وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی شوریٰ کا سالانہ 3 روزہ اجلاس اختتام پذیر ہو گیا، اجلاس میں پنجاب بھر کے 37 اضلاع کے عہدارار شریک ہوئے۔ اجلاس میں تنظیمی کارگردگی، پارٹی الیکشن اور موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی، اجلاس کے مختلف سیشنزسے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری، علامہ شفقت شیرازی،سید ناصرشیرازی  ، علامہ عبدالخالق اسدی سمیت دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔ اجلاس میں مندرجہ ذیل قراردار کثرت رائے سے منظور کی گئیں۔ جنوبی پنجاب کو پارٹی امور چلانے کیلئے صوبے کو درجہ دینے کی قرارداد متفقہ رائے سے منظور کر لی گئی اور دستور میں ترمیم کیلئے مرکزی شوریٰ کو بھیج دیا گیا۔ اجلاس میں پنجاب میں کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی نہ ہونے اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پنجاب حکومت کی حکمت عملی کو مایوس کن قرار دیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پنجاب میں تکفیری گروہ کے شدت پسند افراد اب بھی سرگرم ہیں اور ان گروہوں کو پنجاب حکومت میں شامل بعض وزراء کی ہمدردی حاصل ہے، جنوبی پنجاب میں شدت پسند عناصر اور دہشتگردوں کیخلاف رینجرز اور پاک فوج آپریشن کرے، پنجاب پولیس کے ذریعے جنوبی پنجاب میں آپریشن کے خاطر خواہ نتائج نہیں حاصل ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ملت تشیع کیخلاف غیر منصفانہ کارروائیوں کی مذمت اور بیلنس پالیسی کے تحت بے گناہوں کو ہراساں کرنے کے عمل کو حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام قرار دیا گیا اراکین شوریٰ نے ملک بھر میں بے رحم احتساب پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ نیب کیخلاف حکومتی سطح پر ہونیوالے تمام اقدامات کو روک دیا جائے اور تمام حکومتی اور دیگر پارٹیوں میں موجود مافیاز پر شکنجہ کسا جائے، نیب کو مکمل آزادی اور خود مختاری کیساتھ غیر جانب دارانہ کام کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ اجلاس میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 34 رکنی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت خطے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش ہے مشیر خارجہ اور دفتر خارجہ کے مبہم بیانات اس بات کی غمازی ہے کہ اس اتحاد میں ضرور کوئی سازش کار فرما ہے، مشرق وسطح کی پراکسی وار سے پاکستان کو دور رکھا جائے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ غیروں کی جنگ کو ملک کے اندر لانے کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے، سعودی بادشاہت کے دفاع کیلئے فرقہ وارانہ شدت پسند گروپس حرمین شریفین کے نام پر ملک میں نفرت پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں، حکومت اور ریاستی ادارے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرپسندوں کی بروقت سرکوبی کریں۔ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ قومی اداروں کے نجکاری کے نام پر لوٹ سیل کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اداروں کے خسارے اور نقصانات کی وجوہات کو سامنے لانے کیلئے غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو قرار واقعی ہی سزا دی جائے، پی آئی اے کے بے گناہ جان بحق ہونیوالے ایمپلائز کیساتھ بھرپور اظہار یکجہتی اور ذمہ داروں کیخلاف فوری کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایران سے عالمی پابندیوں کے خاتمے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک ایرن گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرکے توانائی کے بحران سے عوام کو نجات دلائی جائے۔

