وحدت نیوز (آرٹیکل) اوریا مقبول جان کا ایک ویڈیو کلپ سننے کو ملا ، وہ کرونا وائرس کی آڑ میں بھنے جا رہے تھے۔ وہ کرونا وائرس کے بارے میں اپنا ایک من گھڑت فلسفہ پیش کر رہے تھے، ان کہنا تھا کہ اسلامی ممالک میں ایران واحد ملک ہے جو اس قدر متاثر ہوا ہے، ایران کیوں متاثر ہوا ہے اس کے لئے بھی اپنی من پسند وجوہات بیان کر رہے ہیں، پھر انہوں نے اپنا اصلی دکھ بیان کرنا شروع کر دیا، وہ پھٹ پڑے کہ ایران نے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کروائی اور عراق، شام اور لبنان میں اپنا کردار ادا کیا وغیرہ وغيره۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی صاحب اوریا مقبول جان صاحب کو یہ سمجھا دیں کہ یہ جو کورونا وائرس ہے یہ اوریا صاحب کے اندر موجود فرقہ پرستی والے وائرس سے بہت مختلف ہے۔
کورونا وائرس آپ کی طرح تعصب اور بغض کا لبادہ اوڑھ کر کسی خاص فرقے، نسل یا قوم کو ٹارگٹ نہیں کرتا۔ یہ ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی لائق ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی احتیاطی تدابیر پرعمل نہیں کرے گا تو اس وائرس نے اثر کرنا ہے۔ آپ کی انفارمیشن کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس وقت ایران آٹھویں نمبر پہ ہے اور ایران میں تیزی سے وائرس پر قابو پایا جا رہا ہے اور احتمال ہے کہ آئندہ ایک دو ہفتوں میں حالات معمول پر آجاَئے۔دوسری بات انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا کہا ہے یہ بھی سراسر جھوٹ ہے اور تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کیا گیا ہے۔
مختصرا یہ کہ انقلاب اسلامی کے بعد سے اب تک امریکہ، برطانیہ سے ایران کے تعلقات خراب ہے جس کی تاریخ گواہ ہے، کیونکہ انقلاب سے پہلے ایران میں رضا شاہ کی حکومت تھی جو ایک طرح سے امریکہ کا چوکیدار تھا بلا چون چراں امریکہ کی ہر بات کو تسلیم کرتا تھا مگر انقلاب اسلامی نے عالمی طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور دنیا کے مظلوموں اور مستضعفین کا ساتھ دیا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کسی طرح قبول نہیں تھا۔ یوں ایران پر عراق جنگ مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد پابندیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا حتی اس وقت کورونا کے اس وبائی مرض سے لڑنے کے لئے ایران کو جو میڈیکل ایکوپمنٹس کی ضرورت ہیں اس پر بھی پابندیاں لگا دی گئی ہیں جو سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پھر بھی ایران، عراق جنگ سے لیکر کورونا جنگ تک اپنے بل بوتے پر لڑ رہا ہے اور دشمنان اسلام سے ڈٹ کر مقابلہ بھی جاری ہے۔
اب بھلا ایران اپنے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ مل کر افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کرے گا؟؟ آپ ایک دفعہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں طالبان حکومت سے لیکر آج تک افغان ایران باڈر پر زرہ برابر بھی کوئی نوک جھونک نہیں ہوئی اس کے برعکس پاک افغان پاڈر پر نگاہ ڈالیں جہاں آئے روز کشیدگی کی اطلاعات ہیں۔ یہ انہوں نے امریکہ کا ساتھ دیکر نہیں کیا بلکہ ان کی بہترین حکمت عملی تھی کہ اپنے سرحدوں کو محفوظ رکھا۔ جس کی وجہ سے طالبان حکومت کو ایران کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ایران نے طالبانی حکومت کو تسلیم کیا ہو، ایران طالبانی فکر کے مخالف تھے اور اب بھی ہیں بلکہ دنیا کا ہر باشعور فرد طالبانی طرز حکومت کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ طالبان امریکہ کا ہی پرجکٹس تھا جس کو اس نے اپنے مقاصد کی خاطر پروان چڑھایا اور افغانستان پر مسلط کیا تھا۔
اس کے علاوہ طالبان نے اسلام کے نام پر اپنی من پسند کے قوانین نافظ کئے تھے جن کا اسلام محمدی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، بلکہ طالبانی حکومت نے اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ کر کے پیش کیا جس سے اسلام اور مسلمانوں کو کاری ضرب لگی۔ پھر بھی وقتا فوقتا طالبان ایران سے مدد بھی طلب کرتے رہے ہیں اور حال ہی میں طالبان کے وفد نے ایران کا دورہ بھی کیا۔ اب طالبان کا دورہ ایران سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران نے امریکہ کی افغان جنگ میں کوئی مدد نہیں کی تھی بلکہ دوسرے اسلامی ممالک جنہوں نے طالبان کو پروان چڑھانے میں مدد کی تھی انہوں نے امریکہ کا کھول کر ساتھ دیا تھا۔تیسری بات اوریا مقبول جان صاحب نے عراق، شام اور لبنان میں مسلمانوں کے قتل و عام کا الزام بھی ایران پر لگایا ہے جو صد در صد حقیقت کے منافی ہیں۔ پہلے ہم عراق کی بات کرتے ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام کے زریعے ایران پر جنگ مسلت کی جو تقریبا آٹھ سال جاری رہا اور دونوں طرف لاکھوں لوگ اس جنگ کے نظر ہوئے یہاں تک کہ جس طرح امریکہ نے طالبان کو استعمال کرنےکے بعد افغان وار شروع کیا تھا بلکل اسی طرح عراقی صدر صدام حسین کو بھی ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد ۲۰۰۳ میں کیمائیائی ہتھیاروں کے بہانے عراق پر حملہ آور ہوئے۔
امریکی حملے کا مقصد عراقی قدرتی وسائل تیل و گیس وغیرہ پر قبضہ کرنا اور ایران کا گیرا تنگ کرنا تھا۔ ساری دنیا نے ایک دفعہ پھر عراق جنگ میں بھی امریکہ کا ساتھ دیا سوائے ایران کے جس نے نہ صرف اس جنگ کی مخالفت کی بلکہ عراقی عوام کی بھر پور مدد بھی کی۔ صدام حکومت کو ختم کرنے کے بعد امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ عراق میں کوئی جمہوری اور عوامی مظبوط حکومت بنے کیونکہ اگر عراق میں کوئی مظبوط حکومت بنتی تھی تو یہ امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی اور امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں بچتا تھا کہ وہ عراق میں مزید قیام کریں۔ لہذا امریکہ نے طالبانی تجربہ کو دھراتے ہوئے اُسی طالبانی زہنیت کے ایک نئے گروہ کو ترتیب دیا تاکہ یہ عراق میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرے اور عراق کو مختلف حصوں میں تقسیم کریں اور امریکہ کو یہاں رہنے کا جواز پیدا کریں، یہ نئے گروہ اس قدر شددت پسند تھے کہ دنیا طالبان اور القاعدہ کو بھول گئی اور یہ گروہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی میں داعش یا آئی ایس آئی ایس کے نام سے عراق اور پھر شام کے سر زمین پر ابھرے ان کی وحشت گری نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
امریکہ جو اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا چئمپین تصور کرتا تھا داعش کے خلاف فیک جنگ کا ڈھنڈورا پیٹ نے لگا اور ساری دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے باوجود داعش نے آدھے عراق پر اپنا تسلت قائم کیا تھا اور بڑی تیزی کے ساتھ دوسرے علاقوں پر قابض ہو رہے تھے۔ انہوں نے اسلام کے نام پر جو دہشت گردی پھیلائی شاید اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، انہوں نے حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال کر دیا، ان کے ستم سے بچوں سے لیکر بزرگ، خواتین کوئی بچ نہیں پایا اور سادی دنیا میں اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ داعش بڑی تیزی کے ساتھ ابھر رہے تھے اور انہوں نے عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی اپنے قدم جمانے شروع کر دئے تھے، داعش کے اس قدر طاقتور ہونے کے پیچھے امریکہ و اسرائیل کے اتحادیوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے ظاہری طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جھنڈا تھاما تھا اور پشت پردہ دہشت گردوں کی ھر طرح سے سپورٹ کر رہے تھے۔ان حالات میں عراق و شام کی حکومت اور عوام کو کسی ایسے طاقت کی ضرورت تھی جو بیک وقت امریکہ اور داعش جیسے لعنت سے مقابلہ کر سکے۔
لہذا عراق و شام کو انقلاب اسلامی ایران کے علاوہ کوئی اور ملک نظر نہیں آیا جو اس مشکل کی گھڑی میں مسلمانوں کی مدد کر سکے، انہوں نے باقاعدہ رسمی طور پر ایران کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کی اپیل کی [عراق اور شام کے صدور نے ایران کو رسمی طور دعوت دینے کا کئی دفعہ اعتراف کر چکے ہے] کی یوں ایران نے اپنے بہترین جنگی مشاورین کو شام اور عراق کی طرف بھیجا جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے چار سے پانچ سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف داعش کا خاتمہ کیا بلکہ غاصب امریکہ کا مشرق وسطی اور عرب ممالک میں جینا حرام کر دیا اور امریکی مقاصد کو خاق میں ملا دیا۔ تیسری بات لبنان کی جہاں حزب اللہ نے اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکال باہر پھینکا ہے اور غاصب صہونیوں کے مقابلے میں ایران نے حزب اللہ کی مدد کی ہے جو جناب اوریا مقبول جان کو پسند نہیں ہے کیونکہ حزب اللہ نے ان کے آقا اسرائیل کی نیندیں حرام کردی ہیں، اب اسرائیلوں کو نکال باہر کرنے کو جناب اوریا مقبول جان مسلمانوں کا لبنان میں قتل عام کہتے ہیں اور داعش کی شر سے عراقی اور شامی عوام کو نجات دینے اور اسلام کی حفاظت کرنے کو عراق، شام میں قتل عام کہتے ہیں۔ یاد رہیں فلسطین جہاں پر مسلمانوں کا قبلہ اول ہے وہاں کے مزاحمتی تحریکیں جن میں سرفہرست حماس ہے جو مسلکی طور پر سنی مسلمان ہیں ان کو سب سے ذیادہ مدد کرنے والا حزب اللہ اور ایران ہے۔
اگر آپ کو یقین نہ آتا تو حماس اور دوسرے فلسطینی تحریکوں کے بیانات کو دیکھیں جو ایران اور حزب اللہ کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کے مدد کا طریقہ کار بھی نرالا ہے جس طرح اوریا مقبول جان غاصب صہونیوں اور عالمی ظالموں کے خلاف قیام کرنے والے مظلومین کے خلاف قلم اور زبان سے جہاد کرتے ہیں اسی طرح سعودی عرب بھی عملی میدان میں مصروف عمل ہے، جس کی چھوٹی مثال سعودی عرب میں قید حماس کے رہنماء اور مالی مدد کرنے والے لوگ ہیں جن کو اسرائیل کے اشارہ پر قید کر دیا گیا ہے لیکن مجال ہے اس حوالے سے اوریا مقبول جان صاحب کے قلم اٹھے۔آج اگر ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی کو ہیرو مانتے ہیں تو وہ ایران کے القدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا خون کا آخری قطرہ بھی عراقی سرزمین پر گرادیا اور اگر انہوں نے واقعا عراق، شام اور لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہوتا تو ان کی شہادت کے موقع پر لبنان سے لیکر عراق تک لوگ ان کی تصاویر اٹھا کر سڑکوں پر نہیں نکلتے اور ساری دنیا میں ہلچل نہیں مچتی۔ دہشت گردی کے خلاف قاسم سلیمانی اور ایران کے کردار کو اس وقت ساری دنیا خراج تحسین پیش کرتے ہیں سوائے چند تکفیریوں کے جو اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف اسلام کو بدنام کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اسلام کی دفاع میں میدان میں حاضر ہیں ان کے خلاف بھی پروپگینڈا کرتے ہیں اور عام عوام کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔
جناب اوریا مقبول جان کے اکثر کالم اور ٹاک شوز کو دیکھیں یہ ہمیشہ تکفیری نظریات کی پرچار اور حمایت کرتے نظر آتے ہیں، انہوں نے کبھی بھی حماس اور دوسرے مجاہدین جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بر سرپیکار ہیں کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔ ان کو ہمیشہ طالبان، القاعدہ یا داعش ہی اسلام کے محافظ نظر آتے ہیں جنہوں نے صرف اور صرف اسلام کو بدنام کیا ہے اور اسلام کی حرمت کو پامال کیا ہے، مسجدوں اور اصحاب رسول ص کے مزاروں کو دھماکوں سے اڑایا ہے اور مسلمانوں کا قتل و عام کیا ہے، خواتین کی عصمت دری کی ہے اور بچوں کو زبح کیا ہے اور ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کے وفادار رہے ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے ہمیشہ تاریخی حقائق سے لیکر عصر حاضر کے حالات سب کو ایک ہی سوچ اور عینک سے دیکھا ہے اور کبھی سچائی کو سجھنے اور قبول کرنے کی کوشش نہیں کی۔
مختصر یہ کہ اس ایک چھوٹے سے مقالے میں اوریا مقبول جان کی تکفیری نظریات کو بیان نہیں کرسکتا، ناہی ان کے رول ماڈل طالبان، القاعدہ اور داعش وغیرہ کی حقیقت کو بیان کرسکتا ہوں، اور ناہی امریکہ، اسرائیل کے خلاف اور عالم اسلام کی دفاع کے لئے ایران اور مقاومتی بلاک کے کردار کو بیان کرسکتا ہوں۔ میں نے بس مختصرا کچھ حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ہمیں چاہئے ہمیشہ چار انگلیوں کے فرق کو سمجھیں اور اس فارمولے کو اپنائیں ہمارے کانوں اور آنکھوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہے جو آنکھوں سے دیکھیں وہ حقیقت ہے اور جو کانوں سے سنیں اُس پر تحقیق لازم ہے لہذا اس میڈیا وار میں ہمیشہ حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔
تحریر: ناصر رینگچن
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے قرآن و احادیث کی روشنی میں انسانوں کی قسمیں کے موضوع پر سلسلہ وار درسی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان زمین پر خلیفہ خدا ہے کیونکہ وہ امانت الہٰی یعنی دین و شریعت کا حامل ہے۔ اس لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اعلی انسانی اخلاق و کردار اور خدائی احکامات کی اطاعت کرکے ہم اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہو سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی روشنی میں انسان جسم و روح پر مشتمل دو حقیقتوں کا مجموعہ ہے۔ جسم کی تخلیق مٹی سے جبکہ روح امانت الہی ہے۔انسان کی سعادت اور کامیابی کے لئے الہی نظام حیات اور الہی رہبر کی اطاعت ضروری ہے۔ جو انسان کو صراط مستقیم پر گامزن کرکے خدا تک پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا احساس کفالت پروگرام قابل تعریف ہے مگر مراکز پر مستحقین کے رش کے باعث وبا پھیلنے کا خطرہ ہے جبکہ کئی مقامات پر اب بھی رشوت کے طور مستحقین سے رقم وصول کی جا رہی ہے۔ انہوں نےکہا کہ صوبائی حکومتیں بھی عوام کو راشن اور امداد کا صاف شفاف نظام قائم کریں۔ تاکہ امداد اور راشن با اثر لوگوں کی بجائے غریب خاندانوں تک پہنچے۔
انہوں نےکہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے کارکنوں نے جذبہ حب الوطنی اور خدمت انسانیت کے تحت ملک بھر میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ مستحقین کو راشن کی فراہمی اور وائرس سے تحفظ کے لئے اسپرے کے علاوہ مختلف قرنطینہ مراکز میں خدمت کرکے المجلس ڈزاسٹر مینجمنٹ سیل نے قابل تعریف اقدام انجام دئیے ہیں۔ اھل خیر اور صاحب ثروت افراد کو آگے بڑہ کر مصیبت کی اس گھڑی میں مستحقین کا سہارا بننا چاہئے جو یقینا اجر و ثواب کا باعث ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) المجلس ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کے چیئرمین سید ناصر شیرازی نےمرکزی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا کہ ہمارے علما اور جوان پوری لگن اور ولولے کے ساتھ ملک کے ہر گوشے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ راشن کی تقسیم ، ادویات کی فراہمی سمیت دیگر امدادی کاروائیاں جاری ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ دو لاکھ خاندانوں تک راشن پہنچانے کا ٹارگٹ پورا کیا جائے۔
ان کاکہنا تھا کہ ملک و قوم کو درپیش ہر مشکل وقت کا ہم نے ہمیشہ صف اول میں رہ کرمقابلہ کیا ہے۔پریس کانفرنس میں علامہ محمد اقبال بہشتی، علامہ ضیغم عباس اور علامہ شیخ انصاری بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلائو کا سبب کوئی ایک بھی زائرنہیں بلکہ حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث یہ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلاہے ۔ زائرین کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے کی گئی کردار کشی متعصبانہ عمل ہے ۔ اس ناانصافی و بددیانتی کے خلاف اگر کوئی زائر عدالتی چارہ جوئی کرے گا تو مجلس وحدت مسلمین اس کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا کے آغاز سے ہمارے فقہا اور مجتہدین عظام نے حکومتی اور طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرنے کو واجب قرار دیا تھا۔اگر کوئی شخص اس وبا کاشکار ہے اور دانستہ طور پر کسی کو اس مرض کا شکار کرتا ہے تو وہ نہ صرف ملک وقوم کا مجرم ہے بلکہ سخت ترین گنہ گار بھی ہے۔ایران سے براستہ سڑک آنے والے زائرین ایران میں اپنی قیام کی مدت پورے کرنے کے بعد پاکستان میں داخل ہوئے جنہیںتفتان میں موجود قرنطینہ سینٹر میں رکھا گیا۔ بد قسمتی سے تفتان کے قرنطینہ سینٹر کا ماحول اور انتظامات کورونا وبا سے بچائو کی ضروری احتیاطی تدابیر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔وہاںاکیس روز تک تمام افراد کو ایک جگہ رکھا گیا اور اس حقیقت کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا کہ یہ وبا ایک دوسرے سے فوراََ پھیل سکتی ہے۔ متعلقہ حکام کی اس سنگین مجرمانہ غفلت کی اصل ذمہ داری وزیر مملکت ظفر مرزا پر عائد ہوتی ہے جن کی ناقص حکمت عملی کے باعث یہ وبا بے قابوہوتی چلی گئی۔قرنطینہ سینٹر سے ان زائرین کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا ۔وہاں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد انہیں ضلعی قرنطینہ سینٹرز میں بھیج دیا گیا۔ایران سے آنے والے ہر زائر نے چھ چھ ہفتے سے زائر عرصہ مختلف قرنطینہ سینٹر میں گزارا اور متعلقہ ادارے سے اجازت کے بعد اپنے گھرروانہ ہوئے۔ حکومت کے کچھ ذمہ داران اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کے لیے زائرین کو نشانہ بنا کر مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وائرس کا تعلق کسی بھی مذہبی طبقے سے جوڑ کرقوم کے درمیان فاصلے بڑھانا پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے ۔ کسی بھی ناگہانی صورتحال میں حکومت کے وسائل کی کمی کو قومی یکجہتی سے دور کیا جا سکتا ہے تاہم آج اس یکجہتی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے یک جاں ہونے کی بجائے سیاسی بیان بازی اور مخالفتیں عروج پر نظر آ رہی ہیں جن کے نتائج کس بھی اعتبار سے حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور قوم کومشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
وحدت نیوز(کشمور) مہلک وباء کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر مجلس وحدت مسلمین ضلع کشمور ایٹ کندھ کوٹ کے ضلعی سیکریٹری جنرل میر فائق علی جاکھرانی کی سربراہی میں المجلس ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کندھ کوٹ کی جانب سے وحدت یوتھ اور پیام ولایت اسکاؤٹس نے کشمور شہرمیں بھر اسپرے مہم کا آغاز کردیا ۔مہلک وباء کورونا وائرس کی خطرے کے پیش نظر کشمور شہر بھر میں مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ایک روزہ اسپرے مہم کا آغاز کردیا گیا ہے ' اسپرے شہر کے مختلف مساجد امام بارگاہوں گلیوں کوچوں دکانوں اور سڑکوں پر کی گئی اور اس اسپرے مہم میں مجلس وحدت مسلمین کے نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا ۔
اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکریٹری جنرل میر فائق علی جاکھرانی نے کہا ہے کے اس موذی وباء کورونا وائرس سے پوری انسانیت پریشان ہے اس کورونا وائرس کے پھیلائوکو روکنے کیلیے سندھ حکومت کی جانب سے صوبے کو لاک ڈائون کیا گیا ہے جسے آج انیس روز گذرنے کو ہیں ہم بھی اس لاک ڈائون والے عمل کو سراہتے ہیں یقیناً یہ ایک اچھا قدم تھا سندھ حکومت کی جانب سے اسی موذی وباء کے خطرے کے پیش نظر آج ہم نے قائد وحدت کے ہدایت پر کشمور شہر میں ایک روزہ اسپرے مہم کا آغاز کیا ہے جس میں ہمارے جماعت کے نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا ہے اور یہ اسپرے مہم صرف کشمور شہر تک محدود نہیں ہے بلکے کشمور ضلعے کے دیگر شہروں گڈو بڈانی ،بخشاپور، کندھ کوٹ، کرم پور ،تنگوانی، غوث پور میں بھی کی جائے گی۔
اینٹی وائرس اسپرے مہم میں ضلعی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ایڈووکیٹ سید زاہد حسین شاہ، صابر حسین کربلائی، وحدت یوتھ کے سیکریٹری جنرل راجہ پرویز کربلائی، ساگر علی شیخ، فیاض علی چنہ، امتیاز علی شیخ، وحید علی کربلائی، امداد علی چنہ، سفیر حسین سومرو اور مختیار علی چنہ بھی ہمراہ تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ تین ماہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کو کورونا وائرس کی وباء کا سامنا ہے جس کے باعث کئی ہزار اموا ہو چکی ہیں اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جو اس وائرس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں تاہم دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اور عوام بالواسطہ طور پر اس وائرس کے پھیلنے کے سبب متاثر ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والی خبروں کے مطابق جس جس ملک میں اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں وہاں پر باقاعدہ لاک ڈاؤن کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لاک ڈاؤن ہونے والے ممالک میں چین، اٹلی، فرانس،لبنان،عراق،غزہ، فلسطینی مقبوضہ علاقہ،اردن،غاصب صہیونی ریاست اسرائیل، اسپین،پاکستان اور برطانیہ سمیت امریکہ کی اتحاد ی ریاستیں بھی شامل ہیں۔اسی طرح کئی ایک اور ممالک ایسے ہیں جو اس وقت لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں۔صورتحال یہاں تک آ ن پہنچی ہے کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کرنے والے میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر بھی علاج کرتے کرتے اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ایک عام رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک اس مہلک وائرس کا شکار ہیں جس کے باعث دنیا کا نظام اور تعلق بھی منقطع ہو چکا ہے۔سیاسی وتجارتی تعلقات اور ہر قسم کے روابط محدود ہو کر رہ چکے ہیں، ہر کام ڈیجیٹل ذرائع سے انجام دینے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
دنیا بھر میں اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے سماجی دوری کو حل قرار دیا جا رہاہے۔ غرض یہ ہے کہ اس وباء سے نمٹنے کے لئے ہر ممکنہ احتیاط اور طریقہ کار کو خاطر میں لایا جا رہاہے۔اس طرح کے حالات میں کہ جب پوری انسانیت خطر ناک دور سے گزر رہی ہے اور ایک تجزیہ کے مطابق شاید گذشتہ کئی صدیوں میں اس طرح کا بحران دنیا کو سامنا نہیں ہوا ہے۔حالانکہ دو بڑی جنگیں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں اپنی جگہ پر لیکن موجودہ صورتحال تباہ کاری سے کئی گنا زیادہ سنگینی اختیار کر چکی ہے۔
ایسے حالات میں ایک سوال جو تحقیقی حلقوں میں گردش کر رہاہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہو گی؟یقینا یہ ایک اہم سوال ہے کہ جس نے ہر ذی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ان تمام تر سنگین حالات میں کہ جہاں ایک طرف کورونا وائرس ک باعث نظام زندگی متاثر ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا میں ان ممالک اور علاقوں کی بات بھی سامنے آنا بہت ضروری ہے کہ جو نہ صرفاس وباء سے نبرد آزماہیں بلکہ ساتھ ساتھ عالمی صہیونزم اور ظلم کا شکار ہیں۔
اس عنوان سے ہمارے سامنے آج کی موجودہ صورتحال میں فلسطین کا مسئلہ سب سے اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح کشمیر میں بھی بھارت کی ریاستی دہشت گرد ی کا سلسلہ جار ی ہے، شام کے سرحدی علاقوں پر ترک افواج کی جارحانہ کاروائیوں سے بھی پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی، یمن پر جاری سعودی جارحیت بھی انسانیت کے چہرہ پر سیاہ کلنک کی مانند واضح نظر آ رہی ہے۔ایران پر امریکی معاشی دہشت گرد ی بھی جاری ہے، حالان کہ ایران بھی چین، اٹلی، اسپین، فرانس کے بعد پانچواں ایسا ملک ہے کہ جہاں اموات کی شرح زیادہ ہوئی ہے۔
لیکن اس صورتحال میں بھی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مسلسل پابندیوں کو سخت کیا جا رہاہے اور میڈیکل امداد پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔کورونا وائرس کی اس دنیامیں عالمی سامراج اور صہیونزم کی دنیا اپنے ظالمانہ عزائم سے باز نہیں آ رہی ہے اور دنیا کے مظلوم خطوں پر مظالم اور جبر کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے حالات میں یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا جا رہاہے کہ کورونا وائرس کےبعد کی دنیا کیسی ہو گی؟
اسی سوال کے عنوان سے حال ہی میں لبنان کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت اور اسلامی مزاحمت کے قائد اور حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں اس سوال کو اٹھاتے ہوئے اس کا جواب دیا ہے۔سید حسن نصر اللہ نے اپنی گفتگو میں یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ کورونا وائر س کے بع دکی دنیا کیسی ہو گی؟ کہا ہے کہ آج ہم دنیا میں ایسی صورتحا ل کا سامنا کر رہے ہیں کہ جس کی طول تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔کم سے کم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک یہ صورتحال کسی بھی عالمی جنگ سے زیادہ خطر ناک ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کی بعد کی دنیا کو ایک نئے عالمی نظام اور نئی صورتحال کا سامنا ہو۔جیسا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم اور پھر سوویت یونین کے بعد مشرقی و مغربی یورپ کے خاتمہ کے بعد ان سب کے بعد ایک نیا عالمی نظام وجود میں آیا۔آج جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ ماضی کی تمام عالمی جنگوں سے بڑھ کر ہے۔کیونکہ وہ (وائرس) دنیا میں ہر خطے اور ہر جگہ میں داخل ہو چکاہے۔آج جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہاہے اسکی بنیاد ثقافتی، اعتقادی، دینی،فکری،فلسفی اور جو کچھ بھی ان سے مربوط ہے کو ایک چیلنج درپیش ہے اور یہ ایک زلزلہ ہے جو آ رہا ہے۔
کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں اہم مرحلہ دنیا کی حکومتوں کو درپیش چیلنج ہے۔ جس میں ایک بڑا چیلنج اقوام متحدہ کے اپنے موثر ہونے کا چیلنج ہے اور عالمی سطح پر بڑے بڑے اتحادیوں کو اپنے موثر ہونے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔نہیں معلوم امریکہ کی متحدہ ریاستیں متحد رہ پائیں گی یا نہیں؟یا پھر موجودہ یورپی اتحاد باقی رہ پائے گا؟اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کی موجودہ نسل چاہے وہ کسی بھی خطہ میں ہو دنیا میں کہیں بھی ہم ایک جدید دور کا تجربہ کر رہے ہیں۔اس تجربہ کی گذشتہ ایک سو یا دو سو سالوں میں مثال نہیں ملتی ہے۔ممکن ہے کہ دنیا اور بشریت ایک نئے حالات اور نئے نتائج کی طرف منتقل ہو جائے۔اس احتمال کی بنیادیں علمی او ر واقعی ہیں۔فکری، ثقافتی اور سیاسی سطح پر اور اسی طرح اتحادی گروپس کی سطح پر، اقتصاد، پیسہ، ریزرو، اور اجتماعی و معاشرتی بنیادوں پر۔ہر سطح پر ایک تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کیا آج وقت نہیں آ گیا ہے کہ دنیا ان ظالم حکمرانوں کے خلاف ڈٹ جائے اور کہے کہ ختم کرو اب بس بہت ہو گیا۔اب اگر دنیا اس فکر میں ہے کہ کیسے جنگوں، لڑائیوں اور مشکلات کو ختم کیا جائے؟اور کورونا سے مقابلہ کو اولویت دی جائے۔یہاں ایک سوال ضرور یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کی عوام بے انتہا غربت اور مظلومیت کے ساتھ اس لائق نہیں ہے کہ ان کے خلاف سعودی جنگ کوختم کیا جائے؟ کیا فلسطین کے مظلوم عوام اور انسان اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے خلاف صہیونی جرائم کا خاتمہ کیا جائے؟آج دنیا کے با ضمیر انسانوں کو یہ آواز پہلے سے زیاد ہ بلند آواز میں اٹھانی چاہئیے کہ ذاتی اختلافات نظر کو اور سیاسی حساب کتاب اور ان باتوں کی جگہ نہیں ہونی چاہئیے۔
آج انسانیت کی خاطر صرف اور صرف انسانیت کی خاطر پوری دنیا کو چاہئیے کہ امریکہ پر دباؤ ڈالے اور ایران کے خلاف معاشی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، صہیونیوں کے ظلم و ستم کو روکا جائے،سعودیہ اور اس کے اتحادیوں پر زور دیا جائے کہ وہ یمن کے مظلوم عوام پر جنگ بند کر دیں۔ اگر واقعی یہ عالمی اتحاد اور قوتیں انسان دوست ہیں توآج وقت ہے کہ اپنے ان دعووں کو سچا کر دکھائیں اور دنیا بھر میں جاری ظلم و ستم کو انسانیت کی بقاء کی خاطر رو ک دیں اور آئندہ ایسے جارحیت پسندانہ اقدامات سے بھی گریز کریں۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا یقینا تبدیل ہو جائے گی اور یہ وہ امتحان ہے جس کا ہمیں مشاہدہ کرنا ہے۔
تحریر:صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی