وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ ایک عظیم شہید ہیں جن کی یاد پاکستان کی سرزمین پرہمیشہ زندہ و تابندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انکو اس دار فانی سے عالم ملکوت کی طرف سفر کو 11 برس بیت چکے لیکن انکی خدمات صدقات جاریہ کی صورت میں انہیں اس عالم خاک میں بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
ظالموں کے خلاف مظلوموں کی مدد
آغا صاحب پیشے کے لحاظ سے بینکار تھے۔ لیکن پاکستانی معاشرے اور خاص طور پر نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے نظریاتی پاکستانیوں کے لیے انکا وجود ایک الٰہی نعمت سے کسی طور کم نہ تھا۔ وہ اللہ کے ایک خالص اور مخلص بندے تھے۔ مولا امیر المومنین امام المتقین خلیفۃ المسلمین حضرت علی ؑ کے ایسے شیعہ تھے جنہوں نے ظالموں کے خلاف مظلوموں کی مدد میں کبھی بھی سستی و کوتاہی نہ کی۔
آغا آفتاب حیدر جعفریؒ نے کلمہ حق بلند کیا
مظلوم خواہ پاکستانی ہوں یا فلسطینی و کشمیری، علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ نے انکی حمایت میں کلمہ حق بلند کیا۔ وہ میدان عمل کے راہی تھے۔ انکے قول و فعل میں تضاد نہ تھا۔ جوش خطابت میں بھی وہ منبر کے تقدس کو ملحوظ رکھا کرتے تھے۔
پاکستان کی سرزمین پر جب زایونسٹ لابی کے آلہ کاروں نے فلسطین کے ایشو پر بانیان پاکستان کی پالیسی کے خلاف ماحول سازی کی کوشش کی تو سرزمین پاکستان کے غیرت مند بیٹوں نے فلسطین فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا۔ گوکہ علامہ آفتاب حیدر جعفری تنظیمی وابستگیوں سے بالاتر شخصیت رہے لیکن فلسطین فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے انہوں نے مقبوضہ بیت المقدس سمیت پورے فلسطین کی آزادی کی حمایت کی مہم میں کلیدی کردار اداکیا۔
علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ ایک عظیم شہید
وہ زایونسٹ غاصب اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔ جب 6نومبر 2012ع کی صبح کراچی میں انہیں شہید کردیا گیا اس وقت انکے دوست شاہد علی مرزا بھی انکے ہمراہ تھے۔ آغا آفتاب حیدر جعفری دفتر جارہے تھے۔
سرزمین پاکستان پر آزادی قدس کی جدوجہد
جوں ہی انکی شہادت کی خبر پھیلی تو سب سے پہلے ذہن میں ان سے متعلق جو تاثر ابھرا وہ یہی تھا کہ انہیں سرزمین پاکستان پر آزادی قدس کی جدوجہد کرنے کی سزا دی گئی۔ اگر انہیں شہید راہ قدس در پاکستان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
جعفریہ الائنس، مجلس وحدت مسلمین یا ماتمی انجمنوں سے کوئی بھی انکی خدمات حاصل کرنا چاہتا، انکا در ہر ایک کے لیے کھلا تھا۔ وہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی اجتماعات میں پیش پیش رہتے تھے۔ جولائی 2012ع ہی میں مینار پاکستان لاہور پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی اجتماع میں وہ شریک تھے۔
سخت گرم موسم میں مینار پاکستان میدان میں عام لوگوں کے درمیان
اس دن لاہور کا درجہ حرارت ایسا تھا کہ انسان گھر کے اندر بھی موسم کی حدت و تپش سے بچ نہیں سکتا تھا۔ لیکن دن بھر علامہ آفتاب حیدر جعفری نے اس سخت گرم موسم میں مینار پاکستان کے میدان میں عام لوگوں کے درمیان رہنے کو ترجیح دی۔
لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ کے دوران بھی میدان نہ چھوڑا
اس فانی دنیا کی زندگی میں انہوں نے سنگینوں کے سائے میں، لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ کے دوران بھی میدان نہ چھوڑا۔ اور انکی یہی استقامت بعد از شہادت بھی انہیں پاکستانی معاشرے اور خاص طور پر کراچی کے مخلص نظریاتی لوگوں کے درمیان ایک بے مثال اور لازوال ہیرو بناکر زندہ رکھے ہوئے ہے۔ (ویسے بھی شہید زندہ ہی ہوتے ہیں۔)
ایک اور عظیم شہید سید سبط جعفرز یدی کے قریبی دوست
وہ ایک اور عظیم شہید سید سبط جعفرز یدی کے قریبی دوست تھے۔ گوکہ دونوں کا شعبہ الگ تھا، سبط جعفر کا شعبہ تعلیم تھا اور علامہ آفتاب حیدر جعفری بینکار تھے۔ لیکن دونوں ہی تعلیم کے شعبے میں مزید خدمات انجام دینے کی طرف متوجہ تھے۔
سماجی شعبوں میں بہتری کے لیے کوشاں
دونوں ہی متفق تھے اور مشترکہ طور پر سماجی شعبوں میں بہتری کے لیے کوشاں تھے۔ آخری ایام میں انہوں نے نجی محافل میں اسی موضوع پر گفتگو کی۔ اپنے قریبی دوستوں اورحامیوں کو تاکید کی کہ جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت تعلیم کے شعبے میں مزید بہتری کو یقینی بنائیں۔
علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ ایک ملنسار انسان
علامہ آغا آفتاب حیدر جعفری ایک ملنسار انسان تھے۔ ایک عام انسان جیسی زندگی جسے عرف عام میں سادہ زیستی کہا جاتاہے، ایسی زندگی گذارا کرتے تھے۔ یقینا دشمن ایسی ہی مظلوم انسانیت دوست ہستیوں کے بابرکت اور فائدہ مند وجود سے ڈرتا ہے۔
یہی وجہ بنی کہ دشمن نے علامہ آغا آفتاب حیدر جعفری کو شہید کردیا حالانکہ شہادت کے وقت انکی عمر فقط بیالیس برس تھی۔
شہید راہ قدس شہید مظلوم
انکی خدمات سے آگاہ افراد انہیں شہید راہ قدس کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ کوئی انہیں شہید مظلوم کہتا ہے۔ البتہ یہ بات قطعی ہے کہ وہ راہ حق کے ایک بے مثال و لازوال شہید ہیں۔ پاکستان میں شمع حسینی کے پروانے شہداء میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ پاکستان اورخاص طو رپر کراچی کی سرزمین پر حسینیت ایسے ہی شہداء کے خون سے سرخ رو ہے۔
علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ جیسے عظیم شہید کی یاد
ایسے عظیم شہداء کی یاد منانا خود شہادت سے کمتر نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حسینی جوان اپنے ان ہیرو کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ انکی یاد سے ہمارا معاشرہ خود ایک حیات نو پاتا ہے۔ ہر سال چھ نومبر کو انکی قبر پر اور اپنے علاقوں میں انکی یاد منانے والوں کو جمع ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسے شہداء کی یاد بھی شہدائے کربلا کی یاد کو معاشرے میں زندہ کرتی ہے۔
(التماس سورہ فاتحہ برائے بلندی درجات شہدائے کرام بالخصوص شہید علامہ آغا آفتاب حیدر جعفریؒ)
تحریر: غلام حسین