وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کی جانب سے حالیہ قومی انتخابات میں حلقہ پی ایس 89 میں شب وروز انتخابی مہم میں مصروف عمل رہنے والے کارکنان اور عہدیداران کی حوصلہ افزائی کے لئے ضلعی سیکریٹریٹ وحدت ہاؤس جعفرطیار میں اجتماعی دعائے توسل اور عشائیے کا اہتمام ، دعا کی تلاوت ڈویژنل رہنما علامہ نشان حیدر نے کی جبکہ عشائیے کے مہمان خصوصی اور مقرر ایم ڈبلیوایم اور پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سید علی حسین نقوی تھے۔
اس موقع پر علی حسین نقوی نے 25 مارچ کو الیکشن ڈے پر شاندار کارکردگی کے مظاہرہ کرنے پر تمام حاضرین اور شدید گرمی اور قطاروں میں طویل انتظار کے باوجود ہزاروں ووٹوںکے زریعےاعتماد کااظہار کرنے پر اہلیان جعفرطیار کو خراج تحسین پیش کیا ،انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد جاری ہے ،انتخابی بے ضابطگیوں کے ٹھوس شواہد کے ساتھ الیکشن کمیشن سے رجوع کررہے ہیں،انشاءاللہ حلقہ پی ایس 89 کے ووٹرز کے مینڈیٹ پر کسی کو شب خون مارنے نہیں دیں گے، اسمبلی کی نشست ہمارے اور عوامی خدمت کے درمیان کی دیوار نہیں بنے گی، جب تک اختیار اور طاقت نہیں ملتی اپنے زور بازو پر عوامی مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہیں گے،علی حسین نقوی نے انتخابی نتائج میں تعطل پر اضطراب کا شکار اور ان کی کامیابی کیلئے شب و روز دعا گو اہلیان جعفرطیار سے جلد خصوصی ملاقات اور خطاب کا بھی اعلان کیا۔
وحدت نیوز (گلگت) دیامر میںبچیوںکے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے والے علم دشمن شدت پسندکسی رعایت کے مستحق نہیں۔شدت پسند گروہ کو حکومت کی آشیرباد حاصل ہے ، لڑکیوں کی انگریزی تعلیم کو حرام قرار دینے والے مولوی نامعلوم نہیںہوسکتے۔ماضی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جنہیں سنجیدہ نہیں لیا گیا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے علاقائی تعصب اور فرقے کی قید سے باہر نکلیں تو سب کچھ عیاں ہوجائیگا۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے دیامر میں تعلیمی اداروں پر حملے کو علاقے کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ضلع دیامر میں دلسوز واقعات رونما ہوئے جسے حکومتوں نے سنجیدہ نہیں لیا اور سیاسی ومذہبی کارڈ استعمال کرکے موثر فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دی گئی۔مٹھی بھر دہشت گردوں نے دیامر کا امیج خراب کردیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ دیامر کے عوام اپنی صفوں سے دہشت گردوں کو بے نقاب کرے۔انہوں نے کہا کہ بیک جنبش ایک ہی رات 13 تعلیمی اداروں کی تباہی لمحہ فکریہ ہے اور یہ ایک منظم نیٹ ورک کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ وزارت داخلہ کے کئی مراسلوں میں گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کی نشاندہی کے باوجود صوبائی حکومت کی خاموشی لمحہ فکر یہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیامر میں سکولوں کو نذر آتش کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں آج تک کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا ۔ماضی میں پاک آرمی کے کرنل سمیت پولیس آفیسر،حاضر سروس ملازمین کا اغوا، دن دھاڑے مسافروںکا قتل سمیت غیر ملکی سیاحوں کو بیدردی سے خون میں نہلادیا گیا لیکن ہر مرتبہ حکومت نے قانون پر عملداری کی بجائے جرگوں کا سہارا لیکر دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے جس سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے۔انہوں نے دیامر کے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کرکے دہشت گرد گروہ کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریںاور اپنے بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائیں۔انہوں نے فورس کمانڈر سے مطالبہ کیا کہ محرم کے آغاز سے قبل انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب طرز کا آپریشن کرکے ممکنہ دہشت گردی کے خطرات کو روکیں۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹریٹ شادمان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ہر سال کی طرح امسال بھی ایم ڈبلیو ایم کہ جانب سے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 5 اگست بروز اتوار اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ میں شہید قائد علامہ عارف حسینی کی برسی کی مناسبت سے حمایت مظلومین کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے. کانفرنس میں پاکستان بھر سے تمام ہم خیال مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے. علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ شہید قائد نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو جوڑنے اور اتحاد کا درس دیا. اتحاد بین المسلمین کے لیے شہید کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست کو ہونے والے اس اجتماع میں دنیا بھر کے مظلوموں کے حقوق کے لیے طاقت ور آواز بلند کی جائے گی. دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص شام, یمن, فلسطین, کشمیر اور افریکہ کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جن پر عالمی اداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے.علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ حمایت مظلومین کانفرنس میں ان تمام مظلوم مسلمانوں کے لیے موثر آواز بلند کی جائے گی تاکہ دنیا کے ظالموں کو آئینہ دکھایا جا سکے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پنجاب بھر کے مختلف شہروں سے سینکڑوں گاڑیاں قافلوں کی صورت اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ پہنچیں گی۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں ایم ڈبلیو ایم کے کارکنان اپنے شہید قائد سے محبت کا اظہار کرنے اسلام آباد روانہ ہو رہے ہیں , نگران حکومت کو چاہیے کہ سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیے جائیں تاکہ کسی بھی پریشانی سے محفوظ رہا جا سکے. پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین ضلع لاہور کے سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن رضا ہمدانی ، مجلس وحدت مسلمین شعبہ عزاداری سیل کے چیئرمین مین سید خرم نقوی، رائے ناصر علی، امیر عباس مرزا، سید حسین زیدی، علمدار زیدی، سید سجاد نقوی و دیگر عہدیداران نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹریٹ میں علامہ سید احمد اقبال رضوی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور برادر نثار علی فیضی چیئر مین برسی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی 30ویں برسی کے عظیم عوامی اجتماع کے انتظامات کو آخری اور حتمی شکل دے دی گئی۔ ،کی زیر صدارت تمام ورکنگ کمیٹیوں اور کور کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اور شہید قائدکی برسی کے انتظامات کو آخری اور حتمی شکل دے دی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید احمد اقبال رضوی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان نیکہا کہ شہید قائد اپنے زمانے میں حضرت امام خمینی کے حقیقی نمائندہ ولی فقیہ تھے۔ اور عاشق نظام ولایت رہے۔ انکی شہادت پر حضرت امام خمینی نے پاکستانی قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا کہ آج میں اپنے حقیقی فرزندسے محروم ہو گیا ہوں اور اس عظیم شہید کے افکار کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ہم نے اپنی جدوجہد کا اغاز ہی قائد شہید کی برسی سے کیا تھا۔ جب ساری قوم آہستہ آہستہ ان کی برسی کے ایام کو بھولتی جا رہی تھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے یہ ذمہ داری محسوس کی اور میدان میں اکر اس عظیم عوامی اجتماع کو محو نہیں ہونے دیا بلکہ حضرت امام خمینی کے فرمان کو صحیح معنوں اجاگر کرنے اور قائد شہیدکیافکار کوہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے عملی اقداما ت کیے ہیں۔
کو اور ہماری ان تمام فعالیتوں قبول فرمائے۔ اگرچہ دوست پہلے الیکشن کی مصروفیات میں تھے اور 25 جولائی کے فوراً بعداس عظیم اجتماع کی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے میدان میں حاضر ہو ئے ہیں۔ قائد شہید کی عنایات کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ہم اتنے بڑے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس عظیم اجتماع میں جتنا جتنا ہم قدم بڑھاتے ہیں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری توانائیاں بڑتی چلی جاتی ہیں یہ سب کچھ اس شہیدکی برکات کے طفیل ہے۔ آج آپ کو یہ توفیق نصیب ہوئی ہے کہ آپ نے اس شہید کی یاد منانے اور اس سے تجدید عہد کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس کے متعلق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ شہید کی یاد منانا شہادت سے کم درجہ نہیں رکھتی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان جسے بعض لوگ بانجھ زمین کہتے ہیں کہ یہاں کوئی عالمی سطح کی شخصیت سامنے نہیں آئی ،ایسی شخصیت جس نے سیاسی،سماجی،اور عالمی سطح پر معاشروں کو اپنے وجود سے متاثر کیا ہو اور اپنی ذات کیساتھ اس پاک سر زمین کا نام روشن کیا ہو،ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے اس پاک سر زمین پر بہت سی شخصیات نے جنم لیا مگر عالمی مہروں اور سامراجی نیٹ ورک نے انہیں راستے کی دیوار سمجھا اور پھر کسی کے سینے میں لیاقت باغ کے جلسے میں گولی اتار دی گئی ،کسی کو لیاقت باغ کے باہر ہجوم کے درمیان نشانہ بنا یا گیا اور کسی کو کال کوٹھڑی میں پھانسی دیکر راستہ صاف کیا گیا،انہی میں ایک ایسی شخصیت بھی تھے جنہیں پشاور کے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ میں دم فجر اجرتی قاتلوں کے گروہ سے قتل کروایا گیا،میری مراد ایک ملکوتی و کرشماتی شخصیت علامہ سید عارف حسین الحسینی رح کی ہے جو کسی بھی طور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر کے اسے حقیقی معنوں میں ایک آزاد مملکت بنانا چاہتے تھے جن کی قائدانہ خصوصیات اور مخلصانہ جدوجہد اور بلند افکار امت مسلمہ کو نئی جہت دے رہے تھی اور دنیا انہیں پاکستان میں انقلاب اسلامی کا نقیب سمجھ رہی تھی کہ 5 اگست کی فجر کی نماز کے وقت انہیں اجرتی قاتلوں کے ایک گروہ نے اس وقت شہید کر دیا جب وہ نماز کی تیاری کیلئے وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے،یہ ایک قیامت خیز دن تھا ،جب ملت ایسی قیادت سے محروم کر دی گئی جو امید تھی،جو خوشبو تھی،جو روشنی تھی،جو پھولوں میں مہک کی مانند تھی،جن کا وجود سراپا نور تھا،انہیں راستے سے ہٹادیا گیا،انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔
علامہ سید عارف حسین الحسینی رح نے تقریبا ساڑھے چار سال( 10فروری 1984 سے 5 اگست 1988 )کا مختصر عرصہ ملت جعفریہ کی قیادت و سیادت میں گذارا ہے، مگر آج 30 برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کی نورانی و معنوی شخصیت کے سحر میں پوری قوم ایسے ہی گرفتار دکھائی دیتی ہے کہ جیسے آج ہی وہ ہم سے جدا ہوئے ہوں، اور کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں موجود ہوں اور راہنمائی فرما رہے ہوں۔شہدا ء از روئے قرآن زندہ ہیں اور خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں ہم اس کا شعور نہیں رکھتے،پھر کیسے ممکن ہے کہ امت کا درد لیکر میدان عمل میں اپنے خون سے اپنی پیشانی رنگین کرنے والی ہستی امت کے یہ حالات،تفرقہ و تقسیم،دہشت گردی،استعماری سازشیں،اور ارض پاک پر عالمی سازش گروں کی اس ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے منصوبے دیکھ کے انہیں آرام آ گیا ہو وہ یقیناًحق پرستوں اور مخلصان خدا و دین خدا کی نصرت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہونگے اس کا احساس اس تحریک اور تحرک میں کئی ایک مقامات پر محسوس ہوتا ہے جب کچھ دکھائی نہیں دیتا،عقلیں فیصلے کرنے سے عاری آ جاتی ہیں تو غائبانہ امداد سے ناممکنات ممکن ہو جاتے ہیں،یہی شہدا ء ہوتے ہیں جو ایسے اوقات و مصائب کے دوران مدد فرماتے ہیں!
علامہ سید عارف حسین الحسینی کا آنائی تعلق کرم ایجنسی کے گاؤں پیواڑ سے تھا جو افغانستان کے بارڈر کے نزدیک ہے انہوں نے 25 نومبر 1946 کی ایک سہانی فجر کوایک نجیب اور بلند مقام سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری اسکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنے والے سید عارف حسین نے بعد ازاں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ آپ بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار بلکہ شب زندہ دار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ نے پہلی بار 1967 میں نجف کا سفر کیا، تاکہ اعلی علمی مدارج کو طے کر سکیں۔ یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلی تھے، سید عارف الحسینی شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔
آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔ جب حضرت امام خمینی رح ایران سے جلا وطن ہو کر نجف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعی کرتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی رہ میں تبدیل ہو گیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔عراق کے بعد آپ ایران میں قم میں بھی زیر تعلیم رہے ان دنوں انقلاب کی تحریک عروج پر تھی،آپ چونکہ بڑھ چڑھ کے انقلابی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے لہذا شاہ کی حکومت اور ایجنسیوں کی نظر میں آ گئے اور ایران میں گرفتار ہوئے بعد ازاں انہیں ایران سے نکلنا پڑا۔پاکستان میں آ کے آپ نے جامعہ جعفریہ پاراچنار میں بطور مدرس خدمات سرانجام دینا شروع کیں،1980ء میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی معروف و مشہور اسلام آباد تحریک میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیااور ایک بڑے وفد کیساتھ شریک ہوئے۔10 جولائی 1984 کے دن آپ کو بھکر میں قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا۔
ساڑھے چار سال کے بعد 5 اگست 1988 کی دم فجر جمعہ کے دن پشاور میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کو ہم سے چھین لیا گیا۔یہ مختصر عرصہ قیادت کو دیکھیں اور ان کے کاموں کی تفصیل ،ان کے ملک گیر دورہ جات،گاؤں گاؤں،سکردو گلگت سے لیکر اندرون بلوچستان کے بہت ہی چھوٹے چھوٹے دیہات اور سندھ کے گوٹھ بھی آپ کی پہنچ سے دور نا رہے،آپ ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں جاتے تاکہ علم کی خیرات بانٹیں،شعور کی زکوٰۃ دیں،اسلام کے حقیقی پیغام جو خاتم الانبیا ء کی شکل میں امت تک پہنچا تھااور جسے وقت کیساتھ ساتھ بھلا دیا گیا تھا اسے یاد کروانے کیلئے آپ نے اپنے اوپر آرام اور چین کو حرام کر لیا تھا۔پاکستان بلا شبہ تمام اقوام اور مکاتیب فکر کی محنتوں اور قربانیوں کا ثمر ہے جس میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور کرسی کی خاطر یا غیر ملکی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فرقہ واریت اور شر پسندی کا بیج بویا جس کی وجہ سے ملکی فضا مکدر ہو چلی تو شہید قائد علامہ عار ف الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کا علم بلند کیا اور اس پرچم کو تھام کے ملک کے گوش و کنار میں وحدت امت اور باہمی احترام و اخوت کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اس حوالے سے انہیں بانی اتحاد بین المسلمین اور داعی وحدت کا لقب دیا گیا،ان کی روش تھی کہ وہ جہاں بھی دورے پہ جاتے اہلسنت علما ء و عمائدین ان کیساتھ ہوتے،جو امت کو اتحاد و وحدت کی دعوت دیتے۔علامہ عارف الحسینی کی جہاں دیگر خوبیاں اور خصوصیات ان کی شخصیت کو روشن کیئے ہوئے ہیں وہاں ان کا سیاسی میدان میں وارد ہونا اور اس دور کے آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کے جمہوری قوتوں کیساتھ رابطے بڑھانا نیز پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے سیاسی اجتماعات کا انعقاد جن میں مینار پاکستان لاہور،دھوبی گھاٹ گراؤنڈ فیصل آباد،قلعہ قاسم باغ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قرآن و سنت کانفرنسز کا انعقاد جن میں سیاسی پروگرام اور منشور کا اعلان کیا گیا،اور پھر ضیا ء کے جھوٹے وعدوں پر سخت تنقید اور ریفرنڈم کی کھل کے مخالفت سے ان کا قد سیاسی حلقوں میں بلند ہوا،آمریت کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے قائدین کیساتھ ان کے روابط بہت گہرے تھے اور سیاسی قائدین ان کے خلوص اور بے باک موقف ،جس کا اظہار برملا کرتے تھے نے سب کے حوصلوں کو تقویت بخشی،وہ ضیا ء کی مارشل لا ء حکومت کو غیر آئینی سمجھتے تھے اور اس کے ہر کام پر تنقید کرتے تھے ،ضیا ء الحق نے ریفرنڈم کروایا تو آپ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا بہانہ گردانتے ہوئے مسترد کر دیا۔
وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے اسی لیئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں مین نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ،،تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی ،سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں،،ایک اور جگہ گفتگو کرتے ہوئے علامہ عارف الحسینی کا فرمانا تھا کہدنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں۔ ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالا دستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خود ساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ انہیں وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہءجہاد ہو۔ ایک اور مقام پہ یوں رہنمائی فرماتے ہیںسیاست ہمارا راستہ:۔ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جد و جہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
*ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔ *
ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔یہ علامہ عارف الحسینی ہی تھے جنہوں نے ملک کی ایک بڑی آبادی جو بکھری ہوئی تھی اور کوئی موقف نہیں رکھتی تھی ،حکمران چند گنے چنے لوگوں کیساتھ ساز باز کر کے ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے ان کی جدوجہد کے بعد ملکی مسائل کے بڑے فیصلوں میں اہل تشیع کی شرکت اور انہیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا،انہوں نے اپنے خلوص،جدوجہد،تحرک،للہیت،اور مسلسل عمل سے پاکستان کے چاروں صوبوں،آزاد کشمیر کی ریاست اور گلگت بلتستان تک کے اہل تشیع کو ایک لڑی میں پرو دیا اور ایک ایسی تنظیم و تحریک کی بنیادیں مضبوط کیں جس نے بعد ازاں ان کی محنتوں کا پھل ایک عرصہ تک کھایا ۔کسی بھی قوم کی قوت اور طاقت اس کے نوجوان اور طلبا ء ہوتے ہیں،علامہ عارف الحسینی کی شخصیت کی کشش ایسی تھی کہ اس دور میں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں ان کے نام پر وقف کر دیں،نوجوانوں کا ہجوم ان کیساتھ ہر جگہ ان کی گفتگو ،ان کی تقاریر،اور ان کے افکار تازہ سے معطرہونے کیلئے بیتابی سے شریک ہوتا،اجتماعات جس بھی سطح کے ہوتے نوجوان ،بلکہ علما کی کی بھی بڑی تعداد اس پر خلوص قیادت کا ساتھ دینے کیلئے موجود ہوتے۔
علامہ عارف الحسینی نے اس پاک وطن کو استعمار کے شکنجوں سے نکال باہر کرنے کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا ۔وہ پاکستان کو استعمار اور تکفیریت کی سازشوں سے آزاد کروانے کیلئے دن رات ایک کیئے ہوئے تھے،وہ حق کے پیرو تھے،سچائی و صداقت کی علامت تھے،خلوص کے پیکر تھے،ان کی عبادت و دعاؤں کی محافل اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ ایک برگزیدہ ہستی تھے،وہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں میں شمار ہوتے تھے،اللہ جنہیں اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو فرقان عطا کرتا ہے علامہ عارف الحسینی ایسی ہی ہستی کا نام ہے،ان کے کردار،عمل،روحانیت،خلوص،تقوٰی ،معرفت،فکر و شعور کوایک روشن اور واضح شکل میں ہم نے دیکھا ہے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ مستضعف اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کی امید تھے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ اس دھرتی کا ایک ایسا فرزند تھا جس نے اسے اسلام ناب محمدی سے متعارف کروایا اور اس کے نفاذ کی عمل جدوجہد میں ان کی شہادت ہوئی،ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ وہ ہماری محافل میں ،دعا و مناجات میں گڑ گڑا کے آرزوئے شہادت کرتے تھے،وہ متمنئی شہادت تھا،اس نے اپنے پاک خون سے اپنی پیشانی کو سرخ کرنے کی تڑپ میں زندگی گذاری اور بالآخر استعمار اور اس کے آلہ کاروں نے ایک عالمی ساز کے تحت انہیں راستے سے ہٹایا،5اگست 1988ء کی فجر دم جب وہ اپنے مدرسہ میں باوضو نماز کی تیاری کر رہے تھے انہیں اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا،یوں پاکستان میں اسلامی انقلاب کی امید دم توڑ گئی اور ہم اپنے عزیز و عظیم قائد سے محروم کر دئیے گئے۔آپ کا خون آلود چہرہ دیکھا توآپ کی اخروی زیارت اور پر سکون ابدی نیند ہم سب کو ایک پیغام دے رہی تھی۔
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
تحریر: حجت الاسلام علامہ راجہ ناصرعباس جعفری دام ظلہ
وحدت نیوز(گلگت) پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔امید ہے عوامی امنگوں کے مطابق ملک کو کرپٹ مافیا سے نجات دلواکر ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے۔پیپلز پارٹی ،نواز لیگ اور دیگر جماعتوں کا اتحاد ملکی استحکام کو کمزور کرنے کیلئے تشکیل پایا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما شیخ نیئر عباس مصطفوی نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت سے امید کی کرن نمودار ہوئی ہے۔چاروں صوبوں کے عوام نے بطور نجات دہندہ تحریک انصاف کا انتخاب کیا ہے اور عوامی مینڈیٹ حاصل ہونے کے بعد ان کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے وعدوں پر کس حد تک قائم رہتی ہے۔مرکز میں نواز ،زرداری اتحاد سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں جو اقتدار میں ہوتے ہیں تو لوٹ مار کرتے ہیں اور اپوزیشن میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔چونکہ ان کے مفادات ایک ہیں لہٰذا جب عوام نے ان کے اقتدار کے خواب چکناچور کردیے تو یہ دونوں جماعتیں ساتھ مل گئیں ہیں۔
انہوں نے چھلمس داس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نومل کے عوام کے ساتھ دشمنی پر اتر آئی ہے چھلمس داس پر حکومت بدنیتی کا مظاہرہ کرکے نومل کے عوام کو چھلمس داس سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ماضی میں حکومت کی خواہش پر عمائدین نومل اور سرکار کے مابین ایک معاہدے کے تحت سولہ سو کنال اراضی قراقرم یونیورسٹی کیلئے مختص کیا گیا لیکن تاحال اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کا کام رکا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ چھلمس داس نومل کے عوام کی ملکیت ہے اور حکومت کو چھلمس داس کی بندربانٹ کی ہرگز اجازت نہیں دینگے۔