وحدت نیوز(آرٹیکل) بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ قومی مصلحت ومفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں. اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں شرکاء آپس میں اعتماد اوراحترام متبادل جیسے اصولوں کی پاسداری کریں. اور ھر پارٹنر کو یہ اطمینان ہونا چاہیئے کہ ان تعلقات سے اس کے ملک کی سلامتی، وحدت واستقلال ، امن وامان ، قومی آبرو ووقار ، فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کسی بهی وجه سے متاثر نہ ہو گی.
حقیقی دشمن کی پہچان:
جہاں اس دنیا میں ہر ملک وقوم کے کچھ دوست ہوتے ہیں وہیں پر اسکے دشمن بھی ہوتے ہیں. جیسے دوستوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے ہی دشمنوں کی بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے. لیکن دنیا میں اکثریت انکی ہے جو نہ تو کسی کے قریبی دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ کبھی دو طرفہ مفادات اور مصلحتیں انکو آپس میں قریب کر دیتی ہیں اور جب مشترکہ مفادات نہ ہوں تو رابطے نہیں ہوتے. اور فقط ہر ملک وقوم اپنے بنیادی اصولوں پر ثابت قدم رہ کر کامیاب اور لچکدار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی بڑی تعداد میں دوست بنا سکتی ہے. یہ فقط استکباری طاقتوں کا نظریہ ہے کہ جو ملک ہمارا دوست نہیں تو پھر وہ ہمارا دشمن ہے.اور اس کا اظہار سابق امریکی صدر جورج بش 2 نے نئی جنگیں مسلط کرتے وقت کیا تھا ۔
حضرت امام علی علیه السلام نے دشمن کو تین گروهون مین تقسیم کیا ہے:
1- کهلا دشمن: کھلے دشمن وه ہوتے ہیں جنھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ حملہ کر دیتے ہیں۔
2- دشمن کا دوست : دوسرے وہ دشمن ہوتے ہیں جو اس کھلے دشمن کے وہ دوست ہوتے ہیں. حملے میں اسکے شریک ہوتے ہیں. یا اسکی مدد کرتے ہیں اور اسکی تقویت کا سبب بنتے ہیں۔
3- دوست کا دشمن : تیسری قسم کے وه دشمن هوتے جو آپکے حقیقی دوست کے دشمن ہوتےہیں ۔
جس ملک کے حکمران اور عوام اپنے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رکھتے وہ ہمیشہ دھوکے میں رہتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں . بین الاقوامی تعلقات میں دوست اور دشمن کا تعین کرنا حکومت کی زمہ داری ہے. اور جب کسی ملک کے تعلقات متوازن نہ ہوں اوراس كے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رھا ہو تو سمجھ لیں کہ ملک کے حکمران یا تو نا اھل ہیں یا خود غرض، یا خیانت کار ہیں یا بزدل، یا پھر انکی وفاداریان اپنے ملک وقوم کے ساتھ نہیں بلکہ وہ کسی دشمن کے آلہ کار اور وفادار ہیں .
ہمارا پیارا وطن مسلسل کئی دھائیوں سے مختلف بحرانوں کا شکار ہے .کئی ایک حکومتیں بدلیں اور فوجی انقلابات بھی آئے ہیں لیکن ہم مسلسل دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں. اس مختصر کالم کے ذریعے سارے مسائل ومشکلات کا احاطہ تو ممکن نہیں.البتہ آئیں غور وفکر کریں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر ایک سچے مسلمان اور محب وطن شہری کی حیثیت سے کم از کم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے حقیقی اور کھلے دشمن کون ہیں؟. کیونکہ آج تک بد قسمتی سے ہماری قوم یہ بھی فیصلہ نہ کر پائی کہ ہمارا پہلے درجے والا کھلا دشمن کون کون ہے.؟ اور جب دشمن کا تعین ہی نہیں ہوگا تو پھر قوم اسکا مقابلہ کیسے کرے گی. مثال کے طور پر ہمارے بعض حکمران انڈیا کو دشمن قرار دیتے ہیں اور بعض دوست.جب ایسی گھمبیر صورتحال ہو تو یہ قوم اس دشمن کا ملکر کیسے مقابلہ کر سکتی ہے. اور جب دشمنوں کا کھل کر تعین ہو جائے گا تو پھر غداروں اور مفاد پرستوں اور خیانتکاروں کو قوم آسانی سے پہچان لے گی۔
ہمارے وطن عزیز کے حقیقی اور کھلے دشمن کون؟
حالانکہ پہلی قسم کا دشمن تو بالکل واضح دشمن ہوتا ہے اور اسکے پے درپے حملوں اور سازشوں سے اسکی دشمنی سب کو نظر آتی ہے.اور کوئی بھی اسکے دشمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتا. لیکن ہمارے ہاں پھر بھی اختلاف پایا جاتا ہے،ویسے تو ہر ملک کی طرح ہمارے وطن عزیز پاکستان کے اندرونی وبیرونی دشمن لا تعداد ہیں . اندرونی دشمنوں میں کرپش ، بدعنوانی ، لا قانونیت اور غیر اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ بھی ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمارے خطرناک دشمن ہیں. اور بیرونی طور پر ہر وہ ملک یا بین الاقوامی ادارہ جس کی پالیسیوں اور اقدامات سے ہمارا قومی مفاد متاثر ہوتا ہے یا وہ ہمارے دین مبین اسلام پر کھلا حملہ کرتا ہے. یا ہماری آزادی وخود مختاری اور زمینی سرحدوں کے اندر حملہ آور ہوتا ہے . وہ ہمارا بیرونی دشمن ہے.
مذکورہ اصولوں کے تحت مندرجہ ذیل تین ہمارے کھلے دشمن ہیں. جنھوں نے بالکل کھل کر وطن عزیز پاکستان اور دین مبین اسلام کے ساتھ دشمنی کی ہے.
1- انڈیا 2- اسرائیل 3- تکفیری دھشتگرد.
1- انڈیا :
انڈیا متعدد بار جارحیت کر چکا ہے. اور ہمارے وطن کا ایک بہت بڑا حصہ بنگلہ دیش ہم سے جدا کرنے کے بعد اس دشمن ملک کا وزیراعظم کھلے عام اس پر فخر وناز بھی کرتا ہے اور نریندر مودی ڈھاکہ سے اعلان کرتا ہے کہ پاکستان کو دولخت انھوں نے کیا تھا . اور ہمارے وطن کے ایک فطری حصے (كشمير) پر قابض بھی ہے. ھمارے لاکھوں ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کا قاتل بھی ہے. اور ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتا رھتا ہے. اور ہمارے بہت سے اندرونی بیرونی بحرانوں کے ماوراء اسکے ہی ھاتھ نظر آتے ہیں. اس لئے اپنی اس پالیسی کی وجہ سے بلا شک وریب یہ ہمارا پہلے درجے کا کھلا دشمن ہے.
2- اسرائیل:
اسرائیل کا وجود سر زمین مقدس فلسطین پر غیر قانونی ہے اور عالمی طاقتوں کے تعاون سے قوت و طاقت کے بلبوتے پر اسے قائم کیا گیا. یہ لاکھوں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا قاتل ہے. متعدد جنگیں عالم اسلام پر مسلط کر چکا ہے. ہمارے قبلہ اول پر بھی قابض بھی ہے. اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 70 سال گزر جانے کے باوجود ہم نے اسے تسلیم نہیں کیا. اسکے ہمارے پہلے درجے کے دشمن کے ساتھ گہرے تعلقات بھی ہیں. ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی آنکھوں میں چبھتا ہے. یہ وہ ملک ہے جس نے عراق ، شام اور سوڈان پر اچانک فضائی حملے کر کے انکے ایٹمی ریکٹر تباہ کئے تھے.اسلام مسلمانوں کے کھلے دشمن ہونے کی وجہ سے اب خطرہ اس بات کا بھی رھتا ہے کہين یہ حماقت ہمارے خلاف بھی نہ کر دے. گو اسے انڈیا کے اکسانے اور اس کی اپنی پلاننگ کے باوجود آج تک اسے ہمت نہیں ہوئی. ہم نے بھی ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ اس کا حامل ما سوائے اسرائیل کے ساری دنیا کا سفر کر سکتا ہے.البتہ اب امریکی نفوذ اور پریشر کی وجہ سے اور عربوں کی امریکی غلامی اور خیانتوں کی وجہ سے پاکستان میں بھی یہ غلامی کی سوچ پھیلانے پر کام جاری ہے کہ جب عربوں نے صلح کر لی تو ہم کیوں عالمی برادری سے کٹ جانے پر بضد رہیں. یہاں پر چند ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔
1- گویا آج تک ہماری پالیسی فقط عربوں کی اسرائیل دشمنی کی وجہ سے تھی . کیا آج تک ہم خود مختار ملک نہ تھے ؟
2- اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم کتنے بے وقوف تھے کیونکہ آج تک کسی بھی عرب ملک نے تو ہماری خاطر انڈیا سے تعلقات منقطع نہیں کئے ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے رہے.؟
3- اسی اسرائیل کے ناجائز وجود اور فلسطینی عوام پر ظلم وستم ، بیت القدس کی آزادی اور فلسطین سمیت دیگر مسلمان ممالک کی زمینوں پر قبضے کے خلاف سارے اسلامی ممالک کا مشترکہ ادارہ ( او آئی سی) بنا. ہم اسکے بانی ممبران میں سے تھے اور اس ادارے کی کانفرنسز ہماری میزبانی میں ہوئیں اور ہم اسکے چیئرمین بھی رہے . اگر یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں تھا تو یہ سب کچھ ہم نے کیوں کیا گیا ؟
4- کیا بیت المقدس فقط عربوں کا پہلا قبلہ ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.؟ کیا ہمارے نبی کی معراج کی جگہ نہیں.؟
5- اگر بزدل اور خائن فلسطینی اور بعض عرب حکمرانوں نے اسے تسلیم بھی کر لیا تو کیا اس حق کا اب مطالبہ کرنے والا وھاں پر کوئی نہیں. جس کی حمایت ہمارا انسانی اور ایمانی فریضہ ہے؟
6- کیا ہمیں امریکہ اور اسرائیل اور عرب حکمرانوں کی خاطر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے اور اپنے تاریخی حق کا مطالبہ کرنے والے مسلمان بھائیوں اور آزادی خواہ تحریکوں کی حمایت اور مدد کرنا ترک کر دینا چاہیئے ؟
7- اگر ایسا ہی درست ہے تو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا رونا پھر ہم کیوں روتے ہیں ؟ اور تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟
نہیں ہر گز نہیں ہم ایک سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے. اور اسرائیلی سیاہ تاریخ اس بات کی شاھد ہے کہ جب بھی اس صہیونی دشمن کو موقع ملے گا وہ آپکو نقصان دے گا. ہمیں کسی مغالطے میں بھی نہیں رہنا چاہئے۔
3- تکفیری دھشتگردی:
یہ وہ لعنت ہے جس نے ہمارے ملک پاکستان کا امن وامان چھین لیا ہے. اور اسے تباہ کر دیا ہے. خطے میں جس ملک نے ایک لمبا عرصہ اس کے خلاف جنگ لڑی ہے وہ پاکستانی عوام ہیں. اور ہماری فورسز نے اس کے خلاف متعدد آپریشن کئے اور بے پناہ قربانیاں دیں. اسی تکفیری دھشت گردی کی وجہ سے ہماری صنعت وتجارت متاثر ہوئی اور نا امنی کی وجہ سے ہمارا ملکی سرمایہ باہر منتقل ہوا. ملک میں فقر وفاقہ اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا. ہمارے آپس میں اجتماعی تعلقات خراب ہوئے 80 ہزار سے زیادہ شہری اسکی وحشت وبربریت کی پھینٹ چڑھے . ہمارا انفرا اسٹکریکچر تباہ ہوا. اب تو انھیں تکفیریوں کے سرغنوں کے اعترافات بالکل لوگوں کے سامنے میڈیا پر آ چکے ہیں . کہ ہمیں انڈیا اور اسرائیل جیسے پاکستان دشمن ممالک سے مدد ملتی ہے. اور ان سے روابط ہیں. انکے جرائم اور پاکستان کے ہر طبقے کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی لسٹ بہت طویل ہے. اور ہر پاکستانی انہیں خوب پہچانتا ہے۔
اب ان تینوں کھلے دشمنوں کی پاکستان یا اسلام دشمنی سے جو بھی انکار کرے گا . اور انہیں وطن دشمن قرار نہیں دے گا وہ ملک کا عالم ہو یا مفکر ، سیاستدان ہو یا حکمران ، سول آفیسر ہو یا ملٹری آفیسر ، صحافی ہو یا رائٹر جو کوئی بھی ہو وہ کبھی بھی پاکستان کا مخلص نہیں ہو سکتا۔
تحریر ۔۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی