وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوری عالی و امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی ،صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت بلوچ , ایم پی اے آغا رضا, ڈپٹی سیکرٹری جنرل کیپٹن حسرت اللہ ہزارہ, ظفر عباس شمسی, سیکریٹری جنرل کوئٹہ ڈویژن سید عباس آغا, کربلائی رجب علی, علامہ ولایت حسین جعفری, کونسلر سید محمد مہدی, جعفر علی جعفری, فدا حسین ہزارہ, امان اللہ ہزارہ, رشید علی طوری , حاجی عمران علی و دیگر نے اپنے مشترکہ بیان میں سانحہ سپینی روڈ میں ہزارہ خاتون اور ہزارہ جوان کی شہادت پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ا سپنی روڈ پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں وہ جب بھی چاہے شہر کے کسی بھی جگہ کارروائی کر سکتے ہیں ۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی نے سانحے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اسپنی روڈ پر مسلسل واقعات آپریشن ردالفساد کی کامیابی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں اور دہشت گرد شہر بھر میں آزادانہ طور پر دندناتے پھیر رہے ہیں. ایسی صورت حال میں آپریشن ردالفساد کی کامیابی کے دعوے بے بنیاد ہے ۔ایم پی اے آغا رضا نے کہا کہ حکومت جب صوبائی دارالحکومت میں امن قائم نہیں کر سکتی تو پورے صوبے میں کس طرح امن قائم کر سکتی ہے لگتا ہے دہشت گردی انسان نہیں جنات کر رہے ہیں جو واقعے کے دوران اور بعد نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی بلوچ نے کہا کہ شیعہ ہزارہ قوم دہشت گردی کی زد میں ہے ہر سال ماہ رمضان المبارک اور عید کے قریب شیعہ ہزارہ قوم پر کوئی نہ کوئی سانحہ ضرور رونما ہو جاتا ہے ،سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت اور ادارے مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی. حکومت اور ادارے شیعہ ہزارہ قوم کو تحفظ فراہم کریں اور کوئٹہ شہر کو مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں کے ناپاک وجود سے پاک کریں.
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے وطن عزیز میں ملت تشیع کو پاکستانی اور شیعہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔کراچی ،کوئٹہ اور پارہ چنار ہمارے لیے مقتل بنے ہوئے ہیں۔کوئٹہ کی معروف شاہراہ پر دو بہن بھائیوں کو شیعہ ہونے کے جرم میں سروں میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔کراچی میں ہمارے نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ پھر شروع ہو گئی ہے۔ہم نے ایک ایک دن میں سو سو جنازے اٹھائے ہیں۔کوئٹہ میں حکومت اپنی رٹ منوانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ وہاں سے غیر ملکیوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔مزدور قتل کر دیے جاتے ہیں۔حکومتی کمزوری دہشت گردوں کے حوصلوں کی تقویت کا باعث ہے۔اگر ضرب عضب، آپریشن رد الفساد اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو آج پاکستانی قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نیشنل ایکشن پلان کو مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے لیے حکومت نے اپنی ڈھال بنایا ہوا ہے۔کسی ایک شہید کا کیس بھی فوجی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ایک طرف ہم دہشت گردی کا شکار ہیں دوسری طرف حکومتی ادارے ملت تشیع کے نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ان نوجوانوں کے خاندان انصاف کے متلاشی ہیں ۔حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ اس ظلم کو روکا جائے۔اگر یہ نوجوان قصور وار ہیں تو انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔حکومتی اداروں کی طرف سے اس طرح کسی کو حبس بے جا میں رکھنا غیر آئینی ہے۔ریاست ماں کا کردار ادا کرے۔ ہمارے بچے ہمیں واپس کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ 41ممالک کا اتحاد دراصل امریکی اتحاد ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی تقسیم ہے۔ یہ فرقہ وارانہ اتحاد امریکی و اسرائیلی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔جنرل (ر)راحیل شریف کا ایسے اتحاد کی سربراہی قبول کرنا پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کے منافی ہے۔انہیں واپس بلایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے قطر کا زمینی و فضائی محاصر ہ کیا گیا ہے۔