وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی کابینہ کا اجلاس رکن پنجاب اسمبلی و مرکزی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم سیدہ زہرا نقوی کے زیر صدارت مرکزی سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا جس میں سیکرٹری تربیت نرگس سجاد، سیکرٹری فلاحی بہبود فرحانہ گل،سیکرٹری تنظیم سازی سیدہ معصومہ نقوی اور معاون شعبہ تربیت تغزل شاداب شامل تھیں اجلاس میں شعبہ خواتین کو مزید فعال کرنے اور ضروری امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے درمیان جامعہ مصطفیٰ لاہور میں ملاقات ہوئی ۔ ملاقات میں حلقہ پی پی 168 کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم اورپی ٹی آئی کے درمیان قربت اور ہم آہنگی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بنیاد پر ہے۔ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے پاکستان کو آگے بڑھانے کا مشترکہ وژن رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے ہمیں کچھ شکایات بھی ہیں کہ جس طرح پچھلی حکومتوں نےعزاداری پر قدغن لگائی لیکن امید تھی کہ اس حکومت میںصورتحال بہتر رہے گی جوکہ نہ ہو سکی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پی ٹی آئی ہمارے ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرے گی ۔جبکہ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل سید مبارک علی موسوی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عزاداری ہماری شہہ رگ حیات ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی عزاداری کے حوالے سے بہترین پالیسی مرتب کرے گی تاکہ عزاداروں کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
کارنر میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے کارکنوں کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتا ، میرا ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ تعلق حادثاتی نہیں بلکہ میں ایم ڈبلیوایم کی داخلہ وخارجہ پالیسی پرسنجیدہ اور قابل ستائش موقف کا معترف ہوں جو کہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کےرہنماؤں نے حلقہ پی پی 168 سے پی ٹی آئی کے نامزد امید وار ملک اسد علی کھوکھر کی ضمنی انتخابات میں مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
وحدت نیوز(چنیوٹ) امام بارگاہ ٹھٹھی شرقی چنیوٹ میں مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی جانب سےولادت باسعادت رسول خداؐ اور امام جعفرصادق ؑ کے سلسلے میں سالانہ محفل میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں مومنات کی بھر پور شرکت نے چار چاند لگادیے محفل میں ضلعی کمیٹی کی اراکین کے علاوہ مرکزی مسوولین نے بھی شرکت کی، خانم لبانہ کاظمی اور خانم معصومہ نقوی کے علاوہ رجوعہ سادات یونٹ نیز ٹھٹھی شرقی یونٹ نے فعال شرکت کی خانم صایمہ زیدی ،ضلعی سیکریٹری جنرل خانم کلثوم، رکن ضلعی کمیٹی اور خانم معصومہ نقوی مرکزی مسوول تنظیم سازی نے مختلف موضوعات پر مفید خطابات کیے نیز رجوعہ سادات یونٹ کی خواھران نے خوبصورت ٹیبلو پیش کیا ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دسمبر کی سردی، کینٹین کی مسحور کن فضا، اور اس میں ہر میز پر گرم چائے، چائے سے اٹھتا ہوا دھواں اور پھر گرما گرم بحث، لیکن نجانے کیوں یہاں ہر شخص اپنی بات ادھوری چھوڑ دیتا ہے، ایک صاحب کے بقول یمن کی خانہ جنگی میں 85 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ عالمی برادری چپ سادھے ہوئے ہے ، ایک سروے کے مطابق یمن میں ہر گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے دم توڑ دیتا ہے ۔
اتنے میں کسی نے بی بی سی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ خبر اپنے گھر کی بھی لیں،کراچی میں بچوں کی گمشدگی پر پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔[1] اس سال کراچی سے 146 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، جبکہ 2013ء میں 2,736 بچے لاپتہ ہوئے تھے۔[2] گفتگو میں پاکستان سے بچوں کو اغوا کرکے اعضا فروخت کرنے کیلئے تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا۔[3]
