے۔20
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔السیرۃ الحلبیۃ ،ج3 ،ص283۔تذکرۃ الخواص الامۃ،ص 18۔دائرۃ المعارف ،فرید وجدی،ج3،ص543۔
۲۔احزاب،6۔
۳۔المراجعات ،مراجعہ 54۔ الغدیر ،ج1،ص371۔
۴۔المراجعات ،ص201 -204۔الغدیر، ج1،ص 382۔
۵۔عقائد امامیہ ،جعفرسبحانی ،ص230۔
۶۔المراجعات ،مراجعہ 28 ،30۔
۷۔طہ،29 – 32 ۔
۸۔اعراف،142 ۔
۹۔شرح المواقف ،ج8،ص 363۔
۱۰۔ایضا ً، ص 275۔
۱۱۔المنار ،ج9 ،ص 121۔تفسیر المراغی ،ج9،ص 56۔
۱۲۔مجمع البیان۔
۱۳۔مسند احمد ۔ تاریخ طبری ،ج2ص 206۔تفسیر طبری و جامع البیان ج9 ص 75۔
14۔صحیح بخاری،ج4 ،ص 248۔کتاب الاحکام ،باب استخلاف ۔
15۔صحیح مسلم ،ج3،کتاب الامارۃ ،باب اول۔
16۔مسند احمد بن حنبل،ج1 ،ص398۔ینابیع المودۃ ،ص445۔
17۔مائدۃ ،12۔
18۔دلائل الصدق، ج12،ص489۔
19۔مسند احمد بن حنبل ،ج5 ،ص122۔
20۔صحیح مسلم،ج4،ص1873،باب فضائل علی ابنابی طالب ،حدیث 2408۔دلائل الصدق،ج12،ص 477۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے 60 فیصد سے زائد بنیادی ہیلتھ مراکز فنڈز کی عدم دستیابی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے غریب مریضوں کو معمولی ٹیسٹوں اور تشخیص وعلاج کیلئے ملتان، بہاولپور اور لاہور جانا پڑتا ہے، لیہ میں بعض بنیادی ہیلتھ مراکز ایسے بھی ہیں، جہاں ایکسرے مشینری 2012ء سے موجود ہے مگر فنڈز اور ٹیکنیشن کی عدم دستیابی کے باعث نان فنکشنل ہیں، 4 سال سے موضع سمی پور بھگال اور لدھانہ بی ایچ یو میں آنے والے غریب مریض اس سہولت سے محروم ہیں، جنوبی پنجاب کی تنظیم سازی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ پنجاب حکومت کا رویہ انسانیت دشمنی پر مبنی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پنجاب حکومت کے پاس اورنج ٹرین، میٹروبسوں، آشیانہ، لیپ ٹاپ جیسے کرپٹ منصوبوں کیلئے اربوں، کھربوں روپے ہیں مگر غریب مریضوں کی صحت اور زندگی کے تحفظ کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید، پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی، ق لیگ اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنمائوں سے کہوں گا کہ وہ جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم اور امتیازی رویہ کے خلاف پنجاب اسمبلی میں احتجاج کریں، ایک دن جنوبی پنجاب کے عوام اور کسانوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر بحث کیلئے مختص کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ تخت لاہور نے اقتدار کے دسویں سال بھی جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ترک نہیں کیا، اجلاس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ظالمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اسے غریب عوام سے جینے کا حق چھین لینے کے مترادف قرار دیا گیا اور اس ظالمانہ اضافہ کے خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی۔
وحدت نیوز(لاہور) پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات میں قیمتوں میں اضافے کو فوری طور پر واپس لے، اس حکومتی اقدام سے مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا ہوگا۔علامہ مبارک علی موسوی کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے عوام کو سزا دینے پر یقین رکھتی ہے، حکومت عام عوام سے جینے کا حق نہ چھینے اور اپنی کمزور گورننس کا بدلہ عوام سے نہ لے۔انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن سے گھری حکومت اپنی کمزور گورننس کا بدلہ عوام سے نہ لے ورنہ عوام ان کرپٹ حکمرانوں کا احتساب کرے گی ۔