وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی کمیوں پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیںآتا۔ہمارے مسلم معاشرے میں یہ مرض کچھ زیادہ ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیںاوراحتجاج اورمظاہرے کرکے پورے دنیاکویہ بتادیتے ہیں کہ مسلمان واقعی بڑابے صبرا،کمزوراوربے شعورہے ۔دینِ اسلام کو پھیلانے کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں حضرت اما م حسین علیہ اسلام نے اپنا سر سجدے میں قلم کروا کر جس دینِ اسلام کی شان کو بچایا کیا لاج رکھی ہے جا رہی ہے آج اس اسلام کی میں یہ کہنا چاہوں گا آج کے مسلمانوں کو کہیں فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں کا رونا ہے باعثِ شرم میرے لیے تمہارا مسلمان ہونا ہے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے انسان ہو کر انسانیت کا کوئی خیال نہیں ہے اور مسلمان ہو کر مسلمان ہونے کا خیال نہیں ہے کیا بدلاو لاو گے تم دھرنا دے کر ؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ آزادی ؟مجھے ان مسلمانوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں مجھے تو ان مسلمانوں سے شکوہ ہے جو آزاد ہو کر بھی غلام ہیں میرا ایک سوال ہے آج کے مسلمانوں سے ؟ہم زندہ قوم ہیں باہندہ قوم ہیں کیا یہ ترانہ سننے کا حق ہے تمہیں ؟ کیا تم زندہ باہندہ قوم ہو؟جاگو مسلمانو جاگو جاگنے کا مطلب نیند سے جاگنا نہیں ہے اپنے ایمان کو جگاو اپنے اسلام کو جگاو اپنے دلوں میں قرآن کو جگاو ایک سچا مسلمان بن کر دکھاو پھر دھرنا دو کے ہمیں اسلام کے قوانین کے تحت نیک اور ایماندار حکمران چاہیے پھر دیکھو بدلتی ہے کے نہیں اس ملک کی تقدیر بدلتے ہیں کے نہیں تمہارے حالات چپ چاپ تماشہ دیکھنے والوں میں سے رہو گے تو ایک دن تم بھی تماشہ بن کے رہ جاو گے دشمنوں کو کہاں ڈھونڈتے ہو سر حد پار ؟دشمن تو تم خود ہو اپنے آج مسلمان ہی مسلمان کا قاتل ہے یہ تمہارے اعمال کی سیاست ہے جو حکمران تمہارے ساتھ کر رہے ہیںاگر یعی حال رہا مسلمانو تو یاد رکھنا تم جلد ہی اپنے وجود کو مٹا دو گے بدلاو لانا ہے تو پہل اپنے آپ سے کرو پہلے خود کو بدلو پھر دوسروں میں بدلاو لانے کی کوشش کرو ، لیکن آزادی خواب ہے اس بہن کی جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے یہ خواب ایک سچے مسلمان بیٹے عتیق اسلم کا بھی ہے کہ فلسطین،شام ،کشمیر،انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیے یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔
امریکہ جو بڑے بڑے دعوئے حقوق انسانیت پر کرتا ہے آج شام میں وہ جو کر رہا ہے پوری دنیا کو معوم ہے تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں سرزمین فلسطین ،شام ،کشمیر پر ظالم اور سفاک یہودیوں ،کافروںکا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جوروز ازل سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کا عکاسی کرتا ہے۔سرزمین فلسطین پر یہودی آبادیاں تعمیر کر کے جس طرح فلسطین کے مقامی باشندوں اور یہودی مہاجرین کے توازن کو بگاڑا گیا اس نے عربوں میں پھوٹ ڈال کر نہ صرف ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا بلکہ نئے معاشی واقتصادی حربوں کے ذریعے انہیں ایسا قلاش اور مفلوک الحال بنا دیاکہ اپنی اراضی یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔اور اس طرح ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی کاری ضرب لگی اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اگر مسلمان اسی وقت ایک ہو جاتے اوریہ تہیہ کر لیتے کہ ان مٹھی بھر یہودیوں کا سر کچلنا ہے تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور متحد ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان رہے۔ یہ جوبھی دینا میں ہو رہا ہے ایک تنگ نظریہ ہے جو انسان کو انسا ن سے لڑوا رہا ہے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا اس سے ذیادہ امریکہ شام میں کر رہا ہے ۔
جہاں تک فلسطین ،شام کے معاملے میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بغیر کسی خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہوئے امت مسلمہ کا یکجا کرنا ہوگا۔ بلکہ اس کی قیادت کرنا ہو گی اوریقینا ہمیں عالمِ اسلام کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کا بھرم رکھنا ہو گا۔
تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم رانا
وحدت نیوز (اسلام آباد) شام پر امریکہ کا وحشیانہ حملہ قابل مذمت ہے، ایک اسلامی ملک پر امریکی سامراج کی جارحیت کی بھر پور مذمت کرتے ہیں ، امریکہ کایہ ظالمانہ اقدام اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ، ایک مشکوک قسم کے اقدام کے بعد کے جس کے نتیجے میں ادلب شہر میں زہریلی گیس کا حملہ ہوا اور سینکڑوں شہری مارے گئےاور اس کا الزام شامی حکومت پر لگاکرایک ایسے فضائی اڈے کو نشانہ بنایاجانا جہاں سے داعشی دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں عمل میں آتی تھیں یہ دہشت گردوں کی بھرپور حمایت ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے گذشتہ روز شام پر امریکہ کے فضائی حملے خلاف سماجی رابطے کی ذرائع پر اپنے مذمتی بیان میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ سعودیہ اور ترکی جیسے بعض نام نہاد اسلامی ممالک نے اس امریکی جارحانہ اقدام کی حمایت کی ہےوہ بھی قابل مذمت ہے،شام پر امریکی حملہ اور سعودیہ واسرائیل کی حمایت انکےباہمی گٹھ جوڑ کی واضح دلیل ہے، یہیں سے آل سعود کی خطے کے لئے ترجیحات اور اہدافات واضح ہو جاتے ہیں ، آل سعود اسرائیلی بلاک کا حصہ ہیں، عالمی صہیونی اژم کے نوکر ہیں ، ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ آل سعود جوکہ صہیونی اژم کے حامی اور امریکہ کے غلام ہیں ان کے بنائے گئے اتحاد میں جاناکس حد تک عاقلانہ اقدام ہے اور پاکستان کے حق میں کس حد تک مفید ہو سکتا ہے، یہ سراسر پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے، پاکستان کے عوام بالعموم اہل تشیع بالخصوص اور اہل سنت کی بڑی تعداداس اتحادمیں شمولیت کی بھر پور مخالفت کرتی ہے، یہ اقدام پہلے ہی سے پولرائزیشن کے شکار پاکستانی معاشرے کو مذید تقسیم کردے گا ،لہٰذا گذشتہ روز مشرق وسطیٰ ، گلف اور ویسٹرن ایشیاء کے اندر امریکہ کی جانب سے ہونے والے جارحانہ اقدامات اور سعودی حکومت کی جانب سے ان کی حمایت ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں ، اس طرح کے احمقانہ الائنس میں شمولیت سے گریز کیاجائے، یہ پاکستان کے باشعور عوام کی آراء کے خلاف ہےجوکہ اس کی مذمت کرتے ہیں ،ناپسند کرتے ہیں اور اسے پاکستان کے حق میں نقصان دہ سمجھتے ہیں ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جب کوئی فوجی اتحاد بنتا ہے تو وہ کسی مشترکہ دشمن کے خلاف بنتا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس کے خلاف ہے.؟
1- یہ اتحاد پہلے تو اتحاد ہی نہیں کیونکہ اتحادی نہ اکٹھے ہوئے اور نہ ہی مشترکہ دشمن کا تعین کیا۔
2- عموما مسلمانوں کا علی الاعلان دشمن اسرائیل تھا اب تو وہ بھی سب کا دشمن نہیں رھا کیونکہ بہت سے عرب ممالک جن میں سعودیہ سر فہرست ہے اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں مانتے بلکہ بہترین دوست اور پارٹنر مانتے ہیں .تو پھر اس کے خلاف تو یہ اتحاد نہ بنا۔
3- انڈیا بھی ہمارے نزدیک دشمن ہے اسکی فوجی مداخلت سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا .اور کشمیر میں تقسیم ہند کے وقت سے فوجیں اتار کر بیگناہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رھا ہے اور طاقت کے ذریعے قابض ہے. لیکن عربوں اور دیگر اتحاد میں شامل ممالک کا انڈیا گہرا دوست بھی ہے. اس لئے یہ اتحاد انڈیا کے خلاف بھی نہیں۔
4- کہتے ہیں کہ یہ دہشتگردی کے خلاف ہے۔اگر خطے کے حالات کا جائزہ لیں تو گذشتہ 2011 سے خطے میں دو بلاکوں کے مابین جنگ جاری ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے اور دوسری طرف مقاومت کا بلاک.
اب دھشت گرد کون ؟
ہر بلاک دوسرے کو دھشتگرد کہتا ہے۔
امریکی بلاک : ایک طرف امریکہ ، فرانس ، اسرائیل ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر ، امارات پوری طاقت کے ساتھ پیسے ، جدید ترین اسلحہ ، انٹیلیجنس معلومات اور ٹریننگ مختلف مسلحہ گروہوں کو فراہم کر رہے ہیں. جن میں النصرۃ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش سر فہرست ہیں. اور انکے روابط کسی سے پوشیدہ نہیں . بلکہ بنانے والے خود بھی ان تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں. ان تکفیری مسلح گروہوں کو سعودی عرب اور اسکے اتحادی دشمن نہیں سمجھتے بلکہ جہاں پر بھی قابض ہوئے وہ علاقہ ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا. جیسے لیبیا میں قذافی حکومت گرا کر اب انہیں وھاں مضبوط کر دیا گیا ہے . یمن میں بھی جو علاقے سعودیہ اور اسکے اتحادیوں کی بمبارمنٹ سے خالی ھوئے وھاں پر یہی گروہ مسلط ہوئے. اور اسی طرح باقی ممالک میں بھی. تو ثابت ہوا کہ یہ فوجی اتحاد ان تکفیری مسلح گروہوں کے خلاف بھی نہیں بن رہا۔
5- مقاومت کا بلاک : انکے مد مقابل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنا دفاع کرنے والے ممالک اور انکے اتحادی ہیں. جن میں شام ، عراق ، ایران ، حزب اللہ ، انصار اللہ ، حشد الشعبی ، روس اور چین ہیں۔
عقل ومنطق اور تازہ ترین صورتحال تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتحاد تکفیری مسلح گروہوں کے عراق و شام سے قدم اکھڑ جانے اور پے در پے شکست کھانے کے بعد بنایا جا رھا ہے. اس کا ہدف انھیں زندہ رکھنا اور جن قوتوں کے خلاف یہ لڑ رھے تھے انکے خلاف جنگ کرنا ہی ہو سکتا ہے ۔
یا تو یہ اتحادی سب کے خلاف علی الاعلان لڑیں گے یا ان میں تقسيم کی پالیسی اختیار کی جائے گی.اور بعض کے خلاف جنگ لڑی جائے گی. اب ہر پاکستانی اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ مقاومت کا بلاک ہمارا دشمن ہے.؟ یا اس بلاک کے اندر ہماری دشمن قوتیں شامل ہیں ؟ اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے.؟ کیا وہ شام ہے یا عراق، ایران ہے یا حزب اللہ ، یا انصار اللہ یا یمن ، یا روس ہے یا چین.؟ ہمارے حکمرانوں کو اسے پاکستانی عوام کے سامنے واضح کرنا ہو گا. البتہ دوسرا بلاک (امریکی بلاک ) پاکستان کے دوست نما دشمنوں سے بھر پڑا ہے. جس میں امریکہ ہے جو پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے. پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے. وغیرہ وغیرہ ۔
اسرائیل ہے جسے پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا اور نہ ان سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں. جو ہمیشہ سے اس گھات میں ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر عراق اور سوڈان کی طرز کا حملہ کر دے۔
اس بلاک کی سرپرستی میں وہ مسلح تکفیری گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف جہاد کے فتوے دے چکے ہیں. جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے ضرب عضب اور رد الفساد جیسی عسکری کارروائیوں کا اعلان کیا. کیا ہم پاکستان میں ان سے لڑیں گے اور بیرون ملک انکی تقویت کریں گے۔
اور کیا اس اتحاد کا بانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پاکستان میں دہشگردی کرنے والے مدارس ، شخصیات ، مراکز اور تنظیموں کی مدد اور پاکستانی امور میں مداخلت کسی سے پوشیدہ ہے. کیا گوادر پورٹ کو یہ ہضم کر پائیں گے یا اس اقتصادی ترقی کی امید کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ؟
براہ کرم اس فاسٹ میڈیا کے دور میں پاکستان عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس حساس فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام شکوک وشبہات کی وضاحت کی جائے اور اسے مذھنی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی مخصوص سوچ کی تاثیر میں اتنا بڑا قومی فیصلہ کیا جائے۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹرعلامہ سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج علی الصبح کا واقعہ ہے، سات اپریل ۲۰۱۷کو ، جمعۃ المبارک کے دن ، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے ، روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے اور اسی طرح اسرائیل نے بھی شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب اور اسرائیل کا حمایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ اتحادی نہیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے وہ در اصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ہی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے ، اس میں بھی صرف وہی ممالک شامل نہیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلا کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لا تعلق کیوں ہے!؟
باقی رہا جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعزاز ہمیں تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتا اسلامی اتحاد ہو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے ۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ہمیں اعزاز نصیب ہونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنہائی نصیب ہو گی۔
سعودی حکام کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاہیے:۔
۱۔ سعودی عرب کو اپنے برادر اسلامی ملک یمن کے خلاف فوج کشی کو فورا روکنا چاہیے
۲۔ بحرین کے مسلمانوں سے جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر شیخ عیسی قاسم کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کیا جانا چاہیے
۳۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ہٹایا جائے
۴۔ عالم اسلام کے قلب یعنی مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے
۵۔ سعودی عرب اپنے تمام ہم فکر جہادی گروہوں کو آفیشل طور پر فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے
۶۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام ؓ اور اہلبیت اطہار ؑکےمزارات کو از سر نو تعمیر کر کے امت مسلمہ کے درمیان وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے
۷۔دہشت گردی کے خلاف فرنٹ رول اداکرنے والے مسلم ممالک خصوصا ، شام، عراق، اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے
۸۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان کا کوئی بھی مستقل دوست نہیں ہے۔ لہذا اگر سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔
امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھا یا اور پھر خود ہی ان کا کام تمام کردیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ہی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا ہے اور پھر خود ہی اسے نشانِ عبرت بنادیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔۔۔
اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نہیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج ۲۰۱۷ میں ، سات اپریل کو ، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات ، شام ، روس ، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح ، مزید سعودی حکمران بھی قتل ہو سکتے ہیں اور سعودی شہزادے ہی سعودی بادشاہت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔
یہ سعودی عرب کے لئے ، انتہائی سنہرا موقع ہے کہ سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “ اسلامی اتحاد” کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے ، کشمیر و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرے، اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی میزائل اپنے دوست اور دشمن کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ پاک فوج کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف آپریشن رد الفساد کے فیصلہ کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے اسے حالات کے عین متقاضی قرار دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت سیکریٹریٹ سولجربازار میں پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر کراچی ڈویژن کے سیکرٹری سیاسیات تقی ظفر،ندیم جعفری ،حسن عباس ودیگر موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پاک فوج کے موثر اقدامات عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے میں اگر حکومت کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کیے جاتے تو آج ملک کو اتنے سانحات نہ دیکھنے پڑتے۔ شرپسندوں کے خلاف آپریشن میں رینجرز کو مکمل اختیار دیئے جانے چاہیے تاکہ سیاسی دباؤ سمیت کوئی بھی بیرونی مداخلت ان پر اثر انداز نہ ہوسکے۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فوج کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ردالفساد مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رہنا چاہیے تاکہ وطن عزیز دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں اچھے برے طالبان کے نام پر منفی قوتوں کی سرپرستی کی گئی جس کے نقصانات پوری قوم کو اٹھانا پڑے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پانامہ کیس کے فیصلہ کو اب سامنے آجانا چاہیے۔پوری قوم کی نظریں عدالت عالیہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔بیس کروڑ عوام غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ملک کے ہر شخص یہ یہ خواہش ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور اختیارات کی بجائے قانون و انصاف کی حکمرانی ہو۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں توانائی کے بحران پر قابوپانے کے بلند و بانگ دعووں کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں۔وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی خواجہ آصف کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہہ جہاں بجلی چوری ہو گی وہاں بندش لازمی ہو گی۔انہوں نے کہا حکومت بجلی چوری پکڑنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو کر عام عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلاکر کے یہ ثابت کر رہے کہ سسٹم کی اصلاح کے لیے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل سرے سے موجود نہیں۔کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پٹرول کی عدم دستیابی عوام کے اضطراب اور غصے میں اضافے کا باعث ہے۔علامہ اقتدار نقوی نے مزید کہا کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں نے پورے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان سے لوٹی جانے والی تمام رقم قومی سرمایہ ہے جسے ہر حال میں واپس آنا چاہیے۔ملکی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ اہم کرپٹ عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ جب تک ملک کو مخلص اور ایماندار حکمران نصیب نہیں ہوں تب تک ملکی نظام کو بہتر بنانے کی کوئی بھی کوشش سود مند ثابت نہیں ہو سکتی۔اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوشاں کرپٹ سیاستدانوں کے سیاسی حربوں کو قوم اپنی دانشمندی اور بصیرت سے شکست دے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی طرف گامزن ہو۔