وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو نظریے سے عمل کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ان کا کہنا ہے کہ کسی کے نظریے سے اس کے عمل کا پتہ چلتا ہے اور دوسرے وہ ہیں کہ جن کا کہنا ہے کہ کردار سے کسی کے نظریے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے ۔
ہم فیصلہ تاریخ سے کرواتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نظریے سے عمل کا نہیں بلکہ عمل سے نظریے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے فرعون کوہی لے لیجیے فرعون کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ منکر خدا تھا اس نے حضرت موسی ٰ ؑ کے مقابلے میں آکر توحید کو جھٹلانے کی کوشش کی تھی اور اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اپنی جھوٹی خدائی کو باقی رکھنے کےلیے بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کا قتل عام کرتا تھا اسی طرح نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال کر خدا سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ میری بحث فرعون یا نمرود کے عقیدے و نظرے پر نہیں ہے ان کے عقیدے تو واضح تھے بلکہ یہ تو خود ہی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے تھے اپنے آپ کو خدا کہلواتے تھے اور اپنی خدائی کو باقی رکھنے کےلیے لوگوں کا قتل عام کیا کرتے تھے ہم نے ان کو بطور نمونہ اور اپنی بات کے ثبوت کے لیے کہ عمل سے عقیدے کا پتہ چلتا ہے پیش کیا ہے ۔
میں بات ان کے عقیدے و نظریئے پر کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ظاہرا اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے جیسے یزید !
تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یزید نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں اسلام کو اتنا نقصان پہنچایا کہ جس کا ازالہ قیامت تک نہیں کیا جاسکتا ،اس کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی واقعہ کربلا رونما ہوا، اس نے کربلا کے میدان میں جو ظلم خاندان پیغمبر ؑ پر کیا اس سے انسانیت کانپ اٹھتی ہے،اس نے محسن انسانیت امام حسین ؑ کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا،یزید اپنے آپ کو خلیفہ رسولﷺ سمجھتا تھا اور نواسہ رسولﷺ کو اس خلافت کا باغی کہتا تھا اسی بات کو لے کر یزید نے اپنے بنائے ہوئے نام نہاد مفتیوں سے امام حسینؑ کے قتل کا فتوی جاری کروایا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی کا بک جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ رسم تو یزید سے چلی آ رہی ہے ،یزید کے مظالم یہاں تک نہ رکے بلکہ مکے و مدینے کی سرحدوں کو بھی پار کر گے اس نے مکے پر دھاوا بول کر خانہ خدا کو آگ لگا کر حجاج کرام کو قتل کیا،پھر مکے سے نکل کر اس نے مدینے پر حملہ کر کے دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے اور تین دن تک مسجد نبوی نیں اذان اور نماز نہ ہو سکی اور اپنے فوجوں پر مدینے میں رہنے والے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال قرار دیا اور کافی تعداد میں ناجائز بچے پیدا ہوئے۔[1]
ان سارے مظالم پر اس وقت بھی چند لوگوں کے سواء ساری امت مسلمہ خاموش رہی اور یزید کے ان تمام مظالم کو اسلام کا رنگ دیتی رہی ۔ یہ تھی یزید کے عمل کی اس کے نظریے و عقیدے پر دلالت ۔
اب بات تھوڑی سی آل سعود کے عقیدے و نظریے پر ہو جائے کہ ان کے عقیدے و نظریے کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں، آل سعود نے اقتدار میں آتے ہی کردار یزیدی کو دہرانا شروع کر دیا ،جس طرح یزید نے مدینے پر حملہ کیاا تھا اسی طرح اآل سعود کے پہلے خلیفہ محمد بن سعود نے مدینے پر حملہ کر کے مزارات اہلبیتؑ و اصحاب پیغمبرﷺ کو گرایا اور روزہ رسول کی بے حرمتی کی[2] ۔
جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کو شہید کیا تھا اسی طرح آلِ سعودنے کربلا پہ حملہ کر کے امام حسین ؑ کے مزار کو گراکر یزید کی سنت پر عمل کیا، یزید نے کعبے پر حملہ کر کے خانہ خدا کو جلایا تھا اور بہت سارے حجاج کو قتل کیا تھا،آلِ سعود نے یزید کی اس سنت کو اسی سال منیٰ کے میدان میں پورا کیا،یزید نے کعبےکو جلایا تھا آلِ سعود نے حجاج کرام کی لاشوں کو سورج کی تپش سے جھلسا کر یزید کی سنّت ادادکی۔
یزید نے ذوالحجہ میں مدینے پر حملہ کیا تھا اور تقریباً چار ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے ،اس سال سانحہ منیٰ بھی ذوالحجہ میں پیش آیا ہے اوراس میں بھی تقریباً چار ہزار سے زائد حجاج کرام بڑی بے دردی سے مارے گئے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ یزید کا کارنامہ تھا اوریہ اآل یزید کا کار نامہ ہے۔
جس طرح سے یزید نے اپنے پالتو مفتیوں سے امام حسین کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا تھا اسی طرح آلِ سعود نے بھی اپنے زر خرید مفتیوں کے ذریعے سے حجاج کرام کے قتل کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرایا ہے۔
یزید بھی حرام مہینوں میں مسلمانوں کو قتل کرتا تھا آلِ سعود نے بھی حرام مہینوں میں یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ، یزید اپنے آپ کو امیر المومنین کہتا تھا آلِ سعود اپنے آپ کو خادمین حرمین کہتے ہیں۔
جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اسی طرح یہ آل سعود آج یمن میں بچوں کا قتل عام کررہے ہیں ، نہتے یمنیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح امت مسلمہ یزید کے ظلم پر خاموش تھی اسی طرح آج ال سعود کے مظالم پر بھی خاموش ہے۔ ماضی میں جس طرح یزید کی عیاشیوں، بدکاریوں اور مظالم کو چھپایاجاتاتھا اسی طرح آج آلِ سعودکی عیاشیوں،بدکاریوں اور مظالم کو چھپایاجارہاہے۔
لیکن ہمارے میڈیا،حکمرانوں،نام نہاد مفتیوں اور زرخرید دین کے ٹھیکیداروں کو تاریخ سے یہ عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتاہے۔حکومت اور دولت کی طاقت سے جب یزید اپنے آپ کو زیادہ عرسے تک امیرالمومنین نہیں کہلوا سکا تو آلِ سعود خادم الحرمین شریفین ہونے کا ڈھونگ کب تک رچائے رکھیں گے۔یزید کی طرح آلِ سعود کا ہر عمل ان کے باطل ہونے پر کھلاگواہ ہے۔
تحریر۔ سجاد احمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1] :خلافت و ملوکیت ص 182،تاریخ طبری ج4ص472،ابن الشر ج3 ص310
[2] از تاریخ نجد و حجاز