وحدت نیوز(لاہور) ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنک کیخلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہوئے، چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں بعد ازنماز جمعہ احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ لاہور میں مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں نے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم لاہور علامہ حسن رضا ہمدانی نے کہا کہ ڈی آئی خان میں ایڈووکیٹ سید شاہد شیرازی کی شہادت میں ملوث دہشتگردوں کی گرفتاری تحریک انصاف کی حکومت پر قرض ہے، عمران خان کی کے پی کے ٹیم عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت دہشتگردوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں جاری مکتب تشیع دشمن پالیسیوں کیخلاف انشااللہ ہم 22 جولائی سے سڑکوں پر نکلیں گے اور اس احتجاجی تحریک کے سلسلے کو مزید آگے لے کر جائینگے۔ مظاہرین ہاتھوں میں دہشتگردی کیخلاف پلے کارڈ اٹھائے حکمرانوں کی نااہلی کیخلاف نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرے میں علامہ ناصر مہدی، نجم الحسن، سید حسنین زیدی، سید حسین زیدی، افسر حسین خاں، نوید ترمذی، حسن رضا سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی اور خطاب کیے۔

وحدت نیوز(کراچی) ڈیرہ اسماعیل خان میں عید الفطر کے روز تکفیر ی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایڈوکیٹ شاہد شیرازی کی کے قتل کے خلاف ایم ڈبلیوایم ضلع ملیرکے تحت  احتجاجی ریلی مرکزی مسجد جعفرطیار سوسائٹی سے غازی چوک تک نکالی گئی، ریلی میں مومنین کی کثیر تعداد نے شرکت کی جبکہ اس ماتمی احتجاجی ریلی سے خطاب مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ باقر زید ی نے کیا ، انہوں نے شاہد شیرازی ایڈوکیٹ کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مصیبت میں صبر کرنا اوراور ظلم کےسامنے ڈٹ جانا ہم نے کربلا والوں سے سیکھا ہے لہذا ہم ہمیشہ ظلم کی مخالف اور مظلوم کی حمایت کرتے رہیں گےیہی درس کربلا ہے، ریلی کے آخر میں مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے اعزازی ڈپٹی سیکریٹری جنر ل علامہ غلام محمد فاضلی نے دعا کروائی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان میں وکیل شاہد شیرازی کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک گیر احتجاج کیا گیا اور عید کے دوسرے روز جمعرات کی شب خراسان سے نمائش چورنگی احتجاجی مظاہرہ اور علامتی دھرنا دیا گیا۔ جس میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں بشمول علامہ احمد اقبال رضوی، میثم عابدی، علامہ مبشر حسن اور رضا نقوی سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مظاہرین نے ڈی آئی خان میں ہونے والے شیعہ پروفیشنل کے قتل عام کی شدید مذمت کی اور خیبر پختونخوا سمیت وفاقی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہمیں تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، ہمارے ہونہاروں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے، ایک ماہ میں اب تک پانچ شیعہ پروفیشنلز کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، جن میں تین وکلاء، دو اساتذہ اور ایک تاجر شامل ہیں، دہشت گردی کے ان واقعات میں شہید ہونے والوں سے قومی نقصان ہوا، مگر صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک/ تحریر و ترتیب: عمران خان) مولانا عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے، جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لئے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے تا زندگی ان کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر سی ڈسپنسری کھولی، جنہوں نے ایدھی صاحب کو طبی امداد کی بنیادی چیزیں سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے، تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر دوسروں مدد کو پہنچ سکیں۔

1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی، جس پر ایدھی نے فوری طور پر ردعمل دیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لئے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لئے سکول کھول لیا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی، جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی، جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لئے وہ خود روانہ ہوتے تھے اور ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لئے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے، تاکہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی، اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔

ایسے وقت میں جب شیعہ نسل کشی پاکستان میں بام عروج پر تھی، سیاسی رہنماء، مذہبی زعما، حکومت اور وزراء محض خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے، اس وقت ایک 80 سالہ بزرگ لبیک یاحسین (ع) کی تحریر والا سفید کفن پہن کے شہر قائد کی شاہراہوں پر نکل آیا۔ یہ وہی بزرگ تھا، جو اپنے لیے نہیں دوسروں کیلئے بھیک کا کٹورا لے کر گلیوں میں پھرتا، جس کی سوچ سے ہزاروں جانیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا حصہ بننے کے بجائے جھولوں تک آن پہنچی، وہی کہ جس نے دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے ہاتھ پھیلانے میں عار محسوس نہیں کی۔ یہ اسی سوچ کا ثمر ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے لاوارث سمجھے جانیوالے شہر میں کوئی لاوارث لاش بے کفن نہیں دفنائی گی۔ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا کسی طور احاطہ ممکن نہیں، وہ یتمیوں کے لئے ایک شفیق باپ، غریبوں کیلئے ان داتا، بیماروں کیلئے مسیحا، لاوارثوں کیلئے وارث، معذوروں کیلئے مددگار، بیواؤں کیلئے سرپرست، بھوکوں، کمزورں، لاچاروں کیلئے کفیل تھے۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی انسانوں کو بچانے، سدھارنے، سنوارنے میں خرچ کر دی اور بدلے میں صرف ایک ہی خواہش ظاہر کی کہ ایک دوسرے سے محبت کرو، ایک دوسرے کے کام آو۔

بلاشبہ عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان کی پہچان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔ انہیں قائداعظم کے پاکستان کا حقیقی چہرہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ناسور نے وطن عزیز کے دامن کو بٹہ لگایا ہے تو مولانا ایدھی بھی ان چند گنی چنی شخصیات میں سے ایک ہیں، جو اپنے مفادات کے بجائے دوسروں کی ضروریات کو مقدم رکھ رہے تھے۔ یہ بات نہیں کہ انہیں قصر شاہی تک رسائی کے مواقع نہیں ملے، ضیاء دور حکومت میں انہیں وزارت بھی ملی اور ایوان اقتدار میں ان کی پذیرائی ہوئی، مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ عوامی نمائندگی کے مصنوعی ایوانوں میں ہر شے مقدم ہے، ماسوائے عوام کے، ماسوائے پاکستان کے، یہی وجہ ہے کہ وہ ضیاء دور میں حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے معذرت کرکے واپس آگئے، یاد رہے یہ وہی وقت تھا جب عصر حاضر کی نمایاں حکومتی شخصیات جنرل ضیاء کی ایک نظر کرم کے منتظر رہتے تھے۔ انہوں نے خلوص نیت سے عوام کی انسانیت کی بنیاد پر خدمت کا بیڑا اٹھایا، یہ ان کے خلوص، ان تھک محنت، جذبات کی صداقت کا ہی ثمر ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسے سے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔ عبدالستار ایدھی کو دو مرتبہ نوبل ایوارڈ کیلئے بھی نامزد کیا گیا۔ انسانی خدمت، اخلاص و محبت کا یہ باب آج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔

عبدالستار ایدھی چاہتے تو دنیا کے بہترین سے بہترین ہسپتال میں اپنا علاج کراسکتے تھے۔ یورپی، مغربی و دیگر ممالک نے خود انہیں مفت علاج کی پیش کش کی۔ یہاں تک کہ پاکستان کے حکمران خانوادوں نے بھی انہیں آفر کی کہ وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جائیں، مگر ان کی حمیت و غیرت نے یہ گوارا نہ کیا اور وہ آخری حد تک پاکستان میں ہی عوامی ہسپتال میں اپنے علاج کی کوشش کرتے رہے، کافی عرصہ بستر علالت پر گزارنے کے بعد وہ آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی خدمت و زندگی کو سامنے رکھا جائے تو ان کی وفات پر ایسے حکمرانوں کے تعزیتی بیان کھلا فریب، ڈھونگ اور منافقت محسوس ہوتے ہیں، جو بیرون ملک پرتعیش علاج سے روبصحت ہونے کے بعد شاہی انداز میں پاکستان واپس تشریف لائے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو موجودہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ ایدھی جیسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے۔ کاش کہ اس شدید ضرورت سے متعلق پاکستان کے عوام کی خواہش رب کے حضور بھی مستجاب ہوتی تو مولانا عبدالستار ایدھی آج بھی ہم سب میں موجود ہوتے۔

وحدت نیوز (کراچی) ممتاز سماجی رہنما عبدالستار ایدھی انتقال کرگئے، جنہیں 6 گھنٹے قبل وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق معروف سماجی رہنما اور قومی ہیرو عبدالستار ایدھی 92 ویں سال کی عمر میں کراچی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، موصولہ اطلاعات کے مطابق انسانی خدمت کے جذبے سے سرشارعبدالستار ایدھی نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی انسانیت کی خدمت کا عمل انجام دیا اور اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے ۔ ان کی وفات کی خبر سن کر پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ ان کی وفات کا اعلان ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے کیا۔ ایدھی صاحب کافی عرصے سے علیل تھے۔ گذشتہ روز انکی طبیعت ایک بار پھر خراب ہوگئی تھی، انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، جس کے بعد انہیں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹر ادیب رضوی سمیت دیگر ڈاکٹروں کے پینل نے ان کا معائنہ کیا اور ان کو چھ گھنٹے تک وینٹی لیٹر پر رکھا۔ اس دوران ان کو مصنوعی طریقے سے سانس دیا جاتا رہا۔ چھ گھنٹوں بعد ان سے وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا، جس کے بعد ان کی وفات کا باضابطہ اعلان انکے بیٹے فیصل ایدھی نے کیا۔ عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ کل بعد نماز ظہر نو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ میں ادا کی جائے گی اور ان کو ایدھی ولیج قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے اور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے ان کے گردوں کی پیوند کاری بھی نہیں ہوسکتی تھی، لہٰذا ہفتے میں 2 سے 3 دن ان کا ڈائلیسسز کیا جاتا تھا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ممتاز سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دکھی انسانیت کے لیے عبدالستار ایدھی کی شبانہ روز کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔وطن عزیز کے لیے آپ کا وجودایک نعمت سے کم نہیں تھا۔انسانیت کی خدمت کے صلہ میں حکومت پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز اور دیگر عالمی ایوارڈز کا ملنا آپ کی مخلصانہ تگ و دو کا اعتراف ہے۔عبد الستار ایدھی کے انتقال نے ہمیں ایک محب وطن اور انسان دوست شخصیات سے محروم اور پورے پاکستان کو سوگوار کر دیاہے۔علامہ ناصر نے مرحوم کے خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کی بلندی درجات اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree