وحدت نیوز(آرٹیکل) طرفداری اور حمایت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔اصولوں کے بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔خصوصا کسی بھی تحریک یا تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عوامی ہے یا نہیں،دوسری بات یہ کہ مقامی بھی ہے یا نہیں اور تیسری بات یہ کہ آزادی اور استقلال کی خاطر ہے یا نہیں۔
عوامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس تنظیم یا تحریک کو عوام میں مقبولیت حاصل ہونے چاہیے ،وہ تشدد اور دھونس دھاندلی کے بجائے عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو،جبکہ مقامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ تنظیم یا تحریک باہر سے نہ چلائی جارہی ہو بلکہ مقامی لوگ ہی اس کے چلانے والے ہوں اور آزادی و استقلال سے مراد یہ ہے کہ وہ تحریک یا تنظیم اپنی ملت کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کروانے اور استقلال کی خاطر ہو۔
ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے!کسی کی حمایت یا مخالفت کا ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں،ہمیں اپنے ملک کے علاوہ باقی سب کی فکر ہے۔سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ہم آنکھیں بند کرکے دوسروں کے جھگڑوں میں کودنے کے عادی ہیں۔جب سے شام میں باغیوں نے سر اٹھایا ہے ہم بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔باغی کون ہیں اور وہ بشارالاسد سے کیوں جھگڑ رہے ہیں!؟ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کون دے رہاہے !؟ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ،ہم نے تو صرف کسی کی مخالفت یا حمایت کرنی ہوتی ہے سو اپنی اپنی جگہ کررہے ہیں۔
چنانچہ چند سالوں سے مسلسل ہماری مسجدوں ،منبروں اور میڈیاسے شام کی جنگ لڑی گئی۔مسلسل باغیوں کو مجاہدین اسلام اوربشارالاسد کو ڈکٹیٹر کہاگیا،ہماری حمایت اور دنیا کی بے حسی کانتیجہ یہ نکلا کہ شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حلب چھ سال تک باغیوں کے قبضے میں رہا۔
اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے،شامی حکومت نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا اور ۲۰۱۶کے آخر میں حلب کو حملہ آوروں سے آزاد کروالیا۔شامی حکومت کی سرپرستی میں مندرجہ زیل گروہ باغیوں سے ٹکرائے۔
۱۔شام کی سرکاری فوج۲۔حزب اللہ لبنان،۳۔لشکر فاطمیون(افغانستان)،۴ ۔لوالقدس(فلسطین)،۶۔ جیش دفاع الوطنی،۷۔ گروه مقاومت اسلامی نُجَباء۔۔۔وغیرہ
شام کو اس جنگ میں نمایاں فتح ہوئی اورحملہ آور پسپا ہوکر آجکل صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد موصل میں عراقی حکومت سے دوبدو ہے۔
موصل بھی حلب کی طرح انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ عراق کے شمال میں واقع ہے اوردارالحکومت بغداد کے بعد آبادی اور تجارت کے لحاظ سےدوسرا اہم مرکز ہے۔یاد رہے کہ اب ۲۰۱۴ سے اس پر داعش کا قبضہ ہے۔داعش میں امریکہ، یورپ،ترکی،سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے لوگ بھرتی ہیں۔حلب کی آزادی کے بعد جہاں داعشی مفرورین پناہ کے لئے موصل کی طرف بھاگ کر آئے ہیں وہیں عراقی حکومت نے بھی اپنی تمام تر توجہ موصل پر مرکوز کررکھی ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب موصل میں بھی باغیوں کی شکست یقینی ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد باغی اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھی لوٹ سکتے ہیں۔یہ وہ خطرہ ہے کہ جس کا اظہاران دنوں برطانیہ کے سیکورٹی وزیر بین وولیس نے بھی کیا ہے۔ان کے بقول شام اور عراق میں مسلسل پسپائی پر مجبور شدست پسند تنظیم داعش میں شامل برطانوی شدت پسندوں کی واپسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اورداعش واپس لوٹنے والے اپنے تربیت یافتہ جنگجووں کو استعمال کر کے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی پلاننگ کر سکتی ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر برائے سیکورٹی کا کہنا ہے کہ شدت پسندتنظیم برطانیہ میں کیمیائی حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ داعش کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے جو اس سے قبل مشرق وسطی میں استعمال بھی کرچکی ہے ۔
ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بھی انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ہم نے افغانستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے اس کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں اب شام اور عراق کا ثمر بھی ملنے والا ہے۔
پاکستان میں جہاں عام حالات میں دہشت گرد ایک حملہ کرکے سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کردیتے ہیں،جہاں جی ایچ کیو اور پولیس کے مراکز اور ائیرپورٹس کو پہلے سے ہی نشانہ بنایاجاتاہے وہاں داعش کے مقابلے کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔دہشت گردٹولوں اور شدت پسندوں سے کسی بھی طرح کی نرمی یا غفلت ہمیں کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.