وحدت نیوز(اسلام آباد) یمن پر ثالثی تمام فریقین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں،یمن میں عوامی حکومت کی تشکیل ہے،جس میں حوثی مجاہدین بھی شامل ہے جبکہ اس کے برعکس سعودی عرب کی جانب سے اپنی منظور نظر حکومت جسے یمنی عوام نے مکمل مسترد کیا ہے کے بچاؤ کے لئے تین سال سے وہاں کے مظلوموں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے،یمنی عوام کی نسل کشی جاری ہے،ایسے میں پاکستان کو ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے جس سے پاکستان کا اپنا تشخص متنازعہ حیثیت اختیار ناکر جائے، یمن کے مسئلے کو یمنی عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے،پاکستان کو یمنی عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ مزید بحرانوں کا سبب بنے گا،ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم عمران خان کے یمن جنگ میں ثالثی کے بیان پر میڈیا سیل سے جاری ردعمل میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان مشکلات میں گھرے غریب ملک یمن پر جاری جنگ کے خاتمے کے لئے اگر سنجیدہ ہیں تو اس کے لئے یمن جنگ سے جڑے تمام فریقین کی امن پیش رفت میں شمولیت ضروری ہے۔پاکستان اگر یمن کے معاملات میں ثالثی کے خواہاں ہےتو ہمیں چاہیئے کہ تمام فریقین کے درمیان ثالثی کریں جانبدارانہ کردار ادا کرکے پاکستان کی باوقار کردار کو مشکوک نہ بنایا جائے،یمن مسئلے پر سب سے اہم رائے خود یمنی عوام کی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یمن جنگ کا حل یمنی عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہئے۔اگر یمن مسئلہ پر عالمی طاقتوں کا دبائو لیا گیا اور یمنی عوامی کی رائے سے مختلف فیصلے کئے گئے تو خطے میں مذید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت یمن میں پر منصور الہادی کی حکومت برائے نام ہے یمن کے اکثریت حصے پر حوثیوں کی حکومت ہے۔ یمنی عوام جمہوریت چاہتی ہے اور آمرانہ نظام حکومت سے چھٹکارہ چاہتی تھی۔لیکن یمن میں غیر ملکی سیاسی مداخلت نے اس بحران کو جنم دیا ہے۔ یمن کا مسئلہ جلد از جلد حل ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یمن میں ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اگر اس مسئلہ کو جلد حل نا کیا گیا تو لوگ افریقی ممالک کے انسانی بحران کو بھول جائیں گے اور مہذب دنیا میں ایک مذید انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
اسلام آباد(وحدت نیوز )ہندوستان جنوبی ایشا کا اسرائیل ہے۔کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر نہتے کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہےلیکن عالمی برادری اور انسانی حقوق علمبردار تنظمیں کشمیری مظلوموں کے لئے خاموش ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک ہے کشمیریوں کی انتھک جدوجہد آزادی کی تحریک کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی ۔ان خیالات ک اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے اکہتر سال مکمل ہونے پر میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ فلسطین کا جس طرح سے محاصرہ اور وہاں قتل وغارت اسرئیل کررہا ہے اسی طرح ہندوستان کشمیر پر قابض اور وہاں پر ظلم و بربریت کی خوفناک داستانیں رقم کر رہاہے ۔ عالمی برادری کا کشمیر پر موقف اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوششیں ناکافی اور دہرے معیار پر مبنی نظر آتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بہتا ہوا بے گناہ حریت پسند افراد کا لہو عالمی برادری کو نظرنہیں آرہا۔ دنیا کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گاکہ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی قوت کے حامل ممالک کے درمیان ہے لہذا مسئلہ کشمیر کا حل دنیا کے امن کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے ۔ہم مظلوم کشمیریوں کی مظلومیت کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھاتے رہیں گئے ۔کشمیری ہمارے بھائی ہیں اور ہم کشمیری عوام کی جدو جہد آزادی میں ان کے ساتھ ہیں ۔اقوام عالم میں جہاں پہلے سے موجود مسائل ختم نہیں ہو رہے وہاں نئے مسائل نے دنیا کا امن خطر ے میں ڈال دیا ہے مسئلہ یمن اس وقت ایک حساس اور اہم معاملہ بن چکا ہے مظلوم یمنیوں پر عالمی استعماری طاقتیں مسلط ہونے کی کوشش میں وہاں کے مظلوموں کو بری طرح کچلا جار رہا ہے ان کا استحصال کیا جارہا ہے اور بمباری کر کے ان کے شہروں کو تباہ و برباد کیا جار ہا ہے،اقوام متحدہ کو ان مسائل کے حل میں کردار کرنا ہوگا بصورت دیگر پوری دنیا کا امن داؤ پر لگانے میں دیر نہیں لگے گا۔
اسلام آباد( وحدت نیوز)وزیراعظم کا امت مسلمہ کے تنازعات میں ثالثی کرنے کا بیان خوش آئند ہے لیکن طول تاریخ میں سعودی روایات اس سے مختلف ہیں،یمن میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی کے پیچھے امریکہ اسرائیل اور آل سعود ملوث ہیں،آل سعود اپنی بادشاہت بچانے کے لئے ان استعماری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے،قرض دینے والاکبھی قرضدار کے شرائط پر قرض نہیں دیگا،ہم اس حوالے سے حکومت کی عملی کوششوں کے منتظر ہیں،ہمیں کسی بھی ملک کی جنگ میں فریق بن کر تنازعات میں اضافہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ بیان پر میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کے مابین تنازعات کا حل صرف اور صرف ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے،استعماری قوتوں نے مسلم ممالک کو باہم دست وگریباں کرکے اپنے مفادات حاصل کئے، سعودی ولی عہد خود اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ ہم نے افغان وار میں مغرب کے مفادات کے خاطر شدت پسندی کو پرموٹ کیا،بدقسمتی سے عرب ممالک کے بادشاہ مغربی طاقتوں کے غلام بن کر مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں،لیبیا،تیونس،عراق اور افغانستان میں تباہی مچانے کے بعد دشمن کی نگاہیں اب وطن عزیز پر مرکوز ہیں،ایسے میں ہماری لیڈر شپ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا،ہم ابھی تک افغان جہاد کے قرض اتارنے میں مصروف ہیں،ایسے میں اگر مشرقی وسطیٰ کے ڈرٹی وار کا حصہ بنا تو اس کے نتائج انتہائی خوفناک نکلیں گے،
یمن میں فوری جنگ بندی اور یمنی مظلوم عوام کو جلد از جلد ریلف پہنچانے کی عملی کوششیں کی جانی چاہیں ہم اس حوالے سے حکومت کے تمام اقدامات کی تائید کریں گے۔
کراچی (وحدت نیوز) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنر ل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ شہدائے کربلا کا چہلم، منگل 20 صفر کو عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے اور اس مناسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان بھر میں ماتمی جلوس و مجالس عزا برپا ہوں گی۔ لیکن نہایت افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی عالم انسانیت کے عظیم شہید جوانان جنت کے سردارنواسہ رسولﷺحضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کی یاد میں سوگوار مسلمانوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بعض مقامات پر بلاجواز پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ اعلیٰ حکام کو امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں کی جانب سے متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ عزاداری سید الشہداء ہماری شہہ رگ حیات ہے اور اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عزادارن سید الشہداء کامحض انسانی و اسلامی و ثقافتی حق ہی نہیں بلکہ پاکستان کے آئین میں جو شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، اس کے تحت بھی ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔ اس لیے منتخب حکومت، بیوروکریسی اور سیکیورٹی کے ادارے عزاداری سید الشہداء برپا کرنے میں پاکستان بھر میں عزاداروں کو سہولیات فراہم کریں اور تعاون کریں نہ یہ کہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے افراد یا کسی بھی متعصب ٹولے یا شخصیت کے سہولت کار بن کر عزاداری کے اجتماعات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں، ان خیالات کا اظہارانہوں نے کراچی پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پرسید علی حسین نقوی، علامہ مبشرحسن،ناصرحسینی، میر تقی ظفراوردیگر ذمہ دار موجود تھے۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ہم سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ،سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت خاص طور پر آصف علی زرداری صاحب اور بلاول بھٹو صاحب نوٹس لیں کہ ضلع سانگھڑ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کھپرو میں چہلم شہدائے کربلا کے جلوس کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ لیس کے متعصب اہلکار کالعدم تکفیری دہشت گرد ٹولے کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں اسی لئے انہی کے کہنے پر عزاداری کے جلوس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔انہوں نیکہا کہ زرداری صاحب، بلاول صاحب اور مراد علی شاہ صاحب، شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے عظیم حسینی عزادار کی سرزمین پر بھٹائی سرکار کے امام حسین ع کی عزاداری و سوگواری پر پابندی آپ جیسے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ آپ امن و محبت کی سرزمین سندھ پرامام حسین ؑ کی عزاداری کے انتظامات میں سہولیات فراہم کرتے ہیں یا متعصب افسران و کالعدم انتہا پسند تکفیری دہشت گرد ٹولے کی سرپرستی کرتے ہوئے انکا ساتھ دیتے ہیں۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی نے مزید کہا کہ خیرپو ر میں کالعدم تکفیری دہشت گرد ٹولے نے نام بدل کر28 صفر کے ماتمی جلوس کی مخالفت میں پوسٹر شایع کروائے ہیں اور غلیظ پروپیگنڈا کررہیہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان اور کہاں ہے قانون کی حکمرانی؟ کالعدم دہشت گرد ٹولہ آزاد دندناتا پھررہا ہے اور عزاداروں اور عزاداری کے خلاف زہر اگلتا پھررہا ہے لیکن پولیس اور سیکورٹی پر مامور دیگر ادارے انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہے جبکہ حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سندھ حکومت اور آئی جی پولیس سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خیرپور شہر اور کھپرو میں عزاداری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں اور تفرقہ انگیزی پھیلانے والوں کو گرفتار کرکے سزا دی جائے اور متعصب افسران چاہے پولیس میں ہوں یا ضلعی انتظامیہ میں ہوں، انہیں عہدوں سے ہٹایا جائے۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی نے عمران خان کے یمن سے متعلق بیان کو خوش آئیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا امت مسلمہ کے تنازعات میں ثالثی کرنے کا بیان خوش آئند ہے، لیکن طول تاریخ میں سعودی روایات اس سے مختلف ہیں، یمن میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی کے پیچھے امریکہ اسرائیل اور آل سعود ملوث ہیں، آل سعود اپنی بادشاہت بچانے کے لئے ان استعماری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، سعودی ولی عہد خود اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ ہم نے افغان وار میں مغرب کے مفادات کے خاطر شدت پسندی کو پرموٹ کیا، بدقسمتی سے عرب ممالک کے بادشاہ مغربی طاقتوں کے غلام بن کر مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو یا د رکھنا چاہیئے کہ قرض دینے والا کبھی قرض دار کی شرائط پر قرض نہیں دیگا، تاہم ہم اس حوالے سے حکومت کی عملی کوششوں کے منتظر ہیں، ہمیں کسی بھی ملک کی جنگ میں فریق بن کر تنازعات میں اضافہ کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔
علامہ احمد اقبال رضوی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سے ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کو فوقیت دی جائے۔خاص طور پر چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کو ترجیح دی جائے اور سرحدی علاقوں میں ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جائے جس سے پڑوسی ممالک کو پاکستان سے شکایت ہو۔ ایران کے سرحدی محافظین کی رہائی میں بھی ہر ممکن تعاون کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان حکومت کو دشمن و منافق ممالک کی چالوں سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جن کو امریکا یا اسکے اتحادی اپنا حریف یا دشمن قرار دیتے ہیں اور تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ یہ ممالک اپنے سامراجی مقاصد کے لئے پاکستان کو قربان کرتے آئے ہیں اور انکے سامراجی مفادات کی وجہ سے پاکستان بدنام ہوا اور ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار بھی ہوا، اس لئے اس مرتبہ پڑوسی ممالک کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے اور ان پڑوسی ممالک چین، ایران و افغانستان سے بہترین تعلقات استوار ہونے چاہئیں اور ان ممالک کے ساتھ نہ صرف دو طرفہ بلکہ چار ملکی مشترکہ علاقائی تعاون بھی ہونا چاہئے۔
علامہ احمد اقبال رضوی نے آلِ سعود کے مجرمانہ جرائم کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر آل سعود اور ان کے مظالم بے نقاب ہوگئے ہیں،وہ کسی کی تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حتیٰ کہ اپنے مخالف فرقے کے اکثریتی صوبوں میں بھی انہوں نے ان پر اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2016ء میں عظیم اسلامی مفکر آیت اللہ الشیخ باقرالنمر کو اس جرم میں قتل کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے خطبہ جمعہ میں آل سعود کے مظالم کیخلاف آواز بلند کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ مظالم ہیں جن پر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ بھی اپنے مفادات کے تحت بیانات بدلتا رہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ نہ ہو تو بقول ٹرمپ واقعی آل سعود دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔
کشمیر کے ۱۷ وہیں یوم سیاہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر میں معصوم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر اقوام عالم کی خاموشی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ ان نام نہاد انسانی حقوق کے عالمی ٹھکیداروں کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کے لئے عالمی قوتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا پرامن اور کشمیر ی عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں نکلتا، تب تک پورے خطے کی سلامتی کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا رہے گا۔ ہندوستانی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر کے ذریعے حق خود ارادیت کی آواز کو دبانا کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بنیادی حقوق کے اس استحصال پر اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
رہنمائوں کا آخر میں کہناتھا کہہم چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فیصل رضا عابدی کو رہا کرنے کا اعلان کریں، جن لوگوں نے عدالت عظمیٰ کو گالیاں تک دیں، وہ آزاد ہیں اور جس نے قانون پر عمل داری کی بات کی، اسیہتھکڑی لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے۔
وحدت نیوز(حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین ضلع حیدرآباد شعبہ خواتین کی جانب سے جیو حسینی جوان پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں خواتین کی کثیر تعداد کی شرکت رہی ۔پروگرام میں کیے جانے والے سیلمنٹس کچھ اس طرح تھے تلاوت قرآن پاک اور تواشیح اربعین کے ۔بچوں کی جانب سے جوانان شہدا ء کربلا کو خراج تحسین اس کے علاوہ خطبہ جناب کبری (س۔ع) لڑکیوں کی جانب سے اور ایک پریڈ سلامی امام زمانہ (عج )کل یوم عاشورہ وکل ارض کربلا کے نام سے امام زمانہ (عج)کے حضور پیش کی گئ۔مختلف لڑکیوں کے گروپس نے نوحہ اور ترانہ پیش کییے اس کے علاوہ مولانا علی رضوی کا نوجوانوں کے لیے خصوصی مسیج اور ان کے ایک سیمنار بعنوان جوان اور معاشرے کی پریزینٹیشن پیش کی گئی ۔جس میں انہوں معاشرے میں جوانوں کی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کا اولین فریضہ معاشرے میں اچھائ رائج کرنے میں اپنا نقش تعلیمات اہلیبیت (ع س) کی روشنی میں خود کو منظم کرنا اور امر بالمعرف و نہی المنکر کرتے رہنا ۔خواہر عظمی تقوی جی ایس ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین نے اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ دلوں میں یاد خدا ضرور رہیں اور یقینا تقوی کل اثاثہ مومن ہے ۔مولا علی (ع)کا قول کے جوان کا دل بہت زرخیز ہیں اس میں جیسا بیج ڈالیں وہ نمو کرے گا تو دلوں کو خدا کا گھر ،یاد خدا سے منور اور تقوی کا مرکز ہونا چاہیے ۔پروگرام کا با قاعدہ اختتام معصوم بچوں کی جانب سے امام زمانہ (عج )کو نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا اور سب نے مل کر دعاء سلامتی امام زمانہ پڑھی ۔بعد از پروگرام مومنات کو تبرک پیش کیا گیا ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کوئی چھوٹا سا کام فرض کر لیجئے، فرض کریں آپ کا شناختی کارڈ گم ہوگیا ہے، آپ رپورٹ درج کرانے تھانے چلے گئے ، ڈیوٹی پر مامور پولیس والا آپ کو ایک لکھی لکھائی درخواست تھما دے گا۔ اس میں خالی جگہ پر آپ نے اپنا نام ، اپنے والد کا نام ، گمشدہ شناختی کارڈ کا نمبر اور گم ہونے کی تاریخ لکھنی ہے۔
اس کے بعد جب آپ واپس درخواست جمع کروانا چاہیں گے تو پولیس والا کہے گا کہ درخواست تو آپ کی جمع ہوجائے گی بس آپ تھوڑا سا تعاون کر دیجئے۔
پاکستان کے سرکاری دفاتر میں ایک معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔بعض دفاتر میں جب سائل رجوع کرتا ہے تو افیسر صاحب اس کا مسئلہ سننے کے بعد اسے کہتے ہیں کہ جی نہیں آپ کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور آپ کا کام نہیں ہو سکتا مثلا فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر آپ کا پاسپورٹ نہیں بن سکتا۔ جب بندہ مایوس ہوجاتا ہے تو پھر اسے کہتے ہیں کہ ساتھ والے کمرے میں جائیں، وہاں فلاں صاحب آپ کو مسئلے کا کوئی حل بتائیں گے۔ جب وہاں جاتے ہیں تو آگے موجود شخص منہ مانگی رشوت وصول کر کے وہ کام کر دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح زائرین کو تفتان روٹ پر لوٹا جاتا ہے، زائرین سے تعاون مانگا جاتا ہے، جو بروقت تعاون کردیتے ہیں ان کے قافلے گزر جاتے ہیں اور جو تعاون کرنے کا مطلب نہیں سمجھتے یا بروقت منہ مانگا تعاون نہیں کرپاتے انہیں سیکورٹی اور این او سی کے نام پر اتنا تنگ کیاجاتا ہے کہ بالآخر ان سے کچھ نہ کچھ نچوڑ کر نکالا جائے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق زائرین کا ایک قافلہ منگل سولہ اکتوبر ۲۰۱۸کو جب سندھ اور بلوچستان کے بارڈر جیکب آبادپہنچا تو پولیس نے روک کر چائے پانی اور کچھ تعاون مانگا۔ ذرائع کے مطابق سالار کاررواں سے پولیس نے بطور رشوت دس ہزار روپے مانگے جو سالار نے مسافروں سے جمع کر کے دینے تھے اس پر مسافروں نے احتجاج کیا۔ اب احتجاج تو پولیس کو ناگوار گزرنا ہی تھا۔
احتجاج پر پولیس طیش میں آئی اور ایس ایچ او نے ایک خاتون پر گاڑی چڑھا دی۔جس سے محترمہ موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اب کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو ۲۰۱۷ میں اسلام آباد ایئرپورٹ میں خواتین پر تشدد کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ہوا تھا، محض کچھ دن اخبار میں سرخیاں لگیں اور بعد ازاں کسی ایک معمولی اہلکار کو ذمہ دار قرار دیکر سارا ملبہ وقتی طور پر اس پر ڈال دیا گیا۔اسی طرح یہاں بھی کچھ نہیں ہوگا ، دودن خبریں چلیں گی ایک آدھ دن کوئی احتجاج وغیرہ ہوگا اور ایک آدھ پولیس والے کو ذمہ دار قرار دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ ہمارے اس رشوت خور کلچر کا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے واجبات، مستحبات اور عبادات کی انجام دہی کے لئے بھی سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔
ہمیں سنجیدگی سے اس رشوت خور کلچر کے خاتمے کے لئے سوچنا چاہیے جو اب عوام کی جانیں لینے کے درپے ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ سمجھدار لوگ سرکاری اہلکاروں کی اس رشوت خوری اور حرام خوری کی وجہ سے تھانے کچہریوں میں جانے سے کتراتے ہیں۔یہ سمجھداری ہے لیکن نصف سمجھداری ہے پوری سمجھداری یہ ہے کہ کترانے کے بجائے اداروں کی اصلاح کے لئے زور لگایا جائے اور رشوت خور مافیا کا مقابلہ کیا جائے۔
اب پاکستان میں یہ دن بھی آنے تھے کہ مقدس مقامات کی زیارت کے لئے جانے والے لوگوں سے بھی راستے میں رشوت مانگی جاتی ہے۔اگر اب بھی ہم بیدار نہ ہوئے تو پھر وہ دن دور نہیں جب رشوت لینے والا مسجد کے دروازے پر بھی کھڑا ہوگا۔
آخر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.