وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کراچی ضلع ملیر کی جانب سے جشنِ ولادت صادقین جنابِ ختمی مرتبت محمد مصطفی ﷺ و امامِ جعفرِ صادق اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے میلاد کا اہتمام کیا گیا،جس میں خصوصی طور پر مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی سیکرٹری جنرل خواہر زہرہ نقوی (ممبر پنجاب اسمبلی) کوبطور مہمانِ خصوصی  شرکت اور خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔میلاد کا باقاعدہ آغاز حدیث کساء کی تلاوت سے ضلع ملیر کی شعبہ خواتین کی جنرل، سیکرٹری خواہر تفسیر نے کیا جسکےبعد خواہران نے بارگاہ ِ ختمی مرتبت ﷺ و اہلبیت ع ہدیہ نعت و منقبت پیش کیں۔پروگرام میں ضلع ملیر کی خواہر شبیہ کی جانب سے بیتِ زہرہ ع و عزاداری فائونڈیشن کی کارگردگی رپورٹ پیش کی اور عزاداری و فلاحی اور روزگار اسکیم کے حوالے سے تفصیلی آکاہ کیا گیا۔اسکے بعد خواہر زہرہ نقوی صاحبہ نے خصوصی خطاب فرمایا جسمیں آپ نے سیرتِ مبارکہ النبی ﷺ اور آیمہ اطہار ع کی سیرت پر روشنی ڈالی۔آپ نے اپنے خطاب میں بالخصوص  صفاتِ رسول کریم ﷺ رحمت،صداقت اور امانت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ذاتِ رسول ﷺ تمام عالمین کے لیے رحمت کا باعث ہیں تو پھر یہ صفت اس امتِ محمدیہ کی زندگی کے مختلف مرحلوں پر  پہچان ہونی چاہیے، وہ جو اپنے دشمن کو بھی اپنے اخلاق و کردار سے ایسا  گرویدہ و متاثرکرتے ہیں کہ بارضا و تسلیم وہ دینِ اسلام کو قبول کرتے ہیں۔اسی طرح رسولِ مقبول ﷺ کہ صداق اور امین ہونے کا  قبل از اعلانِ رسالت سے ہی ہر خاص و عام، دشمن و دوست متعرف تھا۔جبکہ صداقت اور امانت ہر زمانہ کے لئے مشکل ترین افکار ہیں۔صادق اور امانت دار ہونا امتِ مسلمہ کے ہر شخص کا امتیاز ہونا چاہیے۔صداقت اور امانت صرف مادی چیزوں کے لئے ہی نہیں، ہر لحظہ مومن کا صداقت پر مبنی اور امانت داری سے مزین ہونا چاہیے۔

انہوںنے مزید کہاکہ اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال اور کامل ترین شخصیت رسول ﷺ کی ذات ہے۔ہم نبی رحمتﷺ کی امتِ واحدہ ہیں۔ آج سوہ استفادہ کی وجہ سے مسلمان ہی مسلمان کا دشمن اور تفرقہ کا شکار ہے۔ ہم نے کوشش مسلسل اور سعی پہم کرنی ہے امت محمدیہ ﷺ کی وحدت اور بقا کے لئے اور الحمد للہ مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان اس حوالے سے ہر شعبہ میں گامزن ہے۔اور اتحاد و وحدت کی جانب ہمارا کامیاب سفر جاری رہے گا۔جب حکومتِ جہانی کی بات ہوگی تو وہ رسول ﷺ کے اس فرزند کی حکومت جہانی کا زکر ہے جسکے لیے تمام امت انتظار، میں ہے۔ہمیں ایک پرچم کے ساے میں امتِ سیدِ لولاک ﷺ کی صورت اس حکومتِ جہانی کے لئے زمینہ سازی بھی کرنی ہے اور اخلاق  و افکار ِ محمد ﷺ و آلِ محمد ﷺ، سے اپنی نفس کی تربیت اور اپنی کردار سازی بھی  کرنی ہے ۔ اسکے علاوہ آپ نے بطور ممبر پنجاب اسمبلی اپنے پروجیکٹس سے بھی آگاہ کیا۔جن میں تعلیم و صحت، بیوہ اور فقراء کے حوالے سے انکی تفصیلات سے آگاہ کیا۔بالخصوص مومنین کی گمشدگی، عزاداری اور زیارات کے  مسائل کےحوالے سے مختلف وزراء سے ملاقات،اور جو قراردادیں پیش کی گئیں ان کے نتائج بیان فرماۓ۔آخر میں ملکِ خدا داد پاکستان کی ترقی و کامیابی،دینِ اسلام کی سربلندی، اور ملتِ تشیع کی کامرانی کے لئے دعا کرائی۔تمام شھداء ملک و ملت کی بلندی درجات کے لیے فاتحہ اور دعاۓ سلامتی و دعاۓ فرج کیساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔

وحدت نیوز(لاہور) اتحاد امت مصطفی کے زیر اہتمام بسلسلہ جشن میلاد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام مسالک کے علما و مشائخ نے بھرپور شرکت کی،جس میں جمعیت علمائے پاکستان نیازی کے سربراہ پیر سید معصوم حسین نقوی،ایم پی اے جلیل شرق پوری،مہمان خصوصی پاکستان تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اعجاز چوہدری،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی،کل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین مخدوم عاصم حسین،مفتی شبیر انجم،مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی،سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم لاہور علامہ حسن ھمدانی،پیر حبیب آستانی سندر شریف،سید ایاز ھماشمی چئیرمین علما مشائخ کونسل پاکستان،الحاج سائیں محمد طفیل چشتی،پروفیسر ذولفقار احمد نقشبندی،مولانا محمد افضل حیدری علما ونگ پاکستان تحریک انصاف لاہور،مفتی محمد طاہر شریف ناظم اعلیٰ مرکزی جماعت اہلسنت لاہور،علامہ محمد حسین گولڑوی،سید نوبہارشاہ،عطا محمد گولڑوی،مفتی عبد الرحمن،ڈاکٹر شریف عالمی سیرت اکیڈمی،علامہ منیر احمد نو شاہی،مفتی عاشق حسین،میاں محمد اسحاق،سردار محمد ڈوگر سیفی، علامہ اصغر عارف چشتی،سردار بدر منیر مجددی، سمیت کثیر تعداد میں علماء و مشائخ نے شرکت کی ۔

کانفرنس میں علمائے کرام و مشائخ عظام نے سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے اتحاد امت پر عمل پیرا ہونے کی ضروت پر زور دیتے ہو کہا کہ حضور سرور کائنات صلی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں متحد ہونا ہو گا اور اسلام دین محمدی صلی علیہ وآلہ وسلم کو درپیش چلیجز کا مقابلہ کرنا ہوگا، تکفیریت اسلامی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے اس کیخلاف علماء کو دو ٹوک فیصلہ دینا ہوگا کسی بھی مسلمان فرقے کیخلاف تکفیر کرنے والے نہ صرف وطن عزیز کے دشمن ہیں بلکہ اسلام کے روشن ماتھے پر ایک بد نما داغ ہیں،ناموس رسالت صلی علیہ وآلہ وسلم پر ہماری جانیں قربان لیکن اس کے آڑ لے کر سیاسی مفادات حاصل کرنے اور شدت پسندی کو ہوا دینے کی اجازت نہیں دینگے،ہم ناموس رسالت صلی علیہ وآلہ وسلم کا بھرپور دفاع کرینگے،لیکن اس پاکیزہ مشن کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال میں ہونے دینگے،ہم پاکستان میں دشمن کے آلہ کار بن کر اداروں کو کمزور کرنے کی کس بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرینگے،علمائے کرام نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم اتحاد امت کے لئے متحد ہیں اور کسی بھی قسم کی گروہ وارانہ سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،ہم تمام مزاہب و مسالک کے علماء آج متحد ہو کر یہ عہد کرتے ہیں معاشرے سے شدت پسندی و عدم برداشت کے فضا کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی جدو جہد کو تیز کرینگے اور اتحاد امت اور تکفیریت کے خلاف کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی رہنما و سابق وزیر قانون سید محمد رضا ( آغا رضا ) نے گذشتہ روز مچھ میں رونما ہونے والی دہشت گردی کے واقع کی شدید الفاط میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقع میں ملوث دہشت گرد کی پولیس کے ہاتھوں فوری گرفتاری قابل تحسین عمل ہے ۔کان کن نور علی پر قاتلانہ حملے میں ملوث گرفتار دہشت گرد قاتل کو سخت سزا دیجائے ۔عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت اور سکیورٹی پر مامور اداروں کی ذمہ داری ہے ۔امن و امان کی صورت حال قدرے بہتر کیا ہوئی کہ ایک اور افسوس ناک دہشت گردی کا واقع رونما ہوا یہ واقعہ کھلی دہشت گردی ہے جسے رہزنی کا واقع قرار دیا جا رہا ہے گرفتار مجرم کو سخت سے سخت سزا دینا حکومت کی ذمہ داری ہے قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے قانون کیمطابق جرائم میں ملوث عناصت کو سزا ملنے سے ایسے دلخراش واقعات کی روک تھام میں کمی لائی جا سکتی ہے ماضی میں قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کیوجہ سے ایسے واقعات کو دوام بخشا اور جرائم میں اضافہ ہوتا گیاجسکا خمیازہ آج پورے معاشرے کو بھگتنا پڑھ رہا ہے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) [دورہ یونان}علم منطق کب اور کیسے اپنے سیر تکامل کو طے کیا اس کا بیان ایک دشوار اور ناممکن کام ہے لیکن اکثر مورخین کا عقیدہ ہے کہ اس علم کی بنیاد دوران یونان باستان سے ملتا ہے ۔تاریخی کتابوں کےمطابق پہلا شخص جس نے عقلی استدلال سےاستفاد ہ کیا وہ {پارمیندس م  487} تھا۔ اس نے ان مباحث کو جدلی رو ش کےمطابق بیان کیا  لیکن اس کے بعد [زنون م426۔491] جو پارمیندس کے شاگرد تھااپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے اس روش کو مزید آگے لےگیا  اوراس استدلالی روش کومزید رونق بخشا۔

قرن پنجم کےآخر میں یونان کے بعض اندیشمندوں نے اپنے شاگردوں  کو جدل اور مناظرہ کی طرف تشویق کی۔ان اندیشمندوں میں  سے برجستہ ترین فرد[پرودیکوس] کا نام لیا جاسکتا ہے  جو آخری عمر میں جلا وطن ہو ا یہاں تک کہ اس کے تمام تالیفات جلائے گئےکیونکہ اس نے  عرف  یعنی موجودہ نظام  کی سخت مخالفت کی تھی  ۔ اس نے جدلی روش کو اس حد تک آگے بڑھایا کہ تمام موجودات کے لئے انسان کو معیار و ملاک قرار  دیا اور حقایق ہستی کے منکر ہو ا۔بعض افراد محکمہ قضائی میں اپنے حقوق کی اثبات کے لئے جدلی و استدلالی دانشمندوں سے استفادہ  کیاکرتے تھے جو ایک مدت کے بعد سوفیست  [دانشمند ] کے نام سے پہچانے جانےلگے۔ ان افراد میں [پروتاگراس  380 ۔485 م] کا نام لیا جاسکتا ہے۔ان دانشمندوں کے لئے جو چیز زیادہ اہمیت کا  حامل تھا وہ محکمہ قضائی  میں   اپنے موکلوں کےحق کوحاصل کرنا تھا۔یہ افرادحق بات کی اثبات کے درپے نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنی استدلال میں مغالطہ سے کام لینا شروع کیا  جس کی وجہ سے  یہ لقب [سوفیست] اپنے حقیقی معنی سے نکل کر ان لوگوں پر اطلاق ہونا شروع ہواجو روش مغالطہ سے استدلال کیا کرتے تھے۔

اس غبار آلود دور میں  سقراط[399 ۔469 م]  نےعلم و دانش کے میدان میں قدم رکھا۔  اس نے سوفیست  کی فکری روش کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ قلیل عرصے میں  زیادہ مشہور ہوگیا ۔اس نے اپنے علمی کوششوں سے اس گروہ کا  خاتمہ کیا اوراس گروہ کوسخت شکست سے دوچار ہوناپڑا اور یہی سقراط کے لئے بہت زیادہ پیرورکار فراہم کرنے کاسبب بنا ۔

سقراط کے برجستہ ترین پیروکاروں اور شاگردوں میں  افلاطون [347 ۔427 ق م ]کا نام لیا جاسکتا ہے۔ افلاطون نےسقرا ط کے تجربات کی حفاظت کی ۔افلاطون  اشیاء کی تعریف کرنے کے  لئےجنس و فصل  کا سہارالیا کرتے تھے ۔ اس نے [آتن] میں زندگی گزارنے اور تدریس کرنے کے لئے ایک باغ  کاانتخاب کیا جو بعد میں افلاطون اکیڈمی  کے نام سے مشہورہوا۔افلاطون کے برجستہ شاگردوں میں سے ایک ارسطو تھا۔ مورخین کے مطابق ارسطو [ارسطا طا لیس 322 ۔384  ق۔م ] مقدونیہ کے شھر استاگیرا میں متولد ہوا۔اس کا باپ [نیکو ماخوس]ایک طبیب تھا ۔ارسطو اپنے خاندانی پس منظر اور علم دوستی کے سبب تحصیل علم   میں مصروف ہوا اور اسی بنا پر 17 [سترہ] سال کی عمر میں  افلاطون کے درس میں  حاضر ہوا اور افلاطون کے پاس بیس سال  تک شاگردی اختیارکی اور یہ شاگرد زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے استاد سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔

افلا طون استدلال کے لئے صرف صحیح تعریف کو کافی نہیں سمجھتا تھا۔ اس لئے اس نے  پہلی مرتبہ علم منطق کو آٹھ ابواب میں تدوین کیا جو یہ ہیں:

۱۔ قاطیغوریاس [مقولات دہ گانہ]
۲۔باری ارمیناس [قضایا]
۳۔انولوطبقای اول [قیاس]
۴۔ انولوطبقای دوم  [برہان]
۵۔طوبیقا [جدل]
۶۔ ریطوریقا [خطابہ]
۷۔سوفیسطیقا [مغالطہ]
۸۔ بوطیقا  [شعر]

ارسطو کی طرف بہت سے تالیفات کی نسبت دی گئی ہے یہاں تک کہ بعض مورخین کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ایک ہزار ہیں۔انہی تالیفات میں سے  صرف منطقی  مباحث کے بارے میں تالیف کی گئی  منطق ارسطو باقی رہ گیا ہے ۔یہ کتاب [ارغنون ۔ ارگانون] {آلت و ابزار} اب بھی علم منطق میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے ۔

ارسطو کے دنیا سے جانے کے بعد  زنون رواقی[260 ۔350 ق۔م] نے ارسطو کے مباحث کوجا ری رکھا اور اس نے [معرف] اور [قیاس  شرطی] کے مباحث  کو اضافہ کیا۔فرفوریوس صوری [233 ۔304 ق۔م]  نےزنون کے بعد  ارسطو کی کتاب پر شرح لکھااور ایک مقدمہ بعنوان مدخل کا اضافہ کیاجو کلیات خمس کے مباحث پر مشتمل  تھا۔اس کے بعد یہ بحث ایک مباحث منطقی اور ایساغوجی مباحث کے نام سےمشہور ہوا۔ارسطو کی یہ تقسیم بندی ایک طولانی مدت تک بڑی آب و تاب  کے ساتھ  جاری رہا یہاں تک کہ فر فوریوس کے بعد بعض  اہل منطق نے مقولات عشر کو منطق سے جدا کر کے فلسفے کے مباحث کے ساتھ ملحق کیااور مباحث معرف جو برہان  کےباب میں شامل تھا اسے کلیات خمس میں سے قرار دیا۔یہ سلسلہ دکارت[1596 ۔1650 ق۔م] کے زمانے تک جاری رہا ۔دکارت نے نئے  نظریوں کے ذریعے علم منطق میں قابل توجہ تحول لے آیا اور یہ تحول و تبدل منطق جدید کے وجود میں آنے تک فراز و نشیب کے ساتھ پائیدار رہا ۔

بعض مورخین اس گزارش کے برخلاف علم منطق کے زادگاہ کو مشرق زمین سمجھتے ہیں اور ہندوستان ، ایران ، جاپان ،چین  اور مصر کو اس علم کا مرکز و گہوارہ سمجھتے ہیں ۔

[دورہ اسلامی]
 اسلامی تہذیب و تمدن میں علم منطق کب اور کیسے وارد ہوا اس حوالے سے بھی مورخین کے درمیا ن شدید اختلافات پائے جاتےہیں  لیکن  جو  بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ فلسفہ [فلوطین] پہلی مرتبہ مشرق زمین میں وارد ہوا ہے۔مسلمانوں نے جب اسکندریہ کو فتح کیا تو مسلمانوں  نے یونان کے علمی و فلسفی  مراکز تک رسائی حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکندریہ فلسفہ و الہیات یونان کا مرکز تھا ۔ شام و عراق کے مناطق  میں بسنے والے افراد جو سریانی زبان بولتے تھے،  یونانی زبان کے مطالعے میں مشغول ہو گئے  اور انہی افراد نے بہت سارے اہم منطقی  آثارکا ترجمہ کیا اور یہی مسلمانوں کے ان آثار سے زیادہ آشنائی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔یہ ترجمے فقط ارسطو کے مباحث{ ایساغوجی  ،فرفوریوس و قاطیغوپارس باری آرمیناس اور آنولو طبقای اول} پر مشتمل تھے۔ جن افراد نے ترجمے کاکام مکمل کیا ا ن میں یعقوب ہاوی م 708 م سورس بسوخت  م667 م جارجیوس م 724م اور حسین بن اسحاق  قابل ذکر ہیں ۔

اسلامی مناطق میں فلسفی و منطقی مباحث کو اس وقت زیادہ  رونق آیا جب وہاں  علمی مراکز وجود میں آیا مخصوصا ایسے مراکز جن میں یونانی  متون اور کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے اور اکثران مراکز کی بنیاد خلفای عباسی کے دور میں رکھی گئی ۔اہم ترین مدرسہ و مرکز[ بیت الحکمۃ] تھا جو مامون عباسی کے دستور پر بنایا گیا تھا۔ عبد اللہ بن مقضع جنہوں نے ارسطو کے قاطیغوریاس اور انولوطبقای اور فرفوریوس کے ایساغوجی کو منصورخلیفہ عباسی کے لئے ترجمہ کیا ۔منصور عباسی کے دورکے بعد  منطق دانوں نے منطقی کتابوں  کی تفسیر وتشریح پر زیادہ کام شروع کیا یہاں تک کہ بعض افراد نے اس ضمن میں نئی کتابیں بھی تالیف کی ۔ابو  یوسف ،یعقوب بن  اسحاق الکندی [م258 ھ۔ق] ملقب بہ فیلسوف عرب جو  اپنے استعداد علمی کی وجہ سے مامون اور معتصم کے پاس ایک خاص مقام رکھتا تھا نے   بیشتر ارسطو کی کتابوں کا شرح  لکھا۔ ابو العباس سرخسی [م280ھ۔ق]اور محمد بن زکریا رازی[م 151 ھ۔ق] کے دور  میں بھی یونان سے آئے ہوئے علوم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اس زمانے میں علم منطق اپنے طفولیت سے گزر رہاتھا۔اس دور کے بعد فلسفہ ا و رمنطق جدید دور میں داخل ہوا جسے عصر طلائی حکمت کہا جاتاہے۔

اس دور میں جس اہم شخصیت  نے بنیادی کردار ادا کیا وہ حکیم ابو النصر محمد فارابی [260۔ 339 ھ۔ق] معروف بہ معلم ثانی ہے ۔فارابی کا علم منطق میں نقش و تاثیر  اس قدر زیادہ ہے کہ اکثر دانشمندان فارابی کو اسلامی دور میں علم منطق کا بنیان گزار سمجھتے ہیں ۔

فارابی کے اہم کاموں میں سے ایک [منطق ارسطو ]  ارغنون اور [ایساغوجی] فرفریوس پر شرح لکھنا ہے ۔اس کے علاوہ  انہوں نےبے شمار کتابیں علم منطق کے موضوع پر تالیف کی جو آج بھی علم منطق کے اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتے ہیں ۔فاربی  نےمتعدد شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کے معروف شاگردوں  میں یحیی بن عدی منطقی  کا نام لیا جا سکتا ہے ۔اس عصر کے دوسرے منطق دانوں میں  ابو سلیمان سجتانی[398 ھ ۔ ق ] ابوحیان توحیدی[م414 ھ۔ق] عیسی بن زرعہ[م 398 ھ۔ق] ابن مسکویہ [م 325 ھ۔ق ابو عبد اللہ ناتلی [343 ھ۔ق] وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ فارابی کے علاوہ یہ تمام افراد اس قدر مشہور نہیں ہوا  اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ  [ناتلی]
کے برجستہ  ترین شاگرد علم و حکمت کے میدان میں وارد ہوا اور یہ فیلسوف و حکیم حسین بن عبد اللہ شیخ الرئیس بو علی سینا  جو شہر بخارا  کے  کسی دیہات میں 370 ھ ق میںمتولدہوا۔پانچ سال کی عمر میں والد کے ہمراہ بخارا آیا اور قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔دس سال کی عمر میں  ادب کے علوم میں مہارت حاصل کی اور کچھ مدت تک مذہب اسماعلیہ کوقبول کیا ۔انہوں نے حکمت ، منطق اور ریاضی کو ابو عبد اللہ ناتلی کے پاس سیکھا اور بعد میں وہ خود ان علوم کے برجستہ ترین اساتیذمیں شامل ہوا ۔ابن سینا عقلی علوم کے علاوہ  طبی علوم کے بھی بڑے اساتیذ جیسے ابو ریحان بیرونی اور ابو سہل مسیحی سے سیکھااور اپنے دور میں معروف طبیب کے عنوان سے مشہور ہوا۔بو علی سینا کے بے شمار گرانقدر تالیفات ہیں کہ ان میں سےکتاب شفا و قانون قابل ذکر ہے ۔ بھمینار بن مرزبان [458ھ۔ق] ابو عبد اللہ معصومی بو علی سینا کے شاگرد ہیں ۔ ابن سینا کے بعد بے شمار منطق دان میدان میں واردہوئے لیکن کوئی بھی ابن سینا کی طرح مشہورنہیں ہوا جیسے ابو حامد غزالی ،قاضی زید الدین عمر سہلان ساوجی ،محمد بن عمر فخر رازی ۔ابو جعفر نصیر الدین طوسی ،نجم الدین علی بن کاتبی قزوینی ،شیخ شہاب الدین سہروردی [بنیانگذار حکمت اشراق]ابو جعفر قطب الدین محمد بن رازی ،سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی ،سعد الدین محمد داونی ،محمد بن ابراہیم شیرازی  ملا صدرا[بنیادگذارحکمت متعالیہ اور ملا ہادی سبزوار ی وغیرہ ۔یہ سب حکماء ایک درجے کے نہیں تھے ان میں سے بعض جیسے سہروردی اور ملا صدرا  نےحکمت مشائی میں ایک نئے تحول لے کرآیا جس کی وجہ سے یہ افراد  بنیانگزار کے طور شہرت پایا۔

[دورہ منطق جدید ]
منطق جدید کو منطق ریاضی و منطق نمادی بھی کہا جاتا ہے  ۔بعض ریاضی دان جیسے لایب نیتز[1646 ۔1716] فلیسوف و ریاضی دان آلمانی علم منطق اور ریاضی کو تلفیق کرنےکے لئےکوشش کی  کیونکہ وہ چاہتے تھا کہ منطقی  مسائل کو حل کرنے کے لئے ریاضی سے مدد لے۔
لایب نیتزنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ سعی و کوشش کی اسی بنا پر بعض افراد ان کو[ پدر علم منطق جدید] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔جرج بوی ریاضی دان انگلستان،آگو ستوس دمورگانریاضی دان انگلستان ،گوتلوپ  فرگر ،زوزف پائانو ریضی دان اٹلی  یہ سب  ایسےافراد  تھے جنہوں نے منطق جدید کی تدوین میں  کام کیایہاں تک کہ بر تراند راسل [1872 ۔1970 م]اور آلفردنودث وایتہد [1871۔ 1937م] فلاسفر انگلستان نے  اصول ریاضی کے عنوان سے کتابیں لکھی جو  منطق جدید کی تدوین میں مددگار ثابت ہوئے۔اور یہ سلسلہ ان دونوں کے بعد بھی جاری و ساری رہا لیکن اختصار کی خاطرہم  ان سب کو یہاں ذکر نہیں کریں گے ۔
علم منطق آج ایک اہم بحث  اور موضوع کے طورپر پورےدنیا  کے یونیورسٹیوں  میں تدریس کی جاتی ہے  ۔ علم منطق کی اہمیت اور مختلف علوم میں  اس کا اثر اورنقش قابل انکار ہے ۔


منابع:
1۔سیر حکمت در اروپا، آماکوویسکی
2۔تاریخ فلسفہ۔ برتداندراسل ترجمہ:بہالدین خرمشاہی
3۔تاریخ فلسفہ اسلامی۔ ترجمہ گروھی از دانشمندان
4۔تاریخ فلسفہ غرب۔   ترجمہ:نجف دریا بندری
5۔سیر فلسفی در جہان اسلام۔دکتر علی اصغر حلبی
6۔مبانی منطق جدید۔  سید علی اصگر خندان
7۔دوران اسلامی۔  میر محمد شریف
8۔یونان باستان۔محمد علی فروغی
9۔تاریخ منطق۔کاپلتون فردریک ترجمہ:فریدون شایان
10۔درآمدی بر منطق جدید۔ضیاء موحد
11۔دورری منطق جدید۔ لطف اللہ نبوی
12۔تاریخ فلاسفہ ایرانی از آغاز اسلام تا امروز۔دکتر سید حسین نصر
13۔تاریخ فلسفہ درایران۔میر محمد شریف
14۔منطق مقدماتی ۔ابوالفضل روحی
15۔ تاریخ فلسفہ د  ر اسلام میر محمد شریف ج 1 باب 1


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے متعلق کشمیری سیاستدانوں کی غیر ضروری مداخلت سے علاقے میں کشمیر کیلئے نفرت کا ماحول بن رہا ہے۔سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے خاتمے کے بعد گلگت بلتستان کی حیثیت سٹیٹ جیسی نہیں رہی ہے ۔گلگت بلتستان کو مزید بے آئین حالت میں نہیں رکھا جاسکتا۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ کشمیر ی رہنما محض بدنیتی کی بنیاد پر گلگت بلتستان کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اکہتر سالوں سے 28 ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے علاقے کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کا آئینی حقوق کے حوالے سے ایک ہی بیانیہ ہے جبکہ چند لوگ جن کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی ہے وہ آئینی حقوق کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ آئینی گلگت بلتستان میں نہیں رہنا چاہتے وہ بے شک کشمیر چلے جائیں۔گلگت بلتستان کا نمائندہ فورم قانون ساز اسمبلی ہے جس نے دو مرتبہ متفقہ طور پر آئینی حقوق کے حوالے سے قرارداد پاس کی ہے جبکہ سول سوسائٹی اور بار کونسلز کے کئی مرتبہ آل پارٹیز کانفرنسز کا متفقہ اعلامیہ بھی آئینی گلگت بلتستان کے حوالے سے موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو مایوس کیا ہے اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت اور سپریم کورٹ سے عوام نے امیدیں وابستہ کی ہوئیں ہیں اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

وحدت نیوز(بھکر) مجلس وحدت مسلمین ضلع بھکر کے زیراہتمام پنجگرائیں میں مرکزی امام بارگاہ قصرابوطالب میں جشن صادقین کا اہتمام کیا گیا، جشن صادقین سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی، جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری تنظیم سازی آصف رضا ایڈووکیٹ، ضلعی سیکرٹری جنرل سمیت دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا، ضلع بھکر میں جشن صادقین کا دوسرا پروگرام ایم ڈبلیو ایم سیال یونٹ کی جانب سے امام بارگاہ موکب حسینی میں بھی جشن صادقین کا بھی اہتمام کیا گیا، علامہ احمد اقبال رضوی نے مختلف مقامات پر جشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرورکائنات کی شخصیت عالم اسلام کے لیے وحدت کی عظیم مثال ہے، آپ کی سیرت رہتی دنیا تک مثالی ہے، ہمارا معاشرہ اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک آپ کی سیرت پر عملی طور پر عمل نہ کیا جائے۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم بھکر کے ضلعی سیکرٹری جنرل ایڈووکیٹ سفیر حسین شہانی، سید ظہیر عباس نقوی، مزمل عباس اور دیگر رہنما موجود تھے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree