وحدت نیوز (تہران) مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران اور اردو اسپیکنگ اسٹوڈنٹس یونین تہران کے اشتراک سے قدس سیمینار باعنوان (امام خمینی رہ احیاءگر مسئلہ قدس) کا انعقاد اور دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا،سیمینار سے مجمع جھانی اہلبیت علیہم السلام کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری اور مشہور دانشور و مفکر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے خطاب کیا. سیمینارکے آغاز پر اپنی تعارفی گفتگو میں مجلس وحدت مسلمین شعبہ تہران اور اردو اسپیکنگ اسٹوڈنٹس یونین تہران کے مسوؤل سید ابن حسن نے سمینار کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ نے اس وقت مسلہ فلسطین پر آواز اٹھائی جب تمام عرب ممالک بلکہ امت مسلمہ غاصب اسرائیل کے ساتھ سازباز کی ٹھان چکی تھی. انہوں نے کہا صیہونیوں کے عشروں پر محیط ظلم و ستم اور فلسطینیوں کی سرزمینوں پر صیہونیوں کے قبضے کے علاوہ فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک نے اس مسئلے کو امت اسلامیہ کے بقیہ مسائل سے ممتاز کر دیا ہے۔
سمینار کے پہلے مقرر معروف دانشور اور مفکر ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے کہا امت اسلامیہ کے قلب میں اس سرطانی غدے کی تشکیل کے پیچھے دشمن کی عرصہ دراز کی منصوبہ بندی کارفرما تھی. انہوں نے کہا اس غاصب ریاست کی تشکیل سے دشمن عالم اسلام کے اس اہم اور معدنیات سے مالا مال خطے پر تسلط چاہتا تھا اور اس کے لیے دشمن نے تمام عرب ممالک و سربراہوں کو تقریبا رضامند کر لیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں لیکن حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ نے مسئلہ فلسطین کو علاقائی مسئلے سے نکال کر ایک عالمی مسلہ بنا دیا جس سے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھر گیا. سمینار کے آخری مقرر آیت اللہ محمد حسن اختری نے فرمایا امام خمینی علیہ الرحمہ نہ فقط انقلاب اسلامی کے بعد بلکہ اس سے کہیں پہلے اس مسئلے کی اہمیت کی طرف متوجہ تھے اور انہوں نے نجف اشرف میں قیام کے دوران امت اسلامیہ کو اسرائیل کے خطرے سے مطلع کردیا تھا.
انہوں نے کہا دشمن کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ مسئلہ فلسطین کو عرب اسرائیل مسئلہ بنا کر بقیہ عالم اسلام کو اس مسئلے سے لاتعلق کردیا جائے لیکن امام خمینی علیہ الرحمہ نے اپنے اقدامات سے اس مسئلے کو ایک عالمی مسئلہ بنا دیا. انہوں نے کہا انقلاب کے بعد تہران میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کی عمارت کو فلسطینی حکومت کو دینا اور فلسطینی سفیر کو یہاں قبول کرنا گویا فلسطین کے اندر ایک اسلامی حکومت کو رسمیت دینے کے مترادف تھا اور یوں اسلامی دنیا کے اکثر ممالک امام کے اس اقدام کے بعد فلسطینی حکومت کے لیے ایک ریاستی حیثیت کے قائل ہو گئے. آیت اللہ اختری نے کہا جمعہ الوداع کو یوم القدس قرار دینا گویا اس مسلے کو امت اسلامیہ کے مقدسات و وظائف سے جوڑ دینا تھا کہ جو امام خمینی علیہ الرحمہ انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد اعلان کیا. انہوں نے کہا اسرائیل کی ثبات کے لیے عرب دنیا میں سے اس وقت کی چار عرب طاقتوں کی تایید کی ضرورت تھی, ان کے بقول انور سادات اور ملک حسین نے یہ تایید کردی تھی. فلسطین کے وجود کے خاتمے کے لیے اب صرف شام اور لبنان کی تایید چاہیے تھی, انہوں نے کہا دشمن نے اس امر کے لیے ہر طرح کی کوشش کی لیکن سب کے باوجود ایران کے شام اور لبنان میں اثرورسوخ کی وجہ سے شام اور لبنان نے اس منصوبے کی تایید نہ کی لذا صیہونیوں کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا۔
انہوں نے کہا اسرائیل کے شکست ناپذیرہونے کے افسانے کو امام خمینی کے فرزندوں نے امام کے تفکر سے فیض لیتے ہوئے امام خمینی علیہ الرحمہ کی عملی مدد سے لبنان میں مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھ کر توڑ دیا. ان کے بقول امام کے حکم اور تایید اور حمایت سے فلسطین میں بھی مزاحمتی تحریکیں چلیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناقابل تسخیر تصور کیا جانے والا اسرائیل اور صرف چند دن میں کئی عرب ممالک کے علاقوں پر قابض ہوجانے والا اسرائیل غزہ کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہاں تک کہ گریٹر اسرائیل کا نعرہ لگانے والا اسرائیل اب اپنے گرد باڑ لگانے پر مجبور ہے.سمینار میں تہران کی جامعات کے اردو اسپیکنگ طلاب کے علاوہ تہران میں مقیم اردو زبان کمیونٹی کے احباب نے شرکت کی. چند ایک افریقی, افغانی اور تیونسی طلاب جامعات نیز سمینار میں شریک ہوئے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی جانب سے سکھر ، کراچی (نیورضویہ سوسائٹی اور اورنگی ٹاؤن ) اور لاہور میں شہر کی جامع مساجد میں اعتکاف کی محافل منعقدکی گئیں جس میں خواہران کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔اعتکاف کی ان مقدس محافل میں کئی ایک علماء کرام اور اسکالرز نے خطاب کیا اور متعفکین کو اعتکاف کی فضلیت اور برکات کےمتعلق آگاہ کیا ۔ اعتکاف کی ان محافل میں دعائوں ، مجالس عزاء اور تلاوت قرآن کریم کے جلسات بھی منعقد کیے گئے ۔ اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے کے ہیں۔ لیکن شرعی محاورے میں دنیا کے تمام تر کاروبار و مصروفیات کو ترک کرکے عبادت الٰہی کی نیت اور رضائے الٰہی کے حصول کے جذبے کے تحت مسجد میں ٹھہر کر عبادت ‘ ذکر و اذکار‘ تلاوت قرآن مجیداور درس وتدریس کی محافل وغیرہ میں مشغول رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔حالت اعتکاف میں کثرت سے نوافل کی ادائی اور تلاوت‘ دعا‘ ذکر و تسبیح و تہلیل درود شریف وغیرہ کے ذریعے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔
اسی طرح مسجد میں قرآن وسیرت اہلبیت ؑ کادرس دینا اور وعظ و نصیحت کرنا بھی جائز و مستحسن عمل ہے۔ کیوں کہ یہ ذرائع عقائد و اعمال کی اصلاح میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے۔ رحمت کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، مفہوم: ’’ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں کوشاں ہو اور اس مقصد میں کام یاب ہو جائے تو (یہ عمل) دس سال کے اعتکاف سے اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس بندے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کی دوری کر دیتا ہے جن میں سے ہر خندق کی چوڑائی زمین و آسمان کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہے ۔‘‘چوں کہ ماہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس ماہ مقدس میں اللہ رب العالمین کی رحمتیں اور بخششیں اپنے بندوں کے لیے دیگر ایام کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہوتی ہیں اور خالق کائنات اپنے گناہ گار بندوں کو جو اپنی شامت اعمال کی بدولت اللہ کے غضب اور جہنم کے مستحق ٹھہر چکے ہوتے ہیں۔
مالک کائنات اس ماہ مبارک میں انہیں اصلاح کا موقع عطا فرما دیتا ہے تاکہ اس کے بندے سارا سال کیے گئے گناہوں اور نافرمانیوں پر شرمندہ ہوکر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اور اپنی جبین نیاز کو خم کرکے اپنے خالق حقیقی سے توبہ و استغفار کرلیں۔ اوریوں وہ مہربان پروردگار اپنی مخلوق کو جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری فرما دیتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی تمام تر عبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اعتکاف بھی رمضان المبارک میں انجام پانے والے ایسے ہی پاکیزہ اعمال میں سے ایک ہے۔معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا‘ جاگنا یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے۔ لیکن حالت اعتکاف میں‘ جہاں تک ممکن ہو سکے اپنےپروردگار کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جہاں معتکف محض اعتکاف کے اجر و ثواب میں دو حج دو عمرے کا ثواب ملتا ہے جو وہ حالت اعتکاف میں یک سوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ تاہم ان خوش نصیب لوگوں کو اعتکاف کی برکت سے شب قدر کی فیوض و برکات سے بھی مستفید ہونے کا سنہری موقع مل جاتا ہے، جس کی ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ لہٰذا دوران اعتکاف لایعنی باتوں اور مشاغل سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔حسب سابق امسال بھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی خواہران نے ماہ مبارک رمضان المبارک کے بابرکت ایام سے فیضیاب ہونے کے لئے سکھر ، کراچی (نیورضویہ ، اورنگی ) اور لاہور میں خواہران کے لئے اعتکاف کی محافل منعقد کیں جن میں مجلس سے وابستہ خواہران کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ان محافل میں دعا ،تلاوت قرآن کریم ۔ مجالس عزاء کے علاوہ خواہران کی روحانی اور معنوی تربیت کے لئے تربیتی دروس کا بھی اہتما م کیا گیا تھا ۔جسے اعتکاف میں شریک خواہران نے بہت سراہا اور شعبہ خواتین کی جانب سے اس عزم کا اعادہ کیا گیاکہ ہر سال شعبہ خواتین ،خواہران کے لئے اعتکاف کی محافل برگزار کرے گا ان شاء اللہ۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب ڈاکٹر سید افتخار نقوی نے الیکشن 2018 کے حوالے سےاپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ کارکنان انتخابات کے لیے بھرپور تیاری کریں ، اس مرتبہ ہمارا مقابلہ تکفیریت اور کرپٹ مافیا سے ہے۔ جبکہ ہمارا ہدف اسمبلیوں میں اہل اور دیندار لوگوں کو پہنچانا ہے جن کا ماضی بے داغ ہو اور جو اپنی ملت کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور درد دل رکھتے ہوں۔ انہوں نے کہا 2018 کا الیکشن پاکستانی عوام کے لیے بہت اہم اور تاریخ ساز الیکشن ہے۔ ہمیں اس الیکشن میں پوری قوت سے میدان میں اتر کر پوری دنیا پر ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں شعیان علی کمزور نہیں بلکہ مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر افتخار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ کارنان تیار رہیں ان انتخابات میں وحدت کا خیمہ پاکستان میں امن و استحکام کا خیمہ ثابت ہو گااور مجلس وحدت مسلمین پاکستان حیران کن نتائج سے ملت کے دل جیتے گی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) اسلامی ممالک کو اپنے تنازعات مذاکرات سے حل کرنا ہوں گے،مسلم ممالک کا اتحاد دنیا میں امن اور ترقی کی ضامن ہے، ان خیالات کا اظہا ر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں اسلامی ممالک کے سفیروں اور سیاسی شخصیات کے اعزار میں دیئے گئے افطار ڈنرکے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا.انہوں نے کہاکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک عالمی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں اوردنیا کی ترقی میں اسلامی ممالک کا کردار بہت اہم ہے ۔اگر اسلامی ممالک کمزور ہوتے ہیں اور ان میں اتحاد نہیں ہوتا تو دنیا میں امن کا قیام مشکل ہے ۔مجلس وحدت مسلمین کی خواہش رکھتی ہے کہ تما م اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد ہو ۔اور اسلامی دنیا سے غربت دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو لیکن بد قسمتی سے آج اسلامی دنیا مختلف چیلنجز کا شکار ہے مودی کی حکومت کشمیری عوام پر ظلم کررہی ہے ۔اسی طرح فلسطین روہنگیا کے مسلمان پر بھی ظلم ہو رہا ہے دنیا میں امن کے لئے ہم سب کو متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔مسلم ممالک کاآپس کے معاملات کے حل کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پریشان کن ہے ۔ تنازعات کا حل صرف اور صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے ۔جنوبی ایشاء کی معاشی حوالے سے اہم خطہ ہے ۔امید ہے کہ شنگھائی کانفرنس خطے میں سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ اقدامات پر توجہ کرئے گی ۔ سی پیک سے پاکستان اور چائینہ دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہونگے ۔کچھ قوتیں سی پیک کوثبوتاژ کرنے کے لئے درپے ہیں ۔ایشائی ممالک کی ترقی اور امن کے لئے پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے میں یقین رکھتا ہو ں کہ اس خطے کے تمام مسائل کے حل کے لئے باہر کی قوتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔تمام معاملات افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنا وقت کی اہم ضروت ہے ۔
وحدت نیوز(سکھر) تحریک آزادی القدس سکھر کی جانب سے 23 رمضان المبارک جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے موقع پر سکھر شہرمیں مرکزی آزادی قبلہ اول ریلی جامع حیدری مسجد پرانہ سکھر سے پریس کلب سکھر تک کا انعقاد کیا گیا۔ آزادی القدس ریلی میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت شھریون نے بڑی تعداد مین شرکت کی۔ شرکائے ریلی نے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم سمیت فلسطینی پرچم اور آزادی القدس کے پرچم ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جبکہ پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر امریکہ مردہ باد، اسرائیل و ہندستان مخالف نعرے درج تھے، مرکزی آزادی القدس ریلی میں بچوں کے خصوصی دستے تیار کئے گئے تھے جنہوں نے سروں پر سرخ پٹیاں باندھ رکھی تھیں جن پر یا قدس ہم آ رہے ہیں کے نعرے آویزاں تھے۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین، آئی ایس او، اےایس او، پیام ولایت فائونڈیشن، شیعہ ایکشن کمیٹی، شیعہ رابطہ کائونسل کے رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے آزادی بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا اور اسرائیل و امریکہ جیسے شیطانوں اورظالموں سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں نے فلک شگاف نعرے لگائے اور جلد بیت المقدس کی آذادی کی دعا کی گئی اور آخر میں امریکی اسرائیلی و بھارتی پرچموں اور تابوتوںکو بھی نذر آتش کیا گیا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا، یہ بھی ایک موسمی مسئلہ بن گیا ہے، ظالموں کے خلاف کوئی صرف یوم القدس کے موسم میں بولتا ہے ،کوئی فقط محرم الحرام میں جوش میں آتا ہے اور کسی کی جب خود پٹائی ہوتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ ظالموں کے خلاف بھی بولنا چاہیے۔
آج کل جس کو دیکھیں وہی مظلوم بنا ہوا ہے، کوئی مری سیر کے لئے جاتا ہے تو اس کی وہاں در گت بنائی جاتی ہے ، کسی کو ائیرپورٹ پر پکڑ کر پھینٹی لگائی جاتی ہے، کسی کو راستے سے اغوا کرلیا جاتا ہے، لیکن بولتا ہر کوئی نہیں، بولتا صرف وہ ہے جسے مار پڑتی ہے ورنہ اکثر ہوں ہاں پر ہی گزارہ کیا جاتا ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں سیاسی مسائل اتنے اہم ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے لوگوں کے جان و مال اور امن و سکون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
کسی بھی شخص کی پٹائی ہونے پر اگر شور پڑ جائے تو پٹائی کرنے والے سب مل کر باجماعت معافی مانگنے کا اعلان کرتے ہیں، اور پھر اگلے روز وہی کچھ دوبارہ ہونے لگتاہے۔ جیسا کہ مری کے مسئلے پر ہوا، سب نے باجماعت عوام سے معافی مانگی، ٹوریسٹ حضرات کو پھول پیش کئے اور ابھی تک ایجنٹ مافیا اور گراں فروشی اسی طرح ہے۔
اپ پٹائی کرنے کا دائرہ کار عام لوگوں سےبڑھتا ہوا صحافیوں تک پہنچ گیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی بہانے کہیں نہ کہیں پر کسی نہ کسی صحافی کی پٹائی کی جاتی ہے اور اگر صحافی زیادہ ہی نڈر ہو تو ذیشان اشرف بٹ کی طرح اسے موت کی منہ میں بھی دھکیل دیا جاتا ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح انسانی زندگی کے لئے آکسیجن ضروری ہے اسی طرح انسانی سماج کی زندگی کے لئے آزادی رائے اہم ہے۔ اگر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوگی تو معاشرتی اقدار مٹ جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آزادی اظہار کو سمجھا ہی نہیں گیا ، بعض لوگ تو اس حد تک جری ہیں کہ وہ لوگوں کے پرسنل اور ذاتی معاملات کی بھی ویڈیوز بنا کر فیس بک اور وٹس اپ پر شئیرکر دیتےہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا اور بعض افراد کسی معاملے پر کسی صحافی کو بھی بولنے یا رپورٹنگ نہیں کرنے دیتے۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق دسمبر 2017 میں الیکٹرانک میڈیا کے آٹھ صحافیوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کیا گیا ، ان سب کا تعلق سندھ سے تھا۔ مختلف چینل کے چار کیمرا مینوں کو سکھر میں 9 دسمبر کو پولیس نے تشدد کا نشانہ اس وقت بنایا جب وہ ایک پولیس اہلکار کو شراب پیتے ہوئے ریکارڈنگ کر رہے تھے۔
ایک علاقائی صحافی نے کراچی پریس کلب کے سربراہ کو اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے کہا: ”کیمرا مین پولیس والے کی ویڈیو بنا رہا تھا جب اس پر باقی پولیس والوں نے ڈنڈوں سے دھاوا بول دیا۔” زخمی ہونے والوں میں جیو نیوز کے اسامہ طلعت، جنگ اخبار کے فوٹوگرافر سلمان انصاری اور قذافی شاہ شامل تھے۔[1]
24 دسمبر ۲۰۱۷ کو ایکسپریس نیوز کے ارشد بیگ کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کراچی کے سٹی کورٹ سے فرار ہونے والے ملزم کی وہ فوٹیج بنا رہا تھا۔ مقامی وکلاء کا ماننا ہے کہ ارشد سے اس کا موبائل چھین لیا گیا اور اسے بار کے کمرے میں ایک گھنٹے کے لیے بند کر دیا گیا۔ ارشد کو اس وقت رہا کیا گیا جب باقی صحافیوں نے مداخلت کی۔
29 دسمبر ۲۰۱۷ کو جاگ ٹی وی کے رپورٹر پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اقتصادی معاملات کے مشیر مفتی اسمعیل کی پریس کانفرنس کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ کارکنان نے چینل پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کی آمد کے بعد معاملہ حل کر دیا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے انور رضا نے صحافیوں پر 4 دسمبر کے روز اس وقت تشدد کیا جب وہ کراچی میں ناجائز شادی ہال کے تباہ ہونے کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں انور رضا پر کے ڈی اے کے افسران سمیت دنیا نیوز نے ایف آی آر درج کروا دیں۔
22 دسمبر کو ملتان میں جیو نیوز کے کرائم رپورٹر عمران چودھری کے مکان کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ لاہور پریس کلب کے سربراہ کو فون کر کے اطلاع کرنے پر عمران نے بتایا کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے اور نا ہی اسے کسی گروہ کی طرف سے کوئی دھمکی موصول ہوئی تھی۔
23 دسمبر کو ایکسپریس نیوز کے نعیم اصغر کو حزب التحریر تنظیم کی طرف سے دھمکی آمیز خط موصول ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں موجود نیشنل پریس کلب سیفٹی ہب کے سربراہ کو اطلاع دیتے ہوئے نعیم نے بتایا کہ دھمکی ملنے کے بعد ہی انہوں نے پولیس سے مدد مانگ لی تھی۔ پولیس کے اصرار کے باوجود نعیم نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ یاد رہے کہ حزب التحریر ایک بین القوامی اسلامی تنظیم ہے جو پاکستان کو ایک اسلامی خلافت بنانا چاہتی ہے۔
ستمبر ۲۰۱۷ میں ایک سینئر صحافی مطیع اللہ جان پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر جاتے ہوئے اسلام آبا دکے علاقے بارہ کہو میں حملہ کیا گیا۔ صحافیوں پر حملوں کے سلسلے میں اہم پہلو یہ ہے کہ ان پر صرف اس وقت حملہ کیا جاتا ہے جب وہ یا تو اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اپنے گھر میں موجود ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہراساں کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ حملوں میں تقریبا ایک جیسا انداز اختیار کیا جاتا ہے اور حملےکے لئے ایک جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں۔
ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق یکم مئی 2017 سے یکم اپریل 2018 کے واقعات میں سب سے زیاد ہدف بننے والا میڈیم ٹی وی رہا جس کیساتھ منسلک صحافیوں کیخلاف 85 واقعات ریکارڈ ہوئے، صحافیوں کیلئے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ،فاٹامیں آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔
اسی طرح جون ۲۰۱۸ میں ہی پاکستان میں تین مختلف مقامات پر تین مختلف واقعات پیش آئے جن میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور صحافی گل بخاری اپنے دفتر جاتے ہوئے راستے سے اغوا کر لی گئیں، تاہم بعد ازاں انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا، دوسری طرف جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے گھر کے آس پاس عسکریت پسند جمع ہوتے رہے یعنی وہ گھر کے اندر ہی محبوس کر دئیے گئے اور ادھر پنجاب میں صحافی اسد کھرل کو “نامعلوم افراد” نے لاہور ائیر پورٹ پر تشدد کا نشانہ بناکر چلے گئے۔
مندرجہ بالا حقائق میڈیا میں جابجا موجود ہیں اور مختلف سائٹس پر دیکھےجا سکتے ہیں۔ ملک میں گھٹن کا یہ ماحول کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ۔ میڈیا ہاوسز کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ صحافیوں کے مسائل کو کوریج دیں اور ان پر ہونے والے حملوں کے بارے میں غیرجانبدارانہ تحقیات کر کے قانونی اداروں کی مدد کریں۔
اگر میڈیا کی طرف سے ہی اس ظلم ستم پر چپ سادھی جائے گی تو یہ سلسلہ آگے چل کر ایک بند گلی کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور فرقہ وارانہ و علاقائی دہشت گردی کی طرح صحافیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی روز مرہ کا معمول بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے اگر پاکستان میں صحافت کا شعبہ مجروح ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر انسانی حقوق اور جمہوری و سرکاری اداروں پر پڑے گا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.