وحدت نیوز(آرٹیکل) دو شیعہ نشین قصبے سوریہ کے شمال مغرب محافظہ ادلب (ادلب ڈویژن) میں واقع ہیں. چاروں اطراف سے تکفیری دہشتگردوں نے گذشتہ تقریبا تین سال سے محاصرہ کر رکھا ہے. ان دونوں قصبوں کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ تھی. ابھی اس وقت تقریبا 18 ھزاہ لوگ رہتے ہیں. ادلب شہر پر تکفیریوں نے ترکی کمانڈوز اور امریکہ ،غرب ، سعودیہ ، قطر وغیرہ کی مدد سے تازہ دم دستوں اور جدید تریں جنگی اسلحہ سے قبضہ کر لیا. اس وقت سے یہ لوگ مکمل حصار میں آ چکے ہیں کیونکہ نکلنے کے تمام تر راستے بند کر دیئے گئے . یہ علاقے ترکی بارڈر سے تقریبا 17 کلو میٹر پر واقع ہیں. ادلب ڈویژن کی سرحد مغرب سے ترکی ، مشرق سے حماۃ ڈویژن اور شمال سے حلب اور جنوب سے لاذقیہ ڈویژن سے ملتی ہیں. فوعہ اور کفریا نے مقاومت اور قربانیوں کی عظیم مثالیں رقم کی ہیں. انکے صبر واستقامت کی وجہ سے ادلب ڈویزن کو مکمل طور پر تکفیریوں دھشگردوں کے قبضے میں نہیں آ سکا. یہ لوگ کہ جنکے 80% گھر دہشتگردوں کی بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں. انکی امداد کا کوئی راستہ نہیں. تقریب50 کلو میٹر دور تک سیرین آرمی کا وجود نہیں. ان سب علاقوں پر سعودی ،امریکی اور ترکی واسرائیلی ایجنٹ قابض ہیں. دھشگردوں نے بجلی اور پانی کنکشن تقریبا اڑھائی سال سے کاٹ دیئے ہیں. چاروں اطراف سے ہزاروں بار انھوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملے کئے لیکن سلام ہو اس خطے کے بہادر عوام پر جنھوں نے ہزاروں شہید تو دئیے لیکن اپنی زمینی حدود کو ناپاک دشمن کے وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور زن ومرد اور پیر و جوان سب نے ملکر دفاع کیا۔
کبھی کبھی شام حکومت کے ھیلی کاپٹرز بلندی سے انکے لئے امداد سامان پھینکتے ہیں.تو ضروریات زندگی اور علاج ومعالجہ کی دوائیں انہیں مل جاتی ہیں. اور کبھی یہ امداد بھی دشمن کے علاقے میں گرتی ہے یا انکے گولوں اور میزائلوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔
انھوں نے مریضوں اور زخمیوں کے علاج کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت بعض گھروں میں صحت کے مرکز بنائے. انھیں بھی دشمن نے میزائلوں اور گولہ باری سے تباہ کر دیا ہے . جو سبزیاں اور اناج اپنی زمینوں میں کاشت کرتے ہیں وھی کھاتے ہیں اور جو مویشی پالتے ہیں انھیں سے ضروریات پوری کرتے ہیں . پینے کے پانی کو نکالنے اور فصلوں کی سیرابی کے لئے پاور کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن بجلی، گیس، ڈیزل اور پٹرول نہ ہونے کے سبب سابقہ ٹیوب ویل اور موٹریں نہیں چلتیں.وہ اب نئے کنویں خود کھود کر کچھ پانی دیسی طریقوں سے نکالتے ہیں. بارود اور گرد غبار اور غذا کی قلت اور ادویات کی عدم فراھمی وجہ سے موذی امراض اور وبائیں پھیل رہی ہیں. انکی کسمپرسی کا کوئی پرسان حال نہیں. ہزاروں رپورٹس انسانی حقوق کے دعویداروں اور اقوام متحدہ کو باقاعدہ مل چکی ہیں. لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں. اس لئے دنیا نہ انکے انسانی حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ کلمہ شھادت پڑھنے کے باوجود انکے مسلمانی حقوق کو قبول کرتا ہے۔
حلب کے عوام کی جھوٹی اور من گھڑت مظلومیت پر واویلا کرنے والے بین الاقوامی اور مقامی میڈیا چینلز اور انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد علماء وخطباء سیاسی ومذھبی جماعتیں اور شخصیات اور حکومتیں کیوں گنگ اور خاموش ہیں. کیوں ان مظلوموں کو سوشل میڈیا اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں کوریج نہیں دیتے.
یہ لوگ بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کربلا والے ہیں. بنی امیہ کے فوجیوں نے کل 61 ہجری کو کربلا کے ریگزار پر فرزند رسول خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا محاصرہ کیا تھا اور پانی بھی بند کیا تھا.جوانان جنت کے سردار کو اپنے اس زمانے کے میڈیا میں باغی بنا کر شھید کیا تھا. اور دختران رسول کریم کے خیموں کو چاروں طرف سے آگ لگائی اور انکے خیموں کو راکھ کیا تھا. آج تاریخ ایک بار پھر دھرائی جا رہی ہے. کہتے ہیں کہ ہم اس حصار، آگ وبارود سے گھبرانے والے نہیں. اور اس زمانے کے یزیدی لشکر کا مقابلہ اپنے آقا ومولا اور انکے اصحاب با وفا کی طرح ڈٹ کر کریں گے. اور اپنے وطن کے دفاع اور اپنی ملت کی عزت و کرامت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ میدان کربلا عصر میں پیش کریں گے۔
آج ہر غیرتمند اور با ضمیر انسان اور مسلمان کی زمہ داری ہے کہ وہ انکی صداء ہل من نا صر ینصرنا اور ھل من مغیث یغیثنا ، پر لبیک کہے. اور دنیا کی نگاھوں سے اوجھل ہونے والے اس ظلم کو آشکار کرے. یہ دو قصبے تکفیریت اور دھشتگردی کے سمندر کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت اختیار کر چکے ہیں. آئیں ان ہزاروں انسانوں اور مسلمانوں کو بچانے کے لئے بھرپور آواز بلند کریں. تاکہ عالمی ضمیر جاگ کر انہیں بچانے کے اقدامات کرے. اور دھشتگردی کا خاتمہ ہو. اور ظالمانہ حصار کی زنجیریں پاش پاش ہو جائیں۔
تحریر۔۔۔ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی