وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اعلیٰ اختیارتی اور فیصلہ ساز ادارے شوریٰ عالی (سپریم کونسل)کا اہم اجلاس چیئرمین علامہ شیخ حسن صلاح الدین کی زیر صدارت مرکزی سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا ، اجلاس میں مرکزی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ، اراکین شوریٰ عالی علامہ حسنین عباس گردیزی، علامہ حیدر عباس عابدی، علامہ غلام شبیر بخاری، علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ ہاشم موسوی، علامہ آغا علی رضوی، علامہ مقصودڈومکی، علامہ برکت علی مطہری ،اسد عباس نقوی، رائے علی رضا بھٹی،اکبر علی، نثار علی فیضی، آل محمد جعفری ، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان سرفراز حسین نقوی، رکن بلوچستان اسمبلی آغا سید محمد رضا نے شرکت کی۔
اجلاس کے شرکاءنے گذشتہ سال کی تنظیمی کارکردگی کا جائزہ لیا اور آئندہ سال کیلئے تنظیمی پروگرامات اور دستوری ترامیم پر تفصیلی گفتگو ہوئی، اراکین شوریٰ عالی نے ملک کے مختلف شہروں سے شیعہ علمائے کرام اور جوانوں کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلاجواز اغواء اور تاحال عدالتوں میں پیش ناکرنے پرشدید تشویش کا اظہارکیا رہنماوں نے حکومت کو متنبہ کیا کے اگر گمشدہ افراد کو جلد از جلد منظر عام پر نالایا گیا تو ایم ڈبلیوایم ملک گیر احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی، وفاقی حکومت بشمول تمام صوبائی حکومتوں کے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق دیانتداری کے ساتھ عمل در آمدکو یقینی بنائیں اور سیاسی مخالفین بالخصوص اہل تشیع علماءاور جوانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا جلد از جلد خاتمہ کریں
شرکائےاجلاس نے جنرل (ر) راحیل شریف کے امریکی زیر قیادت تشکیل کردہ سعودی فوجی اتحادکی سربراہی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ایوان میں بحث ومباحثے اور سیاسی ومذہبی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر اس غیر منطقی اقدام کے اثرات پاکستان کی داخلی وخارجی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کریں گے،لہذٰا تمام محب وطن جماعتیں مل کر اس وطن دشمن اقدام کے خلاف ایوان کے اندر اور باہرصدائے احتجاج بلند کریں جس کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام افغان جہاد کی طرز پر ایک مرتبہ پھر دائوپر لگتے نظر آرہے ہیں ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) اس دور میں دین اسلام تو بے چارہ ہوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگےہیں، اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جہاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے ، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کہلوائیں تو یہ بھی رواہے، آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خود کش حملے کریں تو یہ بھی جہاد ہے۔۔۔
گزشتہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سہارا ڈھونڈا جا رہاہے۔ میڈیا رپورٹس اور پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔[1] یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔
اس کے ساتھ ہی اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا وہی یہاں پر بھی نظر آرہاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔
بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ وہی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کررہاتھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ہو گیاہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟
ایک عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ہاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیلایا جاتاہے، ہاسٹلوں میں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دہشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلبا کی برین واشنگ کررہی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے اس کا تو ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اس حادثے کی ویڈوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان ہمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا اب اس نے ہماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظہار کردیاہے۔
ہمارا قومی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نہیں رک سکتا۔ ہمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے ، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایسی تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی، ان دنوں میں صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سےلاتعلق اور خاموش رہتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دہشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
یہ واقع بھی بظاہر ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل سے شروع ہوا ہے ، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس کی جڑیں کہاں ملتی ہیں!؟
کوئی چاہے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہو یا دینی مدرسے سے، ہم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔
حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایاتھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔
حضورﷺ نے میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔
لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو پیش کیا جارہاہے۔ یونیورسٹیوں میں مذہبی قتل و غارت یقینا ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔تمام سیاسی،رفاہی اوردینی جماعتوں و شخصیات کو لاتعلق رہنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیاجائے ، چونکہ یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتاہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(لیہ) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی نے کہا ہے کہ 16 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی علماء شیعہ کانفرنس میں جنوبی پنجاب سے علمائے کرام کی بھرپور شرکت ہوگی۔ ملک بھر سے علمائے کرام کا یہ اجتماع ملت کو ٹھوس لائحہ عمل دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ ضلع لیہ میں مختلف علمائے کرام کیساتھ ملاقاتوں اور 16 اپریل کو منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کیا۔ وفد میں ایم ڈبلیو ایم شعبہ قم المقدس کے مسئول مولانا رضوان جعفری، ضلعی رہنماء سید غلام سرور شاہ اور محمد حمزہ شامل تھے۔ وفد نے بزرگ عالم دین اور جامعتہ القائم کے پرنسپل مولانا سید ابوذر نقوی اور مولانا سید عباس نقوی، جامعہ دارالقرآن کے پرنسپل مولانا ضیغم عباس میرانی، جامعتہ الرضا کے پرنسپل مولانا سید حسین، مولانا فاطر حسین، مولانا نیاز حسین گھگری، جامع مسجد مومن آباد کے خطیب مولانا سید قطب شاہ، المرکز تبلیغات اسلامی کے پرنسپل مولانا ذوالفقار حیدری، جامع مسجد ڈبی کربلا کے خطیب مولانا عبدالغفار، جامع مسجد حسینیہ کے خطیب مولانا سید سجاد شاہ سمیت دیگر سے ملاقاتیں کیں اور انہیں علماء شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس موقع پر تمام علمائے کرام نے علامہ راجہ ناصر عباس کی ملت تشیع کیلئے جاری کاوشوں کو سراہتے ہوئے اس کانفرنس کو احسن اقدام قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔
وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بار پھر سے محکمہ اوقاف نے کوٹلی امام حسینؑ کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنیوالوں کو کھلے عام مارکیٹ بنانے کی اجازت دے دی، اس کے ساتھ ہی کوٹلی امام حسینؑ کی زمین کے کچھ حصے کا انتقال بھی کر دیا۔ آج بعد از نماز جمعہ کوٹلی امام حسینؑ میں مجلس وحدت مسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، انجمن تھلہ متولیان اور شیعہ ینگ مین نے مل کر محکمہ اوقاف کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پر امن مظاہرین نے محکمہ اوقاف کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور کوٹلی امام حسینؑ کے ناجائز قبضے کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے شرکاء سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ غضنفر عباس شاہ نے کہا ہے کہ کوٹلی امام حسینؑ پر محکمہ اوقاف ناجائز قابض ہے، ہم نے ڈپٹی کمشنر سے کئی بار گذارشات کیں کہ اس معاملے کو احسن طریقے سے حل کریں، مگر انہوں نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا، کوٹلی امام حسین کا مسئلہ ہم نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے سامنے بھی پیش کیا، لیکن انہوں نے بھی کوئی تعاون نہیں کیا اور صرف زبانی دعووں تک محدود رہے۔ علامہ غضنفر عباس کا مزید کہنا تھا کہ کوٹلی امام حسینؑ کی 327 کنال اراضی ایک ہندو شخص نے پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے عزاداری کیلئے وقف کی تھی اور یہ کیسے مسلمان ہیں، جو امام حسینؑ کی جاگیر اونے پونے داموں بیچ رہے ہیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پرامن رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکال لیں، شاید ڈی آئی خان کی انتظامیہ بھول گئی ہے کہ 10 ستمبر 1988ء کو ہم نے اپنے خون سے تاریخ لکھی اور امام حسینؑ کی عزاداری پر آنچ تک نہیں آنے دی، لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ ہمیں مجبور نہ کرے کہ پھر سے ڈیرہ اسماعیل خان کا امن خراب ہو۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری جنرل آغا علی رضوی نے پولیس بھرتیوں کے مہینوں بعد بھی آرڈرز جاری نہ کرنے پر حکومت اور محکمہ پولیس کے ذمہ داران کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے متنبہ کیا کہ ایک علاقے میں اقربا پروری کی شکایات پر پورے خطے کی بھرتیوں کو روکنا عوام کیساتھ زیادتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ گلگت کیساتھ بلتستان اور دیگر علاقوں میں بھی اپنی من مانی کے تحت بھرتیاں کریں، جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔ آغا علی رضوی نے مزید کہا کہ چونکہ بلتستان ریجن میں کہیں بھی کسی بھی فریق کو پولیس بھرتیوں پر کوئی شکایت نہیں اسلئے حکومت کے لئے ضروری ہے کہ فی الفور تعیناتی کے آرڈر جاری کراکر خطے کی سکیورٹی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے پولیس کی نفری بڑھائیں۔ حکومت پہلے ہی کئی مہینے ضائع کرچکے اب مزید تاخیری حربے اختیار کریں تو ہم بھرپور عوامی ردعمل پر مجبور ہونگے۔ آئی جی پی اور دیگر ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرتے ہوئے عوامی آواز اور محکمے کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے فوری اقدام کریں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سالانہ مرکزی کنونشن کا آغاز جامعۃ الصادقؑ اسلام آباد میں ہو چکا ہے۔کنونشن کے پہلے روز جشن مولود کعبہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ظہیر الحسن نقوی نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا حضرت علی علیہ السلام کے خطبات ، فرمودات اور خطوط نہ صرف فصاحت و بلاغت کا نادر نمونہ ہے بلکہ باوقار زندگی گزارنے کے پُرحکمت اصول بھی ان میں وضع کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی زندگی کمالات سے بھرپور ہے۔مولا کائنات جب اپنا کوئی ذاتی کام کرنے لگتے تو بیت المال کی طرف سے ملے گئے چراغ کو بجا دیتے ۔صاحبان اقتدار اگر حضرت علی علیہ السلام کے کردار کو عملی زندگی میں اپنا لیں تو بہت سارے بحرانوں سے نکلا جا سکتا ہے۔
مولانا علی اکبر کاظمی نے کہا کہ حضرت علی ؑ کے دور میں جن خارجیوں نے اسلام کے نام پر دین کو من پسند ڈگر پر چلانے کی کوشش کی آج ان کی اولادیں داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بنا کر اسلام کے تشخص کو داغدار کرنا چاہتی ہیں۔ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حضرت علی ؑ کی جرات اور افکار کی پیروی کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ مولائے کائنات سے محبت و عقیدت کا عملی اظہار اپنے کردار کو اسلام کے اصولوں میں ڈھال کر کیا جا سکتا ہے۔
تقریب میں شاعر اہلبیت زوار حسین بسمل،اعتزاز حیدر اور فرحان علی وارث نے نذرانہ عقیدت پیش کیا۔تقریب کے پہلے روز کی آخری نشست کا انعقاد شب شہدا کے طور پر کیا گیا جس میں علامہ احمد اقبال رضوی نے خطاب کیا۔