وحدت نیوز (خیرپور) مجلس وحدت مسلمین ضلع خیرپور کی جانب سے ضمنی بلدیاتی انتخاب برائے چیئرمین یوسی راھوجاکے لئے لکھمیرلوڈرو کو امیدوار نامزد کیاہے، تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کے فعال کارکن برادر لکھمیرلوڈرو ایم ڈبلیوایم ضلع خیرپور کی تائید وحمایت سے سیب کے نشان پریوسی راھوجاکے چیئرمین کی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے انتخابی نشان خیمہ کی درخواست کی مگر بوجوہ انہیں سیب کا نشان دیا گیا۔
صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈمکی اور صوبائی پولیٹیکل سیکریٹری علی حسین نقوی نےکہاہے کہ تمام دوست ان کی کامیابی کے لئے دعا کریں اور متعلقہ ضلع کے تنظیمی ساتھی ان کی کامیابی کے لئے باقاعدہ طور پر ان کی انتخابی مہم میں سپورٹ کریں،انشاءاللہ یوسی راھوجاکے ووٹرز 23دسمبر کو سیب کے نشان پر مہر لگاکر ایم ڈبلیوایم کے حمایت یافتہ نڈربے باک اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار امیدوار لکھمیرلوڈرو کو کامیاب بنائیں گے۔
وحدت نیوز(شکارپور) درگاہ ماڑی شہید سید حاجن شاہ پر 2013 میں ہونے والے واقعے کا سکھر کی دہشت گردی عدالت میں فیصلہ انصاف کی فتح ہے۔ جس پر اس کیس کے وکلاء اور وارثان شہداء مبارکباد کے مستحق ہیں،سانحہ جیکب آباد اور سانحہ سہون شریف سمیت دھشت گردی کے واقعات کے مجرموں کو بھی پھانسی کی سزا دی جائے،تفصیل کے مطابق 2013 میں درگاہ ماڑی سید شہید حاجن شاہ پر بم دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں سید حاجن شاہ نے جام شہادت نوش کیااور واقعہ کا فریادی شہید حاجن شاه کے فرزند رجب علی شاہ اور وارثان شہداء کمیٹی شکارپور کے وکلاء کا پینل اظہر حسین عباسی اور مظہر حسین منگریو 2013 سے شہید حاجن شاه کا کیس لڑرہے تھے اور آج سکھر کی انسداد دہشت گردی عدالت نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت خلیل بروہی اور عبدالرحمٰن عرف اسماعيل بروہی پر پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور پھانسی کی سزا سناتی ہے اور یہ دونوں دھشت گرد شکارپور 30 جنوری 2015 مرکزی کربلا معلی' امام بارگاہ کے واقعہ میں بھی ملوث ہیںاور شہید سید حاجن شاہ شکارپور کے تمام واقعات اور سیہون شریف واقعہ کے ماسٹر مائنڈ حفیظ بروہی روپوش ہیں اور ضمیر معرفانی پر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے عدالت باعزت بری کرتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے آج عدالت کے فیصلے کو حق و سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے کہاکہ سانحہ شکارپور کے دو دہشت گردوں کی پھانسی کی سزاکا اعلان خانوادہ شہداءکے دکھوں کا مداواہے، سانحہ کیس کی بھرپور پیروی کرنے پر وارثان شہداء اور وکلاء کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ شکارپور کا تاریخی واقعہ جس میں 65 نمازی شہید ہوئے تھے اس ضلع کے 6 سانحات میں 72 شہداء کا کیس جو وکلاء لڑرہے ہیں ان کو اور شہداء کمیٹی کے اراکین کو مسلسل دہشتگردوں کی دھمکیاں مل رہی ہیں ہم حکومت سندھ اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وکلاء فریادی گواہوں اور وارثان شہداء کو فی الفور سیکورٹی فراہم کرکے ان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس وقت بھی شکارپور میں سیکورٹی کے حوالے سنگین خدشات موجود ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے، جیسے جیسے انسان کی سوچ کاافق وسیع ہوتا جاتا ہے ،اسکے دوستوں اور دشمنوں کی سطح بھی مختلف ہوجاتی ہے، ہم عموماًاپنے ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال میں پھنسے رہتے ہیں اور یا پھر دوسرے ممالک کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کے بیانات تک محدود رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دشمن کی دشمنی ہماری حکومتوں یاسرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دشمن تمام اسلامی ممالک، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن سے بر سر پیکار ہے۔
بدقسمتی سے ہم انتہائی محدود سوچ اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین تاریخی تناظر کے ساتھ تجزیہ اور پلاننگ کرتے ہیں۔۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعات کے بعد دنیا ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی تو ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نےوائٹ ہاوس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔
اس دور میں ہم جب وقتی حالات کے تحت قومی فیصلے کر رہے تھے تو اس وقت مغربی و امریکی اقوام، تاریخی پسِ منظر کے ساتھ ، ہمیں مسلمان سمجھ کربحیثیت مسلمان ہمارا تعاقب کر رہی تھیں۔مذہبی و دینی بنیادوں پر ہمارا تعاقب اس بات کی دلیل ہےکہ دشمن صلیبی جنگوں کو تسلسل کے ساتھ لڑ رہاتھا، یہ لڑائی کسی اسلامی حکومت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس لڑائی میں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا، قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا،نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا گیا،تعلیمی ا داروں کوتباہ کیا گیا ، سول شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ۔اب تک صرف افغانستان میں سول شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد گرایا گیا۔شام و عراق میں انفرااسٹریکچر کو تباہ کرنے کے بعد آثار قدیمہ تک کو منہدم کر دیا گیا ، صلیبی جنگوںمیں اس سے پہلے دشمن نے ہم پر ہر طرح کاحربہ ازمایا تھا ، حتی کہ ایک صلیبی جنگ صرف بچوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔
"بچوں
تاریخی اسناد کے مطابق 1212ء میں مسلمانوں خلاف کی صلیبی جنگ" لڑی گئی۔ مسیحی راہبوں کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد گنہگار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں مسلمانوں پر فتح نصیب نہیں ہورہی ، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں ،انہوں نے معصوم بچوں پر مشتمل 37 ہزار کا ایک لشکر بنایا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ یہ لشکر بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی نیست و نابود ہوگیا۔
اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اب دشمن ہمارے خلاف اپنے بچوں کے لشکر ترتیب نہیں دیتا بلکہ اب تو ہمارے ہی بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر ہمارے اوپر خود کش حملےکرواتا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف جو لشکر ترتیب دئیے جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں صلیب نہیں بلکہ ایسا پرچم ہوتا ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
دشمن قدیمی صلیبی جنگوں کے ذریعے تو ہم سے بیت المقدس کو نہیں لے سکا تھا لیکن بعد ازاں نئی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل کاوجود صلیبی ممالک کی حمایت کا ہی مرہون منت ہے۔
مسلمان ایک طرف طالبان ، القائدہ،داعش اور لشکر جھنگوی سے نبرد ازما ہیں اوردوسری طرف، اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک سے پنجہ ازمائی کر رہے ہیں جبکہ صلیبی طاقتیں دونوں محازوں پر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اسلام دشمن ممالک اور تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حتی کہ اگر یمن میں ایک گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر جاتا ہے تو یہ سب بھی صلیبی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
اس وقت مشرقی ممالک کا اقتصاد،کرنسی، سیاست، معدنی ذخائر، فوجی نقل و حرکت اور آبی وسائل ان سب پر امریکہ و مغرب کاکنٹرول ہے، اور یہ مکمل کنٹرول انہوں نے صلیبی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیاہے۔لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی آج مکمل طور پر اسلامی دنیا پر حاکم ہے اورافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ مسلمان دانشمند اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
امریکہ ومغرب کا انداز تفکر یہ ہے کہ وہ ساری دنیاکے مالک ہیں، اور ساری دنیاانکی غلام ہے،لہذا غلاموں کے لئے وہ کسی احترام یا اخلاق کے قائل نہیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کے پھینکے گئے بم اس کی واضح دلیل ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کس بے دردی سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے، شام کو کھندرات میں تبدیل کیاہے، عراق کو تہس نہس کیا ہے اور افغانستان کو برباد کیا ہے یہ سب کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔
امریکہ و مغرب کا کینہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ملتوں تک پھیلاہوا ہے،یہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے ، فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب ،فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی ، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان ، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ ومغرب کے حالیہ کنٹرول سے نجات کے لئے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلی کوچے کی دوستی و دشمنی سے باہر آئیں اور عالمی اسلامی برادری کے تصور کےمطابق اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسجد سےمسجدکے خلاف فتوے، مسلک سے مسلک کے خلاف کتابیں لکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے باہمی فاصلوں کو مٹانے، مشترکہ دشمنوں کو پہچاننے، اور آپس میں اخوت و رواداری کے فروغ کا خلوص دل سے قصد کریں۔
ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم بین الاقوامی آمریت کے دور میں جی رہے ہیں، ایسی آمریت جس میں واضح طور پر یہ پیغام دیاجاتا ہے کہ ہماری اطاعت کرو، ہمارا ساتھ دو نہیں تو ہم تمہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے۔اس زمانےکا آمر جدیدتعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور وہ کمزور اقوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کرنے پر آمادہ نہیں،ایسے میں اگر ہمارے دانشمند صرف اپنے اوپر ہی غصہ نکالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ہمیں دشمن کی علمی و فکری طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے۔
ہماری تمام مسلمانوں خصوصاً علمائے اسلام سے اپیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کو پہچانیے،مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں پر ایک نگاہ ڈالئے،دشمنوں کی سازشوں پر لبیک کہنے کے بجائے ، تجزیہ و تحلیل کےذریعے سازشوں کو بے نقاب کیجئے، عالم اسلام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجئے، اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے کے بجائے وحدتِ اسلامی کے سورج کو طلوع ہونے دیجئے ، اسی میں پورے عالم بشریت کی بھلائی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے،ہمیں اب گلی محلے کی سطح سے اوپر آنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما نامزد امیدوار حلقہ پی بی 26 سید محمد رضا نے کہا ہے کہ نام نہاد قوم دوست فاشسٹ پارٹی اپنے ہی قوم کیلئے مشکلات کھڑی کرنے میں اب بھی پیش پیش ہے ۔سیاسی نظریاتی اختلاف کیلئے دلیل و منطق کا ہونا ضرروی ہے لیکن انکے پاس جھوٹ کے سوا کچھ کہنے کو ہی نہیں فاشسٹ نام نہاد قوم دوست پارٹی نے خدمت کے بجائے قومی تشخص کو مشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے مسلسل متنازعہ نمائندوں کو پارٹی ٹکٹ دینا خدمت نہیں قوم سے خیانت کے مترداف ہے۔
آغا رضا نے کہا کہ ہزارہ قوم کے سپوتو کا مادر وطن کی دفاع کیلئے لا زوال قربانیاں تاریخ کا حصہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک مفاد پرست لیبرل ٹولہ اپنی ذاتی مفادات کیلئے اس تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے ہے۔
ضمنی الیکشن پی بی 26 کے باشعور عوام اپنی ووٹ کی طاقت سے ان مفاد پرست عناصر کو شکست دیں گے۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان اتحاد بین المسلمین کے داعی واحد دینی سیاسی جماعت ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر ابن حیان دنیا کے عظیم دانشمندوں میں سے ایک ہے جو علم کیمیاء میں نہ فقط عالم اسلام میں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی مشہور ہے۔وہ نہ فقط علم کیمیاء میں فوق العادہ تھے بلکہ فلسفہ ،منطق اور طب ،نجوم ریاضیات اور فلکیات اور دوسرے علوم میں بھی صاحب نظر تھےلیکن انہیں زیادہ شہرت علیم کیمیاء میں ملا۔برتعلیموجابر کے بارے میں کہتے ہے: جابر بن حیان کا علم کیمیا میں مقام وہی ہے جو مقام ارسطو کو منطق میں ہے ۔سارتون ان کو ایک عظیم دانشمند قرار دیتے ہے جس کی شناخت قرون وسطی میں علم کے میدان میں ہوئی ۔جابر نے علم کیمیا میں جدید اسلوب استعمال کر کے نئے علوم میں اضافہ کر دیا اور اس کو علم موازین کہلائے ۔ بہت سارے اختراعات اور کشفیات کی جابر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔جابر کی ولادت اوررحلت کی تاریخ جابر کے زندگی کے دوسرے زاویوں کی طرح مبہم رہ گیا ہے۔لیکن 158 سے 198کے درمیان جابر اس دنیا سے چلے گئے جو نقل ہوئی ہے ۔جابر کی محل ولادت اور وہ جگہ جہاں جابر نے بچپن گزاری ہے اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض اس کو کوفی اوربعض خراسانی سمجھتے ہے۔ابن ندیم کہتے ہے: کہ جابر ذاتا خراسانی تھا ۔ویل دورانت کہتے ہے:جابر کوفہ کے کسی داروساز کا بیٹا تھا اور وہ طبابت میں مشغول رہتا تھا اور اپنے اکثر اوقا ت تجربہ گاہ میں گزار تا تھا۔مذہب کے اعتبار سے جابر مکتب تشیع سے تعلق رکھتا تھااور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے خاص روابط رکھتے تھے۔ہولیمارد اس کے بارے میں کہتے ہے:جابر امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد اور قریبی دوستوں میں سے تھے اور انکی راہنمائی میں جابر نے علم کیمیا کوجو اسکندریہ کے زمانے میں ایک افسانے کی طرح مقید تھے آزاد کرا دیے۔اور اس راستے میں کماحقہ اپنے مقصود تک پہنچ گئے اسی لئے جابر کانام ہمیشہ اس فن کے بزرگان جیسے بویل،پریستلی،دلاویز اور دوسرے مشہور دانشمندوں کے ساتھ لئے جاتے ہے۔جابر اپنے اکثر کتابوں میں اس بات کی یقین دہانی کی ہے کہ اس نےاپنے علوم امام صادق علیہ السلام سے حاصل کئے ہیں۔چوتھی صدی کی ابتداء ہی میں جابر کے وجود کے بارے میں شک و تردید کرنے لگے اور بعض نے سرے سے جابر کی وجود سے انکار کرنا شروع کیا۔ابن ندیم جو چوتھی صدی کے درمیانی عرصے میں زندگی کی ہے جابر کے بارے میں کہتے ہے:بعض اہل علم اور کتاب بیجھنے والے [جو اہل علم تھے]کہتے ہیں کہ جابر کا کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جابر کا وجود فرض بھی کر لیں تو کتاب الرحمۃکے علاوہ اور اسکی کوئی تصنیف نہیں ہے اوردوسرے جتنے بھی تصنیفات ہے وہ دوسروں نے لکھی ہے لیکن جابر کی طرف کی نسبت دی گئی ہے۔لیکن وہ خود ایک استدلال کے ذریعے ان باتوں کو رد کر تاہے۔وہ لکھتےہیں : کون حاضر ہے کہ سخت محنت و کوشش کرے اور دو ہزار صفحوں پر مشتمل ایک کتاب لکھے جس کے لئے وہ اپنی ساری توانائی صرف کرے اور تمام زحمتیں اٹھائے اور اس کے بعد کتاب کی نسبت کسی اور شخص کی طرف دے ۔چاہے دوسرا شخص وجود رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔بہر حال یہ عمل ایک قسم کی جہالت ہے اور کوئی بھی عاقل اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔جیسے پل کرواس مستشرق ا تریشی جابر کے وجود کے میں بارے میں شک کرتے ہے۔لیکن جابر کا نام قدماء کے کتابوں میں آیا ہے جیسے ابن ندیم ،حسن بن بسطام بن شاپور،ابوبکررازی،محمد بن علی شلمغانی،ابوحیان توحیدی وغیرہ۔ان سب کے کتابوں میں جابر کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو خود جابر کے وجود کی دلیل ہے ۔ کہ جابر نامی ایک شخص موجود تھا جوفاضل اور دانشمند تھا۔جس نےدوسری صدی میں حکومت عباسی کے عہد سلطنت میں زندگی کی ہے ۔مکتب تشیع میں سے دوازدہ امامی جابر کو دوازدہ امامی قرار دیتے ہے جب کہ اسماعلیہ اسے اسماعیلی سمجھتے ہے ۔
سید ابن طاووس[م664]کتاب مفرج المہموم میں بعض شیعہ افراد کا نام لیتے ہے جو علم نجوم سے آگاہی رکھتے تھے لکھتےہیں: کہ ان میں سے ایک جابر ابن حیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام کاخاص صحابی تھا۔شیعوں کے درمیان مسلمات میں سے ہے کہ جابر شیعہ اور دازدہ امامی تھا۔سید امین اعیان الشیعہ و آقای بزرگ تہرانی کتاب الذریعۃ فی تصانیف الشیعۃ میں جابر کا باقاعدہ نام لیتے ہیں اور انکی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد بھی ہے جو جابر کو اسماعیلی قرار دیتاہے۔جیسے سید ہبہ الدین شہرستانی کتاب الدلایل و المسائل میں کہتے ہے کہ جابر اسماعیل کی امامت کا قائل تھا۔لیکن انہوں نے اپنے اس ادعا پر دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ جابر نے اپنے کتابوں میں ظاہر وباطن اور عدد سات کا استعمال کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جابر اسماعیلی تھالیکن اسماعیلیہ مذہب اپنے مبانی کو جابر کی وفات سے نصف صدی بعد آغاز کیا ہے ۔بنا برین یہ بات صحیح نہیں ہے۔اندیشہ اسماعلیان دوسری صدی ہجری میں یعنی عصر جابر میں ایک سادہ اندیشہ تھا۔لیکن یہ بات کہ ان کے کلام میں ظاہر و باطن موجود ہے اس طرح کے تاویلات سے اس کے عقیدہ کو اسماعیلی قرار نہیں دے سکتا چونکہ ان میں سے بعض تعابیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔
جابر کی بہت ساری تصانیفات ہے جو تقریباتین ہزار نو سو کے لگ بھگ ہے ۔جابر کی کتابوں میں سے کتاب الجمع،کتاب الاستتمام کتاب الاستیفاد وکتاب التکلیس کا لاتین میں ترجمہ ہو اہے اور مغربی مفکرین اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور بعض کتابیں جو چھپ چکی ہے وہ یہ ہے کتاب الاسطقس،الکمال،البیان،النور الاوجاء،الشمس ،الایجاح،اور کتاب الملک وغیرہ ہے۔
ابتداء میں مسلمانوں کی توجہ الکیمی یعنی مصنوعی سونا بنانے یا سونے کے لئے اکسیر حاصل کرنےکی طرف تھی۔اس میں جدید کیمیاء کا علم ظاہر ہوا ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کیمیاء گری محض سونا بنانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ادویہ سازی ،معدنیات ،ارضیات اور دفاعی صنعتوں میں علم کیمیاء کے استعمال کی سخت ضرورت لاحق ہوتی تھی ۔اس لئے مسلمان کیمیاء دان زیادہ تر زورعموما علم کیمیاء پر دیتے تھے۔
لاطین میں جس کیمیاء دان کو گیبر کہا گیا ہے وہ یہی جابر ابن حیان ہے اسے تجربی کیمیاء کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیاء کے تمام تجرباتی عملوں سے واقف تھے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ کیمیاء میں سب سے زیادہ ضروری شئے تجربہ ہے جوشخصاپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے ۔پس اگر کیمیاء کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اس علم کو صحیح جانو جو تجربے سے سچ ہو جائے ۔ایک کیمیاء دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے ثابت کیا ہے ۔
اس لحاظ سے جابر پہلا کیماء دان ہے جس نےمادے کو عناصر اربعہ کے نظریے سے نکالا ۔قدیم عرب میں گندھک پارہ اور نمک تین بنیادی عناصر قرار دئے جاتے تھے ۔گندھک مادے کی ایسی خصوصیت مانی جاتی تھی جن سے اس میں بارودی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے ۔نمک
سے عربوں کے ذہن میں عناصرکی وہ خصوصیت تھی جس کی بنا پر چیزیں آگ سے محفوظ رہتی تھی ۔نمک اس شئے کو بھی کہتے تھے جو مختلف عناصر کوپھونکنے ،جلانے اور کشتہ بنانےکے بعد پاقی رہ جاتی ہے یعنی نمکیات موجودہ سالٹس تھے ۔پارہ دو دہاتوں کی انفرادی خصوصیت کو واضح کر نے کے لئے استعمال ہو تا تھا ۔مثلا سونےمیں انتہائی خالص پا رے کی مقررہ مقدار شامل ہوتی ہے ۔
جابر ابن حیان نے اس کے متعلق کہا کہ تمام دھاتوں کے بنیادی اجزاء وہی ہے جو جس کی مناسبت سے سونا وجود میں آتا ہے۔اگر کسی معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ہو تو یہ ضروی ہے کہ اسے غیر مطلوبہ آمیزشوں سے پاک کیا جائےاور چند جزی اجزاء کو شامل کیا جائے تو سوناوجود میں آتا ہے ۔جابر کے اس نظریے کا تصور اس زمانے میں خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ آج بھی اسی طرح تابندہ ہے کہ تمام دھاتوں کے بنیا دی اجزاء جوھر یا ان کے ذرات وہی ہے جو سونے کے ہیں ۔اگرچہ اس زمانے میں کیمیاء دان سونا بنانے کےجنون میں مبتلا تھے لیکن جابر اس حقیقت کاقائل تھے کہ تجرباتی طور پر تانبے کو سونے میں تبدیل کرنا محض وقت ضایع کرانا ہے ۔اسی کا عقیدہ تھا کہ مادی دنیا میں ایک ضابطہ کار فرما ہے اس لئے ہر شئے کی نوعیت ایک مخصوص مقدار کی تابع ہے ۔چنانچہ اس نے ایک کتاب المیزان لکھی ہے۔
جابر ابن حیان پہلا شخص تھا جس نے موادکے تین حصوں میں درجہ بندی کی،نباتات ، حیونات اور معدنیات ۔بعد از آں معدنیات کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا پہلے گروہ میں بخارات بن جانےوالی اشیاء رکھیں اور انہیں روح یا عرق کا نام دیا ۔دوسرے گروہ میں آگ پر پگھلنے والی اشیاء مثلا دھاتیں اور تیسرے گروہ میں ایسی اشیاء جو گرم کرنےپر پھٹک جائیں اور سرمہ بن سکتی تھی ۔ پہلے گروہ میں گندھک ،سنکھیا ،پارہ،کافور اور نوشادر شامل ہے ۔عربی میں نوشادر[امونیم کلورائیڈ]کا نام پہلی بار جابر کی تصنیفات میں دیکھا گیا ہے۔جابر کیمیاء کے متعدد امور پر قابل قدر نظی و تجربی معلومات رکھتے تھے ۔اس کا یہ نظریہ کہ زمین پر وجود میں آنے والی اشیاء ستاروں اور سیاروں کے اثر کا نتیجہ ہے ،آج بھی نیا اور اچھوتا ہے ۔جابر نے کئی کیمیائی مرکبات مثلا بنیادی لیڈکار بونیٹ،آرسینگ سلفائیڈ اور انیٹیمینس سلفائیڈاور الکحل کوخالص کرنا ،شورے کے تیزاب[نائیٹرک ایسڈ]نمک کے تیزاب[کلورک ایسڈ]اور فاسفورس سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا اوراس نے دو عملی دریا فتیں بھی کیں ایک تکلیس کشتہ کرنا یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسرا تحلیل یعنی حل کرنا ۔
کیمیاء کے فنی استعمالات پر اس کے بیانات بہت اہم ہے ۔مثلا فلزات کی صفائی ،فولاد کی تیاری ،پارچہ بافی اورجلد کی رنگائی ،وارنش کے ذریعے کپڑے کو ضد آب بنانا ،لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھنا ،شیشے کو مینگا نیز ڈائی آکسائیڈ سے رنگین بنانا ،آئرن پائرٹ سے سونے پر لکھنا اورسرمے سے ایسٹک ایسڈبنا نا وغیرہ ۔
امریکی سائنس دان پروفیسر فلپ جابر ابن حیان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہے: کیمیاء گری کے بے سود انہماک سے جابر نے اپنی آنکھیں خراب کر لی لیکن اس حکیم اور عظیم دانشور نے کئی چیزیں ایجاد کی اور اصل کیمیاء کی بنیاد رکھی ۔اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہو اتھا ۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب الخلدون العرب،ص ۱۶،۱۷۔
۲۔ایضا،ص۱۹۔
۳۔اعیان الشیعہ ج۱۵،ص۱۱۵۔تاریخ تمدن ،ج۱۱،ص۱۵۹۔تاریخ الاسلام السیاسی،ص ۲۶۱، الفھرست ص۵۰۰۔
۴۔ الفہرست،ص ۵۰۔تاریخ تمدن،ج۱۱،ص۱۵۹۔
۵۔ ملھم الکیمیاء،تلخیص ص ۳۳،۴۲۔
۶۔الفہرست،ص ۴۹۹
۷۔ایضا
۸۔معجم الادبار،ج۵،ص۶۔
۹۔ اعیان الشیعہ،ج۱۵،ص۱۱۸۔الذریعہ ج۵،ص۲۰۔
۱۰۔تاب الامام صادق[ع]،ابو زھرہ،ص ۱۰۱۔
۱۱۔تناظرات اسلامی ساءنس۔ڈاکٹر عطش درانی.
۱۲۔ اسلام کے عظیم سائنس دان۔حفیظ اللہ منظر.
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(کراچی) اہلیان یوسی 11جعفرطیار آزمائے ہوئوں کو آزماکر اپنا ووٹ ضائع نا کریں، تینوں بڑی برسراقتدار جماعتوں نے یہاں سے مختلف الیکشنز میں کامیابی حاصل کی لیکن عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا، عوامی کھوکھلے نعروں اور دعووں سے دھوکا نا کھائیں، ہم نے بغیر اقتدار واختیار کے علاقے میں بلاتفریق انسانی خدمت کے مختلف منصوبوں پر کام کیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدواربرائےوائس چیئرمین یونین کونسل 11جعفرطیار ملیر سید عارف رضا زیدی نےرابطہ مہم کے سلسلے میں مسجد خدیجتہ الکبریٰ سروے نمبر 417جعفرطیار سوسائٹی میں کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے ایم این اے ، پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور متحدہ قومی موومنٹ کے ناظم نے اب تک یوسی 11کے عوام کی مشکلات اور مسائل کے حل کیلئے کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دیا، ٹوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیراور سیوریج کا تباہ حال نظام 40برس سے یوسی 11کے عوام کام مقدر بنا ہواہے، یونین کونسل کا دفتر پیدہ گیری کا مرکز بناہواہے، عوام کو بنیادی سہولیات کی آسان فراہمی کے ادارے میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے،ہم انشاءاللہ کامیاب ہو کر اس ظالمانہ طرز سیاست کا خاتمہ کریں گے اور یونین کونسل 11کو مثالی علاقہ بنائیں گے۔
قبل ازیں مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدواربرائےوائس چیئرمین یونین کونسل 11جعفرطیار ملیر سید عارف رضا زیدی نےرابطہ مہم کے سلسلے میں وفد کے ہمراہ خطیب وپیش امام مسجد وامام بارگاہ خدیجتہ الکبریٰ جعفرطیار سوسائٹی علامہ سید ذوالفقار جعفری اور پرنسپل جامعتہ الاطہار علامہ شیخ مہدی علی دانش سے ملاقات کی اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کےمرکزی رہنما سید علی احمر زیدی، ڈویژنل رہنمااحسن عباس رضوی، ضلعی رہنما شعیب رضا، سعید رضا ، رضا علی ودیگر بھی موجود تھے، ایم ڈبلیوایم کے رہنماؤں نے علامہ سید ذوالفقار جعفری اورعلامہ مہدی علی دانش کے ساتھ علاقائی صورت حال اور آمدہ ضمنی انتخاب برائے یوسی 11جعفرطیار پر تفصیلی گفتگو کی اوروائس چیئرمین کی نشست پر ایم ڈبلیوایم کے امیدوار عارف رضا زیدی کی حمایت کی اپیل کی، علامہ ذوالفقار جعفری اور علامہ مہدی علی دانش نے ایم ڈبلیوایم کے نامزدمیدوار عارف رضا زیدی کی نافقط حمایت کا اعلان کیا بلکہ اپنے مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا، انہوں نے ایم ڈبلیوایم کے سوسائٹی کے عوام کے لئےخدمات کو سراہا اور عارف رضا زیدی کی کامیابی کیلئے تہہ دل سے دعا کی۔