اتنے میں کسی نے کہا کہ ممکن ہے اس دھندے میں کچھ اوپر کی سطح کے لوگ بھی شامل ہوں جیسا کہ دوسال پہلے سابق سیکشن افسرعمر شہاب کو گرفتار کیا گیا تھا جو بچوں کے گردے، جگر اور دیگر اعضاء نکال کر بھارت فروخت کرتا تھا اوروہ کویت میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات رہ چکا تھا۔[4]
ابھی بات آدھی ہی تھی کہ کسی نے پاکستان میں قائم میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم ایک ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کا ذکر چھیڑ دیا، فریڈم نیٹ ورک (ایف این) نے میڈیا کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پریس آزادی بیرومیٹر 2018 کے تحت یکم مئی، 2017 سے یکم اپریل 2018 کی نگرانی کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق میڈیا کے خلاف کم از کم 157حملوں اور خلاف ورزیوں کے واقعات چاروں صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے۔ “یہ ایک ماہ میں اوسط خلاف ورزیوں کے تقریبا 15 واقعات ہیں۔یعنی ہر دوسرے دن ایک حملہ۔
اسلام آباد کے بعد صحافیوں کے لیے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سب سے کم حملے یعنی آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ یہاں مجموعی 157 میں سے محض تیرہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔[5]
یہ سوچا جانا چاہیے کہ وہ یمن میں بچوں کی شہادتیں ہوں یا کراچی میں بچوں کی سمگلنگ ہو یا اسلام آباد میں صحافیوں کا قتل، اس کے پیچھے عالمی برادری کی خاموشی کا کیا کردار ہے لیکن درد کی یہ زنجیر یہیں نہیں ٹوٹتی بلکہ اگست ۲۰۱۸ کی یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔[6]یعنی ابھی تک مسنگ پرسنز کے حوالے سے قانون سازی کا پہلو تشنہ ہے۔
کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سکول ٹیچر، ریڑھی بان، دکاندار، ادیب ، صحافی ، پروفیسرالغرض ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اب کس کے پاس وقت ہےکہ وہ جائے اور گنتی کرے کہ کس طبقے کے کتنے لوگ لاپتہ ہیں،اس کے لئے بھی باقاعدہ ایک ایسےقومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے جوہر طرح کے دباو سے آزاد ہو، اور اگر کوئی یہ سارا ڈیٹا جمع کربھی لے تو اسےخاطر میں کون لائے گا!؟ اور پھر اس ساری محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اتنے میں ایک صاحب نے مشتاق احمد کاملانی کا قصہ چھیڑا اور بولے ۱۹۸۰ میں مشتاق کاملانی کاشمار معروف کہانی نویسوں اور ادبا میں ہوتا تھا، مشتاق کاملانی کو سندھی ، پنجابی، اردو اور انگلش پر عبور تھا، انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش وانی‘ سے بھی نشر ہوئیں ، انہوں نے ضیاالحق کے دور میں "گھٹی ہوئی فضا" کے عنوان سے ایک کہانی لکھی ،کہانی چھپ گئی جبکہ ان کا ناول ابھی پریس ہی میں تھا، جب انہیں اپنی کہانی کے لیے حیدرآباد میں ادبی دوستوں نے بلایا اور انہیں ایک ریڈیو انعام میں دیا۔ابھی کاملانی صاحب حیدرآباد سے لوٹ ہی رہے رہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسرے دن اس پریس پر چھاپہ پڑا، جہاں سے ان کا نیم چھپا ہوا ناول “رولو” ضبط کیا گیا اور اس پریس کو بھی بند کروادیا گیا….!!اس کے بعد لوگوں نے جب کاملانی کودیکھا تو مسٹر کاملانی پاگل ہوچکے تھے۔
چائے کی میز پر مختلف باتیں ہو رہی تھیں، ان سب باتوں میں انسان کی بے بسی اور سماج کی بےحسی قدرِ مشترک تھی، اور باتوں کے بیچ میں جو بات بار بار اٹھائی جارہی تھی وہ یہ تھی کہ دنیا کے نقشے پرمظلوم بکھرے ہوئے ہیں اور ظالم متحد ہیں، ملک کوئی سا بھی ہو مظلوم جتنا بے بس ہوتا جاتا ہے مقتدر ادارے اتنے ہی بے لگام اور بے حس ہوتے جاتے ہیں۔مظلوموں کی موثر ترجمانی کے لئے کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے!؟ اور ہماری کوششوں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اتنے میں ایک صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ آپ بھی کچھ بولئے، میں نے کہا دوستو! ہم مانیں یانہ مانیں، یمن کا المیہ،مسنگ پرسنز،گمشدہ افراد، لاپتہ بچے اور صحافیوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا حقیقی حصہ ہے ۔ایک محقق، کالم نگار، ادیب یا صحافی کبھی بھی اس کرب سے آنکھیں نہیں چرا سکتا جو کرب شہید یا لاپتہ ہونے والے بچوں، قتل ہونے والے صحافیوں یا مسنگ پرسنز کے لواحقین کو لاحق ہوتا ہے۔
اگر آپ ادیب ہیں اور معاشرے کی نبض کو دیکھنے کے ماہر ہیں، اگر آپ محقق ہیں اور سماج کے اتار چڑھاو کو سمجھتے ہیں، اگر آپ قلمکار ہیں اور درد کو الفاظ میں ڈھالنے کاہنرجانتے ہیں،اگرآپ کی بات میں دم ہے اور آپ کے نکات میں وزن ہے تو پھر کوئی آمر ، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی دشمن آپ کی تحریر کو اشاعت سے نہیں روک سکتا اور اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر کسی کی سفارش یا رشوت آپ کو محقق یا ادیب نہیں بنا سکتی۔
ادیب اور محقق کا قلم معاشرے کی نبض ہوتا ہے، ہمارے ارد گرد اس وقت بے بسی اور بے حسی کے درمیان لڑائی جاری ہے،ایک طرف بے بس عوام ہیں اور دوسری طرف بے حس حکمران، اگر ادیب اور محقق بے حسی سے آنکھیں چرائے اور بے بسی کو بیان کرنے سے کترائے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا۔ بے بسی اور بے حسی کی اس لڑائی میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ یے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سربراہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ستر سالوں سے آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے سب سے زیادہ وفادار شہری ہیں۔ یہاں کے عوام کا جذبہ حب الوطنی پاکستان کے حساس ترین خطے کی حفاظت و سلامتی کا ضامن ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہاں کے عوام کی وابستگی مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ نظریاتی بنیاد پر ہے جو کہ ملک دشمن طاقتوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ وابستگی شعوری وابستگی ہے اور راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق نہ دینا سیاسی حکومتوں کی عاقبت نااندیشی ہے۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کو ایک ایسا سیٹ اپ دیا جائے جو عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہو۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک یہاں کے عوام کو ایسا سیٹ اپ دیا جائے جس سے خطے میں ترقی و استحکام آئے اور عوامی خواہشات کے مطابق ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا اصل ہدف پاکستان کا آئینی صوبہ ہے اور ہم مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی حکومت کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ ستر سالہ محرومیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون قرار دے کر ملکی اداروں میں بھرپور نمائندگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم وفاقی حکومت سے اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق گلگت بلتستان کو آئینی دھارے میںفوری طور پر شامل کرے گی۔
وحدت نیوز(گلگت ) گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے تو گلگت بلتستان سے نیب، کسٹم سمیت تمام آئینی اداروں کو ختم کرکے متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تمام حقوق دیئے جائیں۔گلگت بلتستان کے عوام اکہتر سالوں سے اپنی شناخت کیلئے لڑتے رہے لیکن مقتدر قوتوں نے اس خطے کے عوام کو ہمیشہ مایوس کیا۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کےسیکریٹری سیاسیات غلام عباس نے کہا ہے کہ کشمیری رہنمائوں کی غیر ضروری مداخلت اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے علاقے میں نفرت پائی جاتی ہے جبکہ کشمیری رہنماگلگت بلتستان کے عوام سے لاتعلق رہ کر اس خطے کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری رہنما ئوں کو اس خطے کے عوام سے محبت ہے تو ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی گلگت بلتستان کے عوام کو مایوس کردیا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی معاملات سست روی کا شکار نظر آرہے ہیں جس سے علاقے کے عوام میں بے چینی پائی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ دینا ممکن نہیں تو پھر اس علاقے کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے تمام حقوق ومراعات دیئے جائیں۔