حفاظت حرمین واجب ہے مگر۔۔۔۔!

17 اپریل 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے، ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

رپورٹ کے مطابق دنیا میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا، جسے حرمین شریفین اپنی جان سے بڑھ کر عزیز نہ ہو۔ البتہ یہ موضوع ضرور قابل بحث ہے کہ آیا سعودی عرب اور یمنی قبائل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ سے حرمین کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا نہیں؟ یمن حضرت اویس قرنی کا دیس اور عشاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگری ہے۔ یہاں اسلام کی روشنی خواجہ اویس نے پھیلائی اور اس طرح پھیلائی کہ 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ اس زمین سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمن کی جانب اشارہ کرکے فرمایا: سنو! ایمان اہل یمن میں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ مزید فرمایا ’’ایمان یمنی ہے، فقہ یمنی ہے، حکمت یمنی ہے۔

‘‘

26 مارچ کو سعودی عرب نے 9 اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کیا۔ تادم تحریر ان اتحادی ممالک کے حملوں میں یمن کے 2571 سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں 172 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے۔ سعودی فرمانروا سے لے کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے حکومتی عہدیدار نے یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ خدانخواستہ اس جنگ کے نتیجے میں کعبہ شریف یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطرے میں ہے۔ آپ کوشش کریں اور گوگل کریں کہ 26 مارچ یمن پر حملہ کرنے کے دن سے آج تک سعودی عرب یا 9 اتحادی ممالک میں کسی ایک ملک میں بھی ’’حفاظت حرمین‘‘ کے حوالے سے کوئی ایک جلسہ ہوا ہو، کوئی جلوس نکلا ہو، کوئی ریلی برآمد ہوئی ہو یا کوئی کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔ وہاں کے عوام بہت اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ حرمین کو دور دور تک کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ البتہ پاکستان میں کچھ جماعتوں کے ہاتھ ’’مال کماؤ پروگرام‘‘ آگیا ہے اور وہ حرمین کے مقدس ترین نام پر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔

 

میں حیران رہ گیا کہ اسلام آباد کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں ’’حفاظت حرمین کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ہے۔ یہ پیسہ کون دے رہا ہے اور کسے دے رہا ہے، خدا کی ذات بہتر جانتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

یمن کی آبادی تقریباً 40 فیصد زیدی شیعہ یعنی انصاراللہ اور 60 فیصد سنی افراد پر مشتمل ہے۔ جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی صدر ہادی کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں مسلمان شامل ہیں اور ان کے بنیادی مطالبات بدعنوانی کا خاتمہ، پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور قومی حکومت کی تشکیل ہے۔ صدر ہادی ملک سے فرار ہوا تو انہی افراد نے حکومت تشکیل دی اور تمام طبقوں کو آئینی حقوق اور آزادی دی۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح اور اس کی حامی افواج بھی انصاراللہ کی حمایت کر رہی ہیں۔ البتہ سعودی عرب کو مسلکی حوالوں سے فکر لاحق ہوئی کہ انصاراللہ بھی حزب اللہ کی طرح ایران کا حمایتی گروپ نہ بن جائے۔ اس حوالے سے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جس کی ایران نے سختی سے تردید کی۔ بالآخر سعودی عرب نے اتحادیوں کی حمایت اور امریکہ کی مشاورت سے یمن پر حملہ کر دیا۔

انصاراللہ اور اس سے منسلک یمنی اتحادیوں کی امن پسندی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان علی الاعلان سعودی عرب کا اتحادی ہے، انہوں نے یمن میں موجود کسی بھی پاکستانی کو نہ صرف گزند نہیں پہنچائی بلکہ ان کی بحفاظت واپسی کو بھی یقینی بنایا اور پرنم آنکھوں سے انہیں وداع کیا۔ کیا یہی پاکستانی طالبان یا داعش کے علاقے میں ہوتے، تو کیا انکی زندہ واپسی کا تصور کیا جاسکتا تھا۔؟ حیرت ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر جو اس مسئلہ پر اہل یمن کی بجائے سعودی عرب کا شکریہ ادا کر رہے تھے، ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘ پاکستان اس وقت بہت نازک پوزیشن میں ہے۔ افواج پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں جگہ دشمن کا سامنا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سات سال بعد پہلی دفعہ افواج پاکستان نے 23 مارچ کو پریڈ کرنے کا ’’رسک‘‘ لیا۔ بہت عرصہ بعد عوام اور افواج دہشت گردوں کے خلاف ایک صفحہ پر موجود ہیں، مگر ابھی تو ابتدا ہے۔

 

فاٹا بدستور دہشتگردوں سے بھرا ہوا ہے، کراچی جل رہا ہے، مساجد امام بارگاہیں، چرچ، سکولز، مارکیٹیں حتؑی کہ آرمی کے مراکز اور پولیس سنٹرز بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سرحدوں کے پار انڈیا جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ افغانستان سے ابھی بھی دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں افواج پاکستان کو سعودی عرب بھیجنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کے گھر چور گھسے ہوں اور آپ اپنے چوکیداروں کو ہمسائیہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے کہ یمن پر حملہ سعودی عرب نے نہیں کیا بلکہ امریکہ نے کروایا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح صدام سے پہلے ایران پر حملہ کرایا، پھر کویت پر اور اسی کی آڑ میں امریکی افواج ’’حفاظت‘‘ کی غرض سے سعودی عرب میں داخل ہوگئیں۔ اس حملہ کا مقصد دراصل پاکستان کو ایک نئی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر مکمل ختم کرنا ہے۔ ہماری مقتدر قوتوں کو اس نازک وقت میں اپنا ملک بچانے کی فکر کرنی چاہیئے۔ جنگیں شروع کرنا اپنے اختیار میں ہوتا ہے مگر ختم اپنی مرضی سے نہیں ہوتیں۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعجاز ممنائی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree