وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر 8شوال کو ملک بھر میں''یوم انہدام جنت البقیع''منایا جائے گا، لاہور، اسلام آباد،کراچی،ملتان سمیت جنوبی پنجاب بھر میں احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے جائیں گے، جنوبی پنجاب کی مرکزی ریلی گھنٹہ گھر چوک سے نواں شہر چوک تک احتجاجی ماتمی ریلی نکالی جائے گی، ریلی کی قیادت مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی،مہر سخاوت علی، ضلعی سیکرٹری جنرل مرزاوجاہت حسین اور دیگر کریں گے۔ ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے
ترجمان ثقلین نقوی کے مطابق سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کی قبور کو منہدم کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی جائیں گی، اس موقع پر جنت البقیع کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے قرادادیں بھی پیش کی جائیں گی، ثقلین نقوی کے مطابق ملتان کے علاوہ بہاولپور،بھکر،لیہ،ڈیرہ غازیخان،رحیم یارخان،جلالپور پیروالا، علی پور،اوچشریف میں بھی احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے جائیں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہم فتنوں کے دور میں جی رہے ہیں اور اس دور میں دین و آخرت کی بھلائی کے ساتھ جینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے جینے کا طریقہ کار درست ہو۔رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلم سے روایت ہے :
"ليغشين من بعدي فتن كقطع الليل المظلم ، يصبح الرجل فيها مؤمناً ويمسي كافرا ، ويمسي مؤمناً ويصبح كافراً ، يبيع أقوام دينهم بعرض من الدنيا قليل " (كنز العمال ، ج11 ، ص 127)
ترجمه: " میرے بعد اندھیری رات کی طرح فتنے اٹھیں گے. صبح کے وقت ایک شخص مؤمن ہوگا تو رات کے وقت کافر اور اسی طرح رات کے وقت مؤمن ہو گا تو صبح کے وقت کافر ہو گا. قومیں اپنے دین کو تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے عوض بیچ دیں گی. "
*فتنے کے لغوی معنی:* فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ابتلاء وامتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. اس کے علاوہ گناہ ، کفر ، قتال ،پریشانی ، لوگوں میں اختلاف رائے اور آگ میں جانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.
قران مجید میں سورۃ العنکبوت میں خدا وند ارشاد فرماتا ہے.
((الم * أ حسب الناس ان يتركوا ان يقولوا آمنا وهم لا يفتنون * ولقد قتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين *))" کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے کیا انکا امتحان نہیں لیا جائے گا * ہم نے جو قومیں ان سے پہلے آئیں انکی بھی آزمائش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سچے اور کون جھوٹے ہیں ."
*فتنوں کی اقسام*
*الہی فتنے*
امتحان : اللہ تعالیٰ نہیں چاھتا کہ ہم کفر اختیار کریں ، بلکہ وہ تو پسند کرتا ہے کہ ہم ایمان والے ہوں. لیکن ہمارا ایمان سچا ، برھان ودلیل اور یقین کے ساتھ ہو. اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور برگزیده بندوں کا بھی امتحان لیا. اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان کے دعویداروں کا بھی امتحان لیتا ہے اور چھانٹی کرتا ہے اور چھاننی لگا کر سچے ایمانداروں کو جھوٹے ایمان کے دعویداروں سے علیحدہ علیحدہ اور جدا کرتا ہے.
*شیطانی فتنے*
انسان کا کھلا دشمن شیطان اور اسکی جماعت ہے. لیکن انسان جب ان سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دے کر گمراہی کے راستے پر لگا دیتے ہیں. اللہ تعالیٰ سورة الاعراف 27 نمبر آیت میں ارشاد فرماتا ہے (( لا يفتننكم الشيطان كما اخرج ابويكم من الجنة )) " شيطان کو موقع نہ دو کہ تمہیں دھوکہ دیکر گمراہ کر دے جیسے اس نے تمھارے والدین ادم وحوا کو دھوکہ دے کر جنت سے نکالا تھا."
سب سے خطرناک فتنہ
. مقتدر قوتیں اور جابر حکمران لوگوں پر ظالمانہ اور جابرانہ تسلط قائم کرنے کے لئے ایسے آرڈر جاری کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں جو لوگوں کے عقیدے اور ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی. ایسی صورتحال میں اگر تو وہ ان قوانین اور احکام کا انکار کرتے ہیں تو انہیں اذیت پہنچائی جاتی ہے. لوگوں کے عقیدے و ایمان اور افکار ونظریات کو طاقت اور قدرت کے استعمال سے تبدیل کرنے کا فتنہ سب سے خطرناک فتنہ ہے. اور اسی فتنے کو قران مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے .
((والفتنة اشد من القتل )) کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ اور شدید نقصان دہ ہے. کیونکہ آزادی انسان کی انسانیت کا جوھر اور اسکا بنیادی حق ہے. جب انسان سے ایمان واعتقاد اور افکار ونظریات کی آزادی کا حق چھینا جاتا ہے گویا اس سے اسکی انسانیت چھین لی جاتی ہے.
آزادی کے بغیر تو کوئی انسانیت نہیں بچتی. انسانوں کو جبری طور پر انکے عقیدے وایمان وافکار ونظریات تبدیل کروانا انہیں قتل کرنے سے زیادہ سخت ہے اور جس قوم وملت کی آزادی افکار ونظریات اور آزادی عقیدہ وایمان سلب ہو جاتی ہے وہ قوم زندہ نہیں مردہ ہو جاتی ہے. اور مردہ اقوام کبھی آزاد وخود مختار اور فلاحی مملکت نہیں بنا سکتیں.
آج امریکا اور اسکے اتحادیوں کی سیاست ہمارے سامنے اس قسم کے فتنے کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے. پاکستان میں جب سے امریکی اور اسکے اتحادی سعودیہ کی مداخلت شروع ہوئی اسی وقت سے پاکستان کے شہریوں پر درہم و دینار وڈالرو ریال اور طاقت کے بل بوتے پر لوگوں پر متشدد عقائد زبردستی مسلط کئے جا نے لگے.
چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں حکومتی سرپرستی اور امریکی وسعودی مدد سے وھابیت اور تکفیریت کی ترویج کی گئی اور جس نے اختلاف رائے کا حق استعمال کیا اس پر پہلے فتوے جاری ہوئے اور پھر کسی ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکے سے اسے اڑا دیا گیا اور حکومتیں ایسے مجرمین کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور نام نہاد لیڈر انکی پشت پناہی کرتے رہے.
ملک پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے. اب ٹی وی چینلز کے ذریعے نت نئے فتنے ایجاد کرنے پر کام جاری ہے.یاد رہے کہ کہیں پر بھی دشمن حملہ آور ہونے سے پہلے فتنوں کو ھوا دیتا ہے اور اس ملک کے عوام کے اجتماعی روابط توڑ کر اجتماعی وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.
پاکستان میں سنی و شیعہ مذھب اور نئے فتنے
صدر اسلام سے مسلمانوں میں دو بڑے مکتب فکر اور مذھب پائے جاتے ہیں. ایک شیعہ مذھب اور ایک اھل سنت اور پورے جہاں پر نگاہ ڈالی جائے تو آپکو یہ مذاھب ملیں گے. لیکن انکے مابین فتنے ایجاد کرنے کی جو ہوا پاکستان میں چالیس سال سے چل رہی ہے آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی. حالانکہ ان مذاہب کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے ۔شیعہ مذھب کے اپنے عقائد ونظریات ہیں اور سنی مذھب کے اپنے. ان دونوں کے اکثر عقائد ونظریات مشترک ہیں اور بعض جگہوں پر آپس میں فرعی اختلاف پایا جاتاہے.
