The Latest

جذام سے بھی بد تر مرض

وحدت نیوز(آرٹیکل)جسمانی علاج کے مرکز کو ہسپتال کہتے ہیں،  لوگ اپنی جسمانی شفا یابی کے لئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ان جسمانی امراض میں سے ایک متعدی مرض جذام یا کوڑھ بھی  ہے ۔۱۹۵۸ میں  جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی ایک ڈاکٹر خاتون  نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ موصوفہ کی اس وقت عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔اس تیس سالہ کافرہ عورت نے ایک مسلمان ملک میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج معالجے پر کمر باندھ لی۔

قابلِ ذکر ہے کہ  اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا،لوگ کوڑھ کو بیماری کے بجائے عذاب الٰہی سمجھتے تھے اور  کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر  ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرا دی گئی تھیں جو کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ  منہ اور سر لپیٹ کر مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینکتے تھے اور یوں ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطوں کے اندر بیمار انسان سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔

ایسے میں اس  خاتون نے جرمنی سے کراچی آنے کا فیصلہ کیا   اورکراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انہوں نے اس مرض سے مقابلے کے لئے سوشل ایکشن پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے دو مقاصد تھے ایک لوگوں کو یہ باور کرانا کہ کوڑھ  عذابِ الٰہی نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور دوسرا یہ مقصد تھا کہ اس اس کارِ خیر کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں،  انہیں دونوں مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی اور  ملک کے متعدد حصوں میں جذام کے علاج کے مراکز قائم ہوتے گئے یہانتک کہ  ۱۹۹۶ میں عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو  لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکتی بلکہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایشا کا پہلا ملک تھا جسے لپریسی کنٹرولڈ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

دوسری طرف  حکومت ِ پاکستان نے 1988 میں  موصوفہ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت  بھی دی اور انہیں  ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز ، جناح ایوارڈ  اور نشان قائداعظم عطا کیا گیا اسی طرح آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

یہ سارے اعزازات اپنی جگہ لیکن مجھے جس چیز نے تعجب میں ڈالا وہ یہ تھی کہ ہمارے مطابق ایک کافرہ عورت نے بیمار انسانوں کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج ہم سب کوڑھ سے بھی بدترین مرض مذہبی و علاقائی تعصب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

عدمِ برداشت، شدت پسندی، دھونس، سفارش ، رشوت، غیبت و تہمت اور قتل و غارت  کا وائرس عام ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے ہمیں اپنے روحانی مراکز یعنی مساجد و مدارس کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن کیا کریں اب ہمارے ملک میں کوئی مسجد بھی اسلامی کی مسجد نہیں رہی ، ہر مسجد ایک مخصوص فرقے کی ہے ، کوئی دوسرے فرقے والا اس میں داخل ہونے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور بعض دینی مدارس تو اس عدم برداشت اور نفرتوں کے اصلی مراکز ہیں ۔۔۔

مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کا ملوث ہونا، نورین لغاری کا داعش کو جوائن کرنا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے گردے نکال کر بیچ دینا اور جعلی سٹنٹ ڈالنا، بعض مساجد سے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے جاری ہونا، بعض مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ دئیے جانا، ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سوچنا، بلوچی اور پٹھان و پنجابی و سندھی کے جھگڑے ،  یہ سب کیا ہے۔۔۔!؟

ایسے میں ہم سب کو اور خصوصا ہمارے دینی و سیاسی مصلحین کو سوچنا چاہیے کہ اگر ایک کافرہ عورت ہم مسلمانوں کے ساتھ محبت اور خلوص  کا برتاو کر کے پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک بنا سکتی ہے تو کیا ہم لوگ ایک دوسرے سے محبت آمیز اور خلوص بھرا برتاو کر کے اس ملک کو شدت کنٹرولڈ اور کرپشن سے پاک ملک نہیں بنا سکتے۔

کیا ہمارے اندر ایک کافرہ عورت جتنی بھی پاکستان میں بسنے والے  انسانوں سے محبت نہیں ہے۔ یا پھر ہم سب  جذام سے بھی کسی بڑے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں!!!


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جمیعت علمائے پاکستان(نیازی)کے رہنما پیر معصوم نقوی اور دیگر شیعہ سنی علما ءنے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔اس موقعہ پر بڑی تعداد میں میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ علامہ ناصر عباس جعفر ی نے کہا ہے کہ دس محرم کا واقعہ راولپنڈی جیسے حساس علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تھی ۔اس سازش میں ہمارے لوگوں کے خلاف من گھڑت مقدمات قائم کیے گئے ۔ حقیقت آشکار ہو جانے کے بعد ان مقدمات کا کوئی جواز باقی نہیں ۔ہمارے نوجوانوں کے خلاف سانحہ عاشور کی درج ایف آئی آر کو فوراً خارج کیا جائے۔ مسجد کے کسی حصے کو جلوس والے سائیڈ سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ اسے عقب سے جلایا گیا۔اس روز راولپنڈی کے بیشتر اعلی ٰانتظامی افسران شہر سے باہر تھے۔سوشل میڈیا پر برما اور شام کے بچوں کی تصاویر شیئر کر کے لوگوں کو مشتعل کیا گیا۔راولپنڈی میں 6امام بارگاہوں اور مساجدکو کیمیکل کی مدد سے جلایا گیا۔جس میں قرآن پاک اور تبرکات بھی نذر آتش ہو گئے۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے میڈیا پر آکر جلتی پر تیل کا کام کیا۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے حکم پر ہمارے بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھایا گیا۔ چادر چار دیوار کا تقدس پامال کیا گیا ۔ہمارے گولڈمیڈلسٹ نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوا۔پولیس کے وحشیانہ تشدد کے نیتجے میں ہمارے کئی نوجوانوں کو معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اکثر افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔یہ لوگ کسی معافی کے مستحق نہیں ہیں۔انہوں نے پنجاب میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں درود و سلام پڑھنے والوں کو پابند سلا سل کیا جا تا رہا۔ قائد اعظم کے پرامن پاکستان کو تکفیری ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے شیعہ سنی مل کر ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کے بہت سارے نوجوان لاپتہ ہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں سزائیں دی جائیں اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر انہیں رہا کیا جانا ہی انصاف کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار قانون و آئین کی پامالی ہے جو شخص جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کی تضحیک کرتا ہے وہ قانون کی بالادستی پر قطعی یقین نہیں رکھتا۔ئی کورٹ پر وکلا کا حملہ قابل مذمت ہے۔ وکلا کا تعلق ایک پڑھے لکھے طبقے سے ہے انہیں قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پاکستان کا استحکام قانون کی عملداری سے مشروط ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اس سازش کو آشکار کرنے پر ہم پاک فوج کے مشکور ہیں۔جس مسجد و مدرسے کو آگ لگائی گئی تو اس کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے نہیں تھا۔جو نام نہاد سکالر میڈیا پر آکر اس واقعہ کو شیعہ سنی کارستانی قرار دے رہے تھے انہیں بھی گرفتار کیا جانا چاہیے۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے کالعدم مذہبی جماعتوں سے رابطے ہیں۔ نون لیگ در حقیقت عسکری جماعتوں کا سیاسی ونگ ہے۔انہوں نے کہا سانحہ عاشور کے اسیروں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا کو حکومت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔شریف خاندان کے تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔جمیعت علمائے پاکستان(نیازی) کے رہنما سید معصوم نقوی نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت و بقا کی جنگ شیعہ سنی مشترکہ طورپر لڑ رہے ہیں۔شیعہ سنی اتحاد میں دنیا کی کوئی طاقت رخنہ نہیں ڈال سکتی۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا انجام جیل ہے انہیں بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔اس کے محل کا گھیراؤ کیا جائے گا۔سانحہ راولپنڈی کے پس پردہ تمام چہروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔

وحدت نیوز (کراچی) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن رابطہ کمیٹی عادل خان اور رکن سندھ اسمبلی انور رضا نقوی کی سربراہی میں وفد کی مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریٹریٹ سولجر بازار آمد، ایم ڈبلیو ایم کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، جسے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں نے قبول کرلیا ہے اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم عابدی، علامہ اظہر حسین نقوی، علامہ صادق جعفری، علامہ مبشر حسن، میر تقی ظفر ودیگر رہنماء بھی موجود تھے۔ ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماوں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت بھی کی۔


وحدت نیوز(گلگت ) گندم کی ترسیل کا ٹھیکہ لوکل ٹرانسپورٹ کمپنی (نیٹکو ) سے اٹھانا صوبائی حکومت کا بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی علاقے کے ہزاروں لوگوںکو روزگار فراہم کررہی ہے،حکومت کے اس اقدام سے علاقے میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو کے سپرد کرے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے صوبائی حکومت کے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کے اقدام کو بدنیتی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔مرکز میں نواز لیگ نے اداروں کو تباہ کردیا اورگلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن و نواز شریف کے نقش قدم پرگامزن ہیں۔نیٹکو ایک قومی ادارہ ہے جس نے علاقے میں ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے ،ادارے نے گندم ترسیل کیلئے کروڑوں کی مشینری خریدی ہے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کی صورت میں مشینری بیکار ہوگی اور کئی افراد کے گھروں کے چولہے بجھ جائینگے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے باعث بارڈر ٹریڈ تباہ ہوچکا ہے اور اب بددیانت حکمران نیٹکو کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے  ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے منطور نظر افرادکو نوازنے کیلئے حیلے بہانے تراش رہی ہے اور کسی پرائیویٹ شخص کو ٹھیکہ دیا گیا تو گندم خرد برد ہونے کے قوی امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں نیٹکو واحد ادارہ ہے جس سے علاقے کے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کیلئے قومی منافع بخش اداروں کی تباہی سے گریزکیا جائے۔انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کی ملک دشمنی عیاں ہوچکی ہے اور ان کے جرائم کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور بہت جلد عوام کو ان بددیانت حکمرانوں سے نجات کی نوید مل جائیگی۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی کابینہ کا اجلاس سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی کی زیر صدارت صوبائی سیکرٹریٹ لاہور میں منعقد ہوا ،اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی،علامہ محمد اقبال کامرانی،علامہ ملازم نقوی،سید حسن کاظمی،علمدار حسین،زاہد حسین مہدوی سید حسین زیدی سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی،اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ مسلم لیگ ن اداروں کیساتھ تصادم کی پالیسی پر گامزن ہے،ن لیگ اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے اعلیٰ عدلیہ اور قومی سلامتی کے ادروں کیخلاف ہرزہ سرائی کر رہی ہے،جسے کوئی بھی محب وطن برداشت نہیں کر سکتا،عدالتوں میں پیش نہ ہو کر آل شریف توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاوُن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے،پنجاب حکومت محرم سے قبل ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے کے لئے انتظامیہ کے ذریعے بانیان مجالس پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں دباوُ ڈالنے میں مصروف ہے،ہم عزاداری امام حسین علیہ السلام پر کسی بھی قد غن کو قبول نہیں کریں گے،چاردیواری کے اندر مجالس عزاء ،روائتی جلوس ہائے عزاء کو محدود کرنے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،علامہ مبارک موسوی نے کہا ہے کہ پنجاب میں ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں علماء اور پڑھے لکھے نوجوان تاحال لاپتہ ہیں،سی ٹی ڈی اور پولیس کے ذریعے پنجاب حکومت صوبے بھر میں ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کیا جائے،انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ملت جعفریہ کو شرپسندوں کیساتھ ساتھ ن لیگی حکومت کے انتقامی کاروائیوں کا بھی سامنا ہے،انتہا پسندکالعدم جماعتوں کو پنجاب میں ن لیگ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے،اجلاس میں مرکزی دعائے عرفہ کا اجتماع 9 ذی الحج کو لاہور میں منعقد کروانے کا بھی اعلان کیا گیا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)  پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انکشاف کیا ہے کہ 2013ء میں سانحہ راولپنڈی میں حملے کرنے والے کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور مسجد پر حملہ کرنے والوں میں اسی مسلک کے لوگ شامل تھے۔ جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ کرنے والے اسی مسلک کے تھے، مسجد میں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا۔ اس موقع پر کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگرد اجمل خان کا اعترافی بیان بھی چلایا گیا۔ بیان میں اس کا کہنا تھا کہ میرا تعلق باجوڑ سے ہے اور میں 2012ء میں پاکستان آیا، ہم 8 لوگ ہیں، ہمیں ہدایات دی گئیں کہ 10 محرم کو کالے کپڑے پہن کر حملہ کرو، اس سے شیعہ اور سنی آپس میں لڑیں گے اور حالات خراب ہوجائیں گے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد ایسا دعویٰ کیا گیا کہ شیعہ تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور پورا نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔

وحدت نیوز(گلگت)  سید مہدی دنیائے صحافت کے ایک درخشاں باب تھے مرحوم نے اپنے قلم کا کبھی سودا نہیں کیا اور حکومتی جبر کے سامنے ہرگز نہیں جھکے۔مرحوم کے گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے گرانقدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ سید مہدی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔مرحوم مزاحمتی صحافت کے امین تھے جس نے ہردور میں حکمرانوں کے ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا اور حکمرانوں کے کرپشن اور ناانصافیوں کے متعلق اصل حقائق کو عیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے ہردور میں حکمران مرحوم سے نالاں نظر آتے تھے۔بااثر حلقوں نے ان کی حق گوئی کو دبانے کیلئے ہر حربہ آزمایا لیکن مرحوم کی حق گوئی کے سامنے ان کا بس نہیں چلا۔گلگت بلتستان کا ہرباسی ان کی جرات و ہمت کے معترف نظر آتا ہے اور ان کی رحلت نے باہمت اور حق گو افراد کو رنجیدہ خاطر کیا ہے۔مرحوم کی وفات سے جہاں دنیائے صحافت کو نقصان پہنچا ہے وہاں گلگت بلتستان کے لئے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائیگا اور ان کے شاگردوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کھینچے ہوئے خطوط پر گامزن رہتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کا دامن تھامے رہینگے۔انہوں نے مرحوم کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے انہیں غم کے اس موقع پر صبر کی تلقین کی ۔خداوند عالم کی درگاہ میں دعاگو ہیں کہ وہ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔

یمن کا آکٹوپس

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔

مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔

ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔

اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔

ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔

یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔

ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔

بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔

دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔

علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔

ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔

اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔

صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔

دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔

واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔

چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔

عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔

گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔

گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔

سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔

عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔

بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔

عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔


تحریر۔۔۔عابد حسین

وحدت نیوز(کراچی) خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ کراچی ڈویژن کے زیرِ اہتمام سرجانی ٹاؤن ضلع وسطی کراچی میں جشن آزادی کی مناسبت سے بازار مہربانی کا اہتمام کیا گیاجہاں ضرورت مند خواتین و مرد حضرات نے مفت کپڑے و دیگر اشیاء حاصل کیں ، اس موقع پر ڈویژنل سیکریٹری خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ ٹرسٹ زین رضوی نے سرجانی ٹاون یونٹ اور تعاون کرنے والے مومنین کا شکریہ ادا کیا اور کراچی کے دیگر علاقوں میں بازار مہربانی لگانے کا اعلان کیا، زین رضوی کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام نے ایم ڈبلیوایم کے فلاحی شعبے کی جانب سے بازار مہربانی کے اہتمام کو خوب سراہااور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی اپیل کی۔

وحدت نیوز(اوورسیز نیوز آن لائن) علامہ تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کا سراغ نہ مل سکا، انتظامیہ ریاست کی سالمیت پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ۔

تفصیلات کے مطابق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی  اور ان کی اہلیہ پر 15فروری کو نامعلوم افراد نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ ملزمان دن دیہاڑے کاروائی کر کے غائب ہو گئے ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے ۔ واقعہ کے بعد آزادکشمیر بھر سمیت پاکستان میں بھی قاتلوں کی گرفتاری کیلئے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج کیا۔انتظامیہ کی یقین دہانیوں کے بعد احتجاج کا سلسلہ تو رک گیا مگر تا حال کوئی تسلی بخش کاروائی نہ ہو سکی ۔انتظامیہ کی نا اہلی پر آزادکشمیر کے عوام میں شدید بے چینی پائی گئی ہے ۔

ایک شہری نے اوورسیز نیوز آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر علامہ تصور حسین نقوی الجوادی جیسی بڑی شخصیت پر حملہ کرنے والے گرفتار نہ ہو سکے اور دن کی روشنی میں پولیس و دیگر اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو عام شہریوں کا کیا بنے گا ۔ انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے ، اس واقعہ کو معمولی نہ سمجھا جائے، ریاست کے امن کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ، حملہ آور اور ان کے آلہ کار اگر قانون کی گرفت میں نہیں آتے تو ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ علامہ تصور حسین نقوی الجوادی اور ان کی اہلیہ پر 15فروری کو دن گیارہ بجے نا معلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں علامہ تصور جوادی اور ا نکی اہلیہ زخمی ہو گئے ۔ جنہیں زخمی حالت میں سی ایم ایچ مظفرآباد منتقل کیا گیا ۔ بعد ازاں علامہ تصور جوادی کو اسلام آباد سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا تھا ۔چند روز قبل انہیں واپس مظفرآباد گھر منتقل کیا گیا ۔علامہ تصور جوادی تیزی سے روبہ صحت ہو رہے ہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree