وحدت نیوز (چنیوٹ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل قائد وحدت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ کا جامعہ بعثت رجوعہ سادات کا دورہ، طلبہ وطالبات کے علیحدہ علیحدہ اجتماعات سے ملکی وبین الاقوامی حالات، قومی سیاسی صورت حالات پر خصوصی خطاب، طلباءوطالبات کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیاری کی تلقین ،علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کا کہناتھاکہ موجودہ حالات اور عالمی استعماری ساشوں کے مقابلے کیلئے علمائے کرام اور طلاب دینیہ کی ذمہ داریاں ماضی کی نسبت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں دینی طلاب کی فعالیت وقت کا اہم تقاضہ ہے،اس موقع پر جامعہ بعثت کے مسئولین علامہ سید مہدی کاظمی، آغائے نقی ہاشمی ودیگر بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی سیکریٹریٹ میں کامیاب مرکزی تنظیمی اجلاس شوری ٰ عمومی کے انعقادپر منتظمین سالانہ اجلاس کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ،صوبائی سیکرٹری جنرل خیبرپختونخواہ اور شوری عالی کے رکن علامہ اقبال حسین بہشتی ،مرکزی سیکریٹری تعلیم و چیئر مین سالانہ مرکزی تنظیمی اجلاس برادر نثار فیضی ،اسلام آباد کے سیکر ٹری جنرل مولانا سید محمد حسین شیرازی ، راولپنڈی کے سیکر ٹری جنرل مولانا سید علی اکبر کاظمی ،صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی صوبہ پنجاب مولانا نیازحسین بخاری ، صوبائی سیکریٹری تعلیم صوبہ پنجاب برادراظہر حسین کاظمی کے علاوہ سالانہ مرکزی تنظیمی اجلاس کی کور کمیٹی اور اجرائی کمیٹیوں کے تمام اراکین ودیگرتنظیمی افراد شریک ہوئے۔ تقریب سے پہلے شب جمعتہ المبارک کی مناسبت سے دعائے کمیل کی تلاوت کی سعادت بین الاقوامی شہرت یافتہ قاری سروری نے حاصل کی اور تقریب سے پہلے تلاوت قرآن پاک کا شرف بھی انہوں نے ہی حاصل کیا۔
چیئر مین مرکزی شوری عمومی اجلاس برادر نثار علی فیضی نے تمام کمیٹیوں کے اراکین کو انکی کاوشوں پر خراج تحسین پیش کیا اور شرکاء سے اظہار خیال کیا اور آئندہ پروگرامات کو مزیدبہتر بنانے کے لیے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نےسب سے پہلے ولادت باسعادت امام حسین ؑ کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اورکہا کہ آج کی رات ہمارے لئے بہت اہم رات ہے اس رات کو سالار ازادگان و شہیدان و آسمان ولایت و امامت کے تیسر ے ستارے حضرت امام حسین کی میلاد کی رات ہے۔انہوں کہاکہ ہم جس نہضت اور تحریک کا حصہ ہیں وہ انبیاء کی نہضت ہے اور انبیاء کی نہضت کا تسلسل نہضت کربلا ہے اور ہم تب کربلائی اور حسینی نہضت کا حصہ بن سکتے ہیں جب ہمارے اندر انبیائی اور حسینی صفات موجود ہونگی۔ انبیاء علیہم السلام کی نہضت اور مقاومت میں راتوں کا قیام ہے اور راتوں میں قرآن کی تلاوت ہے۔ اخلاص ،تقوی اور توکل علی اللہ ہے۔جتنی ذمہ داری عظیم ہیاتنا ہی’’ قیام ا لیل‘‘ کی تاکید کی
گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پیغمبر اسلام کی رسالت سے پہلے کا ذکر ہے اور حسینی مقامت میں شب عاشور کاتذکرہ ہے۔اسی طرح مقامت زینبی(س) میں شام غریبان اور شب یتیمان کا ذکر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیٰ نبینا کو بھی’’ اربعین لیلاً ‘‘کاوعدہ کیا۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جوان ولائی ہو اور مقاومت کا ادعا بھی کرے اور اس کے اندر ’’راتوں کا قیام‘‘ اور ’’راتوں میں تلاوت قرآن‘‘ نہ ہو۔ عزیزان ایسا نہیں ہو سکتا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس انبیائی اور حسینی سفر میں کامیاب ہو جائیں تو آپ کو تین کام کرنے ہونگے۔ پہلا کام یہ کہ آپ اللہ پر بھروسہ کریں آپ کا ہر کام خدا کے لئے ہو۔ دوسرا آپ کو اللہ کی راہ میں معنوی اور مادی ہجرت کرنا ہو گی۔ آپ تب اللہ کی راہ میں ہجرت کرسکیں گے جب آپ گناہوں سے ہجرتکرجائیں۔تیسرا یہ کہ ائمہ اطہار سے توسل کرتے رہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی میں اور میدان مقاومت میں یہی تین کام اہم ہیں ان کو اپنا لیں آپ کامیاب ہیں اور یقین کرلیں کہ آپ راہ حسینی پرقائم ہیں۔ ورنہ شیطان کے چیلے تمہیں اغوا کرلیں گے جیسا کہ شیطان نے اللہ کی ذات کی قسم کھا کر کہا تھا کہ میں ان کو اغوا کروں گا۔شیطان کے چیلوں سے صرف مقاومت کربلائی کے اصول پر عمل پیر ا ہو کر ہی بچا جا سکتا ہے۔
وحدت نیوز(نصیرآباد) صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین بلوچستان علامہ سید ظفر عباس شمسی نے باری شاخ مرکزی امام بارگاہ علی رضا علیہ سلام میں نماز جمعہ کے خطبہ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے ھم کوجینا بھی سکھایا اور مرنا بھی سکھایا ہے،دین بھی سکھایا ہے اور دنیا میں ہنا بھی سکھایاہے، ظالم کے ظلم پر خاموش نارہو بلکہ ظالم کے سامنے ڈٹ جائو ، ظالم سے نفرت کرو،انہوں نے کہا ظالم امریکہ نے ایک مسلمان ملک شام پر 120 میزائل مار کر بربریت کامظاہرہ کیا کہ شام ظالم امریکہ کے سامنے ڈٹ گیا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے ان میں اکثر میزائیلوں کو فضا میں ہی ختم کر کے امریکہ کو شکست دیدی ،یہ جو امریکہ نے شام پر میزائیل مارے اس میں سعودی عرب کا ہاتھ تھا،تین عالمی ایٹمی قوتوں کی جارحیت کےمقابل نہتے شام نے استقامت کا بہترین مظاہرہ کیاہے۔
انہوںنے خطبہ میں کہاکہ جب بھی امریکہ نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کیا اس میں سعودی عرب کے تعاون سے کیا . مسلم ملک افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا سعودی عرب ساتھ شامل تھا . سعودی عرب کے کہنے پر افغانی مجاھد بنے . امریکہ نے جب افغانیوں سے اپنا مطلب نکال لیا اور اب افغانستان سے روس کو باہر نکال دیا گیا تو وہ افغانی اب مجاہد نہیں رہے بلکہ دھشتگرد بن گئے تو سعودی عرب نے بھی انکو امریکہ کے کہنے کے مطابق دھشت گرد کہا . القائدہ کا سربرہ اسامہ سعودی عرب کا تھا امریکہ کے کہنے کے مطابق مجاھد اور امریکہ کہ کہنے سےھشتگرد بنا سعودی عرب نے وہی کیا جو امریکہ نے کہا ۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں جب امریکہ نے حملہ کیا تو سعودی عرب امریکہ کے ساتھ تھا پھر عراق پرسعودی عرب نے امریکہ کے تعاون سے داعش سے حملہ کروایا لیکن شکست فاش ہوئی بحرین میں سعودی افواج امریکہ کی تائید سے شیعہ مسلمانوں پر ظلم کر رھا ھے ،امریکہ کے تعاون سے دو سال ہو گئےہیں،سعودی یمن والوں پر فضائی حملے کر رہاہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں یمنی مارے جا چکے ہیں، دھشتگردوں کو امریکہ کی رضامندی سے سعودی مالی تعاون دیتا رہتاہے، القائدہ ،طالبان ، سپاہ صحابہ . لشکر جھنگوی سب دھشتگرد گروپ سعودی عرب کے مالی تعاون سے پناہ پاتے رہتے ہیں، امریکہ،برطانیہ ،فرانس، اسرائیل اور اس جیسے مسلم دشمن ملک سعودی عرب کو عزیزہیں مگر مسلمان ممالک عزیز نہیں کیونکہ سعودی عرب عیسائی اور یہودیوں کا دوست ہے مسلمانوں کا نہیں ۔
وحدت نیوز(گلگت) پاکستان تحریک انصاف کا سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے والے بے ضمیروں کیخلاف ایکشن قابل ستائش اقدام ہے۔مجلس وحدت مسلمین نے جی بی کونسل کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے رکن اسمبلی کیخلاف کاروائی کرکے پاکستان کی تاریخ میں مثال قائم کی اور اب تحریک انصاف پاکستان بھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نقش قدم پر چل نکلی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما و میڈیا سیل کے انچارج شبیر حسین نے پاکستان تحریک انصاف کا بے ضمیر اراکین کے خلاف تادیبی اقدام کو سراہتے ہوئے اسے سیاسی جماعتوں کی بقا اور مضبوطی کا ضامن قرار دیا۔اگر تمام سیاسی جماعتیں ووٹ بیچنے والوں کے خلاف کاروائی کریں تو اس اقدام سے ضمیر فروشی کے بازار کا کاروبار ٹھپ ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتیں ضمیر فروشوں سے بھری پڑی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے اس سے ملک وقوم کے تحفظ کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر ووٹ بیچنے والے رکن کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لاکر ڈی سیٹ کرنے کی درخواست دی لیکن ہماری درخواست کو مسترد کرکے ایک بے ضمیر کو ابھی تک اسمبلی میں رکھاگیاہے۔انہوں نے کہا کہ کاش دوسری جماعتیں بھی مجلس وحدت مسلمین کی پیروی کرتی تو گلگت بلتستان اسمبلی ضمیر فروشوں سے خالی ہوتی۔انہوں نے نیب سے مطالبہ کیا کہ کونسل کے الیکشن میں جن جن اراکین نے اپنا ووٹ بیچا ہے ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائے تاکہ اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت سرے سے ہی ختم ہوجائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ابھی ذیشان اشرف بٹ کا خون تازہ ہے، مقتول صحافی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ شیخوپورہ میں سیوریج کے منصوبے میں مبینہ طور پر غیر معیاری مواد استعمال ہونے کی کوریج کرنے والے ڈان نیوز کے رپورٹر پر تشدد کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر مقامی جنرل کونسلر کے دفتر میں بند بھی کردیا گیا۔ ڈان نیوز کے مطابق شیخوپورہ پریس کلب کو شکایتی خط موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گَھنگ روڈ کا سیوریج نظام تباہ ہوچکا ہے، جبکہ جنرل کونسلر کی ہدایات پر شہر کے چند علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی کام میں استعمال ہونے والا مواد غیر معیاری ہے۔ جب رپورٹر اور ان کی ٹیم گھنگ روڈ پہنچی اور فوٹیج ریکارڈ کرنا شروع کی تو کونسلر رائے محمد خان اپنے عملے کے ہمراہ وہاں پہنچے اورصحافیوں پر تشدد شروع کر دیا کیمرہ مین اپنی جان بچاتے ہوئے جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جبکہ کونسلر ،بلال شیخ کا موبائل فون چھین کر انہیں گاڑی میں اپنے ڈیرے (دفتر) لے گئے۔ڈیرے پر بھی ڈان نیوز کے رپورٹر پر گنے سے تشدد کیا گیا اور بلدیاتی چیئرمین امجد لطیف شیخ کے دفتر میں محصور کر دیا گیا۔
یہ اس ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ سچ بولنے کی قیمت ہے ، یہ بے لاگ صحافت کا اجر ہے، یہ حق اور حقیقت کی خاطر قلم اٹھانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب صحافی حضرات کے ساتھ یہ برتاو ہو رہا ہے تو آپ خود اندازہ کیجئے کہ عام عوام کے ساتھ مختلف اداروں میں کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر تشدد اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سال ۲۰۱۷ سے لے کر اب تک ان گنت صحافیوں کو ملک کے اطراف و کنار میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس تشدد کے جواب میں بعض اوقات چند روز احتجاجی جلسےجلوس ہوتے ہیں اور پھر معاملہ ٹھپ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ اب رکنے میں نہیں آتا۔
صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اب ایک منظم احتجاج کی ضرورت ہے۔دوسری طرف یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ایک انسان کی زندگی کے لئے جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ایک معاشرے کی زندگی کے لئےآزادی رائے، آزادی صحافت ،جمہوریت اور انسانی حقوق کی ضرورت ہے۔اگر معاشرے میں صحافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا، صحافیوں کو گولیاں ماری جائیں گی، انہیں اغوا کیا جائے گا اور ان پر تشدد کیا جائے گا تو ایسے معاشرے سے زندگی کی رمق بھی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں آزادی رائے کوایک منظم لابی مسلسل کچل رہی ہے۔ عصرِ حاضر کے فرعون معاشرے کو غلام رکھنے کے لئے معاشرے کی اجتماعی سوچ کو مسل رہے ہیں، معاشرتی ڈکٹیٹر ایک طرف تو معاشرے میں کرپشن اور دیگر برائیوں کو خود رواج دیتے ہیں اور دوسری طرف اگر کوئی صحافی ان کی نقاب کشائی کرتا ہے تو جواب میں کہتے ہیں کہ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔
سارے معاشرے کو برا کہنا درا اصل برے لوگوں کو بچانے کی ایک عمدہ چال ہے۔ ہمارے ہاں کچھ چالاک لوگوں نے عوام کو سیاسی بصیرت ، معاشرتی رواداری ا ور اخلاقی اقدار کے بجائے نعروں، ووٹوں اور سیٹوں کے پیچھے لگا رکھا ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کو عوامی رائے اور اپنے حقوق کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوجانے کا نام ہی جمہوریت اور ووٹ ڈالنے کا نام ہی آزادی رائے ہے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر اتنا محدود اور چھوٹا کر دیا گیا ہے کہ وہ حق اور سچ کہنے کے بجائے، پارٹیوں ، برادریوں ، مسالک اور شخصیات کی پرستش کرتے ہیں۔لوگ الیکشن میں بھی ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انسانوں سے زیادہ اپنے کتوں سے پیار کرتے ہیں اور جو انسانیت اور شرافت کے بجائے بدمعاشی اور دھونس پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے پڑھے لکھے اور دانشمند طبقے کو اس حقیقت کو سمجھنے اور آگے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی ایک منظم لشکر اور مرتب سوچ یعنی ایک مستقل لابی کا مقابلہ ایک پراگندہ لشکر اور منتشر سوچ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں لینے اور زیادہ
ووٹ لینے سے کسی کی انسانیت ، آدمیت اور شرافت میں اضافہ نہیں ہو جاتا، بلکہ معاشرے میں انسانیت، آدمیت اور شرافت کی حاکمیت کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام مسائل میں فاسق و فاجر لوگوں کی مخالفت کریں ۔ جولوگ اپنے ،ماں باپ ، اپنے ہمسایوں اور اپنے عزیزو اقارب سے زیادہ اپنے کتوں اور پالتو بدمعاشوں سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں کیا جمہوری اقدار سکھائیں گے اور ہمارے ساتھ کیا بھلائی کریں گے اور وہ ہمیں کیا آزادی رائے دیں گے! عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ عوام خود اپنے ساتھ بھلائی کرے، بھلے اور نیک لوگوں کا ساتھ دے اور بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے قطعاً نہ کترائے۔ ہاں اس راستے میں ذیشان اشرف بٹ کی طرح ہماری جان بھی جا سکتی ہے اور بلال شیخ کی طرح کسی کو اغوا کر کے اس پر تشدد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رکھیں حق اور سچ کے راستے میں جولوگ ڈٹ جاتے ہیں وہی تاریک راتوں میں روشنی کے ستارے بن کر چمکتے ہیں اور جو بِک یا ڈر جاتے ہیں وہ اپنے پیچھے سیاہ رات چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
آج بحیثیت قوم ہمارے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قوم کو مغرب کی طرز پر معاشرتی آزادی، آزادی رائے اور آزادی صحافت دینے کے دعوے کرتے ہیں جبکہ عملا ً عوام کو مصر کے فرعونوں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو عوام کی دینی رہبری اور قیادت کے دعویدار ہیں لیکن معاشرے میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ لوگوں کے خون سے لا تعلق رہتے ہیں۔ اب ملک ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں ہم نے خود ہی اپنے معاشرے کی زندگی یا موت کا فیصلہ کرنا ہے،ہمارے دانشمند حضرات خواہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں یا دینی مدارس سے ، انہیں اپنے ملک میں معاشرتی آزادی، سماجی عدالت، عوامی حقوق اور رائے عامہ کی آزادی کے حوالے سے سکوت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
