فقہ جعفری ہی فقہ قرآنی ہے | محقق عادل مہدوی

30 جون 2023

وحدت نیوز(آرٹیکل) موضوع کی اہمیت دنیائے اسلام میں فقہ جعفری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس فقہ نے نسل در نسل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔ آج بھی دنیا کے تمام ممالک میں خصوصاً اسلامی ممالک میں اس فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے متعدد انقلابات، ایجادات، اختراعات اور علم و ہنر میں جعفری حضرات کا اپنی آبادی کے تناسب سے ایک قابلِ رشک کردار ہے۔ خصوصاً دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور کی حامل ریاست یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے جعفری ہونے اور ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے اس فقہ کو سمجھنے اور اس کے بارے میں درست انداز میں جاننے کی اہمیت و ضرورت کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک وسیع موضوع ہے، اس لئے ہم نے اپنی تحقیق میں منصفانہ انداز میں فقط یہ جائزہ لینا ہے کہ یہ فقہ شیعہ مجتہدین کی ذاتی آراء و نظریات پر مبنی ہے اور یا پھر اس کی بنیاد قرآن مجید پر استوار ہے۔ اس موضوع پر قلم فرسائی سے پہلے ہم نے ایک مشہور مغالطے کو قارئین کے اذہان سے نکالنا ہے، تاکہ وہ اپنے ذہنوں میں ہماری بات کو مناسب جگہ دے سکیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی جگہ پر اگر پہلے سے کچرہ اور کوڑا کرکٹ پڑا ہو تو آپ اُسے ہٹائے بغیر وہاں ایک شاندار عمارت تعمیر نہیں کرسکتے۔ لہذا آئیے سب سے پہلے اس مشہور مغالطے سے اپنے ذہنوں کو صاف کرتے ہیں۔

فقہ جعفری کی ابتدا
بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ فقہ جعفری کا آغاز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے سے ہوا ہے۔ وہ فقہ جعفری کی وجہِ تسمیہ نہیں جانتے۔ ایسے لوگ کوئی ایک دو نہیں کثرت میں ہیں۔ صرف عام عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی اس مغالطے کا شکار ہیں۔ لہذا سب سے پہلے تو انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ فقہ جعفری اس نام سے شہرت کیوں ملی! جو اس شہرت کی وجہ نہیں جانتے، وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ فقہ جعفری والے شیعہ ہوتے ہیں۔ پس سب سے پہلے شیعہ اور فقہ جعفری کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمیں یہ تعلق سمجھ میں آجائے گا تو پھر ہمیں فقہ جعفری کی ابتدا خود بخود سمجھ میں آجائے گی۔

تشیع اور فقہ جعفری کا تعلق
نبی اکرم ؐ کے زمانے میں ہی شیعان علی ؑ نمایاں تھے۔ ایسی بہت ساری روایات موجود ہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضور اکرم ؐ اپنی زندگی میں ہی حضرت امام علیؑ اور ان کے شیعوں کو خاص قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ ایسے لوگ تھے، جو حیاتِ پیغمبرؐ میں ہی حضرت امام علیؑ کے زیرِ تربیت تھے اور حضرت امام علی ؑ کے شاگرد، پیروکار اور شیعہ مشہور تھے۔ مثال کے طور پر یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے: "جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور اسی وقت حضرت علی ؑداخل ہوئے۔ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر (ع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے دن نجات پائیں گے۔” (الخوارزمي في مناقبه ص 66 عن جابر) ایسی متعدد احادیث یہ بتاتی ہیں کہ تشیُّع کی بنیاد خود نبی ؐ کے زمانے میں حضرت امام علیؑ کے ہاتھوں پڑی۔

یہی شیعیت تھی اور یہی شیعہ تھے، جو بعدازاں بھی شیعانِ علی ؑ کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت امام علی ؑ کے بعد ان کے شیعہ حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسین ؑ کے گرد جمع ہوگئے اور ان کے بعد حضرت امام زین العابدینؑ اور ان کے بعد حضرت امام محمد باقرؑ کی دہلیز پر کھڑے رہے۔ جب حضرت امام جعفر صادق ؑ کا زمانہ آیا تو وہی شیعہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کے ہاں موجود تھے۔ شیعہ اس سے پہلے بھی قرآن مجید کی فقہی آیات کے مطابق عمل کرتے تھے اور چھٹے امام کے دور میں بھی وہی قرآن تھا، وہی شیعہ تھے اور وہی احکام تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ایک طرف اموی حکومت بغاوتوں کی زد میں تھی اور دوسری طرف عباسی حکومت کا سورج طلوع ہونے کے نزدیک تھا۔ اموی حکومت کے اختتام اور عباسی حکومت کی ابتدا کے درمیانی وقفے میں حضرت جعفر امام صادق علیہ السلام کو تبلیغِ دین کا سنہرا موقع ملا۔ آپ  نے اپنی مُدّتِ امامت میں مجموعاً تقریباً چار ہزار شاگردوں کی تربیت کی، جو کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی ممکن نہیں ہوا۔

حتّی کہ اہل سُنّت کے بڑے بڑے امام بھی جیسے حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، ابن جریر اور سفیان ثوری جیسی شخصیات نے بھی حضرت امام جعفر صادقؑ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ یہ چار ہزار شاگرد مختلف نقاط سے علم حاصل کرنے آتے تھے اور تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ امام جعفر صادق ؑ کے محضر میں حصول دین اور تبلیغ دین کا یہ سلسلہ اتنا منظم، فعال اور موثر تھا کہ خود بخود شیعانِ علی کو شیعانِ جعفری کہا جانے لگا۔ امام جعفر صادقؑ بھی اُسی کتابِ خدا کے مبلغ، مفسّر اور عالم تھے، جس کے گذشتہ آئمہ معصومین تھے۔ لہذا سب سے پہلے یہ واضح ہو جانا چاہیئے کہ شیعانِ علیؑ زمانہ پیغمبر میں موجود تھے۔ یہ ہر زمانے میں قرآنی احکام پر ہی عمل کرتے رہے اور حضرت امام جعفر صادق ؑ کے زمانے میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ انہیں جعفری کہا جانے لگا۔ وہ حسبِ سابق قرآن مجید کی فقہی آیات پر ہی عمل کرتے تھے، لیکن چونکہ حضرت امام جعفر صادق کے زمانے میں اہل تشیع نے کثرت سے تبلیغِ دین کی تو اس لئے شیعہ حضرات جعفری کے نام سے  اور ان کے قرآنی فقہی آیات پر عمل کرنے کا عمل فقہ جعفری کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اب یہاں پر فقہ جعفری میں مجتہدین کی ذاتی رائے کی اہمیت کے بارے میں بھی بیان کرنا ضروری ہے، تاکہ قارئین کو پتہ چلے کہ وہ مجتہدین کی رائے پر عمل کرتے ہیں یا قرآن مجید و سُنّت کے حکم پر!؟

فقہ جعفری میں مجتہدین کی ذاتی رائے کا مقام
ظاہر ہے کہ جب لوگ نہیں جانتے تو وہ ذاتی قیاس آرائیوں پر کچھ مفروضات قائم کر لیتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ لوگ اپنے مفروضات کی جانچ پرکھ نہیں کرتے بلکہ انہی مفروضات کی بنا پر اپنی ایک مستقل رائے بھی قائم کر لیتے ہیں۔ ان غلط آراء میں سے ایک رائے یہ ہے کہ فقہ جعفری کا منبع شیعہ مجتہدین کی ذاتی معلومات اور آراء ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں اور یا پھر اصلاً جانتے ہی نہیں کہ فقہ جعفری میں اور دیگر فقہی مذاہب میں فرق ہی یہی ہے کہ فقہ جعفری میں مجتہد کی ذاتی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مجتہد کی فقط وہ رائے قابلِ تقلید ہے، جو قرآن اور حدیث سے اخذ کی گئی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدرِ اسلام سے ہی شیعان علی کا وجود اور قرآن مجید پر مسلسل عمل کرنا یہ دیگر فقہی مسالک کے مقابل فقہ جعفری کا طُرّہ امتیاز ہے۔ فقہ جعفری میں مجتہد کی ذاتی رائے ایک فقہی حکم کے طور پر بیان نہیں کی جا سکتی۔ جو احباب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جعفری حضرات قرآن مجید کے بجائے مجتہدین کی توضیح المسائل پر عمل کرتے ہیں، ان کیلئے اب واضح ہونا چاہیئے کہ مجتہد توضیح المسائل میں اپنی رائے نہیں لکھتے بلکہ قرآن مجید سے حکم استخراج کرکے لکھتے ہیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ فقہ جعفری میں حدیث کی کیا قدر و منزلت ہے۔

 

فقہ جعفری میں حدیث کی حجیّت اور قرآن
فقہ جعفری میں حدیث کے صحیح ہونے کی کسوٹی قرآن مجید ہے۔ اگر ایک واجدالشرائط اور قرآن مجید کی میزان پر کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو پھر تائید قرآنی کی وجہ سے حدیث کا بھی وہی حکم ہو جاتا ہے، جو قرآن مجید کی آیت کا ہے۔ اگر قرآن مجید پر پرکھنے سے ایک حدیث صحیح نکلے تو جس طرح استنباط حکم شرعی میں کسی آیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اُسی طرح ایسی صحیح حدیث کو بھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سند درست ہو لیکن حدیث کا متن قرآن کے خلاف ہو تو ایسی حدیث فقہ جعفری میں قابلِ قبول نہیں۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ فقہ جعفری کی اساس اور بنیاد قرآن مجید ہے۔ چنانچہ جعفری فقہاء کرام نے قرآن کریم کی فقط  فقہی آیات مجیدہ کی تفسیر اور ان کے اندر موجود فقهي نکات کی مکمل توضیح و تشریح پر گرانقدر کتابیں لکھی ہیں۔ یہ کتابیں ثبوت ہیں کہ بنیادی طور پر فقہ جعفری کا سارا دارومدار ہی قرآن مجید پر ہے۔ ہم اس پر مزید گفتگو سے پہلے صاحبانِ علم کی جانکاری کیلئے کچھ بنیادی نکات بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

بنیادی نکات
?️پہلا نکتہ: آیات الاحکام
قرآن کریم کی جن آیات مجیدہ کے اندر فقہی احکام بیان ہوئے ہیں یا ان سے فقہی احکام کا استنباط ممکن ہے، انھیں فقہاء عظام کی اصطلاح میں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے متعدد جعفری فقہاء نے ایسی آیات مجیدہ کے متعلق کتابیں لکھی ہیں۔ جتنی بھی کتابیں ان آیات کے بارے میں ہیں، اُن میں سے اکثر کا نام آیات الاحکام ہی رکھا ہے۔ جنہوں نے آیات الاحکام نام نہیں رکھا، انہوں نے ان آیات مجیدہ کے متعلق لکھی جانے والی اپنی کتابوں کا نام فقہ القرآن یا احکام القرآن رکھا ہے۔

✒️دوسرا نکتہ: قرآن مجید  کا تقدّم
شیعہ فقہ کا سب سے پہلا اور بنیادی منبع قرآن کریم ہے۔ حتی سیرت معصومین علیھم السلام پر بھی مقدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث ثقلین جیسی نصوص میں بھی قرآن کریم کا ذکر، عترت طاہرہ سے پہلے آیا ہے اور ہمارے فقہاء عظام کی فقہی، اصولی اور رجالی کتابوں کے اندر بھی جب بھی ادلہ احکام بیان کی جاتی ہیں تو سب سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب کسی فقہی مسئلہ کی بررسی کی جاتی ہے تو اگر اس مسئلہ کے متعلق قرآن کریم کے اندر کوئی آیت مجیدہ موجود ہو، چاہے اس کے اندر معمولی سا اشارہ بھی پایا جاتا ہو تو سب سے پہلے اس آیت مجیدہ کو بیان کیا جاتا ہے اور مورد بحث مسئلہ پر اس کی دلالت کی تبیین کی جاتی ہے۔ واضح بات ہے کہ شیعہ فقہاء عظام کے نزدیک قرآن کریم سے پختہ تر اور عظیم تر کوئی دلیل نہیں اور باقی ادلہ اپنی دلالت میں قرآن کریم کی تائید کی محتاج ہیں۔ حتّیٰ کہ سنت معصوم علیہ السلام کے متعلق واضح حکم موجود ہے کہ اگر موافق قرآن کریم نہ ہو، مخالف ہو تو اسے قبول نہ کرو۔

✏️تیسرا نکتہ: فہمِ قرآن کیلئے سیرت معصومینؑ، عقل اور اجماع سے مدد
واضح رہے کہ "حسبنا کتاب اللہ” کہنے میں اور فہم قرآن کیلئے سیرت معصومینؑ، عقل اور اجماع سے مدد لینے میں فرق ہے۔ شیعہ فقہاء عظام کے ہاں معصومینؑ قرآن مجید کے مفسّر ہونے کے ناتے بھی قرآن کریم کی طرح ہی معصوم ہیں اور جیسے قرآن کریم کی آیات، حجت الہیٰ ہیں، ایسے ہی چہاردہ معصومین علیھم السلام کے فرامین بھی ان کے نزدیک حجت الہیٰ ہیں اور دونوں ملکر حجت ظاہری شمار ہوتے ہیں۔ ان دو کے علاوہ عقل بھی حجت باطنی کے طور پر مسلم دلیل ہے۔ اسی طرح اجماع بھی چوتھی دلیل کے طور پر جب کاشف قرآن یا سیرت معصوم ہو تو مورد قبول ہے اور ان تینوں کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہے۔

?️چوتھا نکتہ: فقہی آیات کی حد بندی
مشہور و معروف قول کے مطابق قرآن کریم کی 6 ہزار سے زائد آیات مجیدہ میں سے صرف 5 سو آیات مجیدہ احکام فقہی کے متعلق ہیں اور اگر تکراری آیات کو شمار نہ کریں تو اور بھی کم ہو جاتی ہیں۔ باقی ساڑھے پانچ ہزار سے زائد آیات مجیدہ توحید، نفی شرک، نبوت، قصص انبیاء، سرگزشت اقوام، ولایت، خلافت، احکام اخلاقی، قیامت اور اس طرح کی دیگر الہیٰ و رحمانی تعلیمات سے متعلق ہیں اور فقہی احکام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا شیعہ فقہاء عظام ان آیات سے کسی فقہی حکم کا استنباط نہیں کرسکتے۔

?️پانچواں نکتہ: قرآن میں احکام کُلی کا بیان ہونا
فقہی احکام سے متعلق آیات مجیدہ کے اندر بھی اکثر و بیشتر موارد میں کلی احکام بیان ہوئے ہیں۔ جزئی و فرعی احکام بہت ہی کم بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً نماز جو دیگر تمام واجبات پر مقدم ہے اور قرآن کریم میں بار بار "اقیموا الصلوة” کہہ کر اس کی تاکید کی گئی ہے۔ کسی بھی آیت کے اندر اس کی تعداد، مختلف نمازوں کے نام، رکعات، طریقہ، شرائط نماز، اذکار نماز، تعقیبات نماز، شکیات نماز، نماز، ارکان نماز اور پھر ان کے فرعی احکام کسی چیز کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔

?️چھٹا نکتہ: فقہی آیات کے متعلق کتب کا ایک جائزہ
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید شھاب الدین نجفی مرعشی صاحب کی تحقیق کے مطابق ان کے زمانے تک قرآن کریم کی ان فقہی آیات کے متعلق کل 57 کتابیں لکھی جا چکی تھیں۔ جن میں سے 29 شیعہ فقہاء کی اور 28 باقی چاروں سنی فقھوں کے پیروکاروں اور زیدی فقہاء کی تھیں۔ (ر .ك _نھج الرشاد فی ترجمة الفاضل الجواد،ص١٣٧) ان 28 کتابوں کو ان 5 فقھوں کے فقہاء پر تقسیم کریں تو ہر فقہ کے  فقہاء کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ 6 کتابیں آتیں، جبکہ شیعہ فقہاء عظام کے حصہ میں 29 اور انقلاب اسلامی کے بعد تو ما شاء اللہ جہاں قرآنی فعالیتوں میں دیگر حوالوں سے بہت زیادہ پیشرفت ہوئی ہے، فقہی پہلو سے بھی بہت زیادہ کام ہوا ہے اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔

?ساتواں نکتہ: شیعہ فقہا کا قرآن مجید سے تمسّک
شیعہ فقہاء کے استنباط احکام کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کا مشاہدہ کرنے کیلئے المبسوط شیخ طوسی، مدارک الاحکام سید محمد عاملی، مفاتیح الشرایع ملا فیض کاشانی، کشف الغطاء شیخ کاشف الغطاء، ریاض المسائل سید طباطبائی، مفتاح الکرامة سيد جواد عاملي، مستند الشيعة ملا احمد نراقي، جواهر الكلام شيخ حسن نجفي، مستمسك سيد محسن حكيم اور موسوعة الامام الخوئی جیسی  فقہی استدلالی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیئے، جن کے اندر استدلال ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح شیعہ فقہاء کرام کی عمومی تفاسیر خصوصاً تفسیر التبیان، مجمع البیان اور المیزان فی تفسیر القرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیئے، جن کے اندر ان فقہاء عظام نے فقہی آیات کی کما حقہ تفسیر کی ہے۔

?آٹھواں نکتہ: کتب احادیث فقہی کے مولف فقہاء عظام کا اصلی ہدف فقہ اہلبیت کی تبیین کرنے والی احادیث شریفہ کو مکتوب و مرتب کرکے فقہ شیعہ کو محفوظ بنانا تھا، چونکہ فقہ شیعہ کا پہلا منبع قرآن کریم تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے ہی محفوظ تھا۔ احادیث فقہی معصومین علیھم السلام کو دوسرا لیکن جامع ترین منبع ہونے کے اعتبار سے غیبت صغریٰ اور پھر غیبت کبریٰ کی ابتدا میں ان کتب کے اندر محفوظ کیا گیا۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان کتب احادیث فقہی کے اندر بھی "جامع احادیث الشیعة” جيسی کتاب نظر آتی ہے، جس کے ہر باب کی ابتدا میں اس باب سے متعلقہ فقہی آیات مجیدہ خصوصی طور پر ذکر کی گئی ہیں۔ یہ کتاب آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کی نظارت میں آپ کے شاگردوں خصوصاً حجة الاسلام والمسلمین اسماعیل معزی ملائری نے لکھی ہے۔ مذکورہ بالا آٹھ نکات کے بعد اب قارئین کیلئے ضروری ہے کہ وہ شیعہ فقہا کے قرآن مجید کے حوالے سے عملی کام کا جائزہ لیں۔ شیعہ فقہاء کے استنباط و استخراج احکام کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کا عملی ثبوت اُن کی تالیفات، تصنیفات اور تحقیقات ہیں۔ اب آئیے ان کی صرف اور صرف قرآن کریم کی فقہی آیات پر لکھی جانے والی استدلالی کتابوں کا تعارف ملاحظہ کیجئے:

فقہ جعفری کے فقہ قرآنی ہونے پر کتابیں بطورِ دلائل
شیعہ فقہاء کرام کی طرف سے فقہی احکام سے متعلق آیات کی تفسیر اور ان کے اندر موجود فقہی نکات و مسائل کی تبیین پر لکھی جانے والی کچھ اہم کتابوں کا تعارف
?1۔ احکام القرآن:
آیات الاحکام کے متعلق عربی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل شیعہ فقہ کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کے مولف امام باقر و امام صادق علیھما السلام کے شاگرد جناب محمد بن سائب کلبی کوفی ہیں، جن کی 146 ھ ق میں وفات ہوئی، جبکہ سنی  فقہاء میں سے سب سے پہلے اس موضوع پر کتاب لکھنے والے محمد بن ادریس شافعی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔(امام شافعی 150 ھ ق میں پیدا ہوئے اور 204 ھ ق میں فوت ہوئے۔) اس کتاب میں فقہی ابواب کی ترتیب کے مطابق آیات قرآن کی فقہی تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔
?2۔ تفسير خمسماة آیة في الاحكام:
آیات الاحکام سے متعلق سب سے پہلے لکھی جانے والی شیعہ فقہ کی یہ دوسری کتاب ہے۔ اس کے مولف جناب مقاتل بن سلمان بن بشر خراسانی بلخی ہیں، جو 150 ھ ق میں وفات پا گئے۔ آپ امام زین العابدین علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔ دو سنی معروف فقہاء امام شافعی و احمد بن حنبل نے بھی اس کتاب کی تعریف کی ہے۔

?3۔ آیات الاحکام:
عربی زبان کی یہ دو جلدی فقهي تفسير، چھٹی صدی ہجری قمری میں لکھی گئی۔ اس کے مولف بزرگ شیعہ فقیہ جناب سعید بن ھبة الله راوندی کاشانی متوفی 573 ھ ق ہیں۔ آپ صاحب مجمع البیان مرحوم طبرسی کے شاگرد تھے۔
?4۔ النھایة في تفسير الخمسماة آیة:
عربی زبان کی يه فقهي تفسير بهي ایک بہت بڑے شیعہ فقیہ الشیخ احمد بن عبداللہ بحرانی متوفی820ھ ق کی تالیف و تحقیق ہے۔ کئی دفعہ چاپ ہوچکی ہے۔ یہ فقیہ علامہ حلی کے فرزنز علامہ فخر الدین کے شاگرد اور شہید اول کے ہم بحث تھے۔
?5۔ کنز العرفان فی فقہ القرآن:
عربی زبان کی یہ تفسیر معروف و مشھور فقیہ مقداد بن عبداللہ معروف بہ فاضل مقداد  متوفی 826ھ ق نے لکھی ہے۔ آپ شہید اول کے شاگرد تھے۔ آپ نے اس کتاب میں  فقہی ابواب کی ترتیب سے تمام آیات الاحکام کی تفسیر فقہ مقارن کے انداز میں کی ہے۔ بعض محقق علماء کہتے ہیں کہ آیات الاحکام کی سب سے اچھی کتاب یہی ہے۔

?6۔ ترجمہ و شرح کنزالعرفان فی فقہ القرآن:
یہ فقہ القرآن پر لکھی جانے والی مذکورہ بالا کتاب "کنز العرفان” کا فارسی ترجمہ اور تشریح ہے۔ جو ایران کے معروف قانوندان، حوزہ و یونیورسٹی کے استاد جناب ڈاکٹر عباس زراعت صاحب کی کاوش ہے۔ اس کتاب میں "کنزالعرفان” کے باب نکاح، طلاق، ارث، حدود، قصاص، دیات، قضا اور شھادات سے مربوط ابحاث کو انتخاب کرکے ان کا ترجمہ و تشریح کی گئی ہے۔ یہ کتاب یونیورسٹی میں حقوقدان بننے والے طلاب کو پڑھائی جاتی ہے۔
?7۔ تفسیر شاھی:
یہ فارسی زبان میں لکھی جانے والی سب سے پہلی آیات الاحکام کی کتاب ہے۔ یہ کتاب شاہ طہماسب صفوی کی خواہش پر لکھی گئی۔ اس کتاب کے مولف معروف فقیہ امیر ابو الفتح سید محمد بن مخدوم حسینی جرجانی متوفی 976 ھ ق ہیں، جو شاہ اسماعیل اور شاہ طہماسب کے ہم عصر فقہاء میں سے تھے۔

?8۔ زبدة البیان فی براھین احکام القرآن:
یہ کتاب عربی زبان میں لکھی جانے والی آیات الاحکام کی کتابوں میں سب سے اچھی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس میں بھی آیات کی تفسیر فقہی ابواب کی ترتیب سے کی گئی ہے۔ بار بار چاپ ہوچکی ہے۔ جدید مطالب پر مشتمل ہے۔ اس کے مولف احمد بن محمد محقق اردبیلی معروف بہ مقدس اردبیلی متوفی 993 ھ ق معروف ترین  فقہاء میں سے شمار ہوتے ہیں۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس پر   کافی ساری شروحات و حواشی بھی لکھے جا چکے ہیں، جن میں سے مھم ترین شروحات و حواشی کا ہم نیچے ذکر کر رہے ہیں۔
?9۔ مفاتیح الاحکام یا شرح آیات الاحکام :
یہ زبدة الاحکام کی سب سے پہلی شرح ہے۔ یہ شرح اپنے زمانے کے معروف فقیہ سید محمد سعید بن سراج الدین قاسم طباطبائی قھبائی متوفی 1092 ھ ق نے لکھی ہے۔
?10۔ تفسیرالسراب:
یہ زبدة البيان کی معروف ترین شرح ہے۔ اس کے مولف جناب محمد بن عبد الفتاح تنکابنی متوفی 1124 ھ ق ہیں۔ آپ علامہ تقی مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی، آقا حسین خوانساری اور آقا محمد باقر سبزواری جیسے معروف فقہاء کے شاگردوں میں سے تھے۔

?11۔ تحصیل الاطمینان:
یہ زبدة البيان کی تیسری مھم شرح ہے۔ اس کے مولف، حکیم و فقیہ جناب امیر ابراہیم قزوینی متوفی 1149 ھ ق ہیں۔ آپ علامہ محمد باقر مجلسی، شیخ یوسف بحرانی اور آقا جمال خوانساری جیسے بزرگ شیعہ فقہاء کے شاگرد تھے۔
?12۔ حاشیہ بر زبدة البيان:
زبدة البيان پر سب سے پہلا حاشیه معروف شيعه فقيه بلکہ استاد ال فقہاء  والمحدثین جناب ملا محسن فیض کاشانی متوفی 1091 ھ ق نے لکھا۔
?13۔ حاشيه بر زبدة البيان:
دوسرا مهم حاشيه مشهور محدث و فقیہ جناب سید نعمت اللہ جزائری متوفی 1112 ھ ق نے تحریر فرمایا ہے۔
☘️14۔ حاشیة علي زبدة البيان في تفسير احكام القرآن:
یہ تیسرا مھم حاشیہ ہے، جو زبدة البيان پر لکها گیا۔ اس کے مولف معروف فقیہ شیخ میرزا محمد بن عبد الفتاح تنکابنی صاحب تفسیر السراب متوفی 1124ھ ق ہیں۔

?15۔ حاشیہ بر زبدة البيان:
زبدة البيان پر لکها جانے والا چوتها قابل ذکر حاشیہ امیر محمد بن محمد باقر مختاری کا ہے۔ آپ علامہ مجلسی و شیخ حر عاملی جیسے بزرگ شیعہ فقہاء و محدثین کے شاگرد تھے۔ آپ کی وفات 1130 سے 1140 کے درمیانی سالوں میں واقع ہوئی۔
?16۔ حاشیہ بر زبدة البيان:
پانچواں قابل ذکر حاشیہ جو زبدة البيان پر لکھا گیا۔ اس کے مولف جناب محمد رفیع گیلانی ہیں، جو علامہ تقی مجلسی، علامہ باقر مجلسی اور شیخ حر عاملی جیسے بزرگ فقہاء و محدثین کے شاگرد تھے۔
?17۔ حاشیہ بر زبدة البيان:
يہ زبدة البيان پر لکها گیا چهٹا مہم حاشیہ ہے۔ اس کے مولف ملا اسماعیل بن محمد حسین خاجوئی متوفی  1173ھ ق ہیں۔ آپ معروف شیعہ فقیہ ملا محمد مہدی نراقی کے استاد تھے۔

⭐18۔ آیات الاحکام:
عربی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب معروف اصولی و رجالی فقیہ میرزا محمد بن علی بن ابراہیم استرآبادی صاحب منھج المقال متوفی  1028ھ ق کی تالیف ہے۔ آپ مقدس اردبیلی صاحب زبدة البيان کے شاگرد تھے۔ اس کتاب میں تمام آیات الاحکام کی  فقہی ابواب کی ترتیب سے مکمل تفسیر کی گئی ہے۔
?19۔ تفسیر قطب شاھی:
یہ فارسی زبان میں لکھی گئی فقہی آیات کی تفسیر ہے۔ اس کے مولف مولانا محمد شاہ قاضی یزدی سلطان محمد قلی کے فرزند ہیں، جو ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین کے طور پر 1020 ھ ق سے 1030 ھ ق تک بندوستان کے سلطان بھی رہے اور اسی دوران 1021 ھ ق میں یہ کتاب مکمل کی۔
☀️20۔ مسالک الافھام الی آیات الاحکام:
عربی زبان کی یہ کتاب کنز العرفان اور زبدة البيان کی طرح کافی مشهور کتاب ہے۔ اسے المسالک الجوادیہ بھی کہا جاتا ہے، چونکہ اس کے مولف کا نام محمد جواد کاظمی معروف بہ فاضل جواد کاظمی متوفی 1065 ھ ق ہے۔ اس کتاب میں بھی تمام فقہی ابواب سے مربوط آیات کی فقہی ابواب کی ترتیب سے تفسیر کی گئی ہے۔ اس کتاب کی بھی بعض فقہاء نے شرح لکھی ہے اور بعض نے تعلیقہ و حاشیہ لگایا ہے۔

?21۔ سلوک مسالک المرام فی مسلک مسالک الافھام:
عربی زبان کی یہ کتاب جیسا کہ نام سے واضح ہے، مسالک الافھام کی شرح ہے۔ یہ شرح اپنے زمانے کے فقیہ، اصولی، متکلم و فیلسوف جناب الشیخ عبد القاھر بن الحاج عبد بن عبادی الحویزی نے لکھی ہے۔
❄️22۔ حاشیہ بر مسالک الافھام:
یہ میرزا عبداللہ بن عیسی بیگ افندی تبریزی اصفہانی متوفی 1130 ھ ق کا ہے۔ آپ علامہ مجلسی، آقا حسین خوانساری، محقق سبزواری اور فاضل ھندی جیسے بزرگ علماء و فقہاء کرام  کے شاگرد تھے۔ معروف کتاب ریاض العلماء و حیاض الفضلاء آپ ہی کی تالیف ہے۔
?23۔ قلائد الدرر فی بیان آیات الاحکام بالاثر:
تین جلدوں پر مشتمل عربی زبان کی یہ کتاب بھی فقہی آیات کی مکمل تفسیر ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں تمام فقہی آیات کی تفسیر معصومین علیھم السلام کی روایات سے کی گئی ہے۔ اس کے مولف معروف فقیہ جناب الشیخ احمد الجزائری متوفی 1150 ھ ق ہیں۔ آپ آقای ابوالحسن فتونی نجفی کے شاگردوں میں سے تھے۔

?24۔ آیات الاحکام:
عربی زبان کی یہ کتاب 1299 ھ ق میں لکھی گئی۔ اس کے مولف آیت اللہ محمد باقر بن محمد حسن قائنی بیرجندی متوفی  1352ھ ش ہیں۔ آپ میرزا حبیب اللہ رشتی، آخوند خراسانی، میرزا شیرازی اور حسین نوری جیسے بزرگ فقہاء کے شاگرد ہیں۔
?25۔ احکام القرآن:
فارسی زبان کی یہ کتاب 1983ء میلادی میں چاپ ہوئی۔ اس میں آیات کو احوال شخصیہ، لین دین، معاملہ کرنا اور اجتماعی احکام جیسے جدید موضوعات کے تحت جمع کرکے ان کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس کے مولف جناب ڈاکٹر محمد خزئلی متوفی  1353ھ ش ہیں۔
?26۔ آیات الاحکام:
فارسی زبان کی یہ کتاب 1987ء میلادی میں چاپ ہوئی۔ 5 جلدوں پر مشتمل تمام  فقہی آیات کی مفصل تفسیر ہے۔ اس کے مولف معروف فقیہ آیت اللہ سید احمد میر خانی متوفی 1372 ھ ش ہیں۔ آپ آقائے حجت کوہ کمرہ ای و آقائے حسین بروجردی جیسے حوزہ علمیہ قم المقدس کے بزرگ فقہاء کرام کے شاگرد تھے۔

?27۔ بدائع الکلام فی تفسیر آیات الاحکام:
عربی زبان کی یہ تفسیر 1360ھ ق میں چاپ ہوئی۔ ایک جلد پر مشتمل ہے۔ اس کے مولف مشھور و معروف فقیہ آیت اللہ محمد باقر ملکی میانجی متوفی 1377ھ ش ہیں۔ آپ میرزا محمد آقازادہ اور میرزا مہدی غروی اصفہانی جیسے حوزہ علمیہ مشھد مقدس کے بزرگ فقہاء کرام کے شاگرد تھے۔
?28۔ تفسیر آیات الاحکام وفق المذھب الجعفری والمذاھب الاربعة:
یہ عربی زبان میں لکھی گئی دو جلد کتاب ہے۔ اس کی پہلی جلد چاپ ہوچکی ہے۔ اس کے مولف آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی یزدی متوفی 1386 ھ ش ہیں۔ آپ معروف بزرگ و مجاہد فقیہ سید محمد کاظم یزدی صاحب عروة الوثقی کے پوتے ہیں۔
?29۔ آیات الاحکام (حقوقی و جزائی):
فارسی زبان کی یہ تفسیر صرف دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک میں ان آیات کی تفسیر ہے، جو حقوق سے مربوط ہیں اور دوسرے میں ان آیات کی تفسیر ہے، جو مجازات سے مربوط ہیں۔ اس کے مولف معروف فقیہ جناب آقای ابو القاسم گرجی متوفی 1389 ھ ش ہیں۔ آپ آقائے محمد رضا تنکابنی، سید عبد الھادی سبزواری اور محمد حسین کاشف الغطاء جیسے بزرگ فقہاء کرام کے شاگرد تھے۔

?30۔ آیات الاحکام:
یہ بھی ایک جلد پر مشتمل تفسیر ہے، جو 2002ء میلادی میں چاپ ہوئی۔ اس کے مولف آیت اللہ عباس علی عمید زنجانی متوفی 1390 ھ ش ہیں۔ آپ آیت اللہ العظمیٰ شھاب الدین مرعشی نجفی صاحب کے داماد تھے۔
?31۔ الجمان الحسان فی احکام القرآن:
عربی زبان کی اس کتاب میں بھی فقہی ابواب کی ترتیب سے آیات فقہی کی تفسیر کی گئی ہے۔ ایک جلد پر مشتمل مختصر ابحاث ہیں۔ اس کے مولف آیت اللہ سید محمود دہ سرخی متوفی 1432 ھ ش ہیں۔
?32۔ آیات الاحکام(حقوق مدنی و جزائی):
یہ فارسی زبان میں لکھی گئی جدید طرز کی کتاب ہے۔ یہ کتاب صرف تین حصوں حقوق عمومی، حقوق مدنی اور حقوق جزائی پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں عبادات سے مربوط فقہی آیات کی تفسیر کی گئی۔ اس کے مولف معروف محقق جناب استاد خلیل قبلہ ای خوئی متوفی 1395 ھ ش ہیں۔ آپ آقایان حجت کوہ کمرہ ای اور حسین بروجردی جیسے بزرگ فقہاء کرام کے شاگرد تھے۔
?33۔ آیات الاحکام تطبیقی:
یہ کتاب بھی معروف محقق استاد خلیل قبلہ ای خوئی ہی کی تالیف ہے۔ اس کی ترتیب باقی عام آیات الاحکام کی کتابوں کی طرح ہے۔ تمام  فقہی آیات کو ان کے متعلقہ فقہی باب میں ذکر کرکے ان کی تفسیر کی گئی ہے۔ البتہ کافی مقامات پر جدید مطالب بھی نظر آتے ہیں۔

?34۔ فقہ القرآن:
یہ عربی زبان میں لکھی گئی 4 جلدی تفسیر ہے۔ اس کی پہلی جلد عبادات، دوسری حکومت، تیسری عقود اور چوتھی ایقاعات سے متعلق فقہی آیات کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ اس کے مولف ایران کے معروف انقلابی فقیہ حضرت آیت اللہ الشیخ محمد یزدی متوفی 1399 ھ ش ہیں۔
?35۔ آیات الاحکام:
یہ فارسی زبان میں لکھی گئی ایک جلد کتاب ہے۔ 2015ء میلادی میں چاپ ہوچکی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلاب کو فقہی آیات سے متعارف کرانے کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس کے مولف دو محقق فضلاء جناب حجة الاسلام والمسلمين ڈاکٹر قاسم سبحانی فخر اور حجة الاسلام والمسلمين ڈاکٹر قدرت اللہ نیازی ہیں۔
?36۔ دروس تمہیدیة في تفسير آیات الاحکام:
یہ دو جلدوں پر مشتمل عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کے لکھنے کا اسلوب بڑا جامع اور اس کے مطالب جدید ہیں۔ اس کے مولف نجف اشرف کے موجودہ مراجع میں سے جناب آیت اللہ العظمیٰ باقر ایروانی صاحب سلمہ اللہ ہیں۔ آپ آقائے خوئی کے شاگرد ہیں۔

?37۔ فقہ القرآن یا آیات الاحکام تطبیقی:
یہ کتاب فقہ مقارن کے اسلوب کے مطابق لکھی گئی ہے۔ قرآن و حدیث کے علوم میں تخصص کرنے والے طلاب کو پڑھائی جا رہی ہے۔ اسے خود جامعة المصطفیٰ نے چاپ کرایا ہے۔ اس کے مولف استاد بزرگوار حجة الاسلام والمسلمين ڈاکٹر جناب محمد فاکر میبدی صاحب حفظہ اللہ ہیں۔
?38۔ آیات الاحکام (رشتہ الہیات و معارف اسلامی):
دو جلدی یہ کتاب فارسی زبان میں الہیات اور اسلامی معارف میں تخصص کرنے والے یونیورسٹی کے طلاب کو پڑھانے کیلئے لکھی گئی ہے اور 2003ء میلادی میں چاپ ہوچکی ہے۔ اس کے اندر صرف عقود، اجارہ، شرکت، مضاربہ، ابضاع، ابداع، عاریہ، سبق و رمایہ، شفعہ، لقطہ، غصب، اقرار اور وصیت سے مربوط آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس کے مولف معروف محقق حجة الاسلام والمسلمين ڈاکٹر عابدین مومنی حفظہ اللہ ہیں۔
?39۔ درسھائی از آیات الاحکام:
یہ کتاب بھی فارسی زبان میں لکھی گئی ایک جلدی کتاب ہے۔ 2000ء میلادی میں چاپ ہوچکی ہے۔ اس کے اندر صرف عبادات سے مربوط آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس کے مولف جناب ڈاکٹر داریوش زرگری مرندی ہیں۔

?40۔ باز پژوھی آیات فقہی قرآن:
فارسی زبان کی یہ کتاب 2007ء میلادی میں چاپ ہوچکی ہے۔ یہ کتاب بھی طلاب کو درسی طور پر پڑھانے کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس کے پہلے اور دوسرے درس میں آیات الاحکام سے مربوط کلی مطالب اور باقی دروس میں عبادات یعنی طھارت، نماز، روزہ، اعتکاف، حج، امر بہ معروف اور نھی از منکر سے مربوط آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس کے مولف بھی حجة الاسلام والمسلمين جناب ڈاکٹر استاد محمد فاکر میبدی حفظہ اللہ ہیں۔
?41۔ تفسیر جامع آیات الاحکام:
12 چلدوں پر مشتمل آیات الاحکام کی یہ مفصل ترین کتاب ہے۔ اس کے اندر تمام  فقہی ابواب سے مربوط آیات مجیدہ سے مکمل اور سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کے مولف معروف فقیہ آیت اللہ زین العابدین قربانی لاھیجی حفظہ اللہ ہیں۔
?42۔ آیات الاحکام حقوقی:
یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کے اندر صرف بیع، ضمان، شرکت ابداع، عاریہ، وکالت، شفعہ، اقرار، غصب، لقطہ اور حجر سے مربوط آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اس کے مولف معروف محقق حجة الاسلام والمسلمين جناب ڈاکٹر اسد الله لطفی حفظہ اللہ ہیں۔

دعوتِ فکر!
درج بالا آٹھ نکات کے اندر شیعہ فقہاء کرام کے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کے علمی و عملی شواہد کا بیان، شیعہ فقہاء عظام کی جانب سے فقہی آیات پر لکھی جانے والی چالیس سے زیادہ کتابوں کا تعارف، غیر شیعہ فقہاء کی نسبت شیعہ فقہاء کرام کا فقہی آیات کی تفسیر میں سبقت لے جانا اور ہر زمانے میں آیات الاحکام کی جدید تفسیر پیش کرنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شیعہ فقہ ہر دور میں قرآن کریم کے زیرِ سایہ ہے اور شیعہ فقہاء کرام استنباط احکام شرعی میں نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں بلکہ شرعی احکام کا سب سے پہلا اور اصیل منبع سمجھ کر اسے باقی ادلہ پر فوقیت دیتے رہے ہیں۔ پس یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ فقہ شیعہ سو فی صد قرآن کریم کی فقہی آیات پر استوار ہے۔ لہذا کسی طور بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فقہ جعفری قرآن مجید کے بجائے شیعہ مجتہدین کی آراء پر مبنی ہے۔

جمع بندی
شیعہ اور جعفری ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ یہ حقیقت پیغمبرِ اسلام ؐ کے زمانے میں موجود تھی۔ اہل تشیع یا جعفریوں کے ہاں ہمیشہ سے قرآن مجید ہی فقہی احکامات کا منبع ہے۔ آئمہ معصومینؑ بنیادی طور پر قرآن مجید کے معصوم مفسّر اور حقیقی مبلغ ہیں۔ جب حضرت امام جعفر صادق ؑ کا زمانہ آیا تو وہی قرآن اور وہی شیعہ  تھے، جو اس سے پہلے بھی قرآن مجید کی فقہی آیات کے مطابق عمل کرتے تھے۔ چونکہ حضرت امام جعفر صادق کے زمانے میں اہل تشیع نے کثرت سے تبلیغِ دین کی تو اس لئے شیعہ حضرات، جعفری کے نام سے اور ان کے قرآنی فقہی آیات پر عمل کرنے کا عمل فقہ جعفری کے نام سے مشہور ہوگیا۔ فقہ جعفری دراصل فقہ قرآنی ہی ہے۔ اس فقہ میں فقہاء کی ذاتی رائے کی کوئی اہمیت یا عمل دخل نہیں۔ جو کچھ قرآن مجید کی فقہی آیات کہتی ہیں، وہی آئمہ معصومین ؑ کی تفسیر کے ساتھ فقہ جعفری کی صورت میں مدوّن ہے۔ مجتہدین مختلف علوم کی روشنی میں قرآن مجید کی آیات سے فقط حکم معلوم کرتے ہیں، جسے فقہی اصطلاح میں استنباطِ حکم شرعی کہتے ہیں۔ اس میں مجتہد کی اپنی رائے شامل نہیں ہوتی۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree