وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین کے وفد نے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین کی قیادت میں میئر ملتان چوہدری نوید آرائیں سے ملاقات کی، وفد میں سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، ضلعی سیکرٹری جنرل ملتان سید ندیم عباس کاظمی، ملک عامر کھوکھر اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر سابق صوبائی وزیر چوہدری عبدالوحید آرائیں بھی موجود تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے چوہدری نوید آرائیں کو میئر ملتان بننے کی مبارکباد دی اور ملتان شہر کی ترقی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ بلدیاتی اداروں تک اختیارات کی منتقلی سے عوامی مسائل حل ہوں گے، جب تک اختیارات منتقل نہیں ہوں گے عوامی استحصال دور نہیں ہوگا، علامہ اقتدار نقوی نے میئر ملتان کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپ بطور میئر شہر کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے غیرمعمولی اقدامات اُٹھائیں گے۔ ملتان شہر میں واسا اور پانی کے مسائل فوری حل طلب ہیں، محکموں میں کرپٹ افراد کا خاتمہ غریب عوام کا مطالبہ ہے۔ ملتان کے باسیوں کے آپ سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین ملکی ترقی اور استحکام کے لیے ضلعی حکومت کے شانہ بشانہ ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ ہم سب کیلئے نمونہ عمل تھے،ان کا اوڑھنا بچھونا ،سونا جاگنا،چلنا پھرناسب کچھ اسلام ناب محمدی کی تبلیغ،ترویج اور عملی نفاذ کیلئے تھا،وہ بت شکن زمان حضرت امام خمینی کے سچے اور عملی فدائی تھے ۔وہ واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اپنے عمل سے انقلاب اسلامی اور نظریہ ولایت فقیہ سے اپنے اخلاص کو دوسروں پر ثابت کیا،بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات سے ان کے عشق اور محبت کیلئے صرف دو مثالوں سے استفادہ کرتا ہوں ، نوزائیدہ انقلاب اسلامی ایران پر جب امریکہ نے اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے حملہ کیا تو اسے امریکہ ،نیٹو سمیت تمام عرب ممالک کی مدد حاصل تھی ،ستاون ممالک صدام کے ساتھ ملکر ایران کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے،اس موقعہ پر امام خمینی کی الہٰی شخصیت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اسلام محمدی سے عشق کرنے والوں کیلئے صبح امید کی حیثیت رکھتے تھے،یہ سب ایران اور ایران سے باہر امام خمینی کے سچے اورکھرے عاشق اور فدائی تھے،جنگ تحمیلی کے دوران امام خمینی نے جہاد کی فرضیت بارے کوئی فتوٰی نہیں دیا ،ہاں بس اتنا کہا کہ جو بھی استطاعت یا طاقت رکھتا ہے وہ جبہ یعنی محاذ پر جائے،پاکستان جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور انقلاب اسلامی ایران کو پسند کرنے والوں کی یہاں بھی بڑی تعداد موجود تھی ان پاکستانیوں میںسے جس شخصیت نے امام خمینی کی اس خواہش کو سنا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید تھے ،جو اپنے چند رفقا ء کے ہمراہ جبہ پر پہنچ گئے تھے،انہوں نے محاذ جنگ پر بے انتہا خدمات سرانجام دیں وہ ڈاکٹر تھے جن کی محاذ جنگ پر اشد ضرورت ہوتی ہے ،ان کی خدمات کو اہل ایران ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سانحہ مکہ ہوا تو آل سعود کی طرف سے اہل ایران پر حج کی پابندی لگا دی گئی،لبنان کے جوانوں پر بھی عمر کے حساب سے پابندیاں لگائی گئیں،امام خمینی کی خواہش تھی کہ حج پر حسب دستور دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کرام کو اصل حج یعنی برا ء ت از مشرکین کا پیغام یاد کروایا جائے،وہ پیغام جس کو پہنچاتے ہوئے چار سو سے زیادہ حجاج نے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور جائے امن پر جہاں ایک چیونٹی کو مارنا بھی منع کیا گیا ہے کو بلا جواز،بلا جرم و خطا خاک و خون میں غلطاں کیا گیا تھااس پیغام کو پہنچانے کا انتظام و انصرام اور ذمہ داری فدائے امام خمینی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حصہ میں آئی ،ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس پیغام امام کو احسن طریقہ سے حجاج کرام تک پہنچایا،اوراس موقعہ پر اسیر ہوئے،انہیں سزائے موت کا حکم ہوا مگر انہیں خدا نے مزید کام کا موقعہ دیا اور وہ رہا ہو گئے،انہوں نے رہا ہونے کے بعد بھرپور کام کیا اور سات مارچ 1997ء کی دم صبح لاہور کے یتیم خانہ چوک میں سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھوں درجہ شہادت کو پایا،وہ ہم سب کے دلوں پر حکمرانی کرتے آ رہے ہیں ،بائیس سال ہوگئے ہم نے ان کی یادوںکا چراغ روشن رکھا ہے اور اسے تیز ہوائوں میں بھی بجھنے نہیں دیا، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان کی یاد منا کر ،ان کی باتیں سنا کر ان کی تصویریں سجا کر یا ان کے اہل خانہ پر کوئی احسان کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ ملت کے محسن ہیں انہوں نے اپنی ظاہری زندگی میں بھی ملت کی فلاح،نظریہ کی بقا،اور اسلام حقیقی کے احیا ء کیلئے زندگی کو وقف کیئے رکھا اور ان کی بعد از شہادت زندگی بھی ہم یعنی ملت کیلئے باعث رشد و کمال ہے ،یہ شہداء ہی ہیں جن کی وجہ سے قوم و ملت کو سربلندی نصیب ہوتی ہے اور انہیں اوج و کمال حاصل ہوتا ہے ،ان کی یاد منا کر ،ان کے کارناموں اور کمالات کو سامنے لانے کا مقصد مستقبل کی ملت اور سرمائے کو جنہوں نے قوم و ملت کی باگ ڈور سنبھالنا ہے،ان تاریخی کرداروں سے آشنائی کروانا ہے تاکہ ایسے کردار پھر بھی سامنے آتے رہیں،اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے تا وقتیکہ وقت کے امام کا ظہور نہیں ہو جاتا اور مظلومین مستکبروں پر غلبہ نہیں پالیتے،کمزور بنا دیئے گئے حکومت و اختیار حاصل نہیں کر لیتے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہماری ملت کے سرخیل اورملت کے خلاف جاری استعماری جنگ میں ہمیشہ خط مقدم پر رہنے والے تھے،انہوں نے اپنی تمام زندگی ملت بالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ،شعور کی بیداری،تحرک،رفاہ و فلاح،مسائل و مصائب کے حل،قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے دن رات ایک کیئے رکھا اور ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہونے کے باوجود علماء سمیت ہر طبقہ ء فکر کیلئے نمونہ قرار پائے انہیں بہت سے اعزا ز حاصل ہے،جن کو اس مختصر کالم میں زیر تحریر لانا ممکن نہیں ہاں ہم ان کارناموں اور اعزازات کی ایک فہرست یہاں پیش کر سکتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح ان کا حق ادا کر سکوں گا ،بہرحال ہم ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو سالار شہدا سمجھتے ہوئے ان کی یاد منا کر ان کے کارہائے نمایاں اور ایثار و قربانیوں کو یاد کر کے اپنے اندر تحرک و تحریک محسوس کرتے ہیں ،یہ کیا کم ہے کہ وہ لوگ جو شہید ہو گئے اپنی شہادت کے بعد بھی ہمارے تحرک و بیداری کا باعث بنتے ہیں حالانکہ ہمیں ایسی قیادتیں بھی ملتی ہیں جن کے وجود سے تحرک و بیداری تو نہیں مایوسی و بددلی کا احساس ضرور جنم لیتا ہے اور انسان ان کی رہنمائی پا کر کسی منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے اپنا راستہ ہی بھلا بیٹھتا ہے جبکہ ڈاکٹر شہید ایسی شخصیت نے اتنے زیادہ کام کیئے ہیں کہ انہیں کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
میرے قبیلہ سرکش کا تاجور ہے وہ شخص
بڑھے جو دار کی جانب پیغمبروں کی طرح
