وحدت نیوز (کوئٹہ) تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کچھ دیر قبل کوئٹہ پہنچ گئے ہیں، کورہیڈ کوراٹر میں جنرل قمر باجوہ کی مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور صوبائی وزیر قانون آغا رضا سمیت دیگر ہزارہ عمائدین سے ملاقات جاری ہے، جس میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو،ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور، ، وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، کمانڈر سدرن کمانڈ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور دیگر اعلیٰ و سول حکام بھی موجود ہیں ،جبکہ شیعہ عمائدین میںایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی، علامہ جمعہ اسدی، کوئٹہ یکجہتی کونسل کے سربراہ عبد القیوم چنگیزی، سابق ایم این اے ناصرشاہ ودیگربھی شریک ہیں۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں کہاگیاہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ پہنچ چکے ہیں جہاں وہ امن وامان کی صورتحال پر اعلیٰ سول عسکری حکام سمیت ہزارہ قوم کے عمائدین سے ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں سے کوئٹہ شہر میں شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے کے خلاف مجلس وحدت مسلمین اور ہزارہ قوم کی جانب سے چار روز سے کوئٹہ کے چارمختلف مقامات پر احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے، خانوادہ شہداءکا مطالبہ ہے کہ آرمی چیف پاراچنار کی طرح خود کوئٹہ آئیں اور ہمارے زخموں پر مرہم رکھیں ، خانوادہ شہداء سے اظہار یکجہتی اور ان کے مطالبات کی حمایت میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور صوبائی وزیر قانون آغا رضا نے بھی گذشتہ دو روز سے بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیا ہواجہاں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور دیگر اعلیٰ سول و عسکری حکام نے ان سے ملاقات کی اور دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی جسے آغا رضا نے خانوادہ شہداء کے دھرنا ختم کرنے اور آرمی چیف کی کوئٹہ آمد سے مشروط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پرزور عوامی مطالبے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے فوری طور پر کوئٹہ پہنچنے کی درخواست کی جس کے بعد آرمی چیف کوئٹہ پہنچ چکے ہیں، امید ظاہر کی جاری ہے آرمی چیف خانوادہ شہدائے کوئٹہ کی داد رسی کریں گے، ان کے پیاروں کے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔
وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین جیکب آباد کے زیر اہتمام کوئٹہ کے مظلوم شیعیان علی ؑ سے اظہار یکجہتی کے لئے جیکب آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔ اس موقعہ پر احتجاج پر بیٹھے مظاہرین نے دھشت گردی بند کرو اور کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کی نسل کشی بند کرو کے نعرے لگائے۔اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ کوئٹہ کے مومنین خود کو تنہا نہ سمجھیں پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔ ہم کوئٹہ کے مظلوم مومنین اور وارثان شہداء کے ساتھ ہیں، احتجاج کے ہر مرحلے میں ان کا ساتھ دیں گے۔ آرمی چیف کو فی الفور کوئٹہ جانا چاہئے ہزارہ اس ملک کےمحب وطن اور بہادرشہری ہیں جن کا مسلسل قتل عام ہورہا ہے،
انہوں نے بتایا کہ چار مئی کو کوئٹہ کے مومنین سے اظہار یکجہتی کے لئے قائد وحدت کی ھدایت پر سندہ بھر میں بھرپور احتجاج کیا جائے گا، انہوں نے پوری قوم سے اپیل کی کہ وہ مظلومین کوئٹہ کی حمایت کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔انہوں نے کہا کہ مظلوموں کے حق کے لئے آواز بلند کرنا قابل ستائش عمل ہے ہم امید کرتے ہیں کہ کوئٹہ کے مظلوم شیعیان علی ؑ جدوجہد کے اس مرحلے میں سرخرو ہوں گے۔ مجلس وحدت مسلمین مظلومین کے ساتھ ہے۔ ہم چیف جسٹس سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کا از خود نوٹس لے، اسی ہزار شہداء کے وارث انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ عدالتوں سے قاتل دھشت گرد باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) یکم مئی یعنی یومِ مزدور، اس روز کو یومِ مزدور کے عنوان سے منانے کا آغاز ۱۸۸۶سے ہوا، یہ دن امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی یاد کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔تاریخ حقائق کے مطابق صنعتی انقلاب نے امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کو بہت بڑھا دیا تھا، ،مزدوروں سے بے تحاشا کام لیا جاتا تھا، جس پر مزدوروں نے شکاگو میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ، مظاہرے میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ مزدوروں سے کام لینے کی مدت کو آٹھ گھنٹے تک محدود کیا جائے، سرمایہ داروں کی ترجمان حکومت نے مزدور تحریک کو کچلنے کے لئے پولیس سے اندھا دھند فائرنگ کروائی جس سے سینکڑوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے اور بہت سارے مزدوروں کو گرفتار کر کے پھانسی دی گئی۔
اس کے بعد ہر سال کو یکم مئی کے روز یومِ مزدور منایا جاتا ہے، وہ ۱۸۸۶ کا امریکہ تھا اور آج ۲۰۱۸ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ طبقے نے اپنے طریقہ واردات کو بدلا اور پوری دنیا کو اپنا مزدور بنا کر رکھ لیا۔ قدیم مزدور اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ وہ جانتے تھے کہ کس کی مزدوری کر رہے ہیں جبکہ عصرِ حاضر کے مزدوروں کو یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کس کے مزدور ہیں۔ بے شک آج کا مزدور آٹھ گھنٹے ہی کام کرتا ہے لیکن اس کے صلے میں اسے صرف اتنی ہی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ بمشکل اپنا پیٹ پال سکے اور اپنے تن کو ڈھانک سکے، پہلے سرمایہ دارای بطورِ نظریہ چند ممالک تک محدود تھی آج ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہے ، آج جو جتنا سرمایہ دار ہے وہ اتنا ہی بے رحم، ظالم اور سفاک ہے، اس ظلم اور سفاکیت کا نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان ماضی کی طرح آج بھی ایک گہری اور وسیع خلیج حائل ہے۔ بہت سارے ایسے سفید پوش بھی ہیں جو اپنی جھوٹی نمود و نمائش کے ذریعے اپنے آپ کوسرمایہ داروں کی صف میں شامل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن در حقیقت جو سرمایہ دار ہیں انہوں نے عوام کو اپنا مکمل مزدور بنایا ہوا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب ملک کے حکمران ارب پتی ہیں، لوگ ایک انجکشن کی قیمت ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں جبکہ حکمران اپنے علاج کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے جاتے ہیں، عام آدمی کےلئے اور ایک سرمایہ دار کے بچے کے لئے تعلیمی نظام مکمل جداگانہ ہے۔عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور سرمایہ دار منرل واٹر سے نہاتے ہیں۔۔۔ اب اس دور میں ہمیں مزدور ہونے کے جدید معنی کو سمجھنا ہوگا، آج ہروہ شخص مزدور ہے اور اس کے حقوق کا استحصال ہورہا ہے جس کے لئے معیاری تعلیم کا بندوبست نہیں، اس کی غیر معیاری تعلیم ہونے کے باعث اس کے لئے اچھے روزگار کے مواقع میسر نہیں اور اچھا روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ شدید محنت کے باوجود قلیل آمدن پر گزاراہ کرتا ہے اور بمشکل اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔جسکے پاس محنت کے باوجود علاج کے لئے پیسے نہیں اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں وہ یقینا جدید سرمایہ کاروں کا مزدور ہے۔
جدید سرمایہ کاروں نے صرف قلیل تنخواہ کے ذریعے ہی لوگوں کا استحصال نہیں کیا بلکہ دینی مقدسات کے نام پر بھی لوگوں کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنے مزدوروں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ ۱۸۸۶ میں شکاگو میں گولیاں چلوانے والے امریکہ نے آج پوری دنیا میں بارود اور جنگوں کا جال بچھا رکھا ہے، داعش، القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سب اسی کے مزدور ہیں، پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے بعض دینی مدارس کو ان مزدوروں کی ٹریننگ کے لئے استعمال کیا گیا اور آج یہ مزدور پوری دنیا میں امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہوں نے دنیا بھر میں ہنستے بستے اسلامی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہےاور اب انہی کے نام سے امریکہ دیگر ممالک کو ڈرا ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کررہا ہے۔ مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانا یہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین چال ہے۔ آج یمن، بحرین، شام، عراق اور افغانستان کا حال ہمارے سامنے ہے، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا منصوبہ ہے کہ اپنے مزدوروں سے مسلمان ممالک کو تباہ کرو اور پھر اپنی کمپنیوں کے ذریعے ان ممالک کی تعمیرِ نو کے نام پر سرمایہ بناو۔
اب یومِ مزدور کے موقع پر جہاں مزدوروں کے دیگر حقوق کے لئے آواز اٹھنی چاہیے وہیں مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانے کے خلاف بھی آواز بلند ہونی چاہیے۔یقینا وہ دینی مدارس اور سیاستدان قومی مجرم ہیں جن کی وجہ سے مسلمان نسل سرمایہ داروں کی مزدور بنی، ایسے علما، مدارس اور شخصیات کے خلاف یومِ مزدور کے موقع پر ضرور صدا بلند ہونی چاہیے جنہوں نے سرمایہ داروں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے امت مسلمہ کے جوانوں کو سرمایہ داروں کا مزدور بنایا۔ یہ حالات اور وقت کا تقاضا ہےکہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے قدیم جرائم کے ساتھ ساتھ جدید جرائم کے بارے میں بھی عوام کو شعور اور آگاہی دیں۔ اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کا جدید چہرہ لوگوں کے سامنے نہیں لاتے تو پھر بے شک ریلیاں نکالتے رہیں اور کالم لکھتے رہیں در حقیقت ہم سب سرمایہ داروں کے مزدور ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی {عج}کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ{عج} کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی { الصواعق المحرقہ}سید جمال الدین{روضۃ الاحباب}ابن صباغ مالکی {الفصول المہمۃ}سبط ابن جوزی{تذکرۃ الخواص }۔۔۔۔۔ وغیرہ۔امام زمانہ{عج}کی غیبت کےمنکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کاان کے درمیان موجود ہوناضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو ۔
ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلا جواب:امام زمانہ{عج}کی غیبت اور آپ{عج}کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کےدرمیان کوئی ملازمہ نہیں ہیں ۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سےبہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے ۔ بنابریں عصرغیبت میں بھی امام زمانہ{عج}کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ {عج}کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ {عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔ امام زمانہ {عج} کالوگوں کےامور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ {عج}کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف و تصرفہ لطف آخر و عدمہ منا}امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے ۔ {یعنی امام زمانہ {عج}بھی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا لیکن پھربھی وہ امت کے لئے فائدہ
مند ہیں}
دوسراجواب: امام{عج} کے پیروکاروں کا امام{عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ آپ{عج}تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ{عج}کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہو اور وہ آپ{عج}کےوجود سےفیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ{عج} کےوجودکے تمام آثار و برکات سےبہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اورشائستہ افراد کی آپ{عج }کےساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے ۔
تیسرا جواب: امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اوربلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعےسے یہ کام انجام دیتے تھے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنےنمائندے معین فرماتے تھے جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے۔اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا ۔ اسی وجہ سے امام زمانہ{عج}بھی اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی رہبری کرتےہیں جیساکہ غیبت صغری کے زمانے میں آپ {عج} نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبری کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں۔
چوتھا جواب: شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔بے شک یہ اعتقاد{ کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتےلیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ {عج} کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ{عج} کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے } انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
پانچواں جواب:امامت کے اہداف میں سےایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے ۔امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنےوالے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔واضح ہے کہ انسان کا اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونےکے لئےضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے ۔ گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ {عج}کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے ۔اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرمند نہیں ہوتا ہےلیکن اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہے ۔بہر حال امام زمانہ{عج} کے وجود کے آثاروبرکات سے بہرہ مند نہ ہونےکا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کافراہم نہ کرنا ہے جس کی وجہ سےلوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام،کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سےاس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی آپ {عج} کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:{واما السبب غیبتہ فلایجوز ان یکون من الله سبحانہ و لا منہ کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظہوریجب عند زوال السبب} لیکن یہ جائزنہیں کہ امام زمانہ{عج} کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ{عج} کی طرف سے ہوجیسا کہ آپ جان چکے ہیں پس اس کی وجہ خود عوام {لوگ }ہیں کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہےاور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی توظہور واجب ہو جائے گا ۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ{عج}کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثا رتھےلیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجودہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ایک لحظہ کےلئےبھی زمین حجت خدا سے خالی ہوتووہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔ {لو لا الحجۃ لساخت الارض باہلہا}یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہےجو کہ بعض دعاوٴںمیں موجود ہے:{بیمنہ رزق الوری و بوجودہ ثبتت الارض و السماء}امام زمانہ{عج}کے وجود کی برکت
سے ہی موجودات رزق پا رہے ہیں
اورآسمان و زمین بر قرار ہیں ۔
امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں ،خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہیں امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوںتک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔لہذا امام زمانہ{عج}کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ{عج} کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہےکہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں ۔
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت ۔
2۔کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485۔
3۔الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298۔
4۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
5۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
6۔نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپایگانی،ص 148 ۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں گذشتہ دوماہ سے ملت جعفریہ کی نسل کشی جاری ہے اور غافل حکمران ٹس سے مس نہیں کوئٹہ میں عالمی دہشتگرد گروہ داعش دہشتگرانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کرنے والے عوام اور ریاست سے مخلص نہیں۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں کوئٹہ میں جاری شیعہ ہزارہ کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اپنے مذمتی بیان میں کیا۔ علامہ اقتدار نقوی کا کہنا تھا کہ، پاکستان اور افغانستان میں شیعہ ہزارہ برادری کیخلاف پے درپے حملے عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔چار مئی کو کوئٹہ کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کے لئے یوم احتجاج منایا جائے گا،اور 13 مئی کو مظلومین جہاں کی حمایت اور امریکہ اسرائیل اور اس کے اتحادی کے مظالم کیخلاف ملک گیر ،،یوم مردہ باد امریکہ،،منایا جائے گا۔
علامہ اقتدار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کیساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور پولیس کی جانب سے بھی فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش افسوسناک ہے،ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کے سب سے زیادہ متاثر فریق ملت جعفریہ کیخلاف حکومت اور کے پی کے پولیس کی جانب سے غیر قانونی غیر انسانی اقدامات کی ہم مذمت کرتے ہیں،ہم خیبر پختونخواہ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے شرپسندانہ اقدامات سے باز رہے ،بصورت دیگر عوامی کسی بھی درعمل کی ذمہ داری کے پی کے حکومت پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ملت تشیع کو دہشتگردی کیساتھ ساتھ مسنگ پرسن کا مسلہ گھمبیر صورت حال اختیار کر تا جا رہا ہے،عوام اس وقت بہت اضطراب میں ہیں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک طرف ہماری نسل کشی جاری ہیں اور دوسری طرف ہمارے نوجوان نامعلوم افراد کے ہاتھوں غائب ہو رہے ہیں،ہم آرمی چیف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کوئٹہ کے مظلومین کی دادرسی کے پہنچیں اور ا ن کے زخموں پر مرہم رکھیں اور ملک دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملائیں،چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ کوئٹہ کے مظلومین کی نسل کشی پر سوموٹو ایکشن لیں،یاد رکھیں حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے نہیں۔
وحدت نیوز (گلگت) کوئٹہ میں بیگناہ پاکستانیوں خاص کر ہزارہ برادری کی نسل کشی پر اداروں کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔کالعدم تنظیمیں بھیس بدل کر کھلے عام تشہیراتی مہم چلارہے ہیں ،حکومت نیٹ ورک تک پہنچنے کی نہ صرف کوشش نہیں کرتی بلکہ درپردہ ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام پر سخت مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ہزارہ قوم کا شمار بلوچستان کی پڑھی لکھی قوم میں ہوتا ہے جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اس نہتے قوم کے خلاف ایک عرصے سے دہشت گردکاروائیاں ہورہی ہیں اور اب تک ہزاروں افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ا س ظلم وبربریت کے سامنے حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے جو ایک ریاست کیلئے کھلم کھلا چیلنج ہے اور حکومت اس تمام عرصے میں مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سوا عملاً دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کچھ کرنے کیلئے تیارہیں۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف وزیرستان طرز کا اپریشن ہونا چاہئے اور آخری دہشت گردکی کی موجودگی تک آپریشن جاری رہنا چاہئے۔انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں نوٹس لیں اور بلوچستان کی سرزمین کو پرامن خطہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