تاریخی طور پر بھی دونوں فرقوں کے درمیان ٹھوس اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسے جنگ جمل و صفین وغیرہ کی جزئیات میں دونوں فرقوں کے نکتہ نظر میں آج تک بھرپوراختلاف ہے۔البتہ محقیقین ان اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ختمِ نبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور اس کے بعد امامت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہو جاتا ہے، دونوں مسالک کے درمیان امامت کے مسئلے پر تھوڑا بہت اختلاف ہے ، جیسا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بعد بارہ خلیفہ یا بارہ امام ہونے پر شیعہ و سنی دونوں مسالک کا اتفاق ہے ، البتہ وہ بارہ امام کونسے ہیں اس میں اختلاف ہے۔شیعہ بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں اور امامت کو ایک الہی منصب سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت کے ہاں امامت کے لئے عصمت کی قید نہیں ہے۔
اسی طرح شیعہ و سنی علما حضرت امام علیؑ کے مناقب، فضائل اور تفضیل کے قائل ہیں اور اس ضمن میں طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے البتہ اہل سنت امام علیؑ کو چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں جبکہ شیعہ رسول اسلامﷺ کے بعد خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔
اب پاکستان میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا کام منبروں کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے لیاجانے لگا ہے، بظاہر کہا تو یہ جاتا ہے کہ دینی پروگراموں سے اتحاد اور وحدت کے فروغ کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عملا اختلاف و انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اتحاد اور ادغام میں فرق کیا ہے!؟
۔اتحاد ووحدت کا حقیقی مفہوم
اتحاد اور وحدت ہی فقط وہ راستہ ہے جس سے ملک بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور شہریوں کے جان ومال اور ناموس کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے. شیعہ اور سنی دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ اتحاد کے اعتباد سےافراط وتفریط کے شکار ہیں. کچھ لوگ سرے سے ہی اتحاد کے مخالف ہیں اور پرانے فتنوں کو ہوا دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور کچھ ان سے بھی خطرناک ہیں جو اتحا ووحدت کے نام پر اتحاد ووحدت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
یہ گروہ اتحاد کے یا تو مفہوم سے واقف نہیں یا کسی لالچ ، خوف یا ڈر یا پھر کسی سیاسی مصلحت کے تحت اپنے ہی مذھب کے اصولوں اور مسلمہ عقائد سے دستبرداری کا اظہار کرتا ہے، ایسی دستبرداری جسے نہ تو اسکے مد مقابل مذھب کے لوگ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسکے اپنے مذھب کے پیروکار اس موقف کو مانتے ہیں. اور پھر ایک ھیجان اور بےچینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہےجیسا کہ آجکل ہو رہاہے.
ہم یہاں پر اتحاد اور ادغام میں فرق کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
*اتحاد اور ادغام میں فرق*
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ یعنی شیعہ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے اور دوسری جانب سنی بھی اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے مل کر اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں ۔
ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہمارے حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لئے اسرائیلیوں اور یہودیوں کے ساتھ مشترکات ڈھونڈ کر اتحاد کر سکتے ہیں تو کیا اسلام کے دفاع اور حفاظت کی خاطر شیعہ اور سنی علمائے کرام مل بیٹھ کر متحد نہیں ہو سکتے۔
اب رہا ادغام تو ادغام یہ ہے کہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے ڈر سے یا کسی سیاسی و دنیاوی مفاد کی وجہ سے اپنے ہی مسلمہ عقائد کو چھوڑ کر یہ تاثر دیں کہ وہ دوسرے فرقے میں ضم ہو گئے ہیں جبکہ ایسا ادغام چاپلوسی جھوٹ اور منافقت پر تو منتہج ہو سکتا ہے لیکن اتحادِ اسلامی کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔اس سے کوئی تیسرا فرقہ تو جنم لے سکتا ہے لیکن وحدتِ اسلامی کی بنیاد نہیں پڑ سکتی۔اتحاد اسلامی کی درست نہج یہی ہے کہ تمام مسلمان اپنے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل کریں اور ایک دوسرے کے عقائد کا دل سے احترام کریں۔
تحریر:ڈاکٹر شفقت شیرازی
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلتستان ریجن کے فرض شناس پولیس آفیسر ڈی آئی جی فرمان کا تبادلہ قابل مذمت ہے۔ علاقائی میں خلوص نیت کے ساتھ اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے آفیسران کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور انہیں دلجمعی کے ساتھ کبھی خطے کی خدمت کرنے نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ریاستی اداروں پر اثر انداز ہو اور اپنا الو سیدھا کرے ۔ ریاستی اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کسی صورت ریاست کے مفاد میں نہیں ہے ۔ فرض شناس اور ایماندار افراد اگر حکمرانوں سے ڈیکٹیشن لینا چھوڑ دے تو انہیں دربدر کیا جاتا ہے۔ ڈی آئی جی فرمان نے بلتستان میں نہایت محنت لگن اور ایمانداری کے ساتھ ہر طرح کی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پولیس جیسے اہم محکمے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش ہے لیکن انہیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا جو کہ افسوسناک ہے۔ انہیں فوری طور پر واپس لایا جائے۔
آغا علی رضوی نے کہا خطے میں عوام کی توہین کرنے والے چیف سیکرٹری کو تاحال رکھنا شرمناک ہے۔ ایف سی این اے جنرل اور جی بی کی عدالتیں نوٹس لیتے ہوئے اس چیف سیکرٹری کو فوری طور پر علاقہ بدر کرے ۔ ویڈیو ایڈیٹنگ کا الزام درست نہیں پوری ویڈیو دیکھنے کے بعد بھی چیف سیکرٹری کا رویہ شہنشاہوں والا اور عوام دشمن تھا۔ انہیں برداشت کرنے کا مطلب ہی عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کی کوشش ہوگی۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ الیکشن 2018کو شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان عناصر کو انتخابی عمل سے دور رکھا جائے جن کا فرقہ واریت کے فروغ اور تکفیریت کے پرچار میں مرکزی کردار رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاوس انچولی میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے سربراہی خطاب میں کیا اس موقع پر مرکزی سیکرٹری سیاسیات اسد عباس نقوی ،محسن شہریار ،مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی مہدی عابدی ،صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم مذہبی جماعتوں کے رہنماوں کا الیکشن میں حصہ لینا قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ کچھ کالعدم مذہبی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کے نام پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جماعتیں رجسٹر کروا رکھی ہیں تاکہ الیکشن میں حصہ لیا جا سکے۔ایسے عناصر جو ملک میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث ہیں الیکشن میں حصہ لینے کے کسی طور بھی اہل نہیں۔انہیں انتخابی عمل میں شمولیت کی اجازت دینا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بنیادی قواعد کی ہی خلاف ورزی نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان کی بھی بدترین پامالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے اداروں اور ارض پاک کے خلاف سب سے زیادہ دہشت گردانہ کاروائیاں کالعدم مذہبی جماعتوں نے کی ہیں۔نواز شریف کی سابق حکومت کے متعدد وزراء اپنے سیاسی مفادات کے لیے ان دہشت گرد قوتوں کے سہولت کار بنے رہے جس کا خمیازہ ساٹھ ہزارسے زائد لاشوں کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑا۔یہی سیاسی قوتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر تکفیری قوتوں کی حمایت کر کے انہیں ایوان تک لانا چاہتی ہیں جس سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نام بدل کر الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں پر کڑی نظر رکھیں اور ان لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی قطعا اجازت نہ دی جائے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔وطن عزیز کو قائد و اقبال کا حقیقی پاکستان بنانے کے لیے انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے جو نظریاتی و فکری اختلاف رکھنے والوں کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔جو جماعتیں عبادت گاہوں اور پاک فوج پر حملوں میں ملوث رہی ہیں ان کے رہنماؤں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی بجائے قانون کے شکنجے میں کسنے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔ ہر حال میں انسان اپنی معلومات میں افزائش اور کچھ کرنے کی اپنی استعداد میں اضافے کا متمنی ہے۔ایک عاقل ، ہوشیار اور بیدار انسان کبھی بھی اپنی ان دو خواہشوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کسی بھی دین و مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں باقی دنیا کے بارے میں جاننا اور اس دنیا میں کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنا ہی ہماری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہی خواہش ہے جو انسان کو خلاوں میں لے کر گھوم رہی ہے ، فضاوں میں اڑا رہی ہے اور سمندروں کی تہوں میں اتار رہی ہے۔ اگر انسان سے یہ دو خواہشیں چھین لی جائیں تو انسان کا انسان ہونا خطرے میں پر جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار اور سرکردہ افراد ہمیشہ کچھ جاننے اور کچھ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے میں انسان جدید معلومات اور نئے حالات سے لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس وقت ہمارے ارد گرد کی دنیا میں بڑی تیزی سے سائنسی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتیں نت نئی تھیوریز اور ایجادات کے ساتھ کمزور اقوام پر جدید تجربات کر رہی ہیں۔ یعنی ہماری دنیا میں طاقتور اقوام ، کمزور اقوام کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔
ایک نئے مشرق وسطیٰ کا تجربہ امریکہ کو مہنگا تو پڑا لیکن اس کے نتیجے میں چاندہ چہرہ ممالک کھنڈر بن گئے، ممالک کو کھنڈرات بنانے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور اس وقت امریکی ایما پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ’عرب اتحاد‘ نے یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ پر دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ اتنی مصروف اور اہم بندرگاہ ہے کہ یمن کی ستر فی صد در آمدات اسی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ۲۰۱۵ سے جاری اس جنگ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ابتدا میں ہی انصار اللہ نے امارات کے فرسٹ نیول سارجنٹ خلیفہ سیف سعید الخاطری، علی محمد راشد الحسانی، سارجنٹ خمیس عبداللہ خمیس الزیودی اور العریف حمدان سعید العبدولی جیسے متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر حملہ آوروں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔
اس سنہری فتح نامی حملے کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ کچھ دن پہلے اقوام متحدہ نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر الحدیدہ پر دھاوا بولا گیا توانسانی جانوں کی خوفناک تباہی ہوگی۔بہر حال ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقوامِ متحدہ کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرے اور حملہ کرنے والوں نے حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ طاقتور اقوام کے سامنے انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔
یہاں پر لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ وہ میڈیا جو شام کے کسی علاقے میں داعش کے درندوں کے محصور ہونے پر تو انسانی ہلاکتوں کا واویلا کرتا ہے لیکن اس وقت الحدیدہ میں ہونے والے انسانی المیے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
یعنی میڈیا کے نزدیک یمن میں مارے جانے والے انسان گویا انسان ہی نہیں ہیں۔
عالمی برادری کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہیے کہ الحدیدہ اس جنگ کا آخری مرحلہ نہیں ہے، امریکہ اور سعودی عرب ایک طولانی ایجنڈے کے تحت پوری دنیا میں سرگرمِ عمل ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کے پیچھے ان دونوں ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔
انسانی ہمدردی کے ناتے ہی یہ ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم الحدیدہ میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں پر غم کا اظہار کریں اور جارحین کی مذمت کریں۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مناطق کی طرح الحدیدہ سے بھی جارحین زلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انسانی و مالی نقصان کا احتمال ہے جس کے تدارک کے لئے عالمی برادری کو سامنے آنا چاہیے۔
انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔الحدیدہ کے حوالے سے ہمیں زیادہ سے زیادہ حقائق کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور الحدیدہ پر ہونے والی جارحیت کی مذمت کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔
اگر ہم الحدیدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں کرتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہوجانا یا خاموش ہوجانا در اصل باطل کی ہی مدد ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ آل سعود کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے، ان کا زوال شروع ہوچکا ہے، آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر عملدرآمد کے بغیر عام انتخابات کا مقصد ایک کرپٹ اور غیر صالح اسمبلی کو قوم پر مسلط کرنا ہے، جو فقط چہروں کی تبدیلی ہوگی، قومی حقوق فقط دھرنوں اور مظاہروں سے حاصل نہیں ہوں گے اس کیلئے پارلیمانی قوت بننا انتہائی ضروری ہے۔ اپنے ایک بیان میں علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ انبیاء کی سرزمین فلسطین، قبلہ اول اور حرمین شریفین کے ساتھ خیانت، اسلام دشمن قوتوں سامراجی قوتوں امریکہ اور اسرائیل سے دوستی، دنیا بھر میں دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی اور مظلوم مسلم ملک یمن پر حملہ آل سعود کے ناقابل معافی جرائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحرین میں مظلوم عوام کے قتل عام میں آل خلیفہ کو مکمل طور پر آل سعود کی پشت پناہی حاصل ہے، آل سعود کے زوال اور انحطاط کا آغاز ہوچکا اور وہ جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے، ولی خدا فقیہ مجاہد حضرت آیت اللہ باقر النمرؒ کا مقدس لہو عنقریب آل سعود کے تخت کو لے ڈوبے گا۔
علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر عملدرآمد کے بغیر عام انتخابات کا مقصد ایک کرپٹ اور غیر صالح اسمبلی کو قوم پر مسلط کرنا ہے، جو فقط چہروں کی تبدیلی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بھوک، افلاس، دہشتگردی، کرپشن جیسے ناسور کے خاتمے کیلئے آئین کی دفعات پر عملدرآمد بہت ضروری ہے، جنہوں نے گذشتہ کئی سالوں سے قومی دولت کو لوٹا، ان کے کاغذات نامزدگی بحال ہوگئے، یہ تعجب کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ عام انتخابات میں اپنے قومی حقوق اور اجتماعی مفادات کو ترجیح دے، پاکستان میں ملت جعفریہ کو دہشتگردی سمیت جن مشکلات کا سامنا ہے، اس سے نکلنے کیلئے پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں متناسب نمائندگی کے نظام کی بحالی بھی ہمارا اہم ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی حقوق فقط دھرنوں اور مظاہروں سے حاصل نہیں ہوں گے اس کیلئے پارلیمانی قوت بننا انتہائی ضروری ہے، قوم اپنے نمائندوں کو ووٹ، نوٹ اور سپورٹ کے ذریعے کامیاب کرے۔