آج ان کی بائیسویں برسی مناتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا کہ بہت سے لوگ ان سے جلن محسوس کرتے تھے اور ان پر تہمتیں بھی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے مگر یہ شہید ڈاکٹرہی تھے جو اپنے ہدف اور منزل کی طرف بڑھتے رہے اور شہادت کا بلند مقام پا کر اپنا میرٹ ثابت کیا،میں ایسے بہت سے لو گوں کو جانتا ہوں جو تنظیمی ہونے کے دعویدار ہیں،ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں ان کے ساتھ احسان اور بھلائی بھی کی ہو گی مگر ان کو ڈاکٹر شہید کی یاد منانا اچھا نہیں لگتا،ڈاکٹر شہید کی برسی ،قائد شہید کی برسی اور رفقا ء شہیدین کی یاد منانا ذرا بھی نہیں بھاتاجبکہ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ شخصیات ہی تھیں جن کے وجود کی برکات سے ہم ہمیشہ لطف اندوز ہوتے تھے،اس موقع پر میں اہل ایران کی مثال دونگا کہ جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں اور انہیں شہدائے گمنام کا باب کھولنا پڑا ہے ،جا بجا شہدائے گمنام کے مقابر بنائے گئے ہیں ان کی یاد گاریں قائم ہیں ،لوگ ان پر حاضر ہوتے ہیں،اسی طرح آپ ایران میں جہاں بھی جائیں ہر سو ،ہر شہر میں شہدا ء کے نام سے منسوب قبرستان یعنی گلزار شہداء بنائے گئے ہیں،آپ ان میںجمعرات کے دن جائیں کیسے عجیب مناظر دیکھنے کوملتے ہیں شہدا ء کے ورثا ء و رفقاء ان شہدا ء کو کبھی نہیں بھولتے اس لیئے کہ شہدا ء بھی انہیں فر اموش نہیں کرتے،جگہ جگہ شہدا ء کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں ،ان کی تصاویر دیواری سائز میں لگائی ہوتی ہیں،ان کے اقوال نمایاں اور انتہائی خوبصور ت انداز میں لکھے ہوتے ہیں،ان کے گھروں کا سارا خرچ بنیاد شہید اٹھاتی ہے،ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے،آپ کو ان شہدا ء کے نام سے ریلوے اسٹیشنز،میٹرو اسٹاپ،ادارے،این جی اوز،کالجز،اسکول،یونیورسٹیز،او نا جانے کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے،ان پر کتابیں لکھی جاتی ہیں،ان پر ڈاکٹریٹ کروائی جاتیں ہیں،ان پر مقالے لکھے جاتے ہیں،مقابلے کروائے جاتے ہیں، مگر ہمار ے ہاں شہدا ء کی یاد منانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے،شخصیات کو شہدا ء کی یاد منانے سے اپنا قد چھوٹا محسوس ہوتا ہے،شائد یہی وجہ ہے کہ قوم کی قیادت و سیادت پر فائز شخصیات نے شہید قائد علامہ عارف الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے نام سے کوئی موسسہ،کوئی ادارہ،کوئی اسکول،کوئی کالج،کوئی شہر ،کوئی گائوں،کوئی ہسپتال تعمیر نہیںکیا بھلا کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ،کس طرح ہماری ملت اپنا وقار اور عظمت بحال کروا سکتی ہے جبکہ ہم شہدا ء وہ بھی شہید قائد اور شہید ڈاکٹر جیسی شخصیات کو فراموش کر بیٹھے ہیں ہم نے اس کا کوئی انتظام نہیں کیا،اس پر ذمہ داران سوچیں،غور کریں اگر ممکن ہو اور کچھ کر سکتے ہوں توضرور کریں ورنہ ان شہدا ء بالخصوص شہید ڈاکٹر کے روحانی فرز ند اور بھائی تو کچھ نا کچھ کرتے ہی رہتے ہیں اور کچھ نا سہی تو ایک سالانہ برسی ہی سہی،اپنی عقیدتوں کے سلام پیش کرنے اور نئی نسل کو ان کے کردار و عمل سے آگاہ رکھنے کیلئے یہ سیمینار،کانفرنسز،اور برسی کے پروگرام بھی بہت ضروری ہیں،ان کی یاد منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب لوگ مل کر کم از کم ان کے شروع کردہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں،ان کے شروع کردہ پروگراموں کی رونق کو ماند نا پڑنے دیں،خدا سلامت رکھے،شہدائے ملت کی یادوںکے چراغ روشن رکھنے والوں کو۔
میں تو انہیں یاد کر کے یہی کہوں گا۔۔۔
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اک شخص کی شہر میں کمی ہے
تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین ضلع سکردو کے ڈپٹی سکریٹری جنرل اور الزھرا کالج کے پرنسپل مولانا ذوالفقار عزیزی صاحب کی ہمشیرہ گزشتہ دنوں قضائے الٰہی سے انتقال کرگئیں ،مجلس وحدت مسلمین سکردو کے سیکریٹری جنرل مولانا فدا ذیشان اور سینئر اراکین کاچو ولایت علی خان، سید مبشر رضوی و دیگر نے مرحومہ کی تشیع جنازہ اور تدفین میں شرکت کی اور فاتحہ خوانی میں شریک ہوئے۔اس موقع پر مولانا فدا ذیشان نے ذوالفقار عزیزی صاحب و دیگر لواحقین کو تعذیت پیش کرتے ہوئے مرحومہ کی ایصال ثواب کیلئے دعا کی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے سابق مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان برادر علی مہدی خان کو ایم ڈبلیوایم کی مرکزی کابینہ میں سیکریٹری شماریات نامزد کردیا ہے ، تفصیلات کے مطابق حال ہی میں آئی ایس اوکی مرکزی صدارت سےسبکدوش ہو نے والے برادر علی مہدی کومجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ میں بحیثیت مرکزی سیکریٹری امور شماریات شامل کیا گیا ہے ، علی مہدی خان سال 16-2015میں آئی ایس اوکے مرکزی صدر رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل وہ مرکزی چیف امامیہ اسکائوٹس کی ذمہ داریوں پر بھی فائض رہے ، وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے سایکلوجی میں ایم فل ہیں اور قومی واجتماعی میدان میں کافی فعالیت رکھتے ہیں ، برادر علی مہدی کی نامزدگی کے بعد ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدا وند متعال بحق سیدہ فاطمہ زہرا(س)برادرعلی مہدی کو مجلس وحدت مسلمین کے الہیٰ پلیٹ فارم سے دین ، ملک وملت کی شب وروز خدمت کی توفیق عنایت فرمائے ، ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے اور ہر قدم پر ان کا حامی وناصر ہو۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) قومی سیاسی صورت حال کے جائزے بالخصوص فوجی عدالتوں میں توسیع،پاکستان پیپلز پارٹی کی آل پارٹیزکانفرنس میں شرکت اور مشترکہ موقف پراتفاق رائےکیلئے اپوزیشن جماعتوں کااہم اجلاس مسلم لیگ (ق)کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی رہائش پر منعقد ہوا جس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے اعلیٰ سطحی وفدکے ہمراہ شرکت کی، اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ناصر شیرازی، مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اسدعباس نقوی بھی موجود تھے،جبکہ دیگر جماعتوں میں پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری خرم نواز گنڈہ پور، چیئرمین سنی اتحادکونسل صاحبزادہ حامدرضا، مسلم لیگ(ق)کے مرکزی رہنما کامل علی آغا، محمد بشارت راجہ سمیت دیگر رہنمابھی اجلاس میں شریک تھے۔
اجلاس میں مجموعی ملکی صورتحال ،نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عدم عمل درآمد،آئندہ قومی انتخابات کی حکمت عملی اور فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کل طلب کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں مشترکہ موقف پر تفصیلی مشاورت ہوئی، بعد ازاں تمام جماعتوں کے سربراہان نے میڈیا کے نمائندگان سے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہاکہ حالیہ درپیش قومی مسائل کے حوالے تین چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں پہلے تو فوجی عدالتوں میں توسیع ہے چونکہ عام عدالتیں دہشت گردی کے مقدمات میں فیصلہ سازی میں سستی کا شکار تھیں اس لیئے سب نے مل کر فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ دوسالوں میں فوجی عدالتوں کو جو نتائج دینے چاہئے تھے وہ حکومتوں کے عدم تعاون کی بناءپر حاصل نہیں کیئے جا سکے، گوکہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے قائم ہو چکا ہے اور ہم کل پیپلز پارٹی کی آل پارٹیزکانفرنس میں بھی اسی موقف کا اعادہ کریں گے کہ فوجی عدالتوں کے حوالےسے جو بھی ضروری مکینژم ہے وہ اس طرح کا ہونا چاہئے کہ مقدمات تاخیر کا شکار ناہوں ،مقدمات کی درست انداز میں پیروی ہو، اسپیڈی ٹرائل ہو اور جلد فیصلے ہوں، کوئی بھی دہشت گرد سزا سے نہ بچ سکے تاکہ عام شہری کو بھی یہ اطمینان حاصل ہو کے یہ فوجی عدالتیں بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کے خلاف ہیں ان کا کوئی مخصوص ایجنڈہ نہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا اہم نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے یہ انتہائی اہمیت کا حامل تھاپوری قوم کا اس کے اجراء پر اتفاق تھا لیکن افسوس کہ یہ بھی ہمارے حکمرانوں کی نالائقی اور عدم توجہ کا شکار ہو کروہ نتائج نہ دے سکا جس کی عوام توقع کررہے تھے اور اس کے بعد ہمیں ردالفساد کی جانب جاناپڑا، لہٰذا نیشنل ایکشن پلان میں اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی ضمانت ہے،نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردوں کے خلاف ہتھیار بنانے کی ضرورت ہے ناکہ سیاسی مخالفین کے ۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ فاٹاکی خیبر پختونخوا میں شمولیت قبائلی علاقہ جات کے عوام کی ستر برس پرانی آرزو تھی جو کہ پایہ تکمیل کو پہنچی ، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ فاٹاکہ محب وطن عوام کی محرومیوں کا خاتمہ ہو گا اور ایف سی آر جیسے کالے قانون سے نجات حاصل ہو گی البتہ ہم امید کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے محب وطن عوام کہ جنہوں نے ڈوگرہ راج سے جنگ کرکے آزادی حاصل کی اور اپنی آزادی پاکستان کے نام ہدیہ کردی لیکن قیام پاکستان سے لیکر آج تک شمالی علاقہ جات کے عوام بنیادی آئینی وانسانی حقوق سے محروم ہیں اور صوبائی خودمختاری کے خواہاں ہیں ۔گلگت بلتستان کے عوا م کو آئینی خودمختاری دے کر قومی دھارے میں شامل کرکے پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں کھولی جا سکتی ہیں ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یوم شہادت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہاکے موقع پر اپنے ایک پیٖغام میں کہا کہ خواتین کو معاشرے میں اپنا باوقار مقام قائم رکھنے کے خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے طرز زندگی کو شعار بنانا ہو گا۔اہلبیت علیہم السلام کی حقیقی معرفت اور طرز زندگی پر عمل امت مسلمہ کو تفرقہ بازی سے نجات دلا سکتا ہے۔ استکبارکے عزائم خاک میں ملانے کے لیے عزم استقامت کا درس اسی گھرانے سے ملتا ہے۔جب تک تعلیمات اہلیبت علیہم السلام کا حقیقی درک اور مفہوم سے آشنائی نہیں ہوتی تب تک امت مسلمہ اسی طرح منتشر اور دست و گریبان رہے گی۔حق فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت حاصل کر کے ذلت و اضطراب کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثقافتی یلغار کے ہتھیار سے مسلم معاشرے کو اسلامی اقدار سے دور کیا جا رہا ہے۔اخلاقی تنزلی پوری قوت سے سر اٹھا رہی ہے۔اسلامی تہذیب و تمدن کو دانستہ فراموش کیا جا رہا ہے ۔جس کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔معاشرے کی تربیت کے لیے مستورات کو اپنی ذمہ داریاں اورکردار ادا کرنا ہو گا۔جناب سیدہ کی پوری زندگی خواتین کے لیے ہر میدان میں مشعل راہ ہے۔بیٹی، بیوی اور ماں ہر حیثیت سے خاتون جنت ؑ کے طرز عمل سے رہنمائی لی جائے۔اگر ماں فاطمہ زہراؑ ہوں تو بیٹے حسن ؑ و حسینؑ ہوتے ہیں۔یزید جیسے جابر و فاسق حکمران سے حق کی خاطر نبرد آزما ہونے کا درس امام عالی مقام علیہ السلام نے نبی زادی کی آغوش سے حاصل کیا۔ دورحاضر کی یزیدیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مخدومہ کونین حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تعلیمات پر عمل کرنا واجب ہے بصورت دیگر ہم حسینی ہونے کے دعوے دار تو ہو سکتے ہیں لیکن حق دار نہیں۔