The Latest

رجعت کا عقیدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) شیعوں کےمخصوص عقائد میں سے ایک {عقیدہ  رجعت }ہے ۔یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ مہدی موعود {عج}کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قائم ہونےکے بعد اولیائے الہی اوراہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمنوں  کا ایک گروہ دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آئیں گے۔اولیاءاور نیک لوگ دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت دیکھ کر خوش ہو ں گے اور انہیں اپنے ایمان اورعمل صالح کے ثمرات دنیا میں حاصل ہوں گے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو اپنے ظلم کی سزا ملے گی البتہ آخری جزا و سزا قیامت میں ملیں گی ۔ رجعت ایک ممکن امر ہے جو عقلی لحاظ سے محال نہیں ہے ۔اس کے امکان پر واضح دلیل گذشتہ امتوں میں اس کا واقع ہونا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہو ئے  ہیں۔قرآن کریم جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں فرماتاہے کہ وہ مرنے کے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک  معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔رجعت اور مردوں کے زندہ ہونے کا ایک نمونہ بنی اسرائیل کےمقتول کا زندہ ہونا ہے۔بنابریں بعض شبہ ایجاد کرنے والوں کا  رجعت کو تناسخ کے ساتھ تشبیہ دینا  ان کی کوتاہ فکری اور نا آگاہی کی دلیل ہے ۔

شیعہ علماء نے عقیدہ رجعت کے اثبات میں تین طرح کے دلائل ذکر کئے ہیں:1۔آیات قرآنی 2۔سنت نبوی 3۔احادیث اہل بیت علیہم السلام۔  علماء کے نزدیک سب سے  عمدہ دلیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  سے تواتر کے ساتھ نقل شدہ احادیث ہیں۔علامہ مجلسی  نے بحار الانوار میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ان احادیث کو چالیس سے زیادہ موثق شیعہ علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کیا ہے اور یہ احادیث پچاس سے زیادہ شیعوں کی تفسیر ، حدیث  اور کلام کی کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں ۔ علاوہ ازیں شیعوں کے کچھ بزرگ علماء نے رجعت کے بارےمیں مستقل کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد نے بھی اپنی کتابوں میں باب غیبت میں اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔ لہذا اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت پر ایمان رکھتاہو تو ان تمام دلائل  کے بعد اس مسئلے میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اسی لئے رجعت کے بارے میں شیعہ علماء کا اجماع ہے ۔علمائے علم کلام نے رجعت کے اثبات کے لئے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث سےاستدلال کرنے کے علاوہ قرآن کریم کی بعض آیات سےبھی استدلال  کرتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف دو نمونےذکر کرتےہیں:

1۔{وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ‏ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون}  اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔یہ آیت اس دن کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ جس دن ہر امت سے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے والے چند افراد زندہ ہو ں گے ۔اس آیت  میں {حشر}صرف اورصرف ایک گروہ{ناصالح افراد} کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اس آیت  میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر موجود ہے حالانکہ قیامت کے دن{حشر}عام ہوگا یعنی تمام انسان محشور ہوں گے جیساکہ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : {وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهْمْ أَحَدًا}اور سب کوہم جمع کریں گےاوران میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
بنابریں قرآن کریم دوقسم کے {حشر}کے بارے میں خبر دے رہا ہے ۔1۔حشرعمومی جو قیامت اور آخرت کے ساتھ مربوط ہے۔2۔حشر خصوصی جو چند افراد کے ساتھ مخصوص ہے ۔چونکہ یہ آخرت کے ساتھ مربوط نہیں ہے  لہذا یہ دنیا میں ہی انجام پائے گا اوریہ وہی رجعت ہے ۔
2۔{قَالُواْرَبَّنَاأَمَتَّنَااثْنَتَينْ‏وَأَحْيَيْتَنَااثْنَتَينْ‏فَاعْترَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ‏ خُرُوجٍ مِّن سَبِيل}وہ کہیں گے :اے ہمارےپروردگار!تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کر تےہیں تو کیا نکلنے کا کوئی راہ ہے ؟ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے جو قیامت کےدن عذاب الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔یہ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں بخشش  طلب کرتے ہیں ۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ افراد دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ہونے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ۔یعنی خدا نے انہیں دو مرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندگی عطاکی حالانکہ تمام انسان ایک دفعہ مرتے ہیں اور ایک دفعہ ہی زندہ ہو تے ہیں یعنی روح  انسان کےبدن میں دوبارہ داخل ہو تی ہےتاکہ وہ اپنے اعمال کا جزا و سزا دیکھ سکے۔مذکورہ گروہ دو مرتبہ مر جاتا ہے اور دو دفعہ زندہ ہو جاتاہے بنابریں یہ مطلب عقیدہ رجعت کےساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ رجعت کرنےوالوں کے لئے دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی حاصل ہوگی ۔

