وحدت نیوز(گلگت) کشمیرکے محروم و مظلوم عوام کے حق خود ارادیت اور کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط اورانسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہیں،اقوام متحدہ کی عدم دلچسپی اور حکومت پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے کشمیری عوام مظالم کا شکار رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری امورسیاسیات غلام عباس نے مولانا عبدالسمیع کی زیر قیادت وحدت ہائوس گلگت میں ملاقات کیلئے آنے والے جماعت اسلامی کے وفدسے گفتگوکرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے رہنما عارف قمبری، ڈاکٹر علی گوہر اور شیخ عیسیٰ بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ظلم اور ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت ہمارا دینی فریضہ ہے ظلم و بربریت پر خاموشی اختیار کرنا ظالم کے ساتھ دینے کے مترادف ہے۔مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً مخالفت ہے ،ہم کشمیری عوام کی اپنے حقوق کیلئے پرامن جدوجہد کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کے رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں نفرت کا بیج بویا ہے اور یہ نام نہاد رہنما ایک طرف گلگت بلتستان کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی آئینی پیکج کی مخالفت میں کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔یہی رہنما ایک طرف کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف جب گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے رہنماؤں کو آج تک یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے حقوق سے محروم عوام کی دلجوئی کرسکیں۔موجود حالات میں جب حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی متلاشی ہوئی ہے تو یہی کشمیری رہنما راستے کی دیوار بن چکے ہیں اور گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے متعلق ان کی روش یہی رہی تو یہاں کے عوام ان کے توقعات پر قطعا نہیں اتریں گے بلکہ رد عمل پر مجبور ہونگے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کا خطہ یہاں کے غیور عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزاد کروایا ہے اور پاکستان سے محبت کی بناء پر الحاق کیا ہے اور اب بھی یہاں کے عوام گلگت بلتستان کوملک کا پانچواں صوبہ بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں جس کا ثبوت موجودہ اور سابقہ اسمبلی کی متفقہ قرادادوں اور اے پی سی میں شامل واضح اکثریتی پارٹیوں کی رائے سے ملتا ہے۔