اجلاس میں اس قراداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا کہ اقتصادی راہ داری میں گلگت بلتستان کو برابری کا حصہ دیا جائے اور گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنا کر 68 سال سے آئینی حقوق سے محروم محب وطن عوام کو ان کا حق دیا جائے اور مغربی راہداری کے حوالے سے حکومت کی منافقانہ پالیسی کی شدید مذمت کی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مغربی راہداری کو ترجیحی بینادوں پر CPEC کے تحت بنایا جائے تاکہ پنجاب اور سندھ کے پسماندہ علاقوں کو بھی ترقی کے مواقع میسر ہو سکیں، میٹرو پروجیکٹ کے نام پر پنجاب کا سارا سرمایہ تخت لاہور پر صرف کرنے کی بجائے صوبے کے دیگر پسماندہ اضلاع میں تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے۔ اجلاس میں پٹرولیم مصنوعات پر ریلیف نہ دینے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت کم ہونے کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں دیا جا رہا، اعلیٰ عدلیہ عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کیخلاف کارروائی کرے، ادویات کی قیمتوں پر اضافہ کرکے حکومت نے عوام دشمنی کا ثبوت دیا جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) آل سعود کی حکومت شام ، بحرین،عراق،یمن میں داعشی پسپائی کے باعث دبائوکاشکارہے،سعودی قیادت میں تشکیل کردہ انسداد دہشت اتحاد داعش کی مسلسل شکست سے خوفزدہ ہے، شہید باقرالنمرکا خون سرزمین حجاز پر آل سعود کے ناپاک وجودکے خاتمے کا باعث بن رہاہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نےچہلم شہید آیتہ اللہ باقر النمر کی مناسبت سے تمام شیعہ تنظیموں کی جانب سے امروھہ گراؤنڈ انچولی میں  عظیم الشان اجتماع حمایت مظلومین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،کانفرنس میں خواتین وحضرات نے کثیر تعداد  میں شرکت کی، کانفرنس سے مختلف شیعہ سنی علمائے کرام و مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں نے خطاب کیا جن میں آئی ایس او کے مرکزی صدر علی مہدی، شیعہ ایکشن کمیٹی کے چئیرمین علامہ مزایوسف حسین، قاضی احمد نورانی، ذاکر اہلبیت نثار قلندری،شیعہ علماء کونسل سندھ کے رہنماء ناظر عباس تقوی،علامہ حسن ظفر نقوی،جعفریہ آلائینس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی،سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ حامد رضا، رہنما جمیعت علمائے پاکستان علامہ قاضی احمد نورانی شامل تھے۔

علامہ ناصرعباس جعفری کا کہنا تھاکہ عصرحاضرتشیع کی سربلندی وسرفرازی کا زمانہ ہے،عالمی دہشت گرد گروہ مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ مقاومتی بلاک سے شکست کھا رہے ہیں،ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ ہمارا رہبر ہماراقائد ہمار اپیشواولی فقیہ سید علی خامنہ ای ہے، امت مسلمہ کی نا صرف درست سمت رہنمائی کررہے ہیں بلکہ حرمین اہل بیت ؑکے تحفظ کیلئے برسرپیکار ہیں ، کہا جاتا ہے کہ پاکستان سےشیعہ جنگجو شام میں جاکرلڑرہے ہیں ،نہ فقط پاکستان بلکہ دنیا بھرکے غیرت مند مسلمان جیسے کعبہ وروضہ رسول ﷺکی حرمت کے قائل ہیں ویسے ہی ان کی اہل بیت ؑکے ،ہم فخر کرتے ہیں ان شہداءپر جنہوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ حرم اہل بیت ؑ خصوصاًسیدہ زینب (س)سے مرقدکے دفاع کی راہ میں قربان کیا۔

وحدت نیوز (لاہور) پنجاب میں کالعدم انتہا پسند جماعتوں کیخلاف کاروائی کا نہ ہونا افسوس ناک ہے،عالمی دہشت گردگروہ داعش کے کارندے اسی ہی صوبے سے پکڑے جارہے ہیں،پنجاب میں کرپشن اور دہشت گردی کیخلاف آپریشن کے مخالفین دراصل اپنے مخفی خوف کو ظاہر کر رہے ہیں،پنجاب کے حکومتی صفوں میں موجود وزراء یہاں پر موجود کالعدم گروہ کی سرپرستی کرتے ہیں، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پنجاب کے صوبائی شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے، وفاق، پنجاب ،گلگت بلتستان میں نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کر رہے ہیں،دہشت گردی کیخلاف موجودہ حکمرانوں کے اقدامات مایوس کن ہے،ساٹھ ہزار سے زائد شہداء کے لواحقین اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا پاک چائنہ اقتصادی راہ داری میں بندر بانٹ کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے،گلگت بلتستان کو اس میگھا پروجیکٹ سے دور رکھنے کے حکومتی روش ایک نئے بحران کی طرف ملک کو لے جانے کی سازش ہے،اقتصادی راہ داری میں گلگت بلتستان کو اتنا ہی حق ملنا چاہیئے جتنا دیگر صوبوں کو ملا ہے،ملکی وسائل پر صرف تخت لاہور کا نہیں بلکہ دیگر پسماندہ علاقوں کا بھی حق ہے،تھر میں آج اکیسویں صدی میں بھی بچے بھوک ،پیاس اور صحت کے بنیادی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں،افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکمرانوں کے ترجیحات عوام کے بنیادی ضروریات نہیں بلکہ اپنے مفادات کا حصول اور اپنے کاروبار کو وسعت دینا ہے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا مزید کہنا تھا کہ حکمران  ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے توانائی کے بحران سے نجات کے لئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے فوری تکمیل کو یقینی بنا ئیں،مشرق وسطیٰ کے صورت حال پر گفتگو کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کسی بھی ایسے اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیئے جو مسلکی بنیاد پر بنے،پاکستان کسی ایک مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا ملک نہیں بلکہ کہ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے مل کر اس دھرتی کو حاصل کیا ہے،ہمیں مسلکی بنیاد پر تقسیم کرنے والے دراصل پاکستان کے دوست نہیں دشمن ہیں ،اجلاس میں شوریٰ کے اراکین نے جنوبی پنجاب کے اضلاع کی گذشتہ اجلاس میں درخواست پر بحث کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے چودہ اضلاع کو پارٹی امور چلانے کے لئے جنوبی پنجاب صوبے کا درجہ دیا گیاہے ،جو مرکزی شوریٰ کے منظوری کے بعد باقاعدہ پارٹی دستور کا حصہ بنے گا۔

وحدت نیوز (کراچی) پاکستان پیپلز پارٹی سنده کے اعلی سطحی وفدنے صوبائی سیکریٹری جنرل سینیٹرتاج حیدرکی سربراہی میں ایم ڈبلیوایم صوبائی سیکریٹریٹ وحدت ہائوس میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنما سید علی حسین نقوی اور مبشرحسن سے ملاقات کی ، پی پی پی کے وفدنے مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں کومردم شماری کے موضوع پر منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی،جسے ایم ڈبلیوایم نے قبول کرلیا، دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیاں دوطرفہ دلچسپی کے امور سمیت قومی وبین الاقوامی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، وفد میں مشیروزیراعلی سنده سید وقارمہدی ،راشدربانی اور صدر پی پی پی کراچی ڈویژن نجمی عالم شامل تهے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلامی تعلیمات میں بلا کسی تفریق و امتیاز کے انسانی فضائل و کمالات (جو کہ انسانوں کی برتری کا معیار ہیں) کی نسبت مردو عورت دونوں کی طرف دی گئی ہے
    فضائل و کمالات کا منشاانسان کا جسم نہیں ہے بلکہ اس کی روح اور نفس ہے اور روح کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے
    وہ آیتیں جو علم اور جہالت، ایمان اور کفر، عزّلت اور ذلّت، سعادت اور شقاوت، فضیلت اوربرائی، حق و باطل، سچّائی اور جھوٹ، تقویٰ اور فسق، اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور سرکشی، غیبت اور عدمِ غیبت، امانت اور خیانت اور ان جیسے دیگر امور کوکمالات اور نقائص جانتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اچھائی یا برائی نہ مذکّر ہے نہ مؤنّث اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان یا کافر کا بدن، عالم یا جاہل، پرہیزگاریا فاسق، صادق یا کاذب نہیں ہے
    دوسرے الفاظ میں علمی اور عملی مسائل میں جو کہ فضیلت اور کمال کا معیار ہیں اگرکہیں بھی مذکّر اور مؤنّث کی بات نہیں ہے، تو یقیناً روح جو کہ ان صفات سے مزین ہے، وہ بھی مذکّر و مؤنّث کے دائرہ سے خارج ہوگی
    مرحوم علّامہ طباطبائی اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں: مشاہدہ اور تجربہ کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ مردو عورت ایک ہی نوع کے دو افراد ہیں دونوں کا تعلّق فردِ انسانی سے ہے، چونکہ جو کچھ مردوں میں آشکار ہے وہی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے
    کسی بھی نوع کے آثار اور علامات کا ظہور اس کے خارجی وجود کا مظہر ہوا کرتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ ان دو صنفوں کے مشترکہ آثار و علامات میں شدّت اور کمی پائی جاتی ہو لیکن یہ اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ دونوں صنفوں کی حقیقت میں کسی قسم کا کوئی فرق پایا جاتا ہو
    یہاں سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ نوعی فضائل اور کمالات جو ایک صنف کی حد امکاں میں ہیں وہ دوسری صنف کے لئے بھی ممکن ہیں، اس کی ایک مثال وہ فضائل اور کمالات ہیں جو ایمان اور اطاعتِ پروردگار کے سایہ میں مرووعورت دونوں حاصل کرسکتے ہیں، وہ جامع ترین کلام جو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے یہ آیت ہے
 أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(۱)
میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصّہ ہو
    اس کے علاوہ سورۂ احزاب میں اسی حقیقت کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور مردو عورت کی معنوی خصوصیات کو ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ایک ساتھ قرار دیا گیا ہے اور دونوں کے لئے کسی امتیاز کے بغیر ایک ہی جزا قرار دی گئی ہے، انسانی روح کے اعتبار سے دونوں کو ایک ہی مقام عطا کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ میں مردوں اور صنف نسواں اور ان کی ممتاز صفات کو ایک جامع عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں صنفوں کے اعتقادی، اخلاقی، عملی صفات اور جزا کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربّ العزّت ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْقَانِتِينَ وَ الْقَانِتَاتِ وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَ الصَّابِرَاتِ وَ الْخَاشِعِينَ وَ الْخَاشِعَاتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَاتِ وَ الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ الْحَافِظِينَ فُرُوجَہُمْ وَ الْحَافِظَاتِ وَ الذَّاکِرِينَ اللَّہَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَ أَجْراً عَظِيماً (۳)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچّے مرداور سچّی عورتیں اورصابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خداکا بکثرت ذکرکرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے
    مشہور ومعروف مفسّر مرحوم طبرسی مجمع البیان میں رقمطراز ہیں، جب جنابِ جعفرابن ابی طالب کی زوجہ اسماء بنت عمیس اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ سے واپس آئیں تو رسالت مآب حضرت ختمیٔ مرتبتﷺ کی ازواج سے ملاقات کے لئے گئیں، اس موقع پر آپ نے ازواجِ رسولﷺ سے جو سوالات معلوم کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آیا قرآن میں عورتوں کے سلسلہ میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں،ان کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے، اسماء بنت عمیس پیغمبراکرمﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کی اے خدا کے رسول! عورت کی ذات خسارہ و نقصان میں ہے ،رسولِ خداﷺ نے فرمایا تم نے کہاں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اس نے عرض کی
’’اسلام اور قرآن میں عورتوں کے لئے مردوں جیسی کسی فضلیت کو بیان نہیں کیا گیا ہے‘‘
    اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس نے خواتین کو اس بات کا اطمینان دلایا کہ خدا کے نزدیک قرب اور منزلت کے اعتبار سے مرداور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں برابر ہیں، سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں عقیدہ،عمل اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں ۔
    مذکورہ آیت میں مردوں اور عورتوں کے لئے دس صفات کو بیان کیا گیا ہے جن میں بعض صفات کا تعلّق ایمان کے مراحل،یعنی زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اوراعضاء و جوراح سے عمل سے ہے۔ ان میں سے کچھ صفات زبان، شکم اور جنسی شہوت کے کنٹرول سے مربوط ہیں، یہ تین صفتیں انسانی اور اخلاقی زندگی میں سرنوشت ساز کردار ادا کرتی ہیں، مذکورہ آیت کے ایک دوسرے حصّہ میں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقہ کی حمایت، سخت اور ناگوار واقعات کے سامنے صبر اور بردباری  اور ان تمام پسندیدہ صفات کی پیدائش اور بقا کے اصلی عامل یعنی یادِ خدا کا تذکرہ کیا گیا ہے
آیتِ کریمہ کے آخر میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
پروردگارِ عالم نے ان مردوں اور عورتوں کے لئے اجرِ عظیم مہیّا کر رکھا ہے جو مذکورہ صفات سے مزین ہو ں پروردگارِ عالم پہلے مرحلہ میں بخشش کے پانی سے ان کے گناہوں (جوان کی روح کی آلودگی کا سبب ہیں) کو دھودیتا ہے، اس کے بعد انہیں اس اجرِ عظیم سے نوازتا ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
عورت کی پاک و پاکیزہ زندگی، ایمان اور نیک عمل کی مرہونِ منّت ہے،قرآنِ مجید کی آیات میں عورت کی انسانی شخصیت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراسے مردوں کے ہم پلّہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ربّ العزّت ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَ لَنَجْزِيَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ(۵)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان بھی ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
    مذکورہ آیت میں پاکیزہ حیات کو ایمان اور نیک عمل کے نتیجہ کے طور پر ایک کلّی قانون اور اصول کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، حیاتِ طیّبہ سے مراد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں سکھ چین، امن و امان، صلح اور دوستی، محبّت، باہمی تعاون اور دیگر انسانی اقدار کا دور دورہ ہو جس سماج میں ظلم، سرکشی، استکبار،جاہ طلبی اور خواہشات ِنفسانی کی پیروی سے وجود میں آنے والے دکھ درداور ظلم و ستم کی دور دور تک کوئی خبر نہ ہو، پروردگارِ عالم ایسے معاشرے کے افراد کو ان کے اعمال کے مطابق بہترین جزا دے گا ۔
    مذکورہ آیت میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان تنگ نظر افراد کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے جو ماضی اور حال میں عورت کی انسانی شخصیت کے بارہ میں شک و شبہ میں مبتلا تھے اور اس کے لئے مرد کے انسانی مرتبہ سے پست مرتبہ کے قائل تھے، یہ آیت عالمِ انسانیت کے سامنے عورت کے سلسلہ میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کر رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کچھ کوتاہ فکر اور تنگ نظر افراد کے برعکس اسلام مردوں کا دین نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دیتا ہے
    اس مقام پر سب سے اہم نکتہ جو لائق ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ مفسّرین نے پاکیزہ حیات کے بارے میں مختلف آراء و نظریات اور تفاسیر پیش کی ہیں، مثال کے طور پر بعض مفسّرین نے حیاتِ طیّبہ کو رزقِ حلال اور بعض دیگر نے قناعت اور اپنے حصّہ پر راضی رہنے بعض دوسرے مفسّرین نے پاکیزہ زندگی کو روزمرّہ زندگی میں عبادت اور رزقِ حلال سے تعبیر کیا ہے، لیکن اس لفظ کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ مذکورہ تمