The Latest
وحدت نیوز(کویت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما شہباز شیرازی کی سربراہی میں کویت میں مقیم پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے نمائندہ وفد نے سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان غلام دستگیر صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی ،جس میں محترم سفیر صاحب کو 07دسمبر 2017بروز جمعرات مسجد شعبان سالمیہ میں منعقدہ محفل میلاد کے لئے بطور مہمان خصوصی دعوت نامہ پیش کیا، علاوہ ازیں وفد نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر (جو کہ مغربی سرحد سے شروع ہو رہی ہے )کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار کیااور سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا،نمائندہ وفد نے پاکستان میں ملت تشیع کو درپیش مسائل ،دہشتگردی او رپاکستان کے مختلف شہروں سے مختلف ریاستی اداروں کے ہاتھوں مسلسل جاری شیعہ عزاداروں اور زائرین امام حسینؑ کےجبری اغواء کے خلاف مذمتی قرار دادبھی پیش کی جوکہ پاکستانی سفیر غلام دستگیر صاحب نے وزارت داخلہ پاکستان کو بھجوانے کا وفد سے وعدہ کیا۔
سفیراسلامی جمہوریہ پاکستان سے ملاقات کیلئے نئی یادداشت
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم یاد داشت برائے حکومت پاکستان بزریعہ عزت مآب سفیر پاکستان کویت کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی ملک بھر میں پاکستانی شہریوں خصوصا ملت جعفریہ کے بے گناہ افراد کی جبری گمشدگی اور ماورائے آئین گرفتاریوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور ملک بھر میں حکومتی اداروں کی جانب سے شیعہ شخصیات عزادارن اور زائرین کے اغواء کو ریاستی دہشتگردی اور آپریشن ردالفساد پر سوالیہ نشان قرار دیتی ہے۔ اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ محب وطن اور پرامن شیعہ شخصیات عزادارن اور زائرین کا آئے روز جبری گمشدگان کا سلسلہ اور انکا خاندانوں کے سامنے اغواء ماورائے آئین اور جمہوری اقدار کے منافی عمل ہے، پاکستان کی معزز عدلیہ کے بار بار اصرار کے باوجود مغویان کو عدالت میں پیش نہ کرنا عدالت کے ساتھ مذاق اور توہین عدالت کے مترادف ہے۔ ان عزادارن زائرین اور شیعہ شخصیات کو اغواء کرکے حکومتی ادارے ریاستی دہشتگردی کا مظاہرہ کررہے ہیں ، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حالیہ دنوں میں لاہور کی اہم شاہراہ سے ایلیٹ فورس کی گاڑی میں آکر مسلح اہلکاروں کی جانب سے ناصر شیرازی کو اغواء کرنا اور اس پر حساس اداروں کی جانب سے ایک ماہ تک لاعلمی کا اظہار جہاں ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، وہیں ملکی سالمیت کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ریاستی اداروں کی رٹ یا تو مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے یا یہ ادارے پنجاب حکومت کی ایماء پر ماورائے آئین و قانون عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آئندہ اس طرح کا سلسلہ روکا جائے اور جن بے گناہ شیعہ عزادران زائرین یا شخصیات کو اغوا یا غائب کیا گیا ہے انہیں فوری طور پر رہا کرنے میں وزیر اعظم پاکستان اپنا کردار ادا کریں۔اسلام آباد میں مسجد باب العلم کے باہر دہشت گردی کے نتیجے میں سابق اٹارنی جنرل صوبہ سندھ سید سیدین زیدی اور حبدار شاہ کی شھادت ،خیر پور سندھ میں سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے جلوس پر حملہ سمیت پورے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور ملک میں آئین وقانون کی بالا دستی اور معزز شہریوں کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہیں،ملک بھر خصوصا ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی ، پنجاب سندھ ،گلگت سے ماورائے عدالت وقانون اٹھائے گئے شیعہ شہریوں کو قانون وعدالت میں پیش کرنے اور بے گناہ شہریوں کو فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ملک عزیز پاکستان کے استحکام اور پاکستان مخالف قوتوں کی نابودی کی دعا کیساتھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)* 4 دسمبر کا دن فقط یمنی کانگرس پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے قتل ہونے کا دن ہی نہیں بلکہ یمن پر 30 ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلط کرنے والے نام نہاد ظالم اتحادی قوتوں کی وحشیانہ جنگ کے برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔
* اور یہ دن ان ظالم طاقتوں کے اسٹریٹیجک پارٹنر کے خاتمے کا دن بھی ہے۔
* اس دن سعودی عرب امارات اور انکے اتحادیوں کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
* وہ تحریک انصار اللہ کو سیاسی وعسکری منظر نامے سے آؤٹ کرنے اور اس کے مکمل خاتمے کے لئے جس پارٹی اور جس خائن لیڈر پر اعتماد وانحصار کر رہے تھے اور جس پر سعودی عرب وامارات اور انکے ماوراء امریکہ واسرائیل کی یمن پر فتح حاصل کرنے کے لئے نگاھیں تھیں وہ یمن کے صدام علی عبداللہ صالح تھے۔
* اب یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔
* سعودی عرب اور امارات اور انکے اتحادی تحریک انصار اللہ کو میدان سے آوٹ کرنے کی سازشیں کر رہے تھے آج وہ خود میدان سے عملی طور پر آوٹ ہو چکے ہیں۔
* عاصفہ الحزم نامی سعودی جارحیت اربوں اور کھربوں ڈالرز کے خسارے ، بیگناہ یمنی عوام کے قتل اور اس ملک کی تباہی کا گناہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے باوجود اپنی کامیابی اور فتح کی آخری امید پر بھی علی عبد اللہ صالح کی بغاوت والے اس خود کش حملے سے پانی پھیر چکا ہے۔
*پہلے جب عوامی فورسسز اور یمنی فوج امارات پر حملے کا پروگرام بناتے تو صالح آڑے آ جاتا تھا. اب ان حملہ آوروں کا ایجنٹ دفاعی فورسسز کے درمیان نہیں رھا. اب فقط ریاض اور ابو ظہبی پر ایک آدھ نہیں کئی میزائل جوابا گر سکتے ہیں۔
* اب انصار اللہ اور یمنی فوج کے پاس زمین سے زمین پر فائز ہونے والے ، زمین سے سمندر اور سعودیہ وامارات کے وسط اور آخری سرحد تک رینج والے میزائل ہیں. اور یمنی دفاعی پوزیشن اس بغاوت کی سرکوبی اور چند گھنٹوں میں اتحادی افواج کی بین الاقوامی سازش اور اندونی خیانت وخباثت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بعد بہت مضبوط ہو چکی ہے اور یمنی عوام کے حوصلے بلند اور ارادے پختہ تر ہو چکے ہیں. اب اس مسلط کردہ کے سیاسی حل کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔
تحریر:علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔دنیاچشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔
تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔
امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔
رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔
آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم منسی نعمتہ}انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم} اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔
آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت} یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلا م انبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔
حوالہ جات:
۱۔امام خمینی رح
۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴ ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
۵۔ نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
۶۔نساء،165۔
۷۔نحل،36۔
۸۔حدید،25۔
۹ ۔جمعہ،2۔
۱۰ ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(اسلام آباد) گذشتہ دنوں مسجد وامام بارگاہ باب العلم آئی ایٹ اسلام آبادمیں تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے مجلس وحدت مسلمین کے سابق لیگل ایڈوائزر، سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ معروف قانون دان شہید سید محمد سیدین زیدی ایڈووکیٹ کو آہوں اور سسکیوں میں ایچ الیون قبرستان اسلام آبادمیں سپرد لحد کردیا گیا، تدفین میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سمیت علامہ امین شہیدی، علامہ اقبال بہشتی، علامہ سخاوت قمی، محسن شہریار، ارشاد بنگش سمیت دیگر رہنما، معززین شہر اور پسماندگان کی بڑی تعداد شریک تھی، شہید سیدین زیدی کے تدفین کے موقع پر تلقین کی تلاوت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے فرمائی، اس موقع پر انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے پولیٹیکل کونسل کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے پیٹرولیم مصنوعات کے بعداشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا حکمرانوں کی طرف سے عوام کو بدامنی، مہنگائی، عدم تحفظ،لوڈشیدنگ اور لاقانونیت جیسے تحفے دیے جا رہے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔ بھاری مینڈینٹ حاصل کرنے والی حکومت اپنی عوام کو ’’قابل قدر‘‘ صلہ دے رہی ہے۔ قیمتوں پر نظر رکھنے والے اداروں اور ضلعی حکومتوں کی موجودگی میں عام گھریلو اشیا ءکی من مانی قیمتیں وصول کیا جانا اداروں کی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ملک کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہیں۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سفید پوش طبقے کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا جو تاجر مصنوعی قلت پیدا کر کے سبزیوں، چکن اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں کو بڑھا کر فائدہ حاصل کر رہے ہیں ان کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔انہوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں معمول پر لانے کے لیے مارکیٹوں کا دورہ کیا جائے اور ناجائز منافع خوروں کو موقع پر جرمانے کیے جائیں۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بھیانک ناکام منصوبہ بندی کی تفصیل جس کے تحت علی عبد اللہ صالح نے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف بغاوت کی تاکہ وہ دوبارہ سے یمن کا بلا شرکت غیرے حاکم بن جائیں، اور اپنے بیٹے کو جو اس وقت عرب امارات میں مقیم ہیں یمن کا صدر بنایا جائے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔ انصار اللہ کے خلاف بغاوت کی پلاننگ اب سے تقریبا 8مہینے پہلے ہوئی۔ اس پلاننگ میں محمد بن زاید(ابوظبی کا ولی عہد)، جنرل شاول موفاز(سابق اسرائیلی وزیر دفاع)، محمد دحلان کے علاوہ علی عبد اللہ صالح شریک تھے۔ ان سب کے علاوہ مقتول یمنی صدر صالح کے بیٹے احمد علی عبد اللہ صالح نے اس میٹنگ میں خصوصی شرکت کی۔۔
ساری پلاننگ ابوظبی میں ہوئی، جس میں بغاوت کی ساری تفصیلات محمد بن زاید کی طرف سے طے کی گئیں۔ اس کے بعد مزید میٹنگز کے لیے سقطری کے خوبصورت جزیرے کا انتخاب کیا گیا جسے سابق یمنی صدر عبد ربہ منصور نے اماراتیوں کو بیچا تھا۔ اس جزیرے میں لگ بھگ 9دفعہ ان کی میٹنگز ہوئیں، جن میں جنوبی یمن میں تعینات اماراتی آفیسرز کے علاوہ اسرائیلی آفیشلز نے بھی شرکت کی جن کے نام شاوول موفاز نے دئیے تھے۔
پلاننگ کے تحت علی عبد اللہ صالح کے قریبی 1200ساتھیوں کو عدن کے شہر میں موجود اماراتی فوجیوں کے اڈے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کاصنعاکی بغاوت میں اہم کردار ہونا تھا اور ان کا تعلق علی عبد اللہ صالح کی پارٹی سے نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سابق اسرائیلی فوجی آفیسرز نے بھی ٹریننگ دی۔۔ صنعا اور اس کے اطراف میں 6 ہزار لوگوں کو الگ سے ٹریننگ دینے کے لیے بجٹ منظور کیا گیا۔ محمد بن زاید کے کنٹرول روم نے فروری سے لے کر جون 2018تک، علی عبد اللہ صالح کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے، تقریبا 290ملین ڈالرز عدن سے صنعا منتقل کئے۔یہ اس100 ملین ڈالرز کے علاوہ ہے جو اگست اور اکتوبر کے مہینے میں علی عبد اللہ صالح کو دئیے گئے۔۔
طے پایا کہ 24اگست 2017کوبغاوت کرنا ہے۔ لیکن اماراتی اور اسرائیلی آفیسرز نے بعد میں کاروائی کو آگے کی کسی تاریخ تک موخر کر دیا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ صالح کے لوگ ابھی مکمل تیار نہیں ہوئے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار اللہ کے حوثیوں تک اس پلاننگ کی خبر پہنچ چکی تھی، لہذا انہوں نے دار الحکومت اور اس کے اطراف میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا۔ جو آفیسرز اس پلاننگ میں شامل تھے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ دار الحکومت صنعا اور اطراف میں 8 ہزار لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے ۔ اس مقصد کے لیے مقامی ٹرینرز کے علاوہ، داعش سے بھاگے ان16 افراد سے بھی مدد لینے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت عدن میں موجود تھے جو جنگی امور اور امداد میں ماہر تھے۔ان سب کے علاوہ چار سابق اسرائیلی آفیسرز بھی تھے جو اماراتیوں کی مدد سے علاقے میں پہنچے تھے۔
دار الحکومت صنعا کے49 خفیہ مقامات پر اسلحہ چھپایا گیا تاکہ کاروائی کے وقت افراد کے درمیان ضرورت کے تحت تقسیم کیا جا سکے۔ کس وقت کاروائی کا آغاز ہو نا ہے وہ سب سے چھپا کررکھا گیا تاکہ انصار اللہ کو سرپرائز دیا جا سکے تا کہ مقابلے میں وہ لوگ فوری طور پر کوئی دفاعی قدم ن اٹھا سکیں۔ یہ پلاننگ انتہائی احتیاط کے ساتھ ، بہت زیادہ سوچ وبچار سے کی گئی ۔ فنی اور دفاعی حوالے سے یہ ایک مکمل منصوبہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ علی عبد اللہ صالح 3 دسمبر تک انصار اللہ کے سامنے لچک دکھانے کو تیار نہ تھے، چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اسلحے کی اور لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 6گھنٹے میں دار الحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ جب انصار اللہ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہا، تو انہوں نے مذاکرات کرنے والوں سے کہا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف بغاوت سے باز آئیں۔
اگر اس بات کو نہیں مانتے تو ہم صنعا اور اس کے اطراف کو صرف 3گھنٹوں میں اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور پھر 2 اور 3 دسمبر کو یہی کچھ ہوا۔ جب صنعا میں حالات علی عبد اللہ صالح کے بالکل خلاف ہوگئے ، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس حوالے سے اپنے بیٹے کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے سے ہم آہنگی کی گئی۔ جب علی عبد اللہ صالح کا قافلہ صنعا سے نکلا تو امارات کے جنگی جہاز ان کی فضائی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھے۔
اس قافلے میں صالح کی بکتر بند گاڑی کے علاوہ تین بکتر بند گاڑیاں آگے اور تین پیچھے حفاظت پر مامور تھیں۔ ان کے علاوہ جدید اسلحے سے لیس مختلف ٹیوٹا پک اپس بھی ساتھ ساتھ حفاظت کی خاطر چل رہی تھیں۔سعودی اتحاد نے صنعا سے لے کر سنحان تک صالح کے راستے میں آنے والے انصار اللہ کے مختلف چیک پوسٹس پر فضائی حملے کئے۔صالح سنحان جا رہا تھا۔ سنحان پہنچنے سے پہلے ، مآرب کے راستے میں انصار اللہ اور قبائل کے مجاہدین کمین لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قافلے پر ٹینک شکن میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے حملہ کیا گیا۔
ان کی کوشش تھی کہ علی عبد اللہ صالح کو زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ سعودی اتحاد کے طیاروں نے بھی اسی جگہ پر بمباری شروع کر دی تاکہ انصار اللہ کے مجاہدین کو عبد اللہ صالح کو گرفتار کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انہیں ڈر تھا اگر صالح گرفتار ہوا تو امارات، سعودی عرب اور اسرائیل کی اس سازش سے پردہ اٹھ جائے گا۔در حقیقت عبد اللہ صالح کو مارنے کا فیصلہ سعودی اتحاد کی طرف سے ہوا تاکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے براہ راست عسکری تعاون پر پردہ پڑا رہے۔
تحریر: محمد صادق الحسینی
مترجم: عباس حسینی
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کے فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ عدل و انصاف کی بالادستی کا اظہار ہے۔انہوں نے کہا سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین سانحہ ہے جس میں احتجاج کا آئینی حق استعمال کرنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں۔اس واقعہ نے وطن عزیز کے تشخص کو عالمی سطح پر بری طرح متاثر کیا ہے۔پنجاب حکومت کے تمام ذمہ دارن کو اس بربریت پر انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ طاقت اور اختیار کے نشے میں چور حکمران خود کوبادشاہ اور عوام کوزر خرید غلام سمجھتے ہیں۔لوگوں کو ماورائے عدالت شدید ترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جو قانون و آئین کے ساتھ بھیانک مذاق ہے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ میں جن افرا د کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ مقتول افراد کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک پاشی تصور کیاجائے گا جو ابھی تک انصاف کے منتظر بیٹھے ہیں۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ مظلوموں کی فتح ہے۔
وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر شعبہ تنظیم سازی اجلاس ، سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی خصوصی شرکت۔ صدارت ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے کی۔ جبکہ اجلاس میں سیکرٹری تنظیم سازی سید حسین سبزواری ، ترجمان سید حمید حسین نقوی ، ضلع میرپور سے سید ناظر کاظمی ، سید حسن کاظمی ، نیلم سے سید سعادت علی کاظمی ، سید وقار کاظمی، ضلع مظفرآباد سے سید محسن بخاری ، سید ممتاز نقوی اور ضلع پونچھ سے مولانا سید شاہنواز حسین کے علاوہ دیگر اضلاع سے نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس میں نو رکنی تنظیم سازی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا فیصلہ کیا گیا کہ تنظیم سازی کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی۔ نئے اضلاع کے اضافے کے ساتھ ساتھ سابقہ اضلاع کو فعال کیا جائے گا۔ رابطہ مہم کے ذریعے یونٹ سطح تک دورہ جات کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئندہ اجلاس مارچ کے دوسرے ہفتے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں منعقد ہو گا۔ جس میں تین ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا، تنظیم سازی کونسل ”جوادی کے لیے انصاف“ تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور نقوی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین الہی تنظیم ہے۔ مقصد ملت محرومہ کی آواز کی بننا ہے۔ اس راستے میں یقینا مشکلات و مصائب ہیں۔ کہیں جبری اغوا ہے کہیں دہشتگردانہ حملے۔ مگر چونکہ ہدف و مقصد پاک ہے اور الہی ہے۔ تو ہم نے رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ ہم حسین ابن علی علیھم السلام کے راستے کے راہی ہیں۔ مصائب و مشکلات ہمیں نہیں روک سکتی۔ انہوں نے آخر میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان برادر ناصر عباس شیرازی کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی اور شرکائے اجلاس نے برادر کی استقامت پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اجلاس کا اختتام تنظیمی قائدین ، مسئولین و کارکنان کی سلامتی ، لا پتہ افراد کی بازیابی اور علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا سے کیا گیا۔ دعا مولانا سید شاہنواز حسین نقوی نے کروائی۔
وحدت نیوز(انٹرویو) سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے قبل مرکزی سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری انکے پاس تھی۔ ناصر شیرازی آئی ایس او پاکستان کے بھی مرکزی صدر رہے ہیں جبکہ متحدہ طلباء محاذ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی سیاسی دانست کی بدولت بہت قلیل عرصے میں ایم ڈبلیو ایم کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہ صرف متعارف کروایا بلکہ شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچایا۔ ناصر شیرازی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد اور پاکستان میں قیام امن کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھی تحریک کے روح رواں ہیں۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن بھی دائر کرنے کے بعد اس کی پیروی کر رہے تھے کہ اغواء کر لئے گئے۔ ایک ماہ کی قید کے بعد بازیاب ہوئے تو سب سے پہلے "ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے " نے ان کیساتھ گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔
سوال : سب سے پہلے تو آپکو اور آپکے اہلخانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ خیر و عافیت سے گھر واپس پہنچ گئے، یہ بتایئے کہ وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے آپکو اغواء کیا اور انکے مقاصد کیا تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے اغواء کرنیوالے لوگ کسی سکیورٹی ادارے کے اہلکار ہی تھے، وہ کس ادارے کے تھے یہ مجھے علم نہیں۔ واپڈا ٹاؤن سے یکم نومبر کو مجھے اس وقت اغواء کیا گیا، جب میں اپنی اہلیہ اور بچوں کیساتھ خریداری کے بعد واپس گھر جا رہا تھا، مجھے 2 ماہ اور 2 سال کے بچوں کے سامنے گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا گیا اور 2 سے 3 گاڑیاں تھیں، جن میں وہ لوگ سوار تھے۔ انہوں نے وہاں سے مجھے اغواء کیا اور کسی نامعلوم جگہ پر جا کر بند کر دیا۔ کچھ عرصہ وہاں رکھا گیا، اس کے بعد مجھے ایک اور جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔ اس دوسری جگہ کا بھی مجھے علم نہیں کہ وہ کون سی جگہ تھی۔ بہرحال اغواء کاروں نے ملک کے آئین کو پامال کیا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا اور مجھے، جو ایک سیاسی جماعت کا کارکن ہوں، اغواء کیا گیا۔ جہاں تک ان کے مقاصد کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کیوں اغواء کیا، وہ کیا چاہتے تھے، یا ان کے پیچھے کون تھا۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ مجھے اغواء کرنیوالوں کے مقاصد کیا تھے۔
سوال : آپکی جماعت تو اسکا ذمہ دار پنجاب حکومت اور رانا ثناء اللہ کو ہی ٹھہراتی رہی اور مسلسل احتجاج میں پنجاب حکومت کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا۔؟
ناصر عباس شیرازی: ویسے دیکھا جائے تو بحیثیت صوبے کے وزیر قانون کے طور پر شہریوں کے تحفظ ذمہ داری رانا ثناء اللہ پر ہی عائد ہوتی ہے، لاہور جیسے شہر سے ایک بندہ اغواء ہو رہا ہے اور لاہور پولیس اور پنجاب حکومت کو پتہ ہی نہیں چلتا؟ جس ادارے نے بھی اغواء کیا تھا، وہ فرشتے آسمان سے تو نہیں اترے تھے، یہیں سے ہیں نا، لیکن پنجاب حکومت ایک ماہ میں میرا سراغ نہیں لگا سکی، میں مسلسل ایک ماہ جبری قید میں رہا، پنجاب حکومت نے میری بازیابی کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا۔؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اغواء میں رانا ثناء ہی ملوث دکھائی دیتا ہے۔ پولیس مسلسل عدالت میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی، یہ سب پولیس کی غفلت کا نتیجہ اور صوبائی حکومت کی ناکامی ہے۔
سوال : دوران حراست اغواء کار آپ سے کس قسم کے سوالات کرتے رہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ان کے سوالات بے مقصد تھے، بے تکے سوالات کرتے رہے، یہ کہ مجلس وحدت مسلمین کی قریبی جماعتیں کون سی ہیں، کن کن جماعتوں کیساتھ آپ کے تعلقات بہت اچھے ہیں، کون سی جماعت آپ سے دور ہے، کس جماعت کیساتھ آپ کی نہیں بنتی، گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کی پوزیشن مضبوط کیوں ہے۔ آپ وہاں الیکشن میں کیوں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی جماعت کے مقاصد کیا ہیں۔ وغیرہ وغیرہ، یہ وہ سوالات تھے، جو عام سے بھی سادہ ہیں۔ یہ سب باتیں تو عام ہیں، بچہ بچہ جانتا ہے ایم ڈبلیو ایم کا منشور کیا ہے، ہم سیاست میں کن جماعتوں کے ہم خیال ہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہ اس قسم کے بے تکے سوالات کرکے پتہ نہیں کیا جاننا چاہتے تھے۔
سوال : لیکن رانا ثناء اللہ کو آپکی جماعت خصوصی طور پر ہدفِ تنقید کیوں بنا رہی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: رانا ثناء اللہ وہ وزیر قانون ہیں، جنہوں نے خود قانون اور آئین کو پامال کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے لاہور ہائیکورٹ میں رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ہر فرد ریاست میں قانون اور آئین کے سامنے جوابدہ ہے، پھر رانا ثناء اللہ کیوں نہیں، میرے اغواء میں رانا ثناء اللہ ہی ملوث ہے، مجھے میرے اڑھائی سال کے بیٹے کے سامنے اغواء کیا گیا۔ کیا کوئی قانون، آئین یا اخلاقیات اس حرکت کی اجازت دیتے ہیں؟ مجھے اغواء کرنیوالوں نے قانون شکنی کی۔ انہوں نے اپنے ہی ملک کا آئین پامال کر دیا، جس کی حفاظت کا انہوں نے حلف اٹھا رکھا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔
سوال : آپکو جس جگہ پر رکھا گیا، وہ کیسی تھی؟ کوئی حوالات تھی یا کوئی گھر تھا۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے ایک تنگ و تاریک جگہ پر رکھا گیا تھا، میرے اغواء سے صرف یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کی لاٹھی ہے، بھینس اسی کی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی بات نہیں کی جا سکتی، یہاں تو پھر طاقتور منہ زور ہو جائے گا، جس کے پاس 4 بندے ہوں گے، وہ منہ زور ہو جائے گا۔ جب معاشرے میں قانون و انصاف کی حکمرانی نہ رہے تو معاشرے بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پاکستان کو بھی اسی بگاڑ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو، یہاں قانون کی عملداری ہو، یہاں وحدت کو فروغ ملے، میرا جرم کیا تھا؟ یہی کہ میں وحدت کی بات کر رہا تھا، میں نے شیعہ اور سنی کو متحد کیا، میں نے تکفیریوں کو بے نقاب کیا، میں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور اس کے جواب میں مجھے اغواء کر لیا گیا۔
سوال : سکیورٹی ادارے جب بھی کسی کو اغواء کرتے ہیں، کوئی جرم ہوتا ہے تو اٹھاتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرا کوئی جرم ہے تو عدالتیں موجود ہیں، وہاں میرے خلاف رٹ دائر کریں، میرا جرم ثابت کریں، میرا کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو میں سزا کیلئے تیار ہوں، لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ بے جرم و خطا آپ کسی شہری کو اٹھائیں، بلکہ معصوم بچوں کے سامنے اٹھائیں اور ایک ماہ تک اسے جبری قید میں رکھیں، عدالت میں ٹرائل ہو تو پیش نہ کریں۔ یہ کونسا قانون ہے، یہ تو جنگل کا قانون ہوا، پاکستان میں تو باقاعدہ ایک آئین موجود ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، ان سب کی موجودگی میں اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کی مخالفت کر رہا ہے، وہ کوئی ثبوت رکھتے ہیں تو عدالت میں پیش کریں۔ ایسے اغواء کرکے تو وہ اپنا کیس کمزور کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ایسے کلچر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں کو آئین کی سربلندی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے۔
سوال : ایک وزیر قانون کیسے قانون شکنی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پنجاب سے اغواء ہوا ہوں تو ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، جس نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ صوبے میں جنگل کا قانون ہے۔ شریف برادران نے ہمیشہ انتقامی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو دوسروں کو انسان نہیں سمجھتے۔ یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں، پھر انہیں ایسے دو چار وزیر بھی مل جاتے ہیں، جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں، وہ بھی ان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، یہی اصل میں ان کو بھی گمراہ کرتے ہیں، ان کی گردن کا سریا اصل میں یہی وزیر ہوتے ہیں، جیسے رانا ثناء اللہ نے پنجاب کے وزیراعلٰی کو مٹھی میں لے رکھا ہے، پنجاب کا پورا کنٹرول وزیر قانون کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سکیورٹی فورسز کی بھی نگرانی کرتا ہے، وہی کابینہ کمیٹی برائے امن و امان سمیت صوبے کے دیگر معاملات چلاتا ہے۔ اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے، سب کچھ ایک وزیر کے ہاتھ میں دیدیا گیا ہے، اب اگر کوئی بقول چودھری شیر علی مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہو اور اس کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو انجام یہی ہوگا کہ کوئی ملک میں آزادانہ گھوم پھر نہیں سکے گا۔ رانا ثناء اللہ کے کارنامے میڈیا والے جانتے ہیں، شائع یا نشر اس لئے نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار میں ہے، جس دن رانا ثناء اللہ کا اقتدارختم ہوگیا، وہ بے نقاب ہو جائے گا۔ میڈیا اس کی اصلیت بے نقاب کرے گا۔ اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو چودھری شیر علی سے پوچھیں، جنہیں شہباز شریف نے خاموش رہنے کا کہا ہے۔ ورنہ ماضی قریب میں جب چودھری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کا کچا چٹھہ کھولا تھا تو لیگی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی اور پارٹی ٹوٹنے کے قریب تھی، لیکن شہباز شریف نے دونوں کو بیان بازی سے روک دیا اور معاملہ سرد پڑ گیا۔ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ پھر گرم ہوگا اور دونوں بیچ چوراہے ایک دوسرے کی ہنڈیا پھوڑیں گے، وہ وقت قریب ہے۔
سوال : آپکا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
ناصر عباس شیرازی: آئندہ کا لائحہ عمل میری سیاسی جدوجہد ہے، جسے جاری رکھوں گا، جلد ہی اعلٰی قیادت سے ملاقات کروں گا۔ ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ہم نے آئندہ 2018ء کے الیکشن میں بھی بھرپور طریقے سے حصہ لینا ہے، اس کی حکمت عملی طے کی جائے گی اور میں نے رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی جو رٹ پٹشین دائر کی ہوئی ہے، اس کی بڑھ چڑھ کر پیروی کروں گا۔ ہم ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہر شہری کو وہ حقوق ملیں، جو اسے آئین دیتا ہے۔ ہم ملک میں جنگل کا قانون نہیں چاہتے، ہم پرامن پاکستان کے قیام کیلئے سرگرم ہیں اور ان شاء اللہ ہم پاکستان کو قائد کا حقیقی پاکستان بنائیں گے۔ ہم آمروں کی پیداوار سے ملک کو نجات دلائیں گے، کرپشن اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے۔ ہمارے سیاسی جدوجہد کا مقصد پرامن اور خوشحال پاکستان ہے، جس میں تمام مکاتب فکر اور مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی۔ ہم پہلے بھی اسی کاز کیلئے جدوجہد کر رہے تھے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ اغواء اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہمیں ہمارے مشن سے نہیں روک سکتے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم جہاں شیعہ سنی کو ایک دوسرے کے قریب لائے ہیں وہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی قریب لائیں اور پاکستان میں ایسا امن قائم کریں کہ دنیا مثال دے۔ امن کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہم تکفیریوں کے روز اول سے مخالف تھے اور اب بھی ان ملک دشمنوں اور اسلام دشمنوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔
سوال : جن جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آپکی بازیابی کیلئے ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا، انکے حوالے سے کچھ کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی بالکل، میں مجلس وحدت مسلمین، تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ق، ملی یکجہتی کونسل ، سنی اتحاد کونسل، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی، امامیہ آرگنائزیشن سمیت دیگر سیاسی، سماجی رہنماؤں اور صحافی دوستوں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے میری بازیابی کیلئے اپنے اپنے طور پر کوشش کی اور ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا۔ یقیناً میری حمایت ایک سیاسی جماعت کے کاز کی حمایت تھی، جن دوستوں نے میرے اہل خانہ کی بھی ڈھارس بندھائی، بالخصوص اپنے وکلاء دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں۔ جن دوستوں نے پاکستان میں اور جنہوں نے کربلا میں میری بازیابی کیلئے دعائیں کیں، ان بہنوں، ماؤں اور بھائیوں اور بزرگوں کا ممنون ہوں اور دعاگو ہوں، اللہ تعالٰی ان تمام احباب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔
ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں، یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔
درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی اور خاندانی جہالت کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف اور جاہل بولنا بند کردیں تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:
۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی
۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں
۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں
۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں
۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج در اصل بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے
۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا
۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا
۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں
۹۔ اور ۔۔۔۔
اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں منکرات کے خلاف جدوجہد اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی اور انسانی سماج کی اصلاح کا انحصار عقیدہ توحید پر ہے۔اگر ہم اصلاح اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔
بقولِ اقبال:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
تحریر۔۔۔۔نذر حافی