وحدت نیوز(اسلام آباد) وحدت یوتھ پاکستان کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری وفا عباس نقوی نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں کہا کہ وحدت یوتھ کے کارکنان امسال یوم القدس کے موقع پر منعقد ہونے والی ریلیوں کے انتظامی امور سرانجام دیں گے ۔وفا نقوی نے کارکنان کو بتایا کہ عالمی یوم القدس امسال ہر سال کی طرح 27رمضان المبارک کو پاکستان میں بھی منایا جائے گا جس میں ہزاروں مسلمان مظلوم فلسطینوں کی حمایت کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کریں گے ۔وفا نقوی کا کہنا تھا کہ یوم القدس مظلومین کی حمایت اور ظالمین کی مخالفت کا دن ہے وقت کی ضرورت ہے اس دن کو پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے منایاجائے۔وحدت یوتھ ملک بھر میں منعقد ہونے والی ریلیوں کے انتظامی امور اور سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک زمانے کی بات ہے ،کسی جگہ ایک بہرارہا کرتا تھا۔ وہ اپنے ہمسائیوں اور رشتے داروں سے میل جول رکھنا چاہتا تھا مگر اُسے سنائی نہیں دیتا تھاتو اس لیے اس کوہر وقت ڈر لگا رہتا تھا کہ کہی لوگ اُس کا مذاق نہ اڑائیں، اِسی وجہ اُس نے لوگوں سے میل جول کم کردیا تھا اوراپنا زیادہ تر وقت گھر پررہ کر ہی گزارتا تھا ۔ ایک دن اِس کا ہمسایدار بیمار ہوا جب اس کو ہمسائے کی بیماری کاعلم ہوا تو سوچنے لگا کی آخر میں اس کا ہمسایہ ہوں اور میرا فرض بنتا ہے کہ میں اُس کی عیادت کو جاؤں، مگر اُسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہی ایسا نہ ہو میں اُس کی خبر کو جاؤ اوروہ کچھ پوچھے میں کچھ جواب دوں اور وہ ناراض ہوجائے بلکہ کہی مجھے دیوانہ تصور نہ کر بیٹھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے چند سوالات و جوابات تیار کئے جو ایک بیمارسے عیادت کے وقت پوچھے جاسکتے تھے پھر اس نے تین سوالات اوران کی متوقع جوابات فائنل کئے۔۱۔آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ یقیناًوہ جواب دے گا الحمد اللہ، یا بولے گا خدا کا شکر حالت بہتر ہے، تو میں جواب میں کہوں گا، خدا کا شکر۔ ۲۔آپ کھانے پینے میں پرہیز تو کر رہے ہیں ؟ تووہ جواب دیگا جیساکہ ہر مریض ایسا جواب دیتا ہے ، میں سوپ وغیرہ پی رہا ہوں۔ تو میں کہوں گا واہ واہ ماشااللہ مریض کے لئے یہ غذا بہترین ہے۔۳۔ آخری سوال یہ کروں گا کہ ڈاکٹر کون ہے کس ڈاکٹر سے آپ نے چیک اپ کرایا ہے؟ تو یقیناًوہ ایک ڈاکٹر کا نام لے گا اور میں فورا اس کو جواب دوں گا ہاں ہاں وہ بہت اچھا ڈاکٹر ہے خدا آپ کو جلد شفا دے ، یہ کہہ کر میں واپس آجاؤں گا اس طرح ہمسائے کو میرے سوالات و جوابات سے کوئی دل آزاری بھی نہیں ہوگی اور اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کی میں بہرہ ہوں۔
بحر حال بہرے نے کئی دفعہ ان سوالات و جوابات کو دہرایا اور خوب تمرین کرنے کے بعد ہمسائے کی عیادت کو پہنچا ۔ سلام کے بعد پہلا سوال کر ڈالا۔ ۱۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ مریض نے نحیف آواز میں جواب دیا آج حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے درد سے مر رہا ہوں۔بہرے نے سوچا اس نے بولا ہوگا" الحمداللہ، حالت بہتر ہے" لہذا بہرے نے خوشی سے مریض کو جواب دیا خدا کا شکر! مریض نے جب اس کا جواب سنا تو کافی ناراض ہوا مگر اپنی ناراضگی پر قابو رکھا۔ اتنے میں بہرے نے اپنے بنائے گئے منصوبے کے تحت دوسرا سوال کیا۔۲۔آپ کھانے میں کیا لے رہے ہیں؟؟مریض جو کہ اُس کے جواب سے کافی ناراض تھا فورا کہا" زہر "کھا رہا ہوں !! بہرے نے فورا جواب دیا واہ! واہ! کیا لذیذ غذا ہے کھاؤ میرے دوست کھاؤ ۔ مریض نے جواب سنا تو دل چاہا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر نکال دے ۔۔ بہرے نے آخری سوال کر ڈالا آپ کا طبیب کون ہے کس ڈاکٹر کو دیکھا یا ہے آپ نے؟ مریض نے دانت پیستے ہوئے جواب دیا" عزرائیل !!" بہرے نے مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی ادب سے جواب دیا اس ڈاکٹر کو تو میں جانتا ہوں بہت ہی اچھا ڈاکٹر ہے جس بیمار کے گھر داخل ہوتا ہے بیماری کا کام تمام کر کے ہی نکلتا ہے۔ یہ کہہ کر بہرہ بہت مطمین تھا کہ اُس نے کسی پریشانی اور مشکل کے بغیر انتہائی خوش اسلوبی سے سوالات پوچھے اور جوابات دیئے ہیں لہذا جلدی سے خدا حافظ کر کے رخصت ہوا، مریض مجبوری اور غصے میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
ہمارے حکمران اور عوام کے درمیان بھی کچھ ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے حکومت چشم اورکان سالم رکھتے ہوئے اندھے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں۔ ان کا اندھا اور بہرہ پن ایک خاص زمانے میں شروع ہوتا ہے ۔الیکشن جیتنے کے بعد سے اگلے الیکشن کی تیاریوں تک یہ بلکل عوام کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتے ہیں جیسے اوپر قصے میں بہرے نے مریض کے ساتھ کیا، عوام مہنگائی،غربت ، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کی بات کرتے ہیں ، وہ پاناما اور سوئز اکاؤنٹس بھر نے کی بات کرتے ہیں پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہمیں غریب عوام کی مشکالات کا بخوبی اندازہ ہے اسی لئے عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت عوام میں ہماری مقبولیت کو کم نہیں کر سکتی، پھر چپکے سے عوام سے کہتے ہیں رونا نہیں ورنہ شیر آئے گا تو دوسرا کہتا ہے کھپے کھپے کھپے۔
ماہ مبارک رمضان میں ۴۵ سے ۵۰ سنٹی گریڈ رجہ حرارت کی گرمی میں جب روزہ دار افطاری کی خاطرکچھ خریدنے کے لئے بازار کا روخ کرتے ہیں تومہنگائی کی وجہ سے اکثر کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے ، اُوپر سے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے افطاری و سحری کے ٹائم پر عوام دس منٹ سکون سے سحری و افطاری نہیں کرسکتے ۔
آخر80 ء کی دہائی کے بعد سے ہمارے ملک کو کیا ہوگیاہے؟ ہم کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف آرہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے چڑھائی چڑھتے ہوئے گاڑی کا بریک فیل ہوگیا ہو۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس دور جدید میں کم از کم بجلی کی شارٹ فال کو پورا کریں، کم از کم غریب عوام کا پنکھا تو چل جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ ختم ہی نہیں ہوتی؟ پانچ سال، پھر پانچ سال، پھر پانچ سال گزر گئے نعرے نعرے ہی رہ گئے مگر ابھی تک مہنگائی اور لودشیڈنگ میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔کیا پاکستان میں وسائل کی کمی ہے؟ نہیں جناب ایسا کچھ نہیں ہے بس صرف ایک مخلص اور درد دل رکھنے والے کی کمی ہے۔80 ء کی دہائی تک ہمارے بجلی کا نظام تقریبابرابر تھا، نوئے کی دہائی میں انڈسٹریل سیکٹرز کی بڑھتی تعداداور آبادی میں اضافے کے باعث ہم بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکے ، تب سے آج تک اس میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا گیا ۔وطن عزیز پر خداوند عالم کا خاص کرم ہے، ہمارے ملک میں ہر نعمت پروردیگار موجود ہے، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا، جنگل،قدرتی ذخائر، بہترین آرمی، ایٹمی قوت، زہن نوجوانان غرض ہر چیز موجود ہے، نہیں ہے تو صرف ان چیزوں کا درک کرنے والا نہیں ہے اور اگر کوئی محب ہے تو اس کے پاس وسائل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کی پیداوار کے پانچ زرائع ہیں، پانی، تھرمل ( تیل، قدرتی گیس، کوئلہ) ، ہوا، سورج اور ایٹمی توانائی اور الحمد اللہ ان سب سے مملکت پاکستان مالا مال ہے۔ہمارے صحرائے تھرمیں کوئلے کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوچکا ہے ماہرین کے مطابق اس ذخیرے میں 175 ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کوئلے کے ذریعے تین سو برس تک ہر سال ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنانا ممکن ہے، ہمارے کوئلے کا ذخیرہ توانائی کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران میں ذخائر تیل کے برابر ہے۔بس ہمارے پاس ذخیرہ نہیں ہے تو صرف مخلص حکمران اور افرادکا نہیں ہے۔
اب ایک نظر اگر ہم ہمارے دشمن ملک ہندستان پرڈالیں تو وہ بھی سخت بجلی کی قلت کا شکار تھا عوام آئے روز سڑکوں پر ہوتے تھے لوڈشیڈنگ کا عذاب یہاں سے زیادہ تھا ۔ مگراسی سال فروری ، مارچ میں بھارت نے 5798 میگاواٹ فاضل بجلی بنگلہ دیش ، نیپال اور میانمار کو بیچی ہے اور 2022 تک 175 گیگاواٹ بجلی قابل تجدید توانائی کے ذریع حاصل کرنے کا عظم رکھتا ہے، جس کے جواب میں ہمارے حکمران اگر اگلے الیکشن میں جیت گئے تو پھرلوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ، ایک موٹر وے یا میٹرو بنانے کا عزم رکھتے ہیں ساتھ ہی دس نئے اکاؤنٹس کھولنے پر پکا ایمان بھی ۔
آخر ہم ملک و عوام کو ان درپیش مسائل سے کیسے نجات دلائیں؟میری نظر میں اس کا واحد راہ حل عوام میں اتفاق ہے ہم پارٹی بازی چھوڑ کر پاکستانی بن کر کم سے کم ہمارے مشترکہ مفادات میں یک جان ہوجائیں تو پھر یہ مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہمارے اکثر پڑھے لکھے نوجوان اپنی علمی قابلیت کو بروئے کار لانے کے بجائے پھر وہی پورانے رسومات کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسومات کو توڑیں اور حق و باطل ، ظالم و مظلوم کا فرق تلاش کریں۔یقین جانے جس دن ہم نے پاکستانی بن کر اپنے مشترکہ مفادات میں عوامی اتحاد دیکھا دیا تو پھر یہ حکمران طبقہ ایک چھوٹی غلطی پر بھی اپنا استعفیٰ تھماکر گھروں کو لوٹ جایا کریں گے،پھرہمارے مسائل حل کر نے کے لئے ڈی چوک پر دو دو تین تین مہنے پڑاؤ ڈالنا نہیں پڑے گا ، یہ عوام کے کچھ بولنے سے پہلے ان کی آواز کو سنیں گے اُس وقت واقعی میں عوام پر عوام کی حکمرانی ہوگی اور ہمارے سارے مسائل حل ہونگے۔ لیکن اگر عوام جلد بیدار نہ ہوئے تو یہ حکمران پھر سے ہم پر مسلط ہو جائیں گے اور ہم اس مریض کی طرح دانت پیستے رہ جائیں گے۔
تحریر۔۔ناصر رینگچن
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کربلاٰ میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں بیس سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم داعش عالمی امن کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔اس کا وجود نا صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔مسلمانوں کی بربادی پر تماش بین کا کردار ادا کرنے والوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دہشت گردی کی اس آگ کو اگر ٹھنڈا نہ کیا گیا تو کل یہ کسی کے بھی دامن سے لپٹ سکتی ہے۔ نظریاتی اختلاف رکھنے والے مسلم ممالک کو داعش کی حالیہ کاروائیوں پر مطمئن ہونے کی بجائے امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔دہشت گردی کا تدارک دور عصر کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔داعش امریکہ اور اسرائیل کی بنائی ہوئی تنظیم ہے جس نے ماضی میں انبیاکرام اور صحابہ کرام کی قبروں کو مسمار کر کے ان کے اجساد مبارک کی توہین کی ہے۔داعش اپنے آقاؤں کے حکم پردین کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے چہر ے کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان ،ایران ،عراق سمیت پورے عالم اسلام میں داعش کی وحشیانہ کاروائیاں امریکی واسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا اور اسلام کو بدنام کرنا ہے۔پاکستان میں چینی باشندوں کا قتل اور کربلا میں خودکش دھماکے کا حالیہ واقعہ داعش کی مذموم کاروائی اور صیہونی سازش ہے۔مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو نشانہ بنانا داعش کے اہداف میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ کربلامیں دہشت گردی کا حالیہ واقعہ افسوسناک ہے۔اس طرح کے واقعات سے لوگوں کو خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔داعش اور اس کی فکری و مالی معاونت کرنے والوں کا بھی محاسبہ کرنا ہو گا چاہے وہ جس روپ اور جس ملک میں ہوں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلوچستان کے علاقے کوئٹہ سے اغوا کئے جانے والے دو چینی شہریوں کی ہلاکت کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چین کی حکومت سے تعزیت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پاک چائنا اقتصادی راہدری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے اور تعلقات خراب کرنے کی سازش ہیں۔بھارت اور امریکہ سمیت بعض خلیجی ممالک اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں کیونکہ یہ وطن عزیز کی ترقی ا ور معاشی استحکام کی کلید ہے۔ مذکورہ ممالک بلوچستان اور سی پیک کی گزر گاہوں میں اس طرح کی سنگین کاروائیاں کر کے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس حقیقت کا درک نہیں کہ پاک چائنا تعلقات ناقابل شکن ہیں۔انہوں نے کہا کہ چینی باشندوں کے قتل کی اطلاع افسوسناک ہے۔اس واقعہ میں داعش اور بلوچستان کی کالعدم مذہبی جماعتیں ملوث ہیں۔ان جماعتوں کے خلاف بھرپور کاروائی ازحد ضروری ہے۔مستونگ میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے داعش کے اہم ٹھکانے کو نشانہ بنایا جانا حوصلہ افزا ہے۔دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے کاروائیاں تیزکرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مذموم عناصر کو سنبھلنے کا موقعہ نہ مل سکے۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اور سیکریٹری تربیت علامہ اعجاز حسین بہشتی نے جامع مسجد کچورا میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے تہران حملے پر نہایت دکھ کا اظہار کرتے کیا اور کوئٹہ، کراچی میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کی پرزور الفاظ میں مذمت کی،فضیلت ماہ مبارک رمضان پر گفتگو کرنے کے بعد علامہ اعجاز حسین بہشتی کاسیاسی پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے کہنا تھاکہ، سعودی اتحاد اور دورہ ٹرمپ کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں. آل یہود و آل سعود نے عالم اسلام میں ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا ہے ان کا مقصد اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے تاکہ مسلمان آپس میں دست و گریباں رہیں۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ دورہ ٹرمپ میں سعودی اتحاد کا مقصد اور اس میں پاکستان کی حیثیت کا پول کھولنے کے بعد حکومت کو کسی طرح بھی اس یک طرفہ اور فرقہ ورانہ اتحاد میں بیٹھنے کا حق نہیں۔ اگر حکومت کو عوام کی امنگوں کا خیال ہے تو فوری اس اتحاد سے الگ ہو جائیں اور مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے جنرل (ر) راحیل شریف کو واپس بلائیں۔سعودی عرب نے امریکہ و اسرائیل کی پشت پناہی میں دنیا بھر میں خصوصا مشرق وسطی و پاکستان میں داعش، آئی ایس، طالبان اور تکفیری نظریہ کی مدد کر کے جو مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں پاک افواج کی طرف سے مستونگ میں داعش کے خلاف کامیاب آپریشن قابل تعریف ہے، تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عوام پاک فوج کے ساتھ ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ملک بھر سے ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا جائے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اتحاد میں شامل تکفیری شیعہ سنی کو آپس میں لڑانے میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے آج واضح نہیں ہورہا کہ کون دشت گردی کے خلاف اور کون حق میں ہے ، موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ضروری ہے کہ تمام عالم اسلام بالخصوص تمام شیعہ سنی پاکستانی عوام مل کر اس سال عظیم الشان یوم القدس منائیں اور قبلہ اول پر حملہ قابض اسرائیل اور اس کے حواریوں سے اظہار بیزاری کریں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام علمائے کرام، ملی تنظیمات اور صحافی برادری کے اعزاز میں مقامی ہال میں منعقدہ دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر سربراہ جعفریہ الائنس علامہ عباس کمیلی،علامہ فرقان حیدر عابدی، علامہ مرزایوسف حسین،سلمان مجتبیٰ ، شبر رضا، آئی ایس او، مرکزی تنظیم عزا ،پیام ولایت فاونڈیشن،امامیہ آرگنائزیشن، ہیت آئمہ مساجد وعلمائے امامیہ کے رہنماوں سمیت ماتمی انجمنوں کے نمائندگان سمیت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بڑی تعدا دمیں شرکت کی۔
افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ملک اورریاستی اداروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے ۔آج وطن کے دشمن سی پیک سمیت ملک کی ترقی کے منصوبوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور چائینیز شہریوں کو مار رہے ہیں داعش دروازوں پر دستک دے رہی ہے نام نہاد 41ملکی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کے جسم تو ایک ساتھ ہیں لیکن دل ایک دوسرے کےمخالف ہیں، ممالک اصل میں امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کو اپس میں لڑانا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل کو کمزور ہونے سے بچایا جائے ہمارے حکمران نااہل ہیں کوئی ہماری آواز کو نہیں دبا سکتا ،اس اتحاد کا حصہ بننا خیانت ہے ،حکمران واضح کریں کہ وہ قبلہ اول پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ ہیں یا اسے آزاد کرانےکی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی استعماری قوتوں کے پلان کے مطابق مشرق وسطیٰ میں تیس سالہ پلاننگ کی غرض سے دہشت گردی اور افراتفری کو رواج دیا جارہا ہے،عالمی استعماری قوتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ نے ایک منظم سازش کے تحت اس وقت اسلامی مقاومت اور تکفیریت کے درمیان جاری اس فیصلہ کن جنگ کو شیعہ سنی کا نام دیا ہوا ہے ، جن کے نذیک داعش ، القائدہ، جیش العدم اور دیگر دہشت گرد جماعتیں سنی ہیں اور کا مقابلہ شیعوں سے ہے، ایک فکر جھوٹ اور مکر پر مبنی ہے ، تکفیری دہشت گرد وہابی سلفی آئڈیالوجی سے تعلق رکھتے ہیںنا کہ سنی صوفی، دانشمندی کا تضاضہ یہ ہے کہ پاکستان خود کو مشرق وسطیٰ میں لگی آگ سے دور رکھے، یمن، عراق اور شام سے بلند ہونے والے شعلےکسی بھی نہیں بخشیں گے،امریکی کی طاقت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے ، اندرونی طور پر کمزور امریکہ کے سامنے سویت یونین کی تقسیم کے بعد سب سے بڑا خطرہ مکتب تشیع ہے جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا، مشرق وسطیٰ کے شیعہ نشین ملکوں اور پاکستان میں اہل تشیع شہریوں پر رواں مظالم ایک ہی سازش کی کڑی ہیں ۔
انہوںنے مزید کہاکہ عراق ، شام، یمن میں دہشت گردی کے خلاف ریڈ لائنز ڈراہیں لیکن افسوس پاکستان اور افغانستان آج تک اپنے ریڈ لائنز ڈرا نہیں کرسکے،آج ہم عجیب گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں ، نہیں معلوم ہماری ریاست کے کس ادارےمیں کون شخص دہشت گردوںکا حامی ہے اور کون مخالف، پورے پاکستان میں اہل تشیعوکے اوپر ریاستی دبائو اور پریشر برقرار ہے ، ہمارے جوانوں اور علماءکو اٹھا نا انہیں کورٹس میں پیش نا کرنا،انہیں جیلوں میں ڈالنا،یہاں تک کے ہمارے اہل سنت بھائی جو خود بھی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں انہیں بھی ریاستی جبر وتشدد کا سامنا ہے،پاکستان میں شیعہ اور سنی محب وطن عوام کو کمزور کرکے تکفیریوں کو سپورٹ کیا جارہا ہے، ریاست ایک ماں کی مانند ہوتی ہے ، لیکن ہمارےگمشدہ جوانوں اور علماءکے اہل خانہ اس ماں کی تلاش میں جس کی شفقت کے یہ مشلاشی ہیں ، جنہوں نےاس ملک میں قاتل اور دہشت گرد پالے ان سب کا احتساب ہونا چاہئے، ملک کو درپیش سنگین بحرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تبدیلوں کی ضرورت ہے ۔
جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کا عمل جاری ہے ، پاکستان، ایران، عراق ، افغانستان، برطانیہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں ، یہ مسلمانوں کا اتحاد نہیں اس لیے اس اتحاد میں ڈراڑیں پڑھ چکی ہے سعودی عرب میں دہشت گردی کرائی جارہی ہے تاکہ الزام کسی اور پر لگایا جائے ان کا کہنا تھا کہ دنیا سمجھ چکی ہے کہ اہل تشیع دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہیں ان کا کہنا تھا کہ آج کا یہ لبر ل کیپٹل ازم پر مبنی نظام دنیا کو تباہی کی طرف لیجا رہا ہے تاکہ اسلام کا خاتمہ کیا جاسکے۔