خصوصاً اگر دینی اداروں کے دانشمند معاشرے کی تعریف، معاشرتی آزادی، اظہارِ رائے ، رائے عامہ اور صحافت کے خدوخال کو علمی و عملی قالب میں عوام کے سامنے نہیں رکھیں گے اور ملی آزادی اور اظہار رائے کا تحفظ نہیں کریں گے تو رائے عامہ خود بخود غیروں کے آگے مسخر ہوتی چلی جائے گی۔ دینی اداروں کو چاہیے کہ آزادی صحافت کو وہ بھی اپنا مسئلہ سمجھیں اور صحافیوں کے بہنے والے خونِ ناحق کا نوٹس لیں، جس طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں پر لڑنے والے اس قوم کے مجاہد ہیں اسی طرح اس ملک میں کرپشن، بدعنوانی ، فراڈ اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کرنے والے صحافی بھی عظیم مجاہد ہیں۔لہذا دینی حلقوں کی طرف سے صحافیوں پر ہونے والے تشدد پر خاموشی بلاجواز ہے۔
آئیے وطن عزیز سے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاہ رات کے خاتمے اور آزادی رائے کی خاطر قربانیاں دینے والے صحافیوں کے حق میں ہر پلیٹ فارم سے آواز بلند کریں اور متحد ہوکر حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ وہ صحافیوں پر تشدد اور حملے کرنے والے مجرمین کو قرار واقعی سزا ئیں دے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ تو زندہ ہو لیکن صحافت مردہ ہو، ہمیں اس معاشرے میں صحافت کو زندہ رکھنے کے لئے عوام و خواص کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اور تمام پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو معاشرتی دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا۔یاد رکھئے !صحافت معاشرے کا دل اور دماغ ہے، صحافت زندہ رہے گی تو معاشرہ بھی زندہ رہے گا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(گلگت ) اتحاد کمیٹی گلگت کے چھلمس داس پر دعویٰ کی کوئی حقیقت نہیں ، اگر وہ اپنے دعوے میںسچے ہیں تو عدالت میں اپنا حق ثابت کریں۔اخباری بیانات سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے ،چھلمس داس پر اہالیان نومل کا حق ثابت شدہ ہے،مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری اطلاعات علی حیدر نے کہا ہے اتحاد کمیٹی چھلمس داس پر دعویٰ کرنے سے قبل گلگت شہر سے متصل کونوداس میں اپنا حق ثابت کریں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے چھلمس داس کو نومل کی ملکیت قرار دیا ہے جبکہ حکومت کالا قانون ناتوڑ رول سے استفادہ کرکے نومل کے عوام پر زیادتی کررہی ہے۔ٹیکنیکل کالج کیلئے نومل کے عوام نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفت زمین فراہم کی اور قراقرم یونیورسٹی کیلئے بھی 2004 میں زمین فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ،اس کے باوجود حکومت نے درپردہ چھلمس داس کو مختلف اداروں کے نام الاٹمنٹ کی جو کہ صریحاً عوام دشمنی ہے۔
انہوں نے کہا نواز لیگ کی حکومت چھلمس داس میں الاٹمنٹ کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر خود دھود کا دھلا ہوا ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اگر سابقہ حکومت نے الاٹمنٹ کی ہے تو عوام کے مفاد میں ان تمام الاٹمنٹس کو کینسل کرے وگر سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت کی عوام دشمنی میں کوئی فرق نہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت کے رہنما حق ملکیت کے جعلی نعرے سے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جبکہ عوام ان کی اصلیت جان چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نومل کے عوام جان دے سکتے ہیں لیکن چھلمس داس سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگے۔حکومت ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھے اور جبری طور پر چھلمس داس پر قابض ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