وحدت نیوز(آرٹیکل) یکساں نصاب تعلیم کی تیاری اور نفاذ کے لیے پی ٹی آئی دور حکومت سے پہلے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ مختلف اوقات میں یکساں نصاب پر ملک کے مختلف طبقات کی طرف سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا گیا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم اقلیتیں اس مسلہ کو سپریم کورٹ تک لے گئیں اور یہ کیس ظاہرا اس وقت بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے کہ حکومت نے اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں نصاب تعلیم میں کیا میکانزم رکھا ہے۔ اقلیتوں کے مطالبے اور اس کے بعد بننے والی صورت حال پر کئی ایک طبقات ردعمل میں بھی متحرک ہوئے اور نصاب کا مسلہ کافی عرصے سے مختلف وفاقی و صوبائی حکومتی و ریاستی اداروں کی میز پر ہے۔ نصاب کا مسلہ عوامی اور خصوصی فورمز پر بھی موضوع سخن رہا۔ کسی نے اس مسلے پر اپنی سیاست چمکانا چاہی تو کسی نے اس پر موج سواری کرنا چاہی، کسی نے اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنا چاہا تو کسی نے دوسروں کے افکار و آرا کو مسترد یا نظر انداز کرنے کے لیے اپنا زور لگایا۔ حکومت نے نصاب سے متعقلہ اعلی وفاقی ادارے میں انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں لائیں تو نصاب نے بھی ایک اور انگڑائی لی۔ اس تمام گہما گہمی میں ایک جو کام نہیں ہوسکا وہ نصاب تعیلم کے معیار میں بہتری اور مختلف طبقات کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں ہو سکا۔ اس بات کا گواہ قومی نصاب کونسل کی طرف سے جاری کیا گیا نصاب کا آخری مسودہ ہے کہ جس میں نصاب تعلیم کے معیار کو لیکر کئی ایک بنیادی نوعیت کے اعتراضات باقی ہیں۔
قومی نصاب کونسل کی طرف سے جاری کئے گئے آخری مسودے اور چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے نصاب کے معیارات کو حتمی شکل دینے کے بین الصوبائی اجلاس کے انعقاد کے بعد نصاب کے مسلے پر شیعہ رہنما بھی متحرک ہوئے ہیں۔ شیعہ رہنماوں نے نئے یکساں نصاب تعلیم کو مسترد کرنے کا کہا ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ شیعہ رہنماوں کے خدشات کیا ہیں اور کیا یہی اصل مسلہ ہے ؟
قاعدتا شیعہ رہنماوں کا تمرکز اسلامیات کا مضمون ہے۔ اسلامیات کا مضمون نصاب تعلیم کے درجنوں مضامین میں سے ایک مضمون ہے نہ کہ سارا نصاب۔ پس پہلے مرحلے پر شیعہ رہنماوں کے نصاب پر اعتراض کا دائرہ کار یہیں سے محدود ہوگیا ہے۔ شیعہ رہنما خود کو ملک کے نظام تعلیم میں شراکت دار نہیں سمجھتے یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؛ یہ تو ہی بتا سکتے ہیں لیکن جو بات مجھ جیسا طالب علم سمجھ سکتا ہے وہ یہ کہ شیعہ بھی صرف اپنے عقیدے کی حد تک حساس ہیں؛ اس سے آگے ملک کی نظریاتی اساس یا معاشرتی اقدار و افکار کے ساتھ کون کیا کرتا اس سے شیعوں کو بطور شیعہ کوئی سروکار نہیں ہے یا وہ خود کو اس کے اہل نہیں سمجھتے۔
شیعہ رہنماوں کا کہنا ہے کہ نصاب تعلیم میں اہل بیت کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کے مدمقابل کچھ متنازعہ شخصیات کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ درود شریف سمیت بعض ایسی عبارتیں تبدیل کی گئی ہیں جن کی مثال نہ صرف دیگر مسلم ممالک بلکہ تاریخ اسلام میں بھی نہیں ملتی جیسے مختصر دورد شریف کی عبارت وغیرہ۔ بعض شیعہ رہنماوں کے مطابق آئمہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ خصوصا اور خاندان رسول کے دیگر افراد کے ساتھ عموما ان کے شایان شان احترامی کلمات اور القابات نہیں لکھے گئے جیسے علیہ السلام، امام وغیرہ۔ بعض شیعہ رہنماوں کا کہنا ہے کہ اسلامیات کے مضمون کے تاریخی ابواب میں جہاں تاریخی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں اہل بیت کے شریک افراد کا یا تو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا یا ان شخصیات کو جو کردار ان واقعات میں بنتا ہے وہ بیان نہیں کیا گیا جیسے مختلف غزوات میں حضرت علی کا جو کردار تھا یا جیسے شعب ابی طالب کے واقعہ میں محصورین کے ناموں وغیرہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اور چند دیگر اعتراضات کہ جیسے خالد بن ولید یا عمر ابن العاص جیسی متنازعہ شخصیات شامل کی گئی ہیں؛ یہ ایسی شخصیات ہیں جن کی اہل بیت سے دشمنی واضح ہے لہذا شیعہ رہنماوں کے مطابق ان شخصیات کو نصاب میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔
یہ ایک خلاصہ تھا شیعہ مکتب فکر کے گزشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والے خدشات کا۔
میرا خیال ہے شیعہ رہنماوں نے نصاب بنانے والے ادارے کو اچھی خاصی رعایت دے دی ہے۔ یہ اتنے بڑے اعتراضات نہیں ہیں اور کسی بھی ایک نظرثانی کی میٹنگ یا متعلقہ حکومتی ادارے کی تھوڑی سی سنجیدگی سے رفع ہوسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں مسائل کی نوعیت ذرا مختلف ہے جسے شیعہ رہنما بیان نہیں کر پارہے چند ایسے بیانیوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں اپنی عوام کے سامنے بری الذمہ ثابت کردیں ورنہ ہمارے خیال میں مسلہ کی نوعیت نسبتا شدید ہے جسے بیان نہیں کیا جارہا ہے۔
مثلا میں اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ اسلامیات کا مضمون جوکہ قرآن حدیث، ایمان و عبادت، اسلامی اخلاق و ادب اور سیرت و اسلامی تاریخ کا مضمون ہے؛ اس میں ایک شیعہ بچے کو پیش کرنے کے لیے کیا رکھا گیا ہے؟ تو وہ جو جواب آپ مجھے دیں گے وہیں سے اسلامیات کے نصاب تعلیم کا ایک بنیادی مسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ نصاب میں دیگر نوعیت کے بنیادی مسایل بھی ہیں جو فی الحال زیر بحث نہیں ہیں۔ فی الحال اسی ایک مسلے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ۲۵ سے ۳۰ فیصد شیعہ رہتے ہیں، ان کے بچے اسی ملک کے سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں دیگر ۷۰ یا ۷۵ فیصد بچے پڑھتے ہیں۔ ان ۲۵ سے ۳۰ فیصد بچوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن کی اپنی تفسیر کریں، حدیث کو اپنے مواخذ سے سمجھیں، عبادت اپنے طریقے سے انجام دیں، سیرت کو اپنے مشاہیر سے لیں اور تاریخ کو اپنے معیار پر پرکھیں۔ کوئی حکومت یا کمیٹی یا ادارہ انہیں اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے معیار اور مواخذ چھوڑ کر کسی دوسرے کے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں، اور ایسا نہیں کیا جاسکتا تو ایسے کرنے کی تعلیم کا بھی کوئی جواز نہیں رہتا۔ اور اگر یکساں نصاب سے مراد ایسی یکسانیت ہے تو ایسی یکسانیت کی آئین ہی اجازت نہیں دیتا۔
اسلامیات کے نصاب تعلیم میں قرآن کا ترجمہ ہو یا حدیث کا ماخذ، عبادت کا طریقہ ہو یا ایمان و عقیدہ کی بحث، کسی کردار کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا ہو یا تاریخ کے کسی گوشے سے عبرت لینی ہو اس سب کی تعلیم ایک مخصوص مکتب فکر کے عقیدے اور تعلیمات کے مطابق دی جارہی ہے۔ اسلامیات کے پورے نصاب (پہلی سے دسویں تک) کسی ایک جگہ بھی نہ صرف یہ کہ ان ۲۵ سے ۳۰ فیصد بچوں کے مکتب کی تعلیمات کے مطابق کچھ تعلیم نہیں دیا جارہا بلکہ یہ تک بھی نہیں بتایا گیا کہ کوئی ایسی مخلوق بھی اس ملک میں بستی ہے جو مثلا خلفا کی بجائے معصوم آئمہ پر ایمان رکھتی ہے یا جس کی عبادات کی تفصیلات قدرے مختلف ہیں یا جس کے ہاں اللہ تعالی کو جہاں محسن مانا جاتا ہے وہاں عادل بھی مانا جاتا ہے اور جو مثلا سب کے سب صحابہ کو عادل نہیں مانتے بلکہ اہل بیت کے مقابلے پر آنے والوں کو درست نہیں سمجھتے یا جن کی حدیث کا اپنے مواخذ اور حدیث ک ماننے کے اپنے معیارات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا ایک ایسا نصاب؛ تعلیم کے ان مقاصد جن کا ذکر حتی نصاب کے دیباچے میں خود حکومت نے کیا ہے جیسے قومی ہم آہنگی و روداری، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیت وغیرہ پیدا ہونے کا کوئی ایک فیصد بھی امکان ہے؟۔ میرے خیال میں بالکل نہیں!
کل جب ۷۰ سے ۷۵ فیصد بچے ایسی مخلوق کو دیکھیں گے کہ دس سالہ تعلیم کے دوران جب انہوں نے ایک دفعہ بھی نظام تعلیم کے ذریعے اس مخلوق کا نام تک نہیں سنا ہوگا تو وہ انہیں ویسا ہی سمجھیں گے نا جیسا انہیں فتنہ پرور مولوی نے بتایا ہوگا کہ ایک مخلوق ہے جس کے لمبے لمبے کان ہوتے ہیں؛ انتے لمبے کہ ایک کان نیچے بچھا کر اور دوسرا اوپر اوڑھ کر سو جاتے ہیں یا جن کے ہاں قرآن نہیں ہوتا یا جن کے ہاں مسجد نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔
اسلامیات کے نصاب کا بنیادی مسلہ یہ ہے کہ اس میں کلاس کے ۲۵ سے ۳۰ فیصد بچوں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کے عقیدے کے برعکس تعلیم پر انہیں مجبور کیا جارہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ جب اسلامیات کی کلاس میں ٹیچر بچوں سے کہے گا کہ بلند آواز میں اذان پڑھیں تو ۲۵ سے ۳۰ فیصد بچے خود کو محفوظ محسوس کریں گے۔ یا جب استاد کہے گا کہ کل سب بچے دعائے قنوت یاد کرکے آئیں گے یا کل سب مثلا فلاں صاحب کی فضیلت پر ایک ایک مضمون لکھ کر لے آئیں گے تو یہ ۲۵ سے ۳۰ فیصد بچے خود کو محفوظ سمجھیں گے۔ ایک ان دیکھا خوف ہمیشہ ان بچوں کے دامن گیر رہے گا۔
میں ماہر تعلیم نہیں ہوں لیکن اتنا سمجھ سکتا ہوں کہ جب آپ قرآن و حدیث، ایمان و عبادت اور سیرت و تاریخ کے اپنے فہم کو اسلامیات کا نام دے کر اپنا فہم دوسروں پر مسلط کرنا چاہیں گے تو نہ صرف احساس تحفظ جاتا رہے گا بلکہ ایک فکری انتشار کا سیلاب ہوگا جو نئی نسل کے دامن گیر ہوگا۔
اس صورت حال میں ایک تجویز تو یہ ہوسکتی ہے کہ اس مضمون کا نام اسلامیات نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ اسلامیات نہیں بلکہ آپ کی کمیٹی کا فہم ہے جسے وہ اسلامیات کا نام دے رہی ہے اور اپنے اپنے فہم کو ہی اگر درست سمجھنا اور اسے ہی عین اسلام قرار دینا ہے تو صرف آپ نہیں دوسرے سب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ موضوعات کے مطابق اس مضمون کو اسلامیات کے علاوہ کوئی بھی دوسرا نام دیا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسا کوئی مضمون جس میں قرآن و حدیث، اخلاق و ادب، سیرت و تاریخ اور ایمان و عبادت کا ذکر مقصود ہو تو اس کے ہر باب کے دو حصے ہونے چاہئے جس میں ایک ایک لائن ہی سہی تمام مکاتب فکر کی اس موضوع سے متعلق تعلیمات و ہدایات کو شامل کیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں میں تنقیدی سوچ اور چھان پھٹک کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ یہاں بحث صرف شخصیات یا چند عبارات تک محدود نہیں بلکہ تمام اجزا تک اس امر کو تصریح دی جائے۔ یا صرف ایسی چند چیزیں شامل کریں جن پر سب کا اتفاق ہوجائے۔ غیر متفقہ اور غیر مشترکہ چیزوں کو مجبورا پڑھانا اور وہ بھی اسلام بنا کر ایک مقدس گائے تو تیار کر سکتا ہے یا بعض مقدس مابوں کو تحفظ تو دے سکتا ہے لیکن ایک اسلامی شخصیت کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ آج لکھ لیں آپ کی موجودہ اسلامیات فرقہ واریت کا ایک ایسا طوفان لے کر آرہی جس کے نقصانات کا اندازہ بھی آپ کے لیے ناممکن ہے۔
اس سب کے باوجود یہ اس مسئلے کا عارضی حل ہے۔ پائیدار اور دائمی حل کے لیے اپنے جغرافیے، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنی اقدار کے مطابق فکری و مادی ضروریات کی ترجیح فہرست بنائیں اور اپنے نظریے اور اپنی اقدار کے مطابق ایک ایسا نظام تعلیم کھڑا کریں جو مستقبل کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک نسل تیار کرسکے۔ کاپی پیسٹ نصابات یا پالیسی دستاویزات سے نظام تعلیم کے مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ اسے مزید بوجھ تلے داب کر موت کے مزید نزدیک کیا جارہا ہے۔ ملک میں درجنوں قسم کے جائزے کے نظامات رائج کرکے یکساں نصاب کا تعرہ ویسے ہی اتنا کھوکھلا ہے کہ جس کی چولیں پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر نے ہلا دی ہیں رہی سہی کسر پرائیویٹ پبلشر نکال دے گا۔