وحدت نیوز(اسلام آباد)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے عید سعید الفطر کے پرمسرت موقع پر امت مسلمہ خصوصاًاہل وطن کو اپنی اور ایم ڈبلیوایم کی جانب سے دلی مبارکباد پیش کی ہے، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری ایک تہنیتی پیغام میں انہوں نے کہاکہ عید الفطر ماہ مبارک رمضان میں قرب الہٰی حاصل کرنے والے پر انکے پروردگار کی جانب سے عظیم نعمت اور بہترین تحفہ ہے ، جس طرح مسلمان ماہ صیام میں اپنی عبادات اورہر انفرادی عمل میں خوشنودی خداوندی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے بلکل اسی طرح روز عید بھی رضائے الہٰی کو مطمع نظر رکھنا چاہئے، ہمیں چاہئے کے اپنے ارد گرد معاشرے میں موجود محروموں اور مظلوموں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کی بھرپور کوشش کریں، انہوں نے کہاکہ مملکت خدادادپاکستان کا وجود بھی ماہ مبارک رمضان اور عید سعید الفطر کی مانند امت مسلمہ کیلئے کسی نعمت الہیٰ سے کم نہیں ، ہمیں اس نعمت عظمیٰ کی قدر دانی کرنی چاہئے ، افسوس کے ہمارے بعض نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے اس مادر وطن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز کا تقاضہ ہے کہ تمام پاکستانی امن واخوت وبھائی چارے کے ساتھ اپنی دھرتی کی ترقی وخوشحالی کیلئے آمدہ انتخابات میں اپنا موثر کردار ادا کریںاور اہل، قابل اور وطن دوست قیادت کا انتخاب عمل میں لائیں  ۔

 انہو ں نے عید الفطر کے بابرکت موقع پر وطن عزیز کی سلامتی واستحکام کی خصوصی دعا کی،انہوں نے کہاکہ خدا وند متعالی کی بارگاہ میں دعاہے کہ وہ ہمارے شھداء کے درجات بلند فرمائے اور ہمارے مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ہم سب کو چاہئےکہ اپنی دعاؤں میں لاپتہ افراداور ان کے اہل خانہ کو ضرور یاد رکھیں ،اس دعا کے ساتھ کہ اے رب کریم ہمارے امام عصر عج کے ظہور میں تعجیل فرما ،ہمارے رھبر روحی لہ الفدا اور ان کے ساتھیوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھ،ہمارے مراجع کرام کی حفاظت فرما ،نائجیریا،یمن سرزمین حجاز،بحرین،مقبوضہ فلسطین سے لیکر کشمیر تک مظلوموں کی نصرت فرما ،امریکہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو ذلت آمیز شکست سے دو چار فرما۔


واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری عید الفطر اسلام آباد میں منائیں گے وہ اپنے آبائی گھر شکریال کی جامع مسجد میں نماز عید ادا کریں گے اور پارٹی ورکرز سے عید ملیں گے، جبکہ ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی عید الفطر کی نماز کراچی میں ادا کریں گے،مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی سرگودھا،مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی فیصل آباد جبکہ صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی لاہور میں نماز عید الفطر ادا کریں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)  قرآن تمام مذاہب اسلامی کا مشترکہ منبع ہے جو سب کے نزدیک قابل قبول اور قابل احترام ہے ۔شیعہ امامیہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کو پہلا اور اہم ترین منبع سمجھتا ہے جو عقائد ،معارف اور احکام کا سر چشمہ ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{ان الله تبارک و تعالی انزل فی القرآن تبیان کل شی حتی والله ، ماترک الله شیاءً یحتاج الیہ العباد حتی لا یستطیع عبد یقول لو کان هذا انزل فی القرآن ، الا و قد انزلہ الله فیہ}1۔اللہ تعالی نے ہر شےٴ کو قرآن کریم میں بیان کیاہے اور جس چیز کے بندے محتاج تھے ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا ۔کوئی یہ  کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ یہ چیز بھی قرآن کریم میں نازل کی جاتی ، آگاہ ہو کہ خدا نے قرآن کریم میں اس کو ضرور نازل کیا ہے۔ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں:{ما من امر یختلف فیہ اثنان الا و لہ اصل فی کتاب الله عزوجل ، و لکن لا تبلغہ عقول الرجال}2 ۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں دو آدمی اختلاف کریں اور اس کےبارےمیں قرآن میں حکم نہ ہو لیکن لوگوں کی عقلیں ان تک نہیں پہنچتیں ۔لہذا قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ایک توانمند مفسر کی ضرورت ہے جو حقائق قرآن کو جانتا ہو ۔

آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ احادیث کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہو اور اگر کوئی حدیث قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو وہ مردود ہے ۔جیسا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {ما وافق کتاب الله فخذوہ و ما خالف کتاب الله فدعوہ}3۔جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اسے لے لو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں :{ما لم یوافق من الحدیث القرآن فہو زخرف}4۔جو حدیث قرآن کریم کے موافق نہ ہو وہ باطل ہے ۔
کتب آسمانی میں دو طرح کی تحریف ممکن ہے ایک تحریف لفظی اور دوسرا تحریف معنوی ۔تحریف لفظی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں میں کمی و بیشی کرنا ہے جبکہ تحریف معنوی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں کی غلط تفسیر و تاویل کرنا جسے اصطلاح میں تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں اضافہ نہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو خدا وندمتعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا۔

شیعہ امامیہ کے بزرگ علماء، متکلمین،مفسرین اور فقہاء ۵نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قدیم زمانے سے آج تک قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ ہونے کی وضاحت کی ہے ان میں سے مندرجہ ذیل شخصیتوں کانام لیا جاسکتا ہے ۔  جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضی ،شیخ طوسی ، امین الاسلام طبرسی ، علامہ حلی،محقق کرکی، شیخ بہائی ، ملا محسن فیض کاشانی ،شیخ جعفر کاشف الغطا،شیخ محمدحسین کاشف الغطا،علامہ سید محسن امین ، شرف الدین عاملی ،علامہ امینی ، علامہ طباطبائی،امام خمینی اور آیت اللہ خوئی وغیرہ نے قرآن کریم کے تحریف سے محفوط ہونے{ اعم از کمی وبیشی}کی تصریح کی ہے ۔

شیخ صدوق اپنی کتاب اعتقادات میں تحریر فرماتے ہیں :ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو ہماری طرف یہ منسوب کرتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ والےقرآن کو مانتے ہیں وہ جھوٹا ہے ۔6۔امام خمینی ؒاس بارے میں لکھتے ہیں : جو بھی قرآن کریم کی حفظ ،قرائت ،کتابت اور نگہداری کے بارے میں مسلمانوں کی خصوصی توجہ اور اہتمام سے آشنا ہو وہ تحریف کے غلط خیال سے آگاہ ہو سکتا ہےکیونکہ جن روایتوں سے قرآن کریم کے تحریف ہونے کو ثابت کیا جاتاہے یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استد لال نہیں کیا جا سکتا یا  یہ جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مل بھی جائے تو وہ قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر میں تحریف ہونے کو بیان کرتی ہے نہ کہ تحریف لفظی کو ۔7۔ امام خمینی کی عبارت میں دو چیزوں پر خصوصی توجہ ہوئی ہے ،ایک یہ کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے اوردوسرا  تحریف قرآن کے قائلین کے لئےجواب یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم کی حفاظت میں خصوصی اہتمام کرتے تھےیہاں تک کہ عصر خلفاء میں جمع و تدوین قرآن کے وقت جب عمر بن خطاب نے کسی آیت کو آیت رجم کے نام سے پیش کیا تو مسلمانوں نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ کسی نے بھی اس کی تائید نہیں کی 8۔ تحریف قرآن  کے منکرین ہمیشہ اسی بات پر توجہ دلاتے رہے  جیسا کہ سید مرتضی  تحریرفرماتے ہیں :{ان العنایۃ اشتدت والدواعی توفرت علی نقلہ وحراستہ ..فکیف یجوز ان یکون مغیرا او منقوصا مع العنایۃ الصادقۃو الضبط الشدید}9۔مسلمان قرآن کریم کو نقل کرنے اور اس کی حفاظت میں خاص توجہ رکھتےتھے پس یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر شدیدمحبت اورسخت حفاظت کے ساتھ قرآن میں کمی وبیشی ہو ۔

 یہاں عدم تحریف قرآن کے بارے میں کچھ دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہو جائے جبکہ خداوند متعال نے خود اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے :{ إِنَّانحَنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَإِنَّا لہُ لحَافِظُون}10۔ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
2 ۔خداوند متعال نے قرآن کریم میں ہر قسم کے باطل کے داخل ہونے کی تردید کی ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لَّایاْتِيہِ الْبَاطِلُ مِن بَين يَدَيْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفہ تَنزِيلٌ مِّنْ حَکِيمٍ حَمِيد}11۔اس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم وحمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔ خداوند متعال نےقرآن مجید میں جس باطل کے داخل ہونے کی تردیدکی ہے اس کا مطلب اس قسم کا باطل ہے جو قرآن کی توہین کا باعث بنے چونکہ قرآن کے الفاظ میں کمی و بیشی کرنا اس کی بے احترامی و توہین ہے لہذا اس مقدس کتاب میں ہر گز کسی قسم کی کمی یازیادتی واقع نہیں ہوتی ہے ۔
3۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیم اوراس کو حفظ کرنے میں انتہائی دلچسپی دکھاتے تھے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عربوں کے درمیان ایسے قوی حافظ موجود تھے جو صرف ایک بار طولانی خطبہ سننے کے بعد اسے یاد کر لیتے تھے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے قاریوں کے ہوتے ہوئے قرآن مجید  میں کسی قسم کی تحریف ہوئی ہو ۔
4۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام چند مسائل میں خلفاء سے اختلاف نظر رکھتے تھے اور اپنی مخالفت کو مختلف مواقع پر منطقی طور سے ظاہر بھی کرتے تھے جس کا ایک نمونہ خطبہ شقشقیہ اور ان کے دفاعیات ہیں ۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ اسلام نے
اپنی پوری زندگی میں ایک حرف بھی تحریف قرآن کے بارے میں نہیں فرمایا ہے اگر نعوذاباللہ قرآن مجید میں تحریف ہوتی تو آپ علیہ السلام کسی بھی صورت خاموش نہ رہتے اس کے بر عکس آپ علیہ السلام ہر وقت قرآن میں تدبر کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔12۔
تحریف قرآن کے قائلین کچھ حدیثوں سے استدلال کرتےہیں جو ظاہراً ان کے نظریہ پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا جواب یہ ہے کہ
 اولا:یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
ثانیا:یہ احادیث جعلی یا گھڑی ہوئی ہیں ۔
ثالثا :اگر کوئی صحیح حدیث بھی ہوتو وہ قابل توجیہ و تاویل ہے کیونکہ یہ تحریف معنوی کو بیان کرتی ہیں ۔اس حقیقت کوجو شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے اہل سنت محققین نے بھی بیان کیا ہے ۔اور وہ مذہب شیعہ کو تحریف قرآن جیسے اتہامات سے مبراء اور منزاء سمجھتے ہیں ۔ شیخ رحمت اللہ ہندی اپنی اہم کتاب اظہار الحق میں تحریر کرتے ہیں :علماء شیعہ کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ ہے اور جو لوگ قرآن کریم میں کمی کا نظریہ رکھتے ہیں اس کو وہ غلط سمجھتے ہیں۔13۔
شیخ محمد مدنی لکھتےہیں :شیعہ قرآن کریم کی آیات یا کسی سورے میں کمی ہونے کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس طرح کی روایتیں ان کی احادیث کی کتابوں میں اسی طرح ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں ہیں لیکن شیعہ و سنی محققین ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور جو بھی سیوطی کی اتقان کا مطالعہ کرے اسے اس طرح کی روایات ملیں گے جن کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔شیعوں  کے نامور علماء قرآن مجید کے تحریف سے مربوط روایات کو باطل اورغلط سمجھتے ہیں ۔14۔
بنابرین اگر کوئی ان روایتوں کے مطابق تحریف قرآن کے قائل ہوں تو ان کی باتوں کو ان کے  مذہب کے عقیدے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے ۔وہابی  اورتکفیری گروہ ہمیشہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دیتے ہیں اور ہمیشہ انہیں باتوں کے ذریعےعام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ لوگ قرآن کریم کے عدم تحریف پر موجودشیعہ علماء کے صریح اقوال سے چشم پوشی کرتے ہوئے انصاف کے راستے سےخارج ہو کر دشمنی کے راستے کو طے کرتے ہیں۔15۔

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

 

حوالہ جات:
1۔صول کافی ،ج1، باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 1۔
2۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 6 ،ص60۔
3۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ۔
4۔صول کافی ،ج1، باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ،حدیث 4۔
5۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی، ص204۔
6۔الاعتقادات فی دین الامامیہ،ص 59۔
7۔تہذیب الاصول ،ج2،ص 165۔
8۔سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ،ج1 ،ص 244۔
9۔جمع البیان،ص15۔
10۔حجر۔ 9
11۔فصلت :42
12۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی ،ص 207 – 208۔
13۔الفصول المہمۃ،ص 175۔
14۔صیانۃ القرآن من التحریف ،ص84۔مجلہ رسالۃ الاسلام کے نقل کے مطابق ،چاپ قاہرۃ ،شمارہ 44۔ ص 382۔
15۔ مراجعہ کریں: المیزان فی تفسیر القرآن ،ج12 ،ص 114۔ البیان فی تفسیر القرآن، ص 197 – 235۔آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن ،ص 17 – 29۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) رات کا وقت تھا، محل میں مکمل سنّاٹا تھا، بادشاہ کے کمرے میں ایک وزیر بادشاہ کے ساتھ محو گفتگو تھا، اتنے میں محل کی چھت سے دھڑام کے ساتھ کوئی چیز زور سے نیچے گری اور پورے محل میں شور شرابا مچ گیا، لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنے اور چھپنے لگے، بادشاہ بھی سراسیما ہوگیا، کچھ دیر بعد شور ختم ہوگیا تو پتہ چلا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تھی بلکہ چھت سے کسی نے ایک بہت بڑا برتن نیچے پھینکا تھا۔

بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ سب لوگ ڈرے اور بھاگے لیکن تم کیوں نہیں ڈرے!؟ وزیر نے کہا جناب عالی میں نے ہی  آج رات کے اس وقت پر یہ برتن گرانےکا حکم دیا تھا، اور میرا مقصد آپ کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر انسان کو پہلے سے ہی واقعے کا پتہ ہو تو انسان وقت آنے پر گھبراتا نہیں ہے، اگرچہ برتن گرنے کی یہ آواز میرے لئے بھی خوفناک تھی لیکن چونکہ میں اس کی منصوبہ بندی سے پہلے ہی آگاہ تھا سو میں اس  کی آواز سے نہیں ڈرا۔

اس وقت پاکستان کے عوام انتخابات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کے مسائل  پاکستانی انتخابات سے  ہٹ کر بھی بہت زیادہ ہیں،خصوصا جب سے عراق میں امریکہ و سعودی عرب کی پالیسیوں کا جنازہ نکلا ہے اور شام میں داعش اور اس کے سرپرستوں  کو دندان شکن شکست ہوئی ہے تو اب امریکہ و سعودی عرب کے لئے اپنے وجود کی بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اگرچہ سعودی عرب اپنا غصہ یمن پر بمباری کر کے نکال رہا ہے لیکن اسوقت امریکہ اور سعودی عرب پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ ممالک کوآپس میں  لڑوا کر اور دہشت گرد گروپوں کے ساتھ الجھا کر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل نواز داعشیوں کی شکست نے  امریکہ و سعودی عرب کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر شام میں داعش کا مکمل صفایا ہوجاتا ہے تو امریکی و سعودی پالیسیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ چنانچہ امریکہ و سعودی عرب کے لئے اب داعش کو بچانا اور محفوظ بنانا ضروری ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی طرح داعش پر بھی شکست کی مہر ثبت ہو چکی ہے لہذا اب داعش کی جگہ دہشت گردوں کا کوئی نیا نام رکھ کر  پرانے دہشت گرد ٹولوں کو  نئے سرے سے منظم کیا جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان کی ایما پر نئے دہشت گردوں کو افغانستان کے شمال میں منظم کیا جا رہا ہے۔چونکہ اسرائیل اور ہندوستان کو دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے۔

چنانچہ وہی لوگ جو اسلام آباد کی لال مسجد میں جمع ہو کر پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے تھے اب انہیں افغانستان کے شمال میں جمع کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے سعودی عرب نے پہلی فرصت میں  80 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کی ہے۔

ہندوستان اور اسرائیل کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ عنقریب افغانستان سے نئے نام اور نئی توانائی کے ساتھ دہشت گرد گروپ پاکستان پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ان نئے دہشت گردوں کے فعال ہونے سے سعودی عرب اور امریکہ کو بھی  یہ فائدہ ہوگا کہ افغانستان سے ایران کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا اور روس اور چین کو بھی نکیل ڈالی جا سکے گی۔

ایسے میں ہماری ساری توجہ انتخابات پر مرکوز ہے جبکہ ہمارے ہمسائے میں پاکستان کے لئے  نئی منصوبہ بندی کے ساتھ نئے دشمن  ٹولےتراشے جا رہے ہیں،  یعنی اگلے چند ماہ میں عراق اور شام کے بعد دہشت گرد ٹولے پاکستان کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنائیں گے۔

افغانستان کو مزید جنگوں میں جھونکنے کے لئے جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے اور اس کی پسماندگی میں طالبان اور القائدہ و داعش کی مدد سےمزید اضافہ کیا جا رہاہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف اور یو ایس ایڈ کی طرف سے جاری شدہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق افغانستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں  2002 کے بعد پہلی مرتبہ  تیزی  سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سات سے 17 سال عمر کے 37 لاکھ یعنی تقریباً 44 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔وزیرِ تعلیم میر واعظ بالغی نے بتایا کہ سکول نہ جانے والے 37 لاکھ میں سے 27 لاکھ لڑکیاں ہیں۔

اس وقت ایک طرف تو ہم سی پیک کے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ناخواندہ اور پسماندہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف  بھرپور طریقے سے منظم کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے آنکھیں بند کر کے انتخابات ، انتخابات کی رٹ لگانے کے بجائے بدلتے ہوئے حالات اور شمالی افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی گہری نگاہ رکھیں۔اگر انسان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہو تو وہ بڑی سے بڑی مشکل کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔اگر ہم اپنے دشمنوں کی پلاننگ سے پہلے ہی باخبر ہونگے تو وقت آنے پر گھبرانے کے بجائے انہیں بہترین جواب دے پائیں گے۔

پاکستان کے خلاف امریکہ، سعودی عرب، افغانستان ، اسرائیل اور ہندوستان کیا نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، اس کو جاننے کے لئے بین الاقوامی میڈیا سے مربوط رہیے خصوصاً اس لنک پر بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل سکتا ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(گلگت) چیف سیکرٹری کا رویہ ہتک آمیز اور عوام کو بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کے ریاست کے ساتھ وفاداری اور خلوص کو روپے پیسوں میں تولا نہیں جاسکتا۔سی پیک کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھول جاتے ہیں کہ خنجراب بارڈر سے کوہستان تک سی پیک گلگت بلتستان سے گزرتا ہے پھر بھی ہم سے پوچھتے ہوکہ ہم نے تمہیں کیا دیا ہے؟

مجلس وحدت مسلمین کی رکن قانون ساز اسمبلی بی بی سلیمہ نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے رویے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے محسن ہیں جنہوں نے  28 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد کرکے پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی پاکستان چین کا ہمسایہ بنا ہے۔گلگت بلتستان کو پاکستان پر بوجھ سمجھنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ کشمیر سے سیاچن اور وانا وزیرستان تک اس خطے کے نوجوانوں نے اپنا خون دے ریاست کی حفاظت کی ہے اور پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے بیش بہا قربانیاں دیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاق 100 ارب دیکر ہم پر احسان نہ کرے پاکستان جی بی کے عوام کے احسانات کے بوجھ تلے ڈوبا ہوا ہے۔اگر جی بی کے عوام وفاق پر بوجھ ہیں تو پھر صا ف صاف بتائیںستر سالوں میں جتنی خیرات دی ہے سود سمیت لوٹادیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں جی بی کے عوام وفادار ہیں اور کسی ناعاقبت اندیش ملازم کی تضحیک سے ریاست سے اپنی وفاداری کا سودا نہیں کرینگے،حکومت جی بی کے عوام کو انصاف نہیں دے سکتی تو تضحیک بھی نہ کرے ۔صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ چیف سیکرٹری کو فوراً علاقہ بدر کرکے اس عہدے پر کسی معقول آفیسر کی تعیناتی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔

وحدت نیوز (سکردو)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے سائل کے ساتھ جو سلوک کیا وہ انتہائی شرمناک عمل اور فرائض منصبی کے برخلاف ہے۔ غریب عوام کے مسائل سن کر حل کرنے کی بجائے انہوں نے گلگت بلتستان کے غیور عوام کی توہین کی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے انہیں عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ خطے کے عوام کی پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے نابلد ہے یا وہ جان بوجھ کر خطے کا ماحو ل خراب کرنا چاہتا ہے۔ اگر وزیراعلی ٰ انہیں فوری طور علاقہ بدر نہیں کرتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے خلاف اکسانا چاہتا ہے ۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ پورا ملک گلگت بلتستان کا مقروض ہے یہا ں کے عوام نے ڈوگروں سے مار بھگاکر جی بی کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا، آدھا پاکستان یہاں کے آبی وسائل سے سیراب ہوتا ہے اور ہر مشکل وقت میں یہاں کے جری جوانوں نے سینہ سپر ہو کر پاکستان کی حفاظت کی معرکہ کرگل ہو یا دہشتگردوں کے خلاف آپریشن جی بی کے جوانوں کے خون پاکستان کے تحفظ میں صرف ہوا ہے۔ یہاں کے عوام جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اربوں روپے دیتے ہیں، یہاں کی سیاحت سے ملک کو اربوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے، سست ڈرائی پورٹ سے اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں، اس خطے کا سینہ چیر کر سی پیک جیسے منصوبہ یہاں سے گزرتا ہے اور پاکستان میں مستقبل میں بننے والے ڈیموں کے پانی بھی اسی خطے کی دین ہے لیکن یہاں کے عوام نے کبھی ان وسائل کی رائیلٹی نہیں مانگی ۔ ایسے میں چیف سیکرٹری کا رویہ نہ صرف عوام کی توہین ہے بلکہ پاکستان کے استحکام پر حملہ ہے ریاستی ادارے نوٹس لیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ گائنی ڈاکٹر کے مطالبے کو ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی قرارد دینے والا ریاست کا دشمن ہے۔ گلگت  بلتستان میں ایک عرصے سے عوام کو بہکانے اور پاکستان سے دور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں چیف سیکرٹری کا یہ عمل بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ سابقہ چیف سیکرٹری کو وزیراعلی کے ایماء پر علاقہ بدر کر کے حالیہ چیف سیکرٹری کو لانا اور آتے ہی عوام کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور عوام کو ورغلانا ممبئی حملے سے متعلق دئیے گئے شرمناک بیان سے میل کھاتا ہے۔ وزیراعلی گلگت بلتستان اپنا موقوف واضح کرے کہ چیف سیکرٹری کے بیان کو کس نگاہ دیکھتے اگر خاموش رہے تو اس بیان کا ذمہ دار وزیراعلی ہوگا۔ہم ریاستی ادروں بلخصوص ایف سی این سے جنرل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے حساس ترین علاقے کے محب وطن شہریوں کی توہین کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر چیف سیکرٹری اور ان جیسے دیگر عوام دشمن،خطہ دشمن افسران کو علاقہ بدر کیا جائے۔

وحدت نیوز (گلگت) بابر حیات جان لیں ہم تسلیم کریں توچیف سیکرٹری ورنہ تمہاری حیثیت ایک آوارہ پردیسی کے سوا کچھ نہیں۔صوبائی حکومت ہتک آمیز رویے پر چیف سیکرٹری کو فوراً علاقہ بدر کرے۔گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ توہین آمیز سلوک قطعاً برداشت نہیں کرینگے۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے چیف سیکرٹری کے رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے او رچیف سیکرٹری کو ٹیکس کے معاملے میں عوام سے بدتمیزی کرنے کا حق کس نے دیا ہے۔ ستر سالوں سے ملک سے محبت اور وفاداری کا یہ صلہ دیا جارہا ہے کہ ایک گائناکالوجسٹ کی تعیناتی کا مطالبہ کرنے پر طوفان بدتمیزی برپا کیا جائے۔گلگت بلتستان کے جیسے وفادار عوام مملکت خداداد پاکستان کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔حکمران ہوش کے ناخن لیں اور بیورکریٹس کو لگام دیں قبل اس کے کہ ان کے رویوں سے گلگت بلتستان کے عوام بددل ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ100 ارب کا طعنہ دینے والے گریڈ 20 کے آفیسر اگرہم گلگت بلتستان کو آزاد کرواکے پاکستان کے حوالے نہیں کرتے تو کہاں چیف سیکرٹری لگتے ،انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری کے رویے سے عیاں ہوچکا ہے کہ موصوف ذہنی مریض ہے اور وفاق کو فوری نوٹس لیتے ہوئے ان کو معطل کرکے کاروائی کرے۔گلگت بلتستان کے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان کرے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو ملنے والے بجٹ کا نصف حصہ ان آفیسروں کے پروٹوکول اور دیگر مراعات پر ہی خرچ ہوتا ہے جبکہ یہی آفیسران وفاق میں ہوتے ہیں تو 1500 سی سی کار میں پھرتے جبکہ گلگت بلتستان میں درجنوں گاڑیاں ان کے استعمال میں ہوتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree