وحدت نیوز (انٹرویو) اپنے خصوصی انٹرویو میں بلوچستان کے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آپ چار ماہ کی بات چھوڑیں، صرف چار دن دیکھ لیں، آپکو پتہ لگ جائیگا کہ ان چار دنوں میں وہ کام ہوئے ہیں، جو چار سال میں نہیں ہوسکے۔ وزیر صبح سے لیکر رات گئے تک اپنے آفسز میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر چھاپے پڑ رہے ہیں، میرے اپنے ڈیپارٹمنٹ جہاں بےضابطگیاں ہوئی ہیں، انکے خلاف ایکشن لیا ہے، چار ماہ میں وہ کام کرکے دکھائیں گے، جو یاد رکھا جائیگا۔
بلوچستان کے وزیر قانون آغا محمد رضا کا تعلق کوئٹہ شہر سے ہے وہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اور شوریٰ عالی کے رکن بھی ہیں، آغا رضا نے 2013ء کے عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، حال ہی میں وزیراعلٰی ثناء اللہ زہری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں فرنٹ لائن پر تھے، انکو پیچھے ہٹنے کیلئے کروڑوں روپے کی آفر بھی کرائی گئی، لیکن آغا رضا اپنے اسٹینڈ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے اور یوں وزیراعلٰی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نےمجلس وحدت مسلمین سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر قانون سے تمام تر سیاسی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ
سوال: آپ پر ایک الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ آپ نے غیرجمہوری قوتوں کیساتھ ملکر ثناء اللہ زہری کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے، کیا کہتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: اگر کوئی جمہوریت پسند شخص یہ الزام لگاتا تو تب یہ سوچا جا سکتا تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص (نواز شریف) جو خود ضیاء الحق جیسے ملعون ترین ڈکٹیٹر کے کندھوں پر بیٹھ کر اس منصب پر پہنچا، وہ دوسروں پر الزام تراشی کر رہا ہے، میں ان الزامات کو بےسروپا باتوں سے تشبیہ دوں گا، کیونکہ ہم یہ تبدیلی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے لائے ہیں، ہم نے ایک آئین کی شق کا استعمال کیا ہے اور نیا وزیراعلٰی لائے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر قانونی و غیر آئینی اقدام ہے، آپ کسی بھی سیاسی ورکر یا آئینی ماہر سے پوچھ لیں، وہ بتا دیں گے، اگر اسی آئین کے تحت الیکشن کرائے جا سکتے ہیں، حلف اٹھایا جا سکتا ہے تو وزیراعلٰی بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں غیر قانونی یا اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر تو آئین کی کسی شق کا استعمال کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بنانا ہے تو پھر میں الیکشن میں حصہ لینے کو بھی اسٹیبلمشنٹ کی بی ٹیم سمجھتا ہوں۔ یہ غیر منتطقی باتیں ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اسٹیبلمشنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر کون وزارت عظمٰی کے منصب تک پہنچا ہے۔
سوال: پھر اہم سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے آپ لوگوں کو مجبور کیا کہ نیا قائد ایوان لائیں۔؟
آغا محمد رضا: جی اصل وجہ یہ تھی کہ حکومت چند ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی تھی، ترقیاتی کام نہیں ہو پا رہے تھے، کرپشن اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی، ظاہر ہے کہ ہم نے بھی عوام میں جانا ہے، ہم نے اپنی یونین کونسل میں جانا ہے، لوگ آکر ہمارا گریبان پکڑتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ آپ نے ان پانچ برسوں میں کیا کیا ہے، ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، کیونکہ انہوں نے ترقیاتی فنڈز روک رکھے ہیں، اتنی آسامیاں خالی پڑی ہیں، ان کو پر نہیں کیا گیا، لوگوں کی نگاہ میں ہمیں 25 کروڑ روپے سالانہ ملتے ہیں، لیکن گراونڈ پر صورتحال تو کچھ اور ہے۔ صرف یہ میری پریشانی نہیں بلکہ سب کی پریشانی تھی، اسی لئے 41 ارکان نے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیا، اسی وجہ سے ہمیں کامیابی ملی ہے۔ اکتالیس ارکان کا مطلب یہ ہے کہ واضح اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور سب کا غم ایک ہے۔ یہ تحریک حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف تھی، جو کامیاب ہوئی۔ سادہ الفاظ میں یہی کہوں گا کہ حکومت مخالف تحریک دراصل فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور لاقانونیت کے خلاف تھی۔ الحمداللہ ہم نے اس مسئلے کو اٹھایا اور ہم نے دیگر ارکان کو بھی راستہ دکھایا، جو تبدیلی کا راستہ تھا اور ہم کامیاب ہوئے ہیں، ہم نے ظلم اور ناانصافی کیخلاف اپنی آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ہر محاذ پر مظلوموں کی جنگ جاری رکھیں گے۔
سوال: کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلٰی کی تبدیلی کا مقصد سینیٹ الیکشن پر اثرانداز ہونا تھا، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: میں اس تاثر کو رد کرتا ہوں، پتہ نہیں لوگ کہاں سے رائے گھڑ لیتے ہیں، یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم سینیٹ الیکشن پر اثرانداز ہوں گے اور نئی حکومت توڑ دیں گے۔ میں ایک سوال کرتا ہوں کہ یہ جو حکومت تبدیل کرنے کی ایک خواری کاٹی گئی ہے، کیا فقط دس پندرہ دن کیلئے تھی؟، باکل بھی نہیں۔ یہ ساری باتیں ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں۔ الیکشن وقت پر ہونگے اور یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ سینیٹ پر بھی کوئی اثرانداز نہیں ہوگا۔
سوال: یہ کیا ہوا جیسے ہی آپ لوگوں نے حلف اٹھایا ساتھ ہی کچھ دیر بعد دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہوگیا، کیا یہ کوئی پیغام تو نہیں تھا۔؟
آغا محمد رضا: جی باکل یہ ایک مسیج تھا کہ جو جرات آپ لوگوں نے دکھائی ہے اور یہ کام کیا ہے، اس کا انجام بہت بھیانک نکلے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اصل میں یہ پارلیمنٹ کے اوپر حملہ تھا، میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں فورسز کے جوانوں کو جہنوں نے بروقت کارروائی کرکے دہشتگردوں کو روکا، ورنہ آپ اس جگہ کو جا کر دیکھیں، یہ تو چند میٹر پر دہشتگردی کا واقعہ ہوا۔ یہ مین گیٹ سے جہاں سے ہم نکلتے ہیں، اسی راستے پر ہوا ہے۔ اسمبلی سے واپس آتے ہوئے ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا، ورنہ ہمیں بھی مار دیا جاتا۔
سوال: یہ کس کیطرف سے مسیج تھا۔؟
آغا محمد رضا: (ہنستے ہوئے)، ظاہر ہے اسکا جواب تو اتنا مشکل نہیں ہے، آپ خود پہنچ سکتے ہیں، کون تھے جنہوں نے اسمبلی کے ارکان کو دھمکانے کی کوشش کی۔
سوال: کیا اسکا اندازہ تھا کہ اگر تحریک عدم لائے تو آپ لوگوں پر اسطرح کے واقعات بھی ہوسکتے ہیں۔؟
آغا محمد رضا: خطرہ نہیں بلکہ سب کو یقین ہو چلا تھا، مطلب جب تحریک عدم اعتماد کی بات ہوئی، اسی دن سے صاف نظر آرہا تھا، پچھلے چار سال کی کارکردگی آپ کے سامنے تھی اور سب کو پتہ تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
سوال: اہم سوال یہ ہے کہ ان چار ماہ میں کیا ہوسکتا ہے، کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ فوری طور پر بڑی تبدیلی لے لائیں۔؟
آغا محمد رضا: آپ چار ماہ کی بات چھوڑیں، صرف چار دن دیکھ لیں، آپ کو پتہ لگ جائیگا کہ ان چار دنوں میں وہ کام ہوئے ہیں، جو چار سال میں نہیں ہوسکے۔ وزیر صبح سے لیکر رات گئے تک اپنے آفسز میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر چھاپے پڑ رہے ہیں، میرے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جہاں بےضابطگیاں ہوئی ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا ہے، چار ماہ میں وہ کام کرکے دکھائیں گے، جو یاد رکھا جائیگا۔
سوال: آپ نے کیا ذہن بنایا ہوا ہے کہ اہم ایشوز کون سے ہیں، جنہیں فوری حل کرنا ضروری ہے۔؟
آغا محمد رضا: سب سے پہلے بے روزگاری کا خاتمہ ہے، جو فنڈز روکے گئے ہیں، ان کی بحالی ہے، اسی طرح کرپشن کا خاتمہ ہے، نئی بھرتیوں کو میرٹ پر پُر کرنا ہے۔ تقرریاں اور تبادلے میرے پاس ہیں، انہیں آن میرٹ کروں گا۔
سوال: ایک پریس کانفرنس میں آپ نے 35000 پوسٹوں پر بھرتیاں کرنیکا اعلان کیا ہے، کیا یہ ممکن ہے۔؟
آغا محمد رضا: دیکھیں میں نے یہ کہا ہے کہ پینتیس ہزار پوسٹوں کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن تاحال ان پر فقط پانچ ہزار بھرتیاں ہوئی ہیں، باقی تیس ہزار خالی پڑی ہیں، اس حوالے سے جلد انٹرویوز اور ٹیسٹ ہوں گے، یہ پوسٹیں فقط کوئٹہ نہیں بلکہ پورے بلوچستان کیلئے ہیں۔ ہم یہ آسامیاں میرٹ پر پُر کریں گے۔
سوال: دہشتگردی جو وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسکے سدباب کیلئے کیا اقدامات اٹھائیں گے۔ نئی حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی ہے۔؟
آغا محمد رضا: اصل میں جو نئی ٹیم بنی ہے، یہ سب ایک پیج پر ہیں، دہشتگردی، کرپشن اور بےروزگاری سمیت تمام ایشوز پر نئی ٹیم ایک پیج پر ہے، ایک بات واضح ہے کہ مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، اس کے حل کیلئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروکار لائیں گے، باقی دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جس میں کئی ممالک ملوث ہیں، اس کا خاتمہ فوری طور پر ممکن نہیں ہے، البتہ بہترین حکمت عملی سے دہشتگردوں سے نمٹا جاسکتا ہے اور واقعات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔
سوال: مخالفین کا کہنا ہے کہ آپ نے جتنے بھی منصوبے شروع کئے تھے، وہ آج بھی مکمل نہیں ہوسکے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
آغا محمد رضا: آپ کو ایک وجہ تو بتا دی ہے کہ وزیراعلٰی کی تبدیلی لائی ہی اس لئے گئی ہے، کئی سالوں سے ہمارے ترقیاتی فنڈز رکے ہوئے تھے، البتہ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور پرامید ہوں کہ جتنے بھی منصوبے شروع کئے تھے، وہ مکمل ہوں گے، وہ عوام کو نظر آئیں گے۔ اگر ثناء اللہ زہری کی حکومت ہمارے فنڈز نہ روکتی تو آج ہمارے یہ منصوبے مکل ہوچکے ہوتے اور ہمیں یہ اقدام کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی، یہ اقدام کیا ہی اسی لئے ہے کہ ہمیں اگنور کیا جا رہا تھا۔ ہم نے یہ قدم اٹھایا ہی اسی لئے ہے کہ اربوں روپے کے پروجیکٹس ادھورے پڑے ہیں۔
سوال: تو کیا یہ منصوبے ان ان چار ماہ میں مکمل ہو جائیں گے۔؟
آغا محمد رضا: اگر ان چار ماہ میں مکمل نہیں ہو پاتے تو کم از کم ایسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں کہ یہ ادھورے منصوبے مزید آگے تکمیل کی طرف بڑھیں۔ نامکمل کام بھی مکمل ہوتے ہیں، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