وحدت نیوز(جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین ضلع جیکب آباد اور آئی ایس او کے زیراہتمام کلایہ اورکزئی ایجنسی میں بم دھماکے اور دھشت گردی کے خلاف ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی کی زیرقیادت احتجاجی ریلی نگالی گئی اور پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ قوم 80 ہزار شہداء کے خون ناحق کا انصاف مانگتی ہے۔ چیف جسٹس آج کے سانحے کا نوٹس لیں۔ ملک بھر میں دھشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ضروری ہے،کراچی میں چائنیز قونصل خانے اور لوئر اورکزئی (کلایہ) پر حملہ کرنے والے دھشت گرد ملک و مذھب کے دشمن ہیں،دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ شیخ احمد نوری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہنگو میں خودکش حملہ اور کراچی میں چین کے قونصل خانے پر حملہ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔ ملک میں دہشتگردانہ حملے پاکستان کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ ایسی کارروائیوں کے ذریعے ایک طرف دہشتگرد پاکستان کے محب و طن شہریوں کے احساس محرومی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے دیرینہ دوست چائینہ کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ دشمن کے تمام عزائم خاک میں مل جائیں گے اور انہیں کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ملک میں دہشتگردی میں ملوث بی ایل ہو، داعش ہو ،طالبان ہو یا کوئی اور نام سب ہنود و یہود کے آلہ کار ہیں۔ ملک میں دہشتگردی میں ملوث تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہنگو میں شہادت پانے والے شہداء کے لواحقین کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام تکفیری جماعتوں اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ ملک کے استحکام پر کوئی آنچ نہ آئے۔شیخ احمد نوری نے کہا کہ ملک میں اچانک سے دہشتگردی کی لہر کا پیدا ہونا تشویشناک ہے عوام کو ملک کر اس ناسور کے خلاف میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر کے خلاف پاکستانی آرمی قیادت کا بیان انتہائی قابل تحسین ہے۔ آرمی چیف کے بیان کے واضح ہو جانا چاہیے کہ مزید امریکی استبداد کے لیے پاکستان کو مزید تختہ مشق نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان کا سفر ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی طرف جاری ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی آزادانہ اور پاکستان کے مفادات کے مطابق متعین کرنا ہی ملک کے استحکام کا ذریعہ ہے۔
آغا علی رضوی نے کہا کہ امریکہ صرف پاکستان ہی کا دشمن نہیں بلکہ عالم اسلام اور عالم انسانیت کا دشمن ہے۔ سابقہ حکومتوں کی عاقبت نااندیشوں کے سبب امریکہ جیسی استحصالی اور انسان دشمن طاقت کو وطن عزیز میں اثر نفوذ پیدا کرنے کا موقع ملا اور پاکستان غیروں کی جنگ لڑتا رہا۔ملک میں جاری دہشتگردی غیروں کی جنگ لڑنے کا نتیجہ ہے۔ اب پاکستانی حکومت اور آرمی قیادت کی طرف سے امریکہ کی ہزرہ سرائی پر منہ توڑ جواب دینا ملکی وقار میں اضافے کا باعث ہے۔ اقبال و جناح کے ابھرتے پاکستان کو کسی بھی استحصالی ریاست کے آگے جھکنا چاہیے اور نہ ہی غیروں کی جنگوں میں حصہ لینا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج کے روز ہنگو میں افسوسناک دہشتگردانہ واقعہ اور کراچی میں چائینہ کے قونصل خانے پر حملہ امریکہ کی جانب سے ردعمل ہے۔ امریکہ اور انڈیا پاکستان کو کبھی غیر مستحکم نہیں کرسکتا۔ سکیورٹی اداروںکو دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے اور کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردوں اور ملک دشمنوں کے مقابلے میں پوری قوم اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) تعریف کے بعد تطبیق کا مرحلہ ہے، علمی دنیا میں جب کوئی محقق اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق کسی چیز کی علمی تعریف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس تعریف کو خارج میں تطبیق دینے ، اس کی انواع و اقسام کو دریافت کرنے اور علمی انکشافات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ہم نے ایک کالم سےمستشرقین کی بحث کا آغاز کیا تھا، اس بحث کے آغاز کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں جھانکنے اور ان کی فکری بنیادوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔چونکہ کہیں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکوں کی نوعیت قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کی مانند نہیں ہے۔بلکہ جہاں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکے ہوتے ہیں ان کے پیچھے ایک فعال، مدبر اورمنصوبہ ساز انسانی دماغ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔
موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں گزشتہ کالم میں ہم نے اپنے مکتب (School of Thought ) کےمطابق مستشرقین کی تعریف میں یہ کہا تھا کہ ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔
اس تعریف کے بعدقارئین کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں مستشرقین کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ؟ مستشرقین کی کون کون سی انواع و اقسام ہیں؟ کیا مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوںمیں بھی مستشرقین موجود ہیں؟ کن شعبوں میں مستشرقین کا کیا کردار ہے؟وغیرہ وغیرہ
ہم نے اپنے قارئین کی اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اورمستشرقین کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے گروہ قرآن ومستشرقان (امام خمینیؒ یونیورسٹی قم)سے اس بارے میں مزید سوالات کئے، اس کے علاوہ قبلہ ڈاکٹر مجتبی زمانی اور ڈاکٹرمحمد جواد اسکندرلو سے بھی اس طرح کے سوالات پوچھے تاکہ اس موضوع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اپنے قارئین تک پہنچائی جا سکے۔
محقیقین کی تحقیقات اور ماہرین کی آرا کے مطابق مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے وہ کارندے جو اسلامی ممالک کو کمزور کرنے نیز مسلمانوں میں فرقہ واریت اور شدت پسندی ایجاد کرنے کے لئے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی معلومات کی جمع آوری اور جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی کی جاتی ہے ،انہیں مستشرقین سیاسی واستعماری اور اس شعبے کو استشراق ِ سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔
اگر قارئین کو یاد ہوتو گزشتہ کالم میں ہم نے مستشرقین کی تقسیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجموعی طور پر تین طرح کے مستشرقین ہیں:
1۔ عیسائی مبلغین
2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے
یہ جو دوسرے نمبر پر مختلف حکومتوں کے جاسوس ہم نے ذکر کئے ہیں انہیں مستشرقین سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ایسے مستشرقین، میڈیا، انٹرنیٹ، سفارتخانوں، خفیہ ایجنسیوں،ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیز اور اخبارات و مجلات کے ذریعے اپنی فعالیت انجام دیتے ہیں۔ان کی فعالیت کے بارے میں مصری محقق محمد غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدہ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین کے صفحہ ۳ پر لکھتے ہیں کہ جس طرح توپ خانہ، دور سے گولہ باری کرکے پیادہ فوج کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے، اسی طرح یہ مستشرقین ، اسلامی معاشرے کے اذہان کو استعمار کے داخلے و نفوذ کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔
ہم آپ کو یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ گزشتہ ہفتے برادر اسد عباس نے اپنے کالم میں مغربی ذرائع ابلاغ کے بارے میں لکھا تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے انداز کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنی خبروں کو ایسا رنگ دیتے ہیں، جس سے ادارہ خبر دیتا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے، تاہم وہ رائے عامہ کے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہمارے معاشروں میں نفوذ کے سبب اب جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہ گئی۔ یہ جنگ، جنگ نرم میں بدل چکی ہے۔
اسی حقیقت کو حضرت امام خمینی ؒ نے اس طرح بیان فرمایا تھا:
امریکہ یہاں پر فوجی نہیں لائے گا،امریکہ یہاں لکھاری لے کر آئے گا، امریکہ بات کرنے والے اور بولنے والے لے کر آئے گا، امریکہ ہمارے ملک کو درہم برہم کرنے کے لئے ان لوگوں کو بھیجے گا کہ جن کی اس نے کئی سال تربیت کی ہے۔ امریکہ فوجیوں سے بدترین لوگوں کویہاں بھیجے گا، یہ فوجیوں سے بدترین ہیں۔ [1]
مندرجہ بالا سطور سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استشراقِ سیاسی و استعماری ایک معاشرتی ناسور ہے جس کا مقابلہ اس کی شناخت اور اس کے بارے میں علم و آگاہی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) یکم نومبر 1947 کو جموں کشمیر کے ڈوگروں کے جبری قبضے سے گلگت کا علاقہ آزاد ہوا۔ اس سے قبل سن 1880-90 کے دوران علاقہ گلگت ڈوگرہ مہاراجہ کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ جبکہ بلتستان کے علاقوں پر پہلے ہی کٸی عشروں سے ڈوگروں کا قبضہ تھا وہ بدستور انہی کے زیر دست رہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کے ناتے برٹش انڈیا کی حکومت نے گلگت اور ملحقہ علاقوں کو سن 1935 میں لیز پر لیکر علاقے میں اپنا پولیٹیکل ایجنٹ اور آرمی تعینات کر دیٸے تھے۔ جنہیں تقسیم ہند کے تسلسل میں جولاٸی 1947 کے آخری دنوں میں ڈوگرہ مہاراجہ کو واپس کردیا گیا۔ اسکے بعد گلگت اور بلتستان وغیرہ کے علاقوں پر ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ مسلط ہوا۔ لیکن چند ہی ہفتوں بعد یکم نومبر 1947 کو مقامی عوام اور برٹش آرمی کے کنٹرول میں قاٸم گلگت سکاوٹس کے افسران اور جوانوں نے گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے گلگت کو آزاد کیا۔ اس دن سے لیکر پندرہ روز تک گلگت ایک خودمختار ریاست کے طور پر رہا۔ جبکہ بلتستان اور کٸی علاقوں میں جنگیں ہوتی رہیں۔
چونکہ تقسیم برصغیر پاکستان اور ہندوستان کی شکل میں ہوٸی تھی اسلٸے کشمیر کے علاقوں میں جنگوں کیساتھ ہی خطے کے سردار مہاراجہ ہری سنگھ نے 26,27 اکتوبر 1947 کو انڈیا کیساتھ الحاق کا اعلان کرکے انڈین آرمی کو بلالیا۔ گلگت میں جنگ آزادی دراصل مہاراجہ کی انڈیا کیساتھ الحاق کے اعلان خلاف شروع کیا گیا جسکی منزل پاکستان میں شمولیت تھی۔ جیسا کہ جنگ آزادی کے ہیرو کپٹن حسن خان کی کتاب ”شمشیر سے زنجیر تک“ سمیت دیگر تاریخ کی کتب میں درج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سولہ نومبر 1947 کو گلگت ریاست کے منتظمین نے پاکستان کی حکومت سے مدد مانگی اور پشاور سے سرکاری آفیسر سردار عالم گلگت میں پہلا نماٸندہ پہنچ گیا۔ تب سے گلگت بلتستان کے انتظامات وفاقی حکومت کیجانب سے بیوروکریسی کے افسران کے ذریعے چلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جسکی تفصیلات کٸی تحاریر میں رقم کرچکا ہوں اور تاریخی دستاویز میں مفصل موجود ہیں۔
سردار عالم جب بطور نماٸندہ حکومت و ریاست پاکستان گلگت وارد ہوا تو مقامی انتظامیہ نے انکا استقبال کیا، لیکن کوٸی شرایط کسی نے انکے سامنے پیش ہی نہیں کی، کسی دستاویز کا ثبوت تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسکی وجہ جنگ آزادی کے بعض کرتا دھرتاوں خصوصا برٹش آرمی افسروں میجر برون جنکی ماتحتی میں مسلم فوج کیپٹن حسن خان وغیرہ تھے، انکی آپس کی چپقلش بھی بتایا جاتا ہے۔ البتہ کسی نے سردار عالم کی مزاحمت نہیں کی۔ گلگت کے آزاد علاقوں میں جسطرح پاکستان کے متعین کردہ افسر کو خوش آمدید کہہ کر کسی نے مخالفت نہیں کی، اسی طرح بعد کے آزاد شدہ علاقے جن میں بلتستان کے موجودہ تمام علاقے شامل ہیں ، وہاں بھی کسی نے پاکستان میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اکہتر سال بعد بھی عوام پاکستان کیساتھ اپنی وفاداری کو نبھاتی آٸی ہیں چاہے اکہتر سال بعد کچھ افراد الحاق کے دستاویز نا ہونے پر زمین آسمان ایک کردے یا ضد زیادہ بڑھ جاٸے تو سردار ہری سنگھ کے الحاقی کاغذات پر ایمان لے آٸے۔ باوجود اسکے کہ پاکستانی حکومت نے اس خطے کو آٸینی شناخت اور بنیادی حقوق سے محروم ہی رکھا۔
اس وقت گلگت بلتستان کے جوان سترسال بعد بھی اس بحث میں لگے ہیں کہ آزادی کے بعد 16 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کا پاکستان کیساتھ الحاق ہوا تھا یا نہیں؟ تاریخ جاننے والوں کیلٸے یہ کوٸی مبہم بات نہیں۔ البتہ الجھے ہوٸے اذہان ہمیشہ چیزوں کو الجھانے کی ہی کوشش کرتے ہیں۔ جوکہ سوشل میڈیا پر بغور دیکھا جاسکتا ہے۔
جواب نہایت سادہ ہے جب۔ سردار عالم بطور نمایندہ پاکستان گلگت آیا تب مقامی حکومت اور انقلابی سرکردوں نے کوٸی مطالبہ یا شرط و شروط پیش نہیں کٸے۔ کسی نے ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ یعنی کہ سب ہی آمادہ تھے گویا کہ پاکستان میں شمولیت ہی انکی منزل تھی۔ ہاں اس بابت تاریخی حوالوں میں کوٸی کاغذی دستاویز نہیں ملتی کہ جس پر فریقین نے اتفاق کیا ہو۔ ظاہر ہوتا ہے کہ تب کسی نے اسکی ضرورت محسوس ہی نہیں کی۔ جب آٸینی تحفظ اس غیر مشروط الحاق شدہ defacto خطے کو نہیں ملی تو مقامی افراد کی بے چینیاں بڑھتی گٸی۔ اب سات دہاٸیوں بعد لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ الحاق ہوا تھا تو دستاویز کہاں ہیں؟
سیاسیات کے طالبعلم De facto اور De Jure جیسے ٹرمز سے واقفیت رکھتے ہیں۔ Defacto حصہ ہونا یعنی کوٸی علاقہ یا خطہ کسی کی ملکیت میں ہونے یا قانونی یا غیر قانونی طور پر قبضے میں ہونے کو کہتے ہیں۔ جبکہ کسی جگہے یا علاقے کا مروجہ قوانین کے مطابق کسی کی ملکیت یا قبضے میں ہونے کو De jure کہا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے پاکستان یا انڈیا کا حصہ ہونے کو سمجھنے کیلٸے ان دو ٹرمز کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر قانون کی بات کرے اور دستاویز دیکھیں تو غالبا جنگ آزادی کے آغاز سے قبل ہی مہاراجہ جو کہ کشمیر اور گلگت بلتستان پر جابرانہ مسلط شدہ حکمران تھا ، انہوں نے انڈیا سے ساز باز کرکے پورے خطے کو انڈیا کا خودساختہ قانونی یعنی De jure حصہ بنادیا تھا۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ اور جموں کشمیر سمیت لداخ اور کرگل انڈیا کے قبضے میں چلا گیا۔ یعنی جو دستاویز کیساتھ ہی الحاق ہونا ضروری سمجھتے ہیں انکے لٸے یہی جواب کافی ہے کہ مہاراجہ اس خطے کا آمر حکمران تھا اس نے انڈیا کیساتھ الحاق کردیا۔ دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ اسی مہاراجہ کیطرفسے الحاق کے دستاویز کیمطابق انڈیا نے کشمیر ایشو کو اقوام متحدہ میں پیش کیا۔ مگر عوامی آزادی کو محظ مہاراجہ دستاویز کی بنیاد پر ختم نہیں کرسکتی تھی اکہتر سالوں سے نہیں کرا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو دنیا کا کوٸی قانون زبردستی مہاراجہ کے الحاقی دستاویز کی بنیادپر انڈیا کے حوالے نہیں کرسکتی۔
جب گلگت اور کشمیر میں جنگ آزادی لڑی گٸی تو وہ مہاراجہ کی اسی خود ساختہ قانونی الحاق کے خلاف تھی۔ یعنی عوام اس الحاق کو نہیں مانتے تھے۔ نا اب مانتے ہیں اور نا ہی کبھی مانیں گے۔ 1947-48میں ہمارے شہدإ کی جانیں دراصل انڈیا کیساتھ مہاراجہ کیطرفسے اسی الحاق کے خلاف لڑتے ہوٸے قربان ہو گٸیں۔ ورنہ دستاویزی الحاق ہی سب کچھ ہوتا تو جنگوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب گلگت آزاد ہوا تو حکومت پاکستان کو اسوقت کے مروجہ مواصلاتی نظام کے تحت ٹیلی گرام بھیجا گیا۔ گلگت میں پاکستانی حکام آگٸے۔ دوسرے علاقوں میں جنگ آزادی لڑی گٸی۔ علاقے آزاد ہوتے گٸے اور پاکستان کا Defacto حصہ بنتا گیا۔ یعنی اس وقت کرگل لاٸن آف کنٹرول سے لیکر چترال کی سرحد تک گلگت بلتستان پاکستان کا Defacto حصہ ہے۔ مگر یہاں کی عوام اکہتر سالوں سے اس خطے کو آٸینی شناخت دیکر De Jure حصہ بنانے کا مطالبہ کرتی آٸی ہے۔
یہاں کے عوام کی قربانیوں اور پاکستان کیساتھ ہمدردیوں کو دنیا جانتی ہے مگر بدلتی پاکستانی حکومتیں مصلحتوں کا شکار ہوکر ابتک اس خطے کو نظر انداز کرتی آٸی ہیں۔ جسکی وجہ سے نٸی نسل میں بے چینیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جسکا بروقت ادراک کرکے محرومیوں کو دور کرنا خود عالمی تبدیلیوں کیساتھ پاکستان کے اپنے حق میں بہت زیادہ ضروری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس چل رہا ہے اور سابق حکومت کیطرفسے جی بی حقوق کیلٸے بناٸی کمیٹی کی سفارشات پر نظر ثانی کیلٸے نٸی حکومت نے ایک اور کمیٹی بناٸی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت اس خطے کی حیثیت کو آٸینی طور پر طے کرتے ہیں یا پہلے کی طرح کسی حکم نامے تک محدود رہتے ہیں۔ ایک اور حکم نامے پر اکتفا اس خطے کی عوام میں پھیلی بے چینیوں کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔شریف ولی کھرمنگی
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے رہنمااورسابق وزیر قانون آغا سید محمد رضانے ایک پریس ریلز میں کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان واحد دینی سیاسی جماعت ہے جو ہزاروں بے گناہ شہداء کو دفنانے کے با وجود اتحاد امت کے لئے کوشاں دینی سیاسی جماعت ہے۔،عالم اسلام کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے والے نہ شیعہ ہے اور نہ سنی بلکہ استعماری قوتوں کے آلہ کار ہے تمام مکاتب فکر شیعہ سنی اپنی صفحوں اتحاد کا مظاہرہ کر کے اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنائیں،پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے افغانستان میں کئی سالوں سے جاری جنگوں میں اسلام دشمن قوتیں خصوصا''امریکہ اسرائیل اور انڈیا برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر پر 71 سالوں سے قابض انڈئن افواج کے مظالم اب بھی جاری ہے اقوام متحدہ نہتے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے اور اپنے ہی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے سے قاصر ہے،سر زمین فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور اسلامی ممالک کی غاصب اسرائیل سے سفارتی تعلقات انتہائی افسوس ناک اور نا قابل قبول عمل ہے،او آئی سی کے ممبر اسلامی ممالک مسلہ کشمیر افغانستان اور فلسطینوں کیلئے موثر کردار ادا کر سکتی ہے،اہل تشیع12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک پورے پاکستان میں برادران اہل سنت کیساتھ محافل میلاد اور جلوسوں میں بھر پور شرکت کریں گے۔