وحدت نیوز(اسلام آباد) یکساں نصاب تعلیم پر ملک بھر میں شیعہ علمائے کرام و اکابرین ملت کو شدید تحفظات ہیں، اس حوالے سے شیعہ حقوق کیلئے سرگرم جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جو لا الٰہ الا للہ کے نام پر معرض وجود میں آیا، جس کے بنانے میں سنی و شیعہ مسلمانوں نے مل کر قربانیاں دیں اور ایک آزاد اور خود مختار وطن کے قیام کے ذریعے اسلام کے زریں اصولوں پر استوار زندگی گزارنے کا خواب دیکھا۔ بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح (رہ) اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال (رہ) کے پاکستان میں اسلامی رواداری، اخوت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے کے لیے قوم کے اکابرین نے کاوشیں کیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا آئین بنایا گیا، جس میں ان تمام پہلووں کا خیال رکھا گیا، جو اس ملک کو پاک سرزمین بنانے کے لیے ضروری تھا۔ کسی ملک میں قوم کی تشکیل کے مراحل اور اس کے رشد و تکامل کے لیے اس قوم کا تعلیمی نصاب وہ سانچہ ہے، جس میں اس کی نسلیں تیار ہوتی ہیں۔ اس تعلیمی نصاب کو جہاں تکنیکی و علمی اعتبار سے دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے، وہاں آئین میں بیان کی گئیں اسلامی اخوت اور دینی رواداری کے زریں اصولوں پر بھی کاربند اسلامی تصور حیات کا آئینہ دار ہونا چاہیئے۔
ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے جاری وائٹ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان جس کے بننے کے بعد ہم نے انگریزوں سے چھٹکارا تو حاصل کیا، لیکن بدقسمتی سے ان کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ تعلیم کے میدان پر یہ فرسودہ نظام بے حد اثر انداز رہا۔ نتیجتاً غریب کے لیے الگ تعلیم، امیر کے لیے الگ تعلیم، مدرسوں کے لیے الگ تعلیم، سب الگ الگ پیداوار دینے لگے اور اس کے نتیجے میں سوچ و افکار کے فرق کی بلند دیواروں کے ساتھ معاشرہ استعداد اور تفکر کے کئی درجوں میں بٹنا شروع ہوگیا۔ یہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری اس بات کا متقاضی رہی کہ ان دوریوں کو ختم کیا جائے اور اس راہ کو ہموار کرکے قوم کی تشکیل کے لوازمات فراہم کیے جائیں۔ یکساں قومی نصاب اس حوالے سے اہم اور دیرینہ ہدف کو انجام دینے کے ارادے کے ساتھ شروع کیا گیا، جو بظاہر ان نقائص کو دور کرنے اور پبلک، پرائیوٹ اور مدرسہ تعلیم کے درمیان موجود خلاء کو کم کرنے پر منتج ہونا تھا، لیکن پاکستان میں ہر کام کے اچھے آغاز کے بعد یہ کام بھی شاید سازشوں کے نتیجے میں دوسرے کاموں کے طرح اپنی اصل منزل سے کوسوں دور ہوتا دکھائی دینے لگا۔ یہ یکساں قومی نصاب اپنے پہلے بیان کردہ ہدف کو حاصل کرنے کی بجائے اپنے اصل آئینی اور نظریاتی ہدف جیسے مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے اعلیٰ اہداف کو بھی محو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
جاری وائٹ پیپر کے مطابق اس نصاب کی تدوین میں بالخصوص اسلامیات، اردو اور معاشرتی علوم میں بعض ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جو عقیدتی، فقہی اور تاریخی اعتبار سے دین اسلام کے مسلمہ اصولوں سے متصادم اور آئین پاکستان میں ذکر شدہ شہری حقوق اور مذہبی آزادی سے متصادم ہیں۔ اس لئے یہ مکتب تشیع کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں اور آئین پاکستان کی رو سے شیعہ، سنی بچوں کو ان کے اپنے مکتب، نظریئے اور عقیدے کے مطابق دینی تعلیم کے حصول کے حق کو غصب کرنا ناانصافی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں میں نئے ترتیب دیئے گئے متنازعہ نصاب سے متعلق بے پناہ بے چینی اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس وائٹ پیپر کو جاری کرنے کا مقصد اس بے چینی اور شدید اضطراب کے سلسلے میں اہم نقاط کو قوم کے سامنے لانا ہے، تاکہ حکام بالا ان کے فوری حل کے لئے اقدام کریں، حالانکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم، وزیر تعلیم اور ڈائریکٹر یکساں نصاب تعلیم کو اس سلسلے میں خطوط لکھے گئے، ہم یہاں پر اہم نکات کی نشاندہی کریں گے۔
1۔ اپنے عقیدے کی حفاظت ہمارا آئینی حق:
پاکستان کے آئین کی شق نمبر 22 میں واضح طور پر لکھا ہے۔ "کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔" آئین پاکستان ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم دینیات سمیت تمام تر نصاب، دین اسلام اور فقہ جعفریہ کی روشنی میں حاصل کریں، لہذا نصاب مرتب کرتے وقت ہمارے مسلمہ عقائد اور تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے، جب نصاب، تحریر اور نظرثانی کی تمام کمیٹیوں میں ہمارے علماء اور دانشور شامل ہوں۔
2۔ درود ابراہیمی میں تبدیلی:
قومی اسمبلی کی ایک قرارداد مورخہ 21 اگست 2020ء کو بنیاد بنا کر وزارت مذہبی امور نے عجلت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں سے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسی نوٹیفکیشن کی رو سے صدیوں سے رائج درود ابراہیمی کو اسی یکساں قومی نصاب کے لیے دفتری و غیر دفتری تحریروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ درود ابراہیمی دنیا کے تمام مسلمانوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ درود ہے اور قومی اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے مذہبی معاملات میں دینی اکابرین کی ہم آہنگی کے بغیر ایسی بڑی تبدیلی عجلت کی قانون سازی پر سوالیہ نشان ہے۔ درود ابراہیمی کو نصاب سے نکال کر آئندہ نسل کے ذہنوں میں ایک نئی تاویل اور اضافے کے درود کی تعلیم باعث تعجب ہے۔ اس نوٹیفیکشن کو فوراً منسوخ کیا جائے اور تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ درود ابراہیمی کو دفتری و غیر دفتری طباعت پر لاگو کیا جائے۔
3۔ خاندان بنو ہاشم و اہلبیت رسولﷺ کا ذکر:
مقام افسوس ہے کہ نصاب تعلیم میں خاندان بنو امیہ و بنو عباس اور فاتحین کا تذکرہ تو شامل کیا گیا ہے، مگر خاندان رسالت (ص) سے تعلق رکھنے والے آئمہ اہل اہلبیت علیہم السلام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ نصاب میں خاندان رسالتﷺ و آئمہ اہل بیتؑ کا تعارف، تعلیمات اور سیرت و کردار کو نصاب میں مثالی نمونہ بنا کر پیش نہیں کیا گیا، جس سے نئی نسل، اسلام کے ایک بڑے ذخیرہ سے محروم ہو جائے گی۔ ان تمام ہستیوں اور افراد کے تعارف کو نصاب میں باقاعدہ شامل کیا جائے اور نئی نسل کے اذہان کو اسلام کے اسلاف سے بغیر کسی تعصب اور تفریق کے روشناس کروایا جائے۔ اسی طرح مختلف شخصیات کے القاب کی وضاحت تو بیان کی گئی ہے، مگر حضرت علی علیہ السلام کے لقب مولا کا تذکرہ نہیں، جو متفق علیہ حدیث (من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ) میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کے اہم واقعہ کو بیان نہیں کیا گیا، جبکہ نصاب میں بعض ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی آل رسول (ص) سے دشمنی واضح ہے۔
4۔ صوفیاء، اولیاء اور فاتحین کے باب میں شیعہ مکتبہ فکر مکمل نظر انداز:
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل تشیع میں ایسے سینکڑوں عالم، محدث، مفسر، مورخ، فلاسفر، عارف، فقیہ گذرے ہیں، جنہوں نے دین اسلام اور امت مسلمہ کے لئے قابل قدر اور قابل فخر خدمات انجام دیں۔ جن کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ اسلامیات کے موجودہ نصاب میں ان شخصیات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
5۔ نصاب میں مذہبی رواداری کا فقدان:
نئے یکسان قومی نصاب میں اسلام کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لیے اختلافی موضوعات کی اشاعت کے بجائے مشترکہ تاریخی ذخائر سے استفادہ ضروری ہے۔ تاریخ اور شخصیات کے تعارف میں تعصب کو روا رکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرہ میں مزید شدت پسندی، مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ یکساں قومی نصاب میں مشترکات کو شامل کرتے ہوئے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے تعارف کو شامل کرنا چاہیئے، تاکہ نئی نسل تمام مکاتب فکر کے بارے میں درست معلومات اور تفہیم پیدا کرسکیں۔ نصاب میں خلافت کے ساتھ ملت تشیع کے عقیدے کے مطابق امامت بھی پڑھائی جائے۔ نیز صحاح ستہ کے ساتھ ساتھ شیعہ کتب اربعہ (حدیث) کا تعارف بھی کروایا جائے۔ خلفاء کا شامل ہونا، لیکن آئمہ (ع) اثناء عشر کا بطور امام شامل نہ کیا جانا، اس نصاب کو یکساں نہیں رہنے دیتا بلکہ یہ ایک مسلک کا نصاب بن جاتا ہے۔ عبادات کے باب میں بھی تراویح جیسی غیر متفقہ عبادات شامل ہیں، جبکہ اس مرحلے پر بھی شیعہ کی امتیازی عبادات کا ذکر نہیں ہے۔ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کہ جب یہ عقیدے اور ایمان کی کتاب ہے تو اس میں شیعہ بچوں کے عقیدے اور ایمان کے مطابق کیا چیز شامل کی گئی ہے؟ نصاب میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی جو شخصیات شامل کی گئی ہیں، وہ بھی اہلسنت کے عقیدے کے مطابق شامل کی گئی ہیں۔
6۔ نصاب کی تشکیل و تدوین و طباعت میں مکتب تشیع کی مناسب نمائندگی کا فقدان:
نصاب کی تشکیل و تدوین نیز کتابوں کی طباعت کے مختلف اداروں مثلاً نیشنل کیوریکولم کونسل (NCC)، زیرو ڈرافٹ کمیٹی (اسلامیات، اردو، معاشرتی علوم)، کیوریکولم ریویو کمیٹی مڈل، کیوریکولم ریویو (پرائمری)، کیوریکولم ریویو (ہائر)، ٹیکسٹ بک ریویو میں شیعہ اکابرین اور ایکسپرٹس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیز ان فورمز پر فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، جو کہ غیر عاقلانہ اور ناانصافی ہیں۔ مکاتب فکر کے درمیان اختلاف کو اکثریت رائے سے کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔؟ جبکہ ایسے فورم پر ووٹ کی بجائے افہام و تفہیم و اتفاق رائے کو یقینی بنانا چاہیئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان فورمز پر شیعہ علماء و دانشوروں کو مناسب اور متناسب نمائندگی دی جائے۔
ہمارا مطالبہ:
درج بالا اعتراضات کی روشنی میں ہم یہ واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ یکسان قومی نصاب اپنی موجودہ حالت میں قابل قبول نہیں اور ملک کو مزید انتشار اور تفریق کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے گا۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس یکساں قومی نصاب پر عمل درآمد مناسب عمل نہیں ہوگا۔ ملت جعفریہ یہ سمجھتی ہے کہ یکسان نصاب کو حقیقی معنوں میں مشترک ہونا چاہیئے۔ اسے کسی ایک فرقے کا نصاب نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر مشترک دینیات کے نام پر مسلکی دینیات نافذ ہوگئی، جیسا کہ موجودہ دینیات کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے، تو امامت اور اہل بیت اطہار (ع) کی تعلیمات کا ذخیرہ اور تصور حیات غریب ہو جائے گا۔ شیعہ بچوں کا ایمان اور عقیدہ بھی شدید خطرے کی زد میں رہے گا۔ یا پھر شیعہ بچوں کے لئے دینیات علیحدہ شائع ہو، جس کے نصاب سے لیکر کتاب بنانے تک شیعہ ماہرین تعلیم اور علماء شامل ہوں اور سکولوں میں پڑھانے کے لیے بھی شیعہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور اسی کے مطابق امتحانی نظام ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ بھٹو دور میں حکومت نے منظوری دی اور علیحدہ شیعہ دینیات نافذ رہی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی دینیات کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک حصہ شیعہ، سنی کے درمیان مشترک اور دو حصے شیعہ، سنی بچوں کے لیے علیحدہ ترتیب دیئے جائیں۔ یہ تینوں حصے ایک ہی کتاب میں شائع ہوں، ہر حصے کو بنانے والے ماہرین تعلیم اور علماء مختلف ہوں اور امتحانی نظام بھی اسی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ 1975ء کی اسلامیات کے ذریعے ملک میں نافذ رہا تو کم از کم یہ دینیات ایسی ہو جسے شیعہ بچے اطمینان سے پڑھ اور اپنے امتیازی عقائد و نظریات پر فخر کرسکیں، وگرنہ نوجوان نسل کو عقیدے و ایمان کے لحاظ سے ایک ایسا احساس کمتری دامن گیر ہوجائے گا کہ وہ پھر کبھی ایک باوقار دیندار شخصیت نہیں بن سکیں گے۔