آج تک اسرائیل کی پروازیں بند نہیں کی گئیں لیکن سعودی عرب نے قطر کی پروازوں پر پابندی لگا کر یہ ثابت کیا ہے کہ آل سعود امریکی تابعداری میں پیش پیش ہیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی حکومت انتہائی متعصب ہے۔یہ علاقہ سی پیک کی گزر گاہ ہے۔یہاں کے لوگوں کے لیے دانستہ طور پر مسائل کھڑے کر کے علاقے کو انتشار کا شکار بنایا جا رہا ہے جو سی پیک مخالفین اور بھارت کے حق میں ہے۔علماء اور امن پسند افراد کو شیڈول فور میں ڈال کر حالات کو خرابی کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے جواقتصادی راہدری کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔ان حکمرانوں کے ان غیر قانونی ہتھکنڈوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج ظلم و بربریت کی المناک تاریخ رقم کر رہی ہے۔پاکستانی حکومت کو کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے ایک روز پوری قوم کو لے کر سڑکوں پر آنا چاہیے ۔اس احتجاج میں سیاسی و دینی جماعتیں بھی شریک ہوں تاکہ اقوام عالم پر بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی مظلومیت آشکار ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی پر حکومتی شخصیات کی طرف سے تحفظات اور الزامات دباؤ اور فرار کی کوشش ہے۔پوری قوم عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ساتھ ہے اور پانامہ کیس کے شفاف نتائج کی منتظر ہے۔نہال ہاشمی اور دیگر کردار ایک سکرپٹ کا حصہ ہیں ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے دو شیعہ بہن بھائیوں اور کراچی میں شیعہ نوجوان محسن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے پر گہرے غم و غصے کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم مذہبی جماعتیں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات سیکورٹی اداروں کو انتہا پسند عناصر کی جانب سے کھلم کھلا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کالعدم جماعتوں کے ساتھ لچک کا مظاہرہ ان مذموم عناصر کے حوصلے کو تقویت دے رہا ہے۔ہزارہ قبیلہ کی وطن عزیز کی آزادی میں نمایاں خدمات رہی ہیں لیکن اپنے ہی شہر میں انہیں محصور کر کے رکھ دیا گیا ہے۔مٹھی بھر دہشت گرد وں کا حکومتی گرفت سے بچ کر کاروائیوں میں مصروف ہونا حیران کن ہے۔مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں نے اب خواتین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جو افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے۔پاکستان میں اہلسنت کے بعد ملت تشیع دوسری بڑی اکثریت ہے۔ہمارے نوجوانوں کو گزشتہ تین دہائیوں سے چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت تشیع کو تحفظ فراہم کرے۔ عسکریت پسند مذہبی جماعتوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ان کے شر سے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ۔عبادت گاہیں ، مزارات، سکول، امام بارگاہیں اور مساجد سمیت ہر اہم مقام پر دہشت گردوں نے کاروائیاں کر کے ملک کے امن و امان کو تباہ کیا ہے۔موجودہ حکمران اچھے اور بْرے طالبان کے نام پر دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے آئے ہیں جن کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ شام سے فرار ہونے والے داعشی دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے تاکہ پاکستان میں کاروائیاں کرنے میں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسلام دشمن عالمی قوتیں داعش کو پاکستان میں دھکیل کر اپنا اگلا ہدف واحد اسلامی طاقت پاکستان کو بنانا چاہتے ہیں۔پوری حکومتی مشینری موجودہ حکومت کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔ملک کی سالمیت و بقا سے انہیں کوئی غرض نہیں۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے فکری مطابقت رکھنے والے نام نہاد علما اور اداروں کے خلاف بھرپور کاروائی حالات کا اولین تقاضہ ہے۔اس میں غفلت کا مظاہرہ پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کے مترادف سمجھا جائے گا۔تکفیری فکر کے فروغ میں سرگرم ادارے دہشت گرد ساز نرسریاں ہیں۔وطن عزیز کی بقا و سالمیت ان اداروں کی بیخ کنی سے مشروط ہے۔اس وقت ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا خاتمہ حکومت کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے ان جماعتوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جو نام بدل کر اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کالعدم جماعتوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھنے پر حکومتی و سیاسی شخصیات کو پابند کیا جائے۔پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گروہوں کی کمین گاہوں کا تدارک کیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے۔انہوں نے ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر کوئٹہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے اندر دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔رمضان المبارک کے دوران عبادت گاہوں میں سیکورٹی کو بڑھایا جائے ۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین نے اتحاد بین المومنین کی خاطر ایک مرتبہ پھر ایک بڑی قربانی دے دی ، گلگت حلقہ نگر 4کے ضمنی انتخاب میں مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدوار ڈاکٹرعلی محمد اسلامی تحریک پاکستان کے نامزد امیدوار شیخ محمد باقر کے حق میں دستبردار، تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل علامہ سید علی رضوی نے اسلامی تحریک(شیعہ علماءکونسل) کی دعوت پر شیخ ہائوس میں پر یس کانفرنس کرتے ہوئے ایم ڈبلیوایم کے امیدوار برائے حلقہ نگر 4ڈاکٹر علی محمد کی اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار شیخ محمد باقر کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ احمد علی نوری ، ڈاکٹرعلی گوہر، الیاس صدیقی ودیگر سمیت اسلامی تحریک پاکستان کے صوبائی رہنما علامہ شیخ مرزاعلی ، دیدار علی اور دیگر رہنما موجود تھے ۔
علامہ سید علی رضوی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کو ہر ادوار میں اقتدار پر براجمان حکمرانوں نے مختلف حیلے بہانوں اور جھوٹے نعروں کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے ۔عوامی حقوق کے حصول کیلئے جب بھی کوئی موثر آواز اٹھائی گئی اسے دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اپنے من پسند افراد کو اقتدار تک پہنچانے کیلئے ہر حربہ آزمایا گیا۔سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے اور منشور کو لیکر عوامی عدالت میں پیش ہوتے آئے ہیں اور گزشتہ جنرل الیکشن 2015 میں مسلم لیگ نواز کو بھاری مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچایا گیا۔بہت سارے اسباب و علل کے علاوہ مسلم لیگ نواز کی جیت میں ایک اہم سبب مذہبی جماعتوں کی آپس میں چپقلش کو قرار دیا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بد ترین شکست سے دوچار ہوئی لیکن ان کے رہنمائوں نے مسلم لیگ نواز کی جیت کا ملبہ مذہبی جماعتوں کے سرتھونپ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ملی خواہشات کے مطابق آج ملت تشیع کی دو نمائندہ جماعتیں قومی و ملی مسائل کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کے عزم کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہیںجو کہ ملت تشیع کیلئے ایک خوشخبری ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف حلقہ 4 نگر کے انتخابات کے حوالے سے ہے بلکہ تمام ملی مسائل کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے عنوان سے ہے۔انشاء اللہ اس اتحاد کے ذریعے ملت تشیع کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائیگا۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں نے اپنے دور حکومت میں محض جھوٹ بولنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو ان کے دور حکومت میں لاشوں کے تحفے دیئے گئے،شاہراہ قراقرم پر درجنوں افراد کو شناخت کرکے قتل کردئیے گئے اور ستم ظریفی یہ کہ ان بزدل حکمرانوں نے کسی ایک واقعہ میں ملوچ قاتلوں کو گرفتار تک نہیں کیا بلکہ تشیع کو ہی مظالم کا نشانہ بناتے ہوئے شہداء کے لاشوں پر رونے کے جرم میں شیعہ اکابرین کو 16 ایم پی او کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا اور ملت تشیع کے وہ ادارے جو کہ پاکستان بننے سے اب تک سماجی کاموں میں مصروف تھے ان پر پابندیاں لگادی گئیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہگلگت بلتستان کے دیرینہ مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ سکردو روڈ ہے جو کہ تاحال وفاقی حکمران جماعتوں کی سیاست کی نذر ہے ۔سکردو کے عوام اور مسافر اس خونی سڑک پر سینکڑوں جانیں گنوانے کے باوجود عرصہ دراز سے ان پارٹیوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ستم بالائے ستم سابق حکمران جماعت پیپلز پاڑی کا سی ایم سکردو سے تعلق ہونے اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود سکردو کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیااور اس دفعہ وفاقی بجٹ میں سکردو روڈ کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ بالآخر شیخ محمد حسن جعفری امام جمعہ والجماعت نے بلتستان ریجن کے ممبران اسمبلی سے اجتماعی استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے جس کی ہم بھرپور تائید کرتے ہیں۔
آغا علی رضوی نےمذید کہاکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور اسلامی تحریک پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کی تھی لیکن ساتھ ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کیاتھا کہ سیاسی بنیادوں پر اس قانون کا استعمال کرکے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جائیگا اور آج وقت نے ہمارے خدشات کو ثابت کیا اور معروف علمائے کرام اور ملت کے اکابرین کو آج دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کیا گیا ہے جو کہ اس ملت کے ساتھ انتہائی مذاق ہے۔مجلس وحد ت مسلمین کے رہنما اور امام جمعہ والجماعت نومل اس وقت جیل میں ہیں اور دیگر علمائے کرام شیخ مرزا علی امام جمعہ والجماعت دنیور، شیخ شبیر حکیمی، عابد حسین و دیگر کو شیڈول فور میں رکھنا اس پرامن ملت کیساتھ انتہائی ظلم ہے جس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ہماراحکمرانوں سے سوال ہے کہ کالعدم جماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی کو ضلع دیامر میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت کس نے دی جبکہ اسی لدھیانوی پر گلگت سٹی تھانے میں ایف آئی آر نمبر 29/15درج ہے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے رکھا ہے اس کے باوجود صوبائی حکومت نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے لدھیانوی کو ضلع دیامر کے حدود میں جلسہ کرنے کی اجازت دیکر نیشنل ایکشن پلان کی روح کو تڑپادیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شیعہ نشین علاقوں میں زمینوں کو حکومتی تحویل میں دیا گیا اور آج وہی لوگ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے حق ملکیت کے نعرے لگارہے ہیں ۔اگر یہ لوگ واقعی اپنے ان نعروں میں سچے ہیں تو سینٹ میں پیپلز پارتی کی اکثریت ہے وہاں پر بل کیوں پیش نہیں کیا جاتا ۔اپنے دور اقتدار میں یوسف رضا گیلانی کے چلاس دورے کے موقع پر چلاس کے عوام کو مالکانہ حقوق دلوادیئے اور یہی آرڈر گلگت بلتستان بھر کے لئے کیوں نہیں کیا گیا جبکہ پیپلز پارٹی کو جب بھی پذیرائی ملی ہے گلگت اور بلتستان ریجن سے ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا آئینی حقوق کا مسئلہ تاحال تعطل کا شکار ہے ائور یہ جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو ان کو یاد نہیں رہتا اور جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔سی پیک گلگت بلتستان کا معاشی موت اور زندگی کا مسئلہ ہے اگر ہم مصلحت پسندی کا مظاہرہ کریں اوراس اہم منصوبے کے ثمرات اور سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ حاصل نہ کرسکے تو آنے والی نسلیں ہمیں ہرگز معاف نہیں کرینگی۔حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان سی کے گیٹ وے پر ہونے کے باوجود اب تک کوئی بھی پراجیکٹ شامل نہیں ۔ہم صوبائی حکومت کو بھی خبردار کرتے ہیں کہ اقتدار کے نشے میں سی پیک میں گلگت بلتستان کے مفادات کا سودا کیا تو تاریخ میں غدار قرار پائینگے اور حکومت پاکستا ن کو بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ سی پیک میں کسی صورت گلگت بلتستان کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دینگے ۔ گلگت بلتستان کے عوام ہمیشہ پاکستان کے وفادر رہے ہیں اور مشکل گھڑی میں یہاں کے بہادر جوانوں نے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں۔دیامر بھاشا ڈیم ، بونجی ڈیم جو کہ پاکستان میں انرجی کرائسس کے حل کا ضامن منصوبے ہیں ۔دیامر بھاشا ڈیم میں ضلع دیامر کی پوری آبادی لپیٹ میں آنے کے باوجود علاقے کے عوام پاکستان کیلئے قربانی دے رہے ہیں جبکہ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کی ترقی کا ضامن منصوبہ ہے لیکن اس کے باوجود دیگر صوبوں کے پریشر میں آکر حکومتیں اس منصوبے کی تعمیر پر تیار نہیں۔حکومت کو چاہئے کہ گلگت بلتستان کے خلوص اور شرافت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
ا ن کاکہنا تھا کہ ہمیں تعجب ہے کہ پیپلز پارٹی نگر کو اپنا گڑھ کیسے سمجھ رہی ہے اور نگر کے غیور عوام ان کو کیوں ووٹ دیں ۔کیا اس لئے ووٹ دیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں تاریخی کرپشن کی ہے اور ملازمتوں کو بیچا اور کیا اس لئے ووٹ دیں کہ محکمہ ایجوکیشن میں 500 سے زائد لوگ تین تین لاکھ روپے دیکراب بھی نوکری سے محروم ہیں۔کیا اس لئے ووٹ دیں کہ نگر کے ہر ایک گائوں میں ایک شہید آیا اور آج بھی ان کے قاتل نہ صرف گرفتار نہیں بلکہ ان قاتلوں کے ساتھ جنرل الیکشن میں ساز باز کی گئی۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ حلقہ 4 نگر میں دونوں مجلس وحدت مسلمین اور اسلامی تحریک پاکستان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اعلان کرتے ہیں اور محمد باقر تحریک اسلامی اور وحدت مسلمین کا مشترکہ امیدوار ہوگا اور عوام سے اپیل ہے کہ بھاری اکثریت سے ووٹ دیکر محمد باقر کو کامیاب کریں۔مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ صف اول کا کردار ادا کرکے ملی بیداری کا ثبوت دیں ۔انشاء اللہ حلقہ 4 نگر میں ہونے والی اس اتحاد کے ثمرات نہ صرف گلگت بلتستان ہونگے بلکہ پورے پاکستان میں اس اتحاد کے دور رس نتائج حاصل ہونگے۔
واضح رہے کہ حلقہ نگر 4 میں آئندہ چند روز میں منعقدہ ضمنی انتخاب میں سیاسی جوڑ توڑ نے اس وقت دم توڑ دیا جب مجلس وحدت مسلمین نے قومی وملی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے امیدوار کو اسلامی تحریک کے امیدوار کے حق میں دستبردار کروانے کا اعلان کیا ، اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری سابق چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری ودیگر قائدین نے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سےملاقات میں نگر الیکشن میںاسلامی تحریک کے مقابل سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی آفر دی تھی اور ساتھ ہی پرکشش مراعات سمیت آئندہ قومی انتخابات میں ملک بھر میں سیاسی اتحاد کا عندیہ بھی دیا تھا ، جبکہ اسلامی تحریک پاکستان (شیعہ علماءکونسل )کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی ہدایت پر علامہ عارف حسین واحدی نے بھی علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سےگذشتہ ہفتے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات میں ایم ڈبلیوایم کے امیدوارکی اسلامی تحریک کے حق میں دستبرداری کی اپیل کی تھی جس پر علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مقامی تنظیمی عہدیداران کو اعتماد میں لینے کاوقت مانگا جبکہ دو رو ز قبل اسلامی تحریک کا صوبائی سطح کا وفد سابق وزیر پانی وبجلی دیدار علی کی سربراہی میں وحدت ہائوس گلگت تشریف لایا اور ایم ڈبلیوایم گلگت بلتستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ آغاسید علی رضوی سے ملاقات میں باضابطہ طور پر نگر انتخاب میں اپنے امیدوار کی حمایت کی اپیل کی اور بعد ازاں پی پی پی کی تمام تر آفرزکو ٹھکراتے ہوئے ایم ڈبلیوایم نے اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا ، یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ایم ڈبلیوایم اور اس کی مرکزی قیادت جہاں وطن عزیز میں اتحاد بین المسلمین کے لئے ہمہ وقت کوشاں نظر آتی ہے اتحاد بین المومنین کیلئے بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ، اس سے قبل سولجر بازار کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی ایم ڈبلیوایم نے اپنے دو نامزد اور ایک آزاد امیدوار کو اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار علی رضا لالجی کے حق میں دستبردار کروائے تھے۔
وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسدعباس نقوی نے اپنے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پرشیڈول فور کی آڑ میں بلاجواز گرفتار ایم ڈبلیوایم گلگت بلتستان کے سابق صوبائی سیکریٹری جنرل اور جید عالم دین علامہ شیخ نیئر عباس مصطفویٰ کی مقامی اسپتال میں عیادت کی اور ان کی جلد رہائی اور مکمل صحت یابی کی دعاکی، اس موقع پر اسدعباس نقوی کا کہنا تھاکہ گلگت بلتستان حکومت علمائے کرام کو پابند سلاسل کرکے ملت جعفریہ کے جذبات کو مجروح کررہی ہے، علامہ شیخ نیئرعباس کا قصورفقط موجودہ حکمرانوں کے مکروہ چہروں سے نقاب نوچنا اور عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔
اسدنقوی نے کہاکہ گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے ایم ڈبلیوایم کے قائدین اور کارکنان کے خلاف جاری ریاستی جبر واستبداد کا جلد خاتمہ ناہوا تو مجلس وحدت مسلمین پہلے قانونی جنگ لڑے گی اور انصاف نا ملنے کی صورت میں پر امن عوامی احتجاج کا راستہ اختیار کرے گی۔اس موقع پر ایم ڈبلیوایم صوبہ پنجاب کے سیکریٹری امور سیاسیات سید حسن کاظمی ، مرکزی معاون سیکریٹری امور سیاسیات محسن شہریاراور مرکزی پولیٹیکل سیل کے کورآڈینیٹر آصف رضا ایڈووکیٹ بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) پیغمبر اکرم ؐ کے بہت سارے معجزات نقل ہوئے ہیں جیسے آپ کے سر مبارک پر بادل کا سایہ کرنا،آپ کے دست مبارک پر کنکریوں کا تسبیح کہنا غزوہ تبوک سے واپسی پر آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا پھوٹنا اور بہت سارے اصحاب کا سیراب ہونا،چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا اور واقعہ معراج وغیرہ۔ان تمام معجزوں میں سے قرآن کریم پیغمبر اکرم کا اہم ترین معجزہ ہے۔خداوند متعال نے ان لوگوں کے سوال کے جواب میں جو کہتے تھے کہ پیغمبر اکرم ّ کیوں معجزہ نہیں رکھتے ،قرآن مجید کو پیغمبر اکرم ّ کا معجزہ قرار دیا ۔{اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کہ آخر ان پر پروردگار کی طرف سے آیت کیوں نہیں نازل ہوتی ہیں تو آپ کہ دیجئے کہ آیات سب اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر عذاب الہی سے ڈرانے والاہوں ۔کیا ان کے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میں رحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاد دہانی کا سامان موجود ہے ۔
اعجاز قرآن کی خصوصیات
زمان بعثت کے رایج فنون کے مطابق :
انبیاء الہی کے معجزات غالبا اسی عصر کے فنون اور علوم کے ساتھ ہماہنگ تھے ۔دانشمند ان ان معجزات کے مطالعے کے بعد ان کے خارق العادہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔جیسے حضرت موسی[ع] کے زمانے میں جادو بہت عروج پر تھا اس لئے آپ جادو سے مشابہ ایک معجزہ لے کر آئے اور جب ساحران فرعون نے عصا کو سانپ ہوتے دیکھ لیا تو اس عمل کو خارق العادہ قرار دیے اوراسی وقت حضرت موسی ؑ پر ایمان لےآئے ۔{ اور ہم نے موسی کواشارہ کیا کہ اب تم بھی اپنا عصا ڈال دو وہ ان کے تمام جادو کے سانپوں کو نگل جائے گا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اوران کاکاروبار باطل ہوااور سب مغلوب و ذلیل ہو کر واپس چلے گئے اور جادوگر سب کے سب سجدے میں گرپڑے ۔]
حضرت عیسی ؑکے زمانےمیں شام اور فلسطین میں طب یونان رایج تھا اور اس زمانےکے معالج مختلف بیماروں کےعلاج کےذریعے سے لوگوں کو حیران کرتے تھے اور لوگ اس پر تعجب کرتے تھے اس زمانے میں حضرت عیسی [ع]نےمردوں کو زندہ کر کے اور ناقابل علاج مریضوں کا معالجہ کر کےثابت کر دیا کہ ان کا رابطہ کسی ماورائی طبیعت سے ہے ۔پیغمبر اکرم ّ کے زمانےمیں فصاحت و بلاغت اپنےعروج پر تھیں اور اعراب شعر و شاعری میں مشہور تھے اور کوئی بھی ان کےفصاحت و بلاغت کے معیارتک نہیں پہنچ پاتاتھا ۔اس زمانے میں خدا وند متعال نےقرآن کریم کو فصاحت و بلاغت کے بالاترین مرتبے کے ساتھ نازل کیا تاکہ کوئی قرآن کےمعجز ہ ہونے کےبارےمیں شک نہ کرے ۔
ابن سکیت اس بارے میں امام رضا ٰ {ع} سے نقل کرتا ہے[میں نےان سےپوچھا کہ خدا وند متعال نےکیوں حضرت موسی ؑکو عصاو ید بیضا اور جادو ختم کرنے والا معجزہ اور حضرت عیسی ؑکو طبابت اور حضرت محمد ّکو قرآن و کلام الہی کے ساتھ بھیج دیا ؟آپ نے فرمایا :جب خدا وند متعال نے حضرت موسی ؑکو مبعوث کیا تو اس زمانے میں معاشرے میں سحر و جادو کا غلبہ تھا اس وقت حضرت موسی ؑ آئے اور سحر و جادو کو ختم کر دیا اور لوگوں پر اس طرح حجت تمام کی اور حضرت عیسیؑ کو اس زمانےمیں مبعوث کیا کہ فالج کی بیماری زیادہ ہو چکی تھی اور لوگ اسی بیماری کے علاج کی طرف محتاج تھے اس لئے حضرت عیسی [ع] اپنےپروردگار کی طرف سےایسی بےمثال چیز لےکر آئےاور وہ خد اکی اجازت سے مردوں کو زندہ کرتے ،نابیناوں کو بینائی دیتے اور جذام جیسی سخت بیماری سےنجات دیتے ۔انہوں نےاس طرح لوگوں پر حجت تمام کی اور حضرت محمد ّ کو ایسے زمانےمیں مبعوث کیا کہ خطابت او رشاعری زیادہ رایج ہو چکی تھیں اس وقت حضرت محمد ّ خدا کی طرف سے ایسے دستورات اور نصایح لے کر آئے کہ اعراب کی خطابت و شاعری کو ختم کر کے رکھ دیا اور اس طرح آپ نے لوگوں پر حجت تمام کی۔میں نےعرض کیا خدا کی قسم کسی کو بھی آپ کی طرح نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
جاودانگی :
اسلام آخری دین آسمانی اور پیغمبر اسلام آخری پیغمبر ّ ہیں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے [محمد تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہیں لیکن وہ رسول خدا اورخاتم الرسل ہیں اور خداوند متعال تما م چیزوں کا علم رکھتا ہے ] قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے رسالت پیغمبر برھان و دلیل ہے ۔امام رضا[ع]قرآن کریم کی جاودانگی کے بارے میں فرماتے ہیں :قرآن کریم کسی خاص زمانے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہےبلکہ یہ تمام انسانوں پر حجت و برہان ہے ،باطل کے لئےاس میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ خدا وند کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔اس حدیث شریف میں جاودانگی قرآن کے راز کو دو نکات میں خلاصہ کیا گیا ہے۔پہلا: یہ کہ قرآن خداوند متعال کی طرف سے نازل ہوا ہے اور باطل کی اس تک رسائی ممکن نہیں اور یہ ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے۔دوسرا:انسان ہمیشہ دین آسمانی کی طرف محتاج ہے اور دین اسلام آخری دین آسمانی ہے اس لئے کسی پائیدار معجزے کی ضرورت ہے۔
اعجاز بیانی یا لفظی قرآن کریم
اعجاز قرآن کی ایک صورت اعجاز لفظی و بیانی قرآن ہے اور یہ اعجاز متکلمین و مفسرین کے درمیان بہت مشہور ہے عرب صدر اسلام میں فصاحت و بلاغت میں بہت مہارت رکھتے تھے اور اعجاز لفظی و بیانی قرآن کو صحیح طریقے سے تشخیص دے سکتے تھےلیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چائیے کہ تنہااعجاز لفظی و بیانی معجزہ ٴ قر آن نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام تمام لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔{اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں ] اسی طرح قرآن کریم بھی ایک آسمانی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لئے نازل ہوئی ہے ۔[۔۔اور میری طرف سے اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کےذریعے میں تمھیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے ،سب کو ڈراوں ۔۔۔۔۔۔۔]اسی لئے قرآن مجید مختلف جہات سے معجزہ ہے تاکہ تمام لوگ اعجاز قرآن سےفائدہ لے سکیں ۔
انس و جن کے لئے قران نے جو چیلنج کیا ہے اس سے بھی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اگر اعجاز قرآن صرف لفظی اور بیانی ہو تو تحدی قرآن عرب کے فصحاء و بلغاء کے ساتھ مختص ہو جاتا ہےاور دوسرے لوگوں کے لئے قرآن کا چیلنج بے معنی ہو کررہ جاتا ۔۱۲ اکثر مفسرین و متکلمین قرآن مجید کو از لحاظ الفاظ و معانی معجزہ قرار دیتے ہیں ۔
فصحای عرب کے اعترافات :
فصحای عرب میں سے ایک گروہ کا نام جو اعجاز قرآن کے معترف تھا تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے ۔ان میں سے بعض افراداعجاز قرآن کی شناخت کے بعد پیغمبر اکرم ّ پر ایمان لے آئےلیکن بعض افراد نے اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اعجاز قرآن سے انکار کیا ۔
ولید بن مغیرہ جو بزرگان عرب میں سےتھا اور شعراء اپنے اشعار کو اس کے سامنے پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ وہ بہترین اشعار کا انتخاب کرے۔ایک دن اس نے پیغمبر اکرم ّ سے قرآن پڑھنے کی درخواست کی ۔پیغمبر اکرم ّ نے سورۃ فصلت کی تلاوت فرمائی اور جب تیرھویں آیت پر پہنچے تو ولید لرزنے لگا اور اپنے گھر کی طرف گیا اور دوبارہ قریش کی طرف نہیں آیا ۔قریش جب اس موضوع سے آگاہ ہوا تو ابوجہل کو یہ خبر دی کہ ولید بن مغیرہ دین محمد ؐکے گرویدہ ہو چکاہے ۔ابو جہل اس کے پاس گیا اور اس کی سرزنش کی ۔ولید نے کہا میں دین اسلام کا گرویدہ نہیں ہو چکا ہوں بلکہ ایسا کلام سن چکاہوں جو انسان کو لرزاتا ہے۔ابوجہل پوچھتا ہے یہ کلام شعر تھا یا خطابت ؟ولید کہتا ہے نہ شعر تھا اور نہ خطابت چونکہ میں اشعار اور خطابت کی پہچان رکھتا ہوں۔ابوجہل کہتا ہے پس کیا کرے ؟ ولید نے کہا مجھے کل تک مہلت دو تاکہ اچھےطریقے سے اس کے بارے میں سوچ سکوں ۔ایک دن بعد اس نے قریش سے کہا کہ قرآن جادو ہے ۔لہذا خداوند متعال نے سورہ مدثر کی گیارویں آیت سے اکتیسوں آیت تک اس بارے میں نازل کی ہے ۔
ہشام بن حکم کہتا ہے : حج کے ایام میں ابن ابی العوجاء،ابوشاکر دیصانی ،عبد الملک بصری اور ابن مقفع خانہ کعبہ کےاطراف میں جمع ہو گئے اور حجاج کی توہین اور قرآن کو لعن و طعن کرنے لگے ۔ان میں سے ہر ایک نے ارادہ کیا کہ ایک چوتھائی قرآن کا مقابلہ کرے اور آیندہ سال حج کے ایام میں وہ کلام پیش کرے۔اور جب حج کا موسم شروع ہو ا توابن ابی العوجا ء کہتاہے: میں اسی وقت اس آیت کے بارے میں سوچنے لگا [اور جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہو گئے تو الگ جا کر مشورہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔}لیکن اس آیت کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ کوئی چیز بھی اضافہ نہ کر سکا اور اسی آیت نے مجھے دوسری آیتوں کے بارے میں سوچنےسے روک دیا ۔
عبد الملک کہتاہے :میں اس آیت کے بارےمیں سوچنے لگا[انسان تمہارے لئے ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے لہذا اسے غور سے سنو ۔یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سےچھڑا بھی نہیں سکتے کہ طالب و مطلوب دونوں بہت ہی کمزور ہیں ۔]
ابو شاکر کہتا ہے : میں اسی زمانےمیں اس آیت کے بارےمیں فکر کرنے لگا[یاد رکھو اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور کوئی خدا ہوتا توزمین و آسمان دونوں برباد ہو جاتے عرش کامالک پروردگار ان کی باتوں سےبالکل پاک و پاکیزہ ہے ۔]
ابن مقفع کہتاہے :اے دوستو: یہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا،میں بھی اس آیت کے بارے میں سوچتے سوچتے رہ گیا[اورقدرت کا حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اوراے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اورآواز آئی کہ ہلاکت قوم ظالمین کے لئے ہے ۔]۲۴ لیکن اس کی حقیقی شناخت نہ ہو سکی اور اس طرح کے کلام پیش کرنے سے عاجز آگیا ۔ہشام کہتاہے جب امام صادق[ع]ان کے پاس سے گزرے اور آپ نےاس آیت کی تلاوت کی[آپ کہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی طرح کوئی کلام لےآئیں تو کبھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کےمددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ بن جائیں۔]وہ لوگ تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اورکہنےلگے کہ اگراسلام حقیقت ہے توصرف جعفر ابن محمد ہی محمد ؐ کا حقیقی جانشین ہو سکتاہے ،خدا کی قسم ہر گز ان لوگوں کو نہیں دیکھامگر سب ان کی ہیبت سے لرزنےلگے اوراپنی ناتوانی کا اعتراف کرتے ہوئے پراگندہ ہو گئے۔
اعجاز قرآن بہ لحاظ محتوی ومعارف:
اعجاز قرآن کریم کا ایک جہت محتوی و معارف قرآن ہے ۔بہت سارےمتکلمین اور مفسرین نے اس جہت کی تصریح کی ہے۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے محتوی و معارف قرآن کریم کی جہت کو اہم ترین وجہ قرار دی ہے ۔
خداوند متعال قرآن کریم کی اس طرح توصیف کرتا ہے:[اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے ۔ یعنی قرآن کریم ہدایت ہے اور تمام حقایق اور معارف کو جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہیں بیان کرتا ہے ۔قرآن کریم منکرین رسالت کے بارے میں فرماتاہے ۔[تو آپ کہ دیجئے کہ اچھا تم پرودرگار کی طرف سے کوئی کتاب لے آو ٴجو دونوں سے زیادہ صحیح ہو اور میں اس کا اتباع کر لوں اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔]یہ آیت قرآن کریم کے محتوی اور معارف کے ذریعے سے چیلنج کرتی ہے نہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے سے ،کیونکہ ہدایت میں جو چیز نقش رکھتی ہے وہ محتوی ومعارف قرآن ہے ۔
تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1. عنکبوت ،50،51۔ترجمہ علامہ ذیشان جوادی ۔
2. اعراف،۱۱۷،۱۲۰۔
3. ابوبکر باقلانی ،الانصاف ص۶۱۔ابوالحسن ماودی ،اعلام النبوۃ،ص۱۳۶۔عبد الرازاق لاہیجی،گوہر مراد،ص۳۸۵۔
4. محمد بن یعقوب کلینی ،اصول کافی ،ج۱،کتاب العقل و الجھل ،ج۲۰
5. احزاب ،۴۰۔
6. ابو القاسم خوئی ،البیان ،ص ۵۴۔البوا لحسن ماوردی،اعلام النبوۃ۔
7. الامام رضا،مسند، ج۱ کتاب التفسیر،باب فضل القرآن ،ص ۳۰۹،ح ۱۳۔
8. عبد اللہ جواد آملی،علی بن موسی الرضا و القران الکریم ،ص۱۲،۱۳۔
9. روح اللہ خمینی ،تبیان آثار موضوعی ،ص ۶۱۔
10. سباء،۲۸۔
11. انعام ،۱۹۔
12. محمد حسین طباطبائی ۔المیزان ،ج۱۰،ص ۱۶۳،ج۱،ص۵۸۔
13. یوسف،۸۰
14. حج،۷۳۔
15. انبیاء،۲۲۔
16. ہود،۴۴۔
17. اسراء،۸۸۔
18. احمد بن علی طبرسی،الاحتجاج ،ج۲،ص ۱۴۲۔
19. محسن فیض کاشانی ،علم القین ،ج۱،ص۴۸۶۔
20. نمل،۸۹۔
21. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۲،ص۳۲۴۔
22. قصص،۴۹۔
23. عبد اللہ جواد آملی،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج۱،ص۱۳۸۔ابوالحسن شعرانی ،شرح تجرید،ص۵۰۱۔
24. ہود،۴۹،یوسف۱۰۲،آل عمران۴۴۔
25. بقرۃ،۷۶۔
26. آل عمران،۷۲۔
27. قصص،۸۵۔
28. محمد باقر مجلسی ،حیوۃالقلوب،ج۲،ص۱۵۹۔
29. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۶،ص۸۶،۸۸۔
30. روم،۲،۴۔
31. ابوا لقاسم خوئی ،البیان ،ص۸۳۔محمد حسین طباطبائی ،المیزان،ج۱،ص۶۵۔