منکرین رجعت اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دو مرتبہ موت واقع ہونےسےمراد ایک دنیوی زندگی سےپہلے والی موت اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد آنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سے مراد ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی ہے ۔یہ تفسیر لفظ {اماته}کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ اس سےمراد صاحب حیات کو موت دیناہے یعنی پہلے وہ حیات رکھتا ہو پھر اسے موت دی جائے۔ بعبارت دیگر لفظ{اماته}اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ موت سے پہلے ایک زندگی ہے جبکہ انسان کو اس  کی ابتدائی شکل میں موت دینا یعنی جب وہ مٹی یا نطفہ کی شکل میں موجود ہو اورابھی تک اس کے بدن میں روح نہ پھونکی گئی ہو تویہ صاحب حیات نہیں ہے کیونکہ ایسے مقام پر لفظ {اماته}استعمال نہیں ہوتا ۔علاوہ ازیں یہ انسانوں  کا کلام ہے  اور اس کا ظہور بھی یہی ہے کہ انہیں انسانی زندگی  گزارنے کے بعد دو مرتبہ موت دی گئی ہے ۔

بعض افراد اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں :دو مرتبہ موت دینے سے مراد ایک دنیوی زندگی کےبعد آنےوالی موت ہے اور دوسری منکرونکیر کےسوالات کا جواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہونے کے بعدآنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سےمرادبھی ایک دنیوی زندگی اور دوسرا قبرمیں زندہ ہونا ہے ۔
یہ تفسیربھی آیت کے ظہور کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ یہ افراد جوعذاب الہی میں گرفتار ہیں اپنے ان دو زندگیوں  کے بارے  میں  [جو ان کے اختیارمیں دی گئ تھی}نادم ہیں کیوں انہوں نے اپنی  ان زندگیوں کومعقول اور جائز طریقے سے نہیں گزاری کہ آخرت میں عذاب کے مستحق نہ ہوں جبکہ یہ اس صورت میں ہوگا جب انہیں دو مرتبہ زندگی اسی دنیامیں ہی ملی ہوں کیونکہ عمل اسی دنیا کے ساتھ مختص ہیں لیکن قبر میں زندہ ہو نا عمل کے لئے نہیں ہے تاکہ یہ افراد اپنی اس زندگی کے  گناہوں کے بارے میں ندامت کا اظہار کریں  ۔

رجعت کےدلائل میں سےایک دلیل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جو شیعہ و اہلسنت دونوں کے نزدیک مقبول و مشہور ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں جتنے وقائع اور حوادث رونما ہوئے وہ سب امت اسلامی میں بھی رونما ہوں گے۔صحیح بخاری میں ابوسعید خدری سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرابشبر،وذراعا بذراع} “تم  گذشتہ  امتوں کی روش پربعینہ عمل کرو  گے”۔ شیخ صدوق {کمال الدین} میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرتےہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:{ کل من کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هذه الامة مثله،حذو النعل بالنعل و القذة بالقذة}جو کچھ گذشتہ امتوں میں واقع ہوا وہ سب اس امت میں بھی واقع ہو گا۔واضح رہے کہ رجعت گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے اہم حوادث میں سے ہے۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں امت اسلامی میں بھی رجعت واقع ہوگی  ۔مامون عباسی نے جب امام رضا علیہ السلامسے رجعت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔علامہ شبر رجعت کے عقلی اورنقلی دلائل ذکر کرنے کے بعد اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :گزشتہ دلائل کی روشنی میں رجعت پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا واجب ہے لیکن اس مسئلہ کی تفصیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  پر ہی چھوڑنی چاہیے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارےمیں روایات متواتر ہیں جبکہ بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی رجعت  کے بارے میں بھی روایات  توا تر سے نزدیک ہیں لیکن ان کی رجعت کی کیفیت ہمارے لئےواضح نہیں ہے۔اس بارےمیں علم صرف خدا اور اولیاء کو ہی حاصل ہیں۔

حوالہ جات:
۱۔بقرۃ،259۔
۲۔مائدۃ،110۔
۳۔ بحار الانوار ،ج53،ص132 – 134۔
۴۔نمل:83۔
۵۔کہف،47۔
۶۔مصنفات الشیخ المفید،ج7،ص33۔{المسائل السروریۃ}
۷۔غافر،11۔
۸۔مصنفات الشیخ المفید،ج7 ،ص33 – 35 {المسائل السروریہ}
۹۔صحیح بخاری : ج 9،ص 112،کاتاب الاعتصام بقول النبی{ص}۔
۱۰۔کمال الدین ،ص 574۔ا
۱۱۔بحار الانوار ،ج53،ص59،حدیث 45۔
۱۲۔حق الیقین،ج2،ص35۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کوئٹہ میں چرچ پر حملے کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ حکومت کی گرفت انتظامی معاملات پر ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سلامتی و استحکام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، وفاقی حکومت نااہل حکمرانوں کے دفاع میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرے۔ اسلام ایک انسانی جان کے قتل کو پورے انسانوں کا قتل قرار دیتا ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ان کے مذموم مقاصد اور نقصاندہ اہداف ہوتے ہیں۔ مساجد، امام بارگاہوں، چرچ اور مختلف مذاہب و مسالک کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں۔

سربراہ ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی ارض پاک کو ایک غیرمحفوظ ریاست ثابت کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے تاکہ غیر یقینی صورتحال اور عدم تحفظ کے احساس کو تقویت دے کر بیرونی سرمایہ کاری اور سی پیک کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کالعدم گروہوں کے خلاف موثر، فیصلہ کن اور بلا تاخیر کارروائی انتہائی ضروری ہے۔ بلوچستان میں موجود کالعدم جماعتیں پاکستان کی سلامتی کی دشمن ہیں۔ بھارت، امریکہ اور اسرائیل ان جماعتوں کو وسائل فراہم کر کے پاکستان کے حالات خراب کر رہے ہیں۔ ان ملک دشمن گروہوں کا مکمل صفایا ملک میں امن کے قیام کا واحد حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ ریاست کی طرف سے ان مکمل طور پر تحفظ فراہم ہونا چاہیے۔ کرسمس کی آمد سے قبل مسیحی برادری کی عبادت گاہوں کو فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے تاکہ شر پسند عناصر کو کسی بھی قسم کی مذموم کاروائی کا موقع نہ مل سکے۔

سقوط ڈھاکہ

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کے تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ھوئے اپنے مستقبل کو تابناک بناتی ہیں مگر ہم ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی ڈگر پر چلے جارہے ھیں یہاں46سال قبل 16دسمبر 1971 کے دن پاکستانیوں نے اپنے وطن کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھا تھا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اوراسکی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں آپنی ریشہ دیونیوں کا آغاز اور ھندو اساتذہ نے بنگالی بچوں میں مغربی پاکستان کے متعلق زہر اگلناشروع کیا اور جب وہ بچے جوان ہوئے تو انہوں نے ان محرومیوں کا اظہار کرنا شروع کیا تومغربی پاکستان میں بیٹھے حکمرانوں نے ان کی طرف توجہ نہ دی اور الٹا حقوق کے حصول کو وطن دشمنی قرار دیا۔ یہی وجہ تھی ایک نظریاتی مملکت اپنے قیام کے چند ہی سالوں بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اشرافیہ اسی ڈھٹائی سے اسی طرز عمل پر گامزن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اْن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘

یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے نااہل لالچی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے خود پیدا کئے۔ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اْس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہیکیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اْن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی اگر 3 مارچ کے اجلاس میں مغربی پاکستان کے ممبران قومی اسمبلی شریک ہوجاتے تو مجیب الرحمان اور بنگالی علیحدگی پسند گروپوں کو تقویت نہ ملتی اس سلسلہ میں جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئیمشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔

اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔اور ہمارے فوجی افسران نشے میں بدمست رہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ انداز سے مشرقی پاکستان جنگ لڑی جبکہ مغربی پاکستان میں موجود افواج تماشہ ہی دیکھتی رہی۔جنرل یحی جرنل رانی کے ساتھ لطف اندوز ھوتا رہا۔مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں افواج کو مس گائید کیا گیا اور جس دشمن کو ہم نے 1965 میں شکشت فاش کیا 1971 میں اسی دشمن سے ذلت آمیز شکشت سے دوچار ہوئی۔

سانحہ ڈھاکہ پر بننے والا حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو آج تک پبلک نہی کیا۔ دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان۔ کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا۔آج بھی لاکھوں بہاری پاکستانی پرچم لہرائے پناہ گزین کیمپوں میں ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان محب وطن لوگوں کونہ بنگلہ دیش قبول کررہا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ اور حقوق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے اور محرومیوں،مایوسیوں اور نا مناسب سیاسی فیصلوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتاہے۔۔ اگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے اپنی افواج کو دریاؤں سے نکال کرباؤل فال میں حکمت عملی سے لڑتے تو بھارتی سورمائوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سکتا تھا اورذلت آمیز شکشت سے بچا جا سکتا تھا۔یہ کتنا شرم ناک فعل تھا کہ جنرل نیازی جنر ل اروڑا کے سامنے لطیفے سناتا رہا اور اس کا سر شرم سے جکھنے کی بجائے بے شرمی سےپنجابی اشعار سناتے سناتے سلنڈر کیا۔اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواء  نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

 تحریر :محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز(راولپنڈی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف راولپنڈی میں مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن راولپنڈی ڈویژن کے زیراہتمام کمرشل مارکیٹ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مری روڈ پر پہنچی، اس موقع پر شرکاء کی جانب سے امریکہ اوراسرائیل کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا اور امریکی صدر کے اس فیصلے کو مسترد کیا گیا، احتجاجی ریلی سے مجلس وحدت مسلمین ضلع اسلام آباد کے سیکریٹری جنرل مولاناسید حسین شیرازی اور آئی ایس اوکے ڈویژنل صدر برادر طاہرنے خطاب کیا۔

مظاہرین سے خطاب میں رہنماوں کا کہنا تھا کہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے جو کسی اصول، ضابطے اور قانون کو تسلیم نہیں کرتا، بیت المقدس فلسطینیوں کا ہے اور فلسطین عالم اسلام کے دل میں رہتا ہے، امریکہ کے ناجائز بچے کا وقت ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی کم ہورہا ہے اور یہ جعلی ریاست ایک دن اپنے انجام کو پہنچے گی۔ رہنماوں کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے ورنہ اسے عالم اسلام کی مزید نفرت لینا ہوگی۔

وحدت نیوز(ٹھٹھہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع ٹھٹھہ کے سیکریٹری امورسیاسیات سید عبدالحسین شاہ کی دیگر رہنماوں کے ہمراہ میر پور ساکرو پریس کلب میں  پریس کانفرنس، بیت المقدس کے خلاف امریکی واسرائیلی سازشو ں کی مذمت، اس موقع پر  ڈپٹی سیکریٹری جنرل سیدشفقت حسین شاہ اور سید نواز شاہ بھی موجود تھے،  ڈاکٹر عبدالحسین شاہ نے کہا کہ اسرائیل نےعالمی سامراجی قوتوں کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کا حالیہ بیان امریکہ کی اسلام دشمن بلکہ انسان دشمن پالیسی کا عکاس ہے۔امریکہ اپنے انسان دشمن عزائم اور اقدامات کے باعث اقوام عالم میں منفور ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کے اعلان سے دنیا بھر میں امریکہ و اسرائیل مخالف مظاہرے ہورہے ہیں۔ پاکستان کے بہادر عوام نے ہمیشہ مظلوم فلسطینی عوام کا ساتھ دیا ہے، کشمیر اور فلسطین کے عوام کی آزادی کے لئے پاکستانی عوام نے ہمیشہ اور ہر فورم پر آواز بلند کی ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان سعودی قیادت میں بننے والے 41 ملکی فوجی اتحاد سے سوال کر رہے ہیں کہ آخر یہ اتحاد کس لئے بنا تھا اگر تو امت مسلمہ کے لئے بنا تھا تو قبلہ اول کی آزادی کے لئے کیوں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ عملی اقدامات تو دور کی بات ہے ان میں امریکہ مخالف بیان دینے کی بھی جرات نہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان جدوجہد کے ہر مرحلے پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ جلد ہی غاصب اسرائیل سرنگون ہوگا اور فلسطین آزاد ہوگا۔ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کرے، اور او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کے ساتھ ملکر امریکہ کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔ ایسا موقف جو امت مسلمہ اور پاکستانی عوام کے موقف کا ترجمان ہو۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پر داغدار کیا ہے۔ ان خیالات کا مرکزی سیکرٹریٹ سے اظہا ر آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والوں کی تیسری برسی پر کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول میں قیمتی اور معصوم انسانی جانوں کا ضیاع وہ ناقابل تلافی نقصان ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہ دہشت گرد گروہوں نے مختلف مقامات کو نشانہ بنا کر ارض پاک کو ایسے قابل اور ہونہار افراد سے محروم کیا جو قوم کا قیمتی سرمایہ تھے۔ملک میں دہشت گردی کی تقویت کا بنیادی سبب وہ تکفیری گروہ ہیں جو تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے موجودگی کے باوجود یہ طاقتیں پوری ڈھٹائی سے ملک میں نظریاتی مخالفین کے قتال اور کفر کے فتوی دینے میں مصروف ہیں۔اگر ان کو نہ روکا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کا عندیہ قابل ستائش ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر ضروری تساہل دہشت گردوں کے حوصلوں میں اضافہ کرے گا۔ دہشت گرد گروہوں کے سہولت کار وں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔حکومت کی راہ میں حائل سیاسی مجبوریاں ان کالعدم جماعتوں پر ہاتھ ڈالنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیاسی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے جن کی شر انگیز تقریریں قومی سلامتی کے منافی ہیں۔

وحدت نیوز (ٹنڈو جام) ٹنڈو جام ضلع حیدر آباد میں جشن میلاد صادقین ؑ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ سیدالانبیاء ﷺ نے انقلابی جدوجہد کے ذریعے عصر جاہلیت کے طاغوتی نظام کو بدلا، آپ ﷺنے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں جو نظام قائم کیا وہ ہر دور کی انسانیت کے لئے اسوہ اور آئیڈیل ہے۔ اسلام کی انقلابی تعلیمات آج بھی عالم انسانیت کے جملہ مسائل کا حل ہیں ۔ امت مسلمہ، اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث زوال کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عصر حاضر کا فرعون ہے، امریکہ اور اس کے حواری عالم انسانیت کے مجرم ہیں، جنہوں نے داعش سمیت تمام دھشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا اور ان کی سرپرستی کی۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی سامراج اور ان کے ایجنٹوں کی لگائی گئی دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ہزاروں شہری، بہادر سپاہی اورپاک فوج کے جوان دھشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہورہے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ فیصلے سے امریکہ کا اسلام دشمن کردارایک دفعہ پھر انتہائی کھل کر سامنے آگیا۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطین اور بیت المقدس کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر جاری مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ تقریب جشن میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری نشرواشاعت آغا ندیم جعفری، ضلعی سیکریٹری جنرل حیدر آباد رحمان رضا ایڈوکیٹ، ضلعی رہنما غلام رسول لاشاری، مولانا ادیب علی ، برادر رضی حیدرو دیگر شریک ہوئے۔

آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی

وحدت نیوز (آرٹیکل) عوامی طاقت کا کوئی متبادل نہیں، خصوصا عوام اگر خدا پر توکل کریں تو وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں، عوامی طاقت کو اُس وقت نقصان پہنچتا ہے جب  حکومتی فرعون مذہبی دجالوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سادہ لوح عوام مذہبی دجالوں کی  جوشیلی تقریروں اورباتوں میں بہہ جاتے ہیں ۔

یہ ہمارے ہی دور کی بات ہے ، جب ایران میں عوام نے بادشاہ کے خلاف قیام کیا تھا، ایران کا بادشاہ  ایک شیعہ ڈکٹیٹر تھا، ایران صدیوں سےشیعت کا قدیمی مرکز  چلا آرہاتھا، ایران میں اس وقت بھی اہلِ تشیع کے مجتہد اورمراجع کرام تھے۔

ایران کا بادشاہ لوگوں کو یہ بھی یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کا مذہبی پیشوا بھی ہے اور اس کے ہمراہ کشف و کرامات کا سلسلہ بھی ہے۔  ایرانی بادشاہ کو مغرب ، امریکہ   اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

ایران کی داخلی حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو بادشاہ پچیس ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن مناتا تھا ، اور دنیا میں سب سے طاقتور بادشاہ یہی شہنشاہِ ایران تھااور دوسری طرف عوام نالیوں اور کچرے سے روٹی کے ٹکٹرے چن کر چبانے پر مجبور تھے۔

بہر حال ۱۹۷۹ میں ہر طرف سے مایوس ہوکر ایرانی  عوام نے خدا پر توکل کر کے بادشاہ کے خلاف قیام کیا، یہ آمریت کے خلاف جمہوریت کا قیام تھا، یہ بادشاہت کے خلاف انسانیت کا انقلاب تھا، یہ حیوانیت کے خلاف عقل و شعور کی آواز تھی ۔

جس وقت ایران کے مضبوط ترین بادشاہ کے خلاف یہ عوامی و جمہوری انقلاب رونما ہوا تو منطقے میں ہر طرف آمریت کا دور دورہ تھا، پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت، عراق میں صدام کی استبدادیت اور عرب ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر براجمان تھا۔ ایران کا عوامی انقلاب  خطے کی تمام ریاستوں  کے عوام کے کے لئے  یہ پیغام تھا کہ عوامی  اور الٰہی طاقت کو کوئی بادشاہت نہیں دبا سکتی۔ ایرانی بادشاہ کا تخت الٹنے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ جب عوام کے سامنے شہنشاہِ ایران نہیں ٹھہر سکتا تو پھر کسی اور بادشاہ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ عوامی انقلاب کا مقابلہ کر سکے۔

ایرانی عوام کے اس  انقلابی پیغام کو دبانے اور ایران تک محدود کرنے کے لئے  دنیا  کے  ڈکٹیٹروں نے مذہبی دجالوں کو اکٹھا کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔ لہذا کافر کافر شیعہ کافر۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انقلاب سے پہلے ایران کوئی حنفی، حنبلی ، شافعی یا سُنّی ملک تھا، انقلاب سے پہلے بھی تو ایران ایک شیعہ ریاست تھی، ایرانی عوام کی اکثریت، مجتہدین، مراکز ، تہذیب و ثقافت حتیٰ کہ بادشاہ بھی شیعہ تھا۔ اس سے پہلے تو کسی نے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔

 ارباب دانش سوچیں اور فکر کریں کہ ۱۹۷۹ میں  ایرانی عوام سے ایسا کیا گناہ  سرزد ہو گیا تھا کہ اس کے بعد ہر طرف شیعہ کے کفر پر تقریریں ہونے لگیں، لٹریچر چھپنے لگا، چودہ سو سالہ پرانے مسائل کو اچھالا جانے لگا،پروپیگنڈے ، جھوٹ اور افترا پردازی کی انتہا کی گئی  حتی کہ ۲۰۱۷ میں بھی راولپنڈی میں ایک فرقے نے خود اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے ہی افراد کو قتل کر کے اس کا الزام اہل تشیع پر لگایا۔

 کیوں آخر کیوں!؟ اس درجے تک ضد ، بغض اور حسد کرنے کی وجہ کیا ہے؟

اس قدر جھوٹ، اس قدر افترا پردازی ، اس قدر پروپیگنڈہ آخر کیوں!؟

وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ اگر ایران کے انقلاب کو شیعہ کہہ کر اہل سنت کو اہل تشیع سے دور نہ کیا جاتا تو ایرانی عوام کی دیکھا دیکھی  دنیا کی ساری ریاستوں کے مسلمان،اپنے اوپر مسلط  آمروں کے خلاف قیام کرنے لگتے اور یوں مسلمانوں پر مسلط بادشاہتیں دم توڑنے لگتیں۔

آمریت کے خلاف  ایرانی عوام کی جدوجہد  کو چھپانے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام نے دیگر آمروں کی ایما پر ایران پر حملہ کیا اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے ۔

آج وقت نے  ثابت کر دیا ہے کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں تھی بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ٹکراو تھا، شعور اور تعصب کی لڑائی تھی،  اور بادشاہت و بیداری کا معرکہ تھا۔

وقت کا پہیہ گردش میں رہا، مورخ کا قلم چلتا رہا، تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے، چہروں سے نقاب الٹتے رہے، مذہبی دجا ل اپنے ڈکٹیٹروں سمیت جہنم کا ایندھن بن گئے، جھوٹ بولنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتےگئے، ان چند سالوں میں  اگر کچھ باقی رہا تو صرف اور صرف حق اور سچ باقی رہا۔۔۔!

وہ  عوامی شعور اور جمہوری انقلاب جسے شیعہ کہہ کر  ایران میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس نے تونس سے بھی سر نکالا ، اس نے مصر میں بھی دستک دی، اس نے عراق کو بھی ہلایا ، اس نے قطر کو بھی جھنجوڑا اورآج  وہ  سعودی عرب پر بھی خوف طاری کئے ہوئے ہے۔

آج ہر منطقے ، ہر ریاست اور ہر علاقے کے مسلمان اپنے اوپر مسلط بادشاہت سے بیزار ہیں، آج مسلم دنیا کے ڈکٹیٹر تو شہنشاہِ ایران کی طرح امریکہ و اسرائیل کے تلوئے چاٹ رہے ہیں لیکن آج عرب ریاستوں کے عوام  اپنے اوپر مسلط  بادشاہوں سے نالاں ہے۔

عوام کی بادشاہوں سے ناراضگی، لوگوں کی آمریت سے نفرت، جمہور کا شعور کی آواز پر لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ حکومتی  آمروں اورمذہبی دجالوں سے آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں، اب ان بیدار اور باشعور لوگوں کے خلاف چاہے کافر کافر کے نعرے لگائے جائیں اور مذہبی دجال ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کریں ، یہ انقلاب، شعور اور بیداری کی لہر اب کافر کافر کے نعروں سے رکنے اور تھمنے والی نہیں، اب لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی لازم و ملزوم ہے ، جب تک دنیائے اسلام سے آمریت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک قدس کی آزادی ممکن نہیں، لہذا  اب عوامی  شعور کی یہ لہر آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی پر ہی منتہج ہوگی۔

بقول شاعر اب وہ وقت آگیا ہے کہ

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

ان شااللہ

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلسِ وحدت مسلمین کے رکن شوری عالی اور بلوچستان اسمبلی کے رکن آغا رضا نے جنرل (ر) موسیٰ کالج میں منعقدہ ایک تقریب سےخطاب میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم افراد کی شخصیت کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو انسان میں چھپی ہوئی تمام صلاحیتوں کو شگوفا کر سکتی ہے اور تعلیم ہی وہ زیور ہے جو انسانی شخصیت کو نکھارتی ہے تعلیم کے بغیر کوئی شخص بلند انسانی مقامات تک پہنچ سکتا ہے نہ ہی کوئی قوم ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے. لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں جس چیز کو سب سے کم اہمیت دی جاتی ہے وہ تعلیم ہے.  ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارا تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار ہے . حد تو یہ ہے کہ ہمارے جامعات و اداروں سے حاصل شدہ ڈگریوں کی خود ہمارے ملک میں ہی کوئی وقعت نہیں ہے چہ جائیکہ انٹر نیشنل سطح کی بات کی جائے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے انہی تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے جوان جاب کریٹر کی بجائے جاب سیکرز بن گئے ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھیر رہے ہیں ہمارے جوان محنت بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس قابل نہیں بنتے کہ نوکریاں تلاش کرنے کی بجائے نوکریاں تخلیق کریں  اسکی وجہ یہ نہیں کہ جوانوں میں صلاحیت موجود نہیں ہمارے جوانوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام انتہائی ناقص اور ایک صدی پراناہے نوجوان نسل کی یہ ابتری ہمارے مستقبل کی پیشنگوئی کر رہی ہے اور اگر حکومت اور مقتدر حلقوں نے اس بحران کی طرف توجہ نہیں دی تو مستقبل قریب میں وطن عزیز انتہائی خطرناک اور پیچیدہ مسائل سے دوچار ہوگا ضرورت اس امرکی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر نظام تعلیم کو بہتر بنایا جائے اور نوجوان نسل جوہمارے مستقبل کے معمار ہیں کو بڑی تباہی سے بچایا جائے . صوبائی سطح پر بھی حکومت بلوچستان صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے انقلابی اقدامات اٹھا کر تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں کیونکہ صوبہ بلوچستان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے کرپشن کو ملک کی پسماندگی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپشن رہے گی ملک میں عادلانہ نظام قائم نہیں ہو سکتا۔کرپٹ عناصر ملک کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے ، اگر ہم ملک میں اچھے نظام کے خواہاں ہیں تو اپنے درمیان سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح آج ادارے اور عدلیہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں اگر روز اول سے پاکستان کے استحکام کو مد نظر رکھا جاتا اور کرپشن کو ختم کرنے کیلئے عدلیہ اور کرپشن کے خاتمے پر فائز حکومتی ادارے اپنا مثبت کردار ادا کرتے تو آج وطن عزیز کی حالت موجودہ حال سے مختلف ہوتی ۔

انہوں نے کہا کہ کرپٹ عناصر کو جنم دینے میں ہر وہ شخص ملوث ہے جس نے اس کی راہ میں رکاؤٹ بننے کے بجائے رضامندی اور خاموشی اختیار کی۔ جس طرح دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں کی جاتی ہے لازم ہے کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور ان تمام حکومتی افسران کو انصاف کی عدالت میں کھڑا کیا جائے جو کرپشن میں ملوث ہیں، کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا قانون بدعنوانی کے خلاف ہے، جو افراد آئین شکنی کرکے دوسروں کا حق کھائے انہیں ان کاموں کی سزا بھی ملنی چاہئے،احتسابی عمل کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے تمام محکموں اور اداروں میں اسے بلاامتیاز شروع کیا جائے۔ ایماندار اور کرپشن سے پاک کوئی بھی فرد احتساب کے عمل کے خلاف نہیں ہوسکتا، تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ احتسابی عمل کی تائید کرے۔

ان کامذیدکہناتھا کہ کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاؤٹ ہے، جب تک ملک میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا جائے گا ملک ترقی نہیں کر سکے گی، بدعنوانی کی وجہ سے ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور ہوا۔ احتسابی عمل اعلیٰ اداروں سے شروع ہونا چاہئے اور اوپر سے نیچے کی طرف لایا جائے اس طرح کرپشن کے خلاف جنگ میں ہمیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں اور اسی صورت ہم ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں۔ کرپٹ عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے۔ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، کرپشن کے خلاف بھی فیصلہ کن کاروائی ملک کی سا  لمیت و استحکام کے ازحد ضروری ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree