وحدت نیوز(آرٹیکل) حلب میں کیا ہوا؟مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑرہاہے،اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے حلب کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے،یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِحلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کررکھی ہے ،اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔لیکن شام میں چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی،چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔
یہ ایک پر امن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا،چنانچہ انا ًفاناً دکانیں لوٹ لی گئیں،مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا،مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کردیاگیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارلحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔
حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیرقانونی قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قراردیاگیا۔حلب تقریبا چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔
آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟
چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے،سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتودرندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔جیسے جیسے ۲۰۱۷ کا سال نزدیک آتا جارہاتھا،امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔
اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟
جیسا کہ۸ جون ۲۰۱۴ میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔اگر آپ کو یاد ہوتو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں ۲۹ افراد مارے گئے تھے،تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیاتھا۔اس حملے کی ذمہ داری پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔
اسی طرح طالبان کی طرف سےمئی 2011میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کےفاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پرنیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009میں جی ایچ کیو پر حملہ کر کے قبضے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنادیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟
اگر کو ئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کئ بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟
بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کرلیا تھا،شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا،اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔
یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جولوگ شام میں قومی فوج کے خلاف ہیں اورباغیوں کے ہمدرد ہیں وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.