وحدت نیوز (لاہور) یوم خواتین کی آڑ میں مغرب زدہ سوچ کو مسلط نہیں کرنے دیں گئے ۔یوم خواتین پر کچھ این جی اوز کی جانب سے اسلامی معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں ، ان خیالات کا اظہار رکن پنجاب اسمبلی ومرکزی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان محترمہ سیدہ زہرانقوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔

 انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کے ساتھ سڑکوں پر آنے والی خواتین اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی پر عمل پیر ا ہیں ان کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے بینرز اور ان کے نعرے نا صرف اسلامی قوانین سے بغاوت بلکہ ہمارے مشرقی اقدار کےبھی منافی تھے ،اس حساس نوعیت کے مسئلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری نوٹس لینا چاہئے اور ان کے پس پردہ چھپے عزائم کو بے نقاب کرکے ایسے ملک دشمن آلہ کاروں کو نشان عبرت بنانا چاہئے۔

زہرانقوی نے کہاکہ ایسے مظاہرےدہشتگردی پر قابو پانے کے بعد ملک کو ایک اور سنگین اخلاقی جرم کی طرف لے جانے کی ایک قبیح سازش ہے جسے قوم کبھی کامیاب نہیں ہونے دےگی،ہمارے لئے رول ماڈل جناب سید ہ فاطمہ زہراؑ کی ذات اقدس ہے ۔اسلام نے جو عزت ومنزلت اور حقوق عورت کو ماں بیٹی بہن اور بیوی کے روپ میں عطا کیئے ہیں آج کی دنیا کا کوئی معاشرہ ایسی مثال پیش نہیں کرسکتاہے ۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیدہ زھرا نقوی صاحبہ کی جانب سے طلبہ وطالبات کی کیریئرکاؤنسلنگ کے لئے حکومتی سطح پراقدامات کے مطالبے کی قراردادپنجاب اسمبلی میں منظور کر لی گئی،محترمہ سیدہ زھرا نقوی نے نوجوان طبقے کی کیریئر کاونسلنگ سے متعلق قرار داد پنجاب اسمبلی میں پیش کی تھی۔

قرارداد کے متن میں کہاگیاکہ ہمارے ملک میں حکومتی سطح پرمناسب کیریئرکاؤنسلنگ نہ ہونے کے باعث بہت سے طلباءوطالبات یونیورسٹی میں داخلے کے وقت اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق مناسب تعلیمی شعبہ منتخب نہیں کرپاتے جس سے نا صرف نوجوان کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ وہ ملکی ترقی واستحکام کے لئے خاطر خواہ خدمات سرانجام نہیں دے پاتے، اس طرح بہت سے اہم شعبے ماہرین سے محروم رہ جاتے ہیںکیونکہ بالعموم لوگوں کی توجہ چند خاص شعبوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔

لہذٰا اس ایوان کی رائے ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل کی خاطرنوجوان طلبا و طالبات کے ذوق اور صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی شعبہ جات میں ان کی بھرپور راہنمائی کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کا مستقبل ضائع نہ ہو اور وہ ملکی ترقی و استحکام کیلئے اپنی بھرپور خدمات انجام دے سکیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، کسی کو دشمنوں کے جنگی طیارے گرا کر عزت ملتی ہے اور کسی کو اپنوں پر ٹینک چڑھا کر تمغے ملتے ہیں۔ ہر تمغہ عزت کا باعث نہیں بنتا، کبھی کبھی ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ آیئے! آج دو بھولی بسری کہانیاں سنیں۔ ایک عزت کی کہانی ہے، دوسری ذلت کی کہانی ہے۔ پہلی کہانی فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم کی ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے اس بہادر شاہین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور بہادری سے نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ 1965ء میں وہ پی اے ایف بیس سرگودھا میں تعینات تھے۔ بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھارتی ایئر فورس کا جنگی طیارہ مار گرانے پر انہیں ستارۂ جرأت ملا۔ اگلے ہی سال انہیں اردن بھیج دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن پر حملہ کیا تو سیف الاعظم نے دو اسرائیلی جہاز تباہ کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں عراق بھیج دیا گیا اور وہاں بھی انہوں نے دو اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اردن کے حکمران شاہ حسین نے سیف الاعظم کو فوجی اعزازات تو دیئے، لیکن وہ سیف الاعظم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر عمان کی سڑکوں پر گھومنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

سیف الاعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وہ بنگلہ دیش ایئر فورس کا حصہ بن گئے اور 1979ء میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسری کہانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی ہے۔ وہ 1970ء میں پاکستان کی طرف سے اردن بھیجے گئے۔ ستمبر 1970ء میں شاہ حسین نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اردن سے نکالنے کیلئے ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں ٹینک بھی استعمال ہوئے۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی۔ اس آپریشن کے دوران پی ایل او اور اردن کی فوج میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مہاجرین بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کی کامیابی پر شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو بھی ایک تمغہ دیا، لیکن یہ تمغہ ضیاء الحق کیلئے کبھی عزت کا باعث نہ بن سکا۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کے آپریشن پر احمد ندیم قاسمی نے ’’اردن‘‘ کے نام سے اپنی نظم کو ان الفاظ پر ختم کیا؎
جو ہاتھ ہم پہ اٹھے
ہمارے ہی ہاتھ تھے
مگر ان میں کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس سے پوچھیں؟
چلو، چلیں آئینوں سے پوچھیں
آئینوں سے کیا پوچھتے؟

یہی بریگیڈیئر ضیاء الحق 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے کہا کہ افسوس اردن میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھانے والا پاکستان کا حکمران بن گیا۔ ضیاء الحق نے فلسطینیوں کیساتھ جو کیا، اسے پاکستانی قوم بھول چکی ہے، لیکن فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پی اے ایف کے ایک اور بہادر شاہین عبدالستار علوی نے شامی ایئر فورس کے مگ 21 کے ذریعے اسرائیلی طیارہ مار گرایا اور پاکستان کیلئے عزت کمائی۔ مجھے لبنان اسرائیل جنگ کے دوران لبنان اور شام میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں مجھے مصر کے راستے غزہ جانے کا اتفاق بھی ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں سے ننھے فلسطینی سنگ بازوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے فائر سے خون میں نہاتے دیکھا۔ بیروت سے غزہ تک اور دمشق سے قاہرہ تک، میں جہاں بھی گیا عربوں کو پاکستان کے پائلٹ یاد تھے۔ وہ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی تحسین کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ جنرل ضیاء الحق کی مذمت کرنا نہیں بھولتے تھے۔

یہ مت دیکھئے کہ عرب ممالک کے حکمران پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ عرب ممالک کے عوام پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کیخلاف اتحاد ختم ہو جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کیساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ کیا اس مشورے کے پیچھے پاکستان کا مفاد ہے یا کسی اور کا مفاد ہے؟ 2018ء میں امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کی نئی کتاب Fear یعنی ’’خوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق، شام، لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی داہام الانازی نے عربی اخبار ’’الخلیج‘‘ میں ’’ریاض میں اسرائیلی سفارتخانہ کیلئے ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہیئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے، کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عرب میڈیا میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں یا نہیں؟ سعودی حکومت اس معاملے پر فی الحال خاموش ہے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ مسلم ممالک کی بڑی اکثریت نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کئے۔

ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، الجزائر، صومالیہ، سوڈان، شام، ایران، یمن، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، تیونس اور دیگر ممالک شامل ہیں، لہٰذا پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کر لو، تاکہ باقی مسلم ممالک کو بھی یہ مشکل کام کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے اسرائیل اور بھارت کا پاکستان دشمن اتحاد ختم ہو جائیگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے ایک نئے اتحاد میں شامل کرنے کی تیاری ہے۔ کیا پاکستان کا یہ اقدام ہمارے آئین کی دفعہ 40 کی خلاف ورزی نہیں ہوگا، جو پاکستانی ریاست کو اسلامی اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کا پابند بناتی ہے؟ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے یا کرائے کا گوریلا بننا ہے۔؟

کوئی مانے یا نہ مانے، آج پاکستان کو اسرائیل کی نہیں، اسرائیل کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے یورپ میں حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 28 یورپی ممالک میں سے 9 یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسپین، فرانس اور آئرلینڈ بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کو نہیں مانتی۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے، کیونکہ دنیا پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر حریمی کاربن کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل جیوش اینٹی زیاونسٹ نیٹ ورک (آئی جے اے این) کے نام سے یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے اور اسرائیلی ریاست کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔

اس تنظیم کی بانی برطانوی مصنفہ سیلما جیمز خود یہودی ہیں۔ آج اسرائیل کیلئے سیلما جیمز اور نوم چومسکی جیسے دانشور دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز کی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھائیں، اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فائدہ کسے ہوگا؟ پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ مسئلۂ فلسطین کا حل مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہیں کھولے گا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے دبائو یا چند ارب ڈالر کے عوض مشرقِ وسطیٰ میں وہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے، جو 1970ء میں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے اردن میں کی تھی۔


تحریر: حامد میر
"بشکریہ روزنامہ جنگ"

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کا سال برائے 19-2018 کا آخری شوریٰ اجلاس ضلعی سیکریٹریٹ جعفر طیار سوسائٹی ملیر میں ضلعی سیکریٹری جنرل سید عارف رضا زیدی کی زیر صدارت منعقد ہوا اجلاس میں خصوصی شرکت ایم ڈبلیوایم کی مرکزی تنظیم سازی کونسل کے اراکین آصف رضا ایڈوکیٹ, علامہ علی انور جعفری, کراچی ڈویژن کے اراکین علامہ نشان حیدر ساجدی, زیشان حیدر, احسن عباس رضوی نے کی, اجلاس میں سال گذشتہ کی تنظیمی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور ایم ڈبلیوایم کھوکھراپار آرگنائزنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا, جبکہ مرکزی رہنما علامہ علی انور جعفری اور آصف رضا ایڈوکیٹ نے تنظیمی فعالیت اور ہماری زمہ داری کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے ضلع ملیر کو اسلام آباد میں منعقدہ سالانہ مرکزی جانثاران امام عصر عج کنونشن میں شرکت کی دعوت دی. اجلاس میں ضلعی کابینہ سمیت تمام یونٹس کے سیکریٹری جنرل اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے شرکت کی۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک کو اس وقت اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے، دشمن اس وقت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوشش کر رہا ہے، ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے، جنہوں نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ امت مسلمہ کے خلاف ہے، جس کی زندہ مثال کشمیر، فلسطین سمیت دیگر مسلم ممالک اور وطن عزیز پاکستان میں بھارتی جارحیت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے اور اسوہ شبیری کا کردار ادا کرے، پوری پاکستانی قوم ملک کے دفاع کے لئے حکومت اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، بھارت نے اگر کوئی مذموم حرکت کی تو وطن کے دفاع کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن بی زیڈ یو کے صدر محمد حر غوری کے والد استاد نذر حسین غوری مرحوم کی قل خوانی کے ایک بڑے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کیا، جس میں مولانا مختیار حسین نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرائی، قل خوانی میں مخدوم سید محمد علی شاہ، کیپٹن (ر) ناصر مہے، علی شیر بوسن، ملک نور حسین ڈیہڑ، مخدوم سید حامد رضا شاہ، مخدوم سید شیر شاہ، ملک ریاض حسین گھاگھرہ، مخدوم مبارک شاہ، نذیر احمد ہمڑ، ملک شبیر چوہان، ملک لیاقت میتلا، خالد بچہ، غلام حسین بچہ، اے ڈی بلوچ، سید محی الدین شاہ و دیگر نے شرکت کی، علامہ اقتدار حسین نقوی نے مزید کہا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔

وحدت نیوز(فیصل آباد) سفیر انقلاب ، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی24 ویں برسی کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی جانب سے فیصل آباد میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکاء سے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود محترمہ فرحانہ گلزیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شھید نے مجاہدانہ زندگی بسر کی ، آپ ایک مخلص اور درد دین رکھنے والے انسان تھے جن کی زندگی کا مقصد قوم کے نوجوانوں میں بیداری اور تحرک پیدا کرنا ، انھیں اپنے حقوق اور اجتماعی فرائض سے آگاہ کرنا ، طاغوتی قوتوں کے مد مقابل آنا اور انھیں شکست دینا ، اور اپنے مکتب کی بے لوث خدمت کرنا تھا  آپ حقیقی پیرو امام خمینیؒ تھے اور خط ولایت فقیہ پر گامزن تھے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree