تاریخ کے مجبور کردار

12 November 2019

وحدت نیوز (آرٹیکل) گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، غلطی جس کی بھی تھی، دونوں کے ڈرائیور آپس میں الجھے، ڈرائیور بھی کوئی ان پڑھ نہیں تھے، پڑھے لکھے تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو زدوکوب کیا، لوگوں نے آکر چھڑوایا،  لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اچھل رہے تھے، ایسے واقعات ہم میں سے کون ہے جس نے نہ دیکھے ہونگے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ اگر کو ئی حادثہ ہو جائے تو اس کے بعد فریقِ مخالف کے ساتھ کیسے برتاو کرنا چاہیے!؟

ہم بحیثیت قوم حادثہ ہوجانے کی صورت میں اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ متعلقہ ادارے اس معاملے کو حل کریں، حادثے صرف سڑکوں پر نہیں ہوتے، بلکہ گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں  میں بھی ہوجاتے ہیں، اتفاق سے وہ حادثے جو ہمارے گھروں، ، تنظیموں اور پارٹیوں  میں ہوتے ہیں وہ ٹریفک حادثات سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتے ہیں، اگر گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں کے لوگ غیر متوقع  واقعات اور حادثات سے نمٹنا نہ جانتے ہوں  تو  بعض اوقات کسی کی ایک غلطی سے گھر، تنظیم یا پارٹی کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔

اسی طرح دی کی دنیا میں بھی حادثات رونما ہوتے ہیں، بعض اوقات ایک اچھا خاصا معتبر انسان  بھی دین کے اساسی اور بنیادی عقائد کے بارے میں ایسی بات کرجاتا ہے کہ جس سے عوام النّاس گمراہ ہو جاتے ہیں۔ گمراہی کو معاشرہ نہیں روک سکتا، چونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ہمیں گاڑی کی ٹکر کے بعد جو کرنا چاہیے وہ بھی نہیں سکھا سکا وہ ہمیں عقائد کیا سکھا ئے گا۔

لوگوں کو گمراہی سے بچانا اور انہیں درست عقائد سمجھانا یہ  معاشرے کا نہیں بلکہ خواص یعنی متخصصین کا کام ہے۔ ایک آدمی جس نے علمِ کلام اور عقائد کو تخصص کے ساتھ حاصل نہیں کیا تو یہ واضح ہے کہ وہ عقیدے کی دنیا میں ایک غیر ماہر شخص ہےاور غیر ماہر ہونے کے لحاظ سے ایک نومولود اور ستر سال کے آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔دونوں غیرماہر ہونے کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں، بلکہ عقائد کے سلسلے میں بالکل کورے جاہل کی نسبت ایک نیم حکیم زیادہ مضر اور مہلک ہوتا ہے۔

جب ہم عقیدے کی منبر پر کسی غیر متخصص اور غیر ماہر کو بٹھا دیں گے تو وہ اپنی عدم مہارت کے باعث اپنی محبوب شخصیات کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا کہ غلو، شرک اور کفر کا مرتکب ہوگا اور اپنی ناپسندیدہ شخصیات کے بارے میں ایسی گالی گلوچ اور لعن طعن سے کام لے گا کہ دین کے ساسی حکم وحدتِ اسلامی کو ہی پامال کر دے گا۔

ایسا شخص چونکہ مطلوبہ علم میں مہارت نہیں رکھتا ، اس لئے وہ غلو اورشرک کی حدوں کو نہیں پہچانتا اور اسی وجہ سے وہ اکتلافاتی ابحاث میں بھی کسی حدومرز کی شناخت اور منطقی و کلامی استدلال سے عاری ہوتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب علوم اس حد تک زیادہ ہو چکے ہیں کہ کسی بھی علم میں متخصص کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔اس دور میں قرآن مجید کی یہ آیہ مجیدہ ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ ہمیں جھنجوڑ رہی ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔[1]

البتہ یہ ایک عقلی مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں  ایک باشعور اور عقلمند انسان اپنے دل  کے آپریشن کیلئے کسی ان پڑھ یا نیم حکیم کے پاس نہیں جاتا چونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی زندگی ختم ہو جائے گی۔جسمانی زندگی کے حوالے سے ہمارا معاشرہ اتنا بالغ ہوچکا ہے کہ وہ کسی غیر متخصص یا نیم حکیم سے علاج کروانے کو قبیح سمجھتا ہے۔لیکن  ابھی تک ہمارا معاشرہ  اس بات کو نہیں سمجھا کہ  ایک مسلمان کیلئے  جسم کی زندگی کی طرح اس کے عقیدے کی زندگی بھی ضروری ہے۔

جس طرح انسان کے دل کے ساتھ اگر کوئی نالائق آدمی چھیڑ چھاڑ کرے تو اس سے بدن کی موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مسلمان کے عقیدے کے ساتھ کوئی ان پڑھ چھیڑخانی کرے تو  اس سے عقیدے کی موت واقع ہو جاتی ہے جس سے انسان مشرک اور کافر ہوجاتا ہے۔

آج اسلامی معاشرے میں کو غلو، کفر، شرک ،مقصریت اور ناصبیت کا سکہ چل رہا ہے ، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ منبر پر ان پڑھ اور نیم حکیم حضرات کا غلبہ ہے، اور یہ  ایک حقیقت ہے کہ اہلِ زر اپنی ہوا و ہوس کی تسکین کیلئے جید اور ماہر علمائے کرام کو نہیں خرید سکتے بلکہ وہ غیرمتخصص اور نیم حکیم  افراد کو خرید لیتے ہیں۔ اورجب بِکے ہوئے، نیم حکیم منبر پر بیٹھتے ہیں تو وہ غلو اور شرک کوغلط سمجھتے ہوئے بھی اس کا ظاہری طور پر دفاع کرتے ہیں چونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔

یہی تو تاریخ کے وہ مجبور کردار ہیں، جن کے بارے میں امیرالمومنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے (زبردستى ) اپنا نام عالم ركھ ليا ہے حالانكہ وہ عالم نہيں ہے، اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہيوں كو بٹور ليا ہے ،اس نے لوگوں كے لئے مكر و فريب كے پھندے اور غلط سلط باتوں كے جال بچھا ركھے ہيں، قرآن كو اپنى رائے  اورحق كو اپنى خواہشوں کے مطابق بیان کرتا ہے ۔

یہ بڑے سے بڑے جرائم كا خوف لوگوں كے دلوں سے نكال ديتا ہے اور كبيرہ گناہوں كى اہميت كو كم كرتا ہے ۔كہتا تو يہ ہے كہ ميں شبہات ميں توقف كرتا  ہوں حالانكہ انہيں ميں پڑا ہوا ہے۔

اس كا کہنايہ ہے كہ ميں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں حالانكہ انہى ميں اس كا اٹھنا بيٹھنا ہے ۔صورت تو اس كى انسانوں كى سى ہے اور دل حيوانوں كا سا ۔نہ اسے ہدايت كا دروازہ معلوم ہے كہ وہاں تک آسكے اور نہ گمراہى كا دروازہ پہچانتا ہے كہ اس سے اپنا رخ موڑ سكے۔يہ تو زندوں ميں (چلتى پھرتى ) لاش ہے۔[2]

 
تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.


 

[1] هَلْ یسْتَوی الذینَ یعْلَمُونَ والذینَ لَا یعْلَمُونَ۔زمر ۹

[2] نهج البلاغه ، خطبه نمبر ۸۵ ، ص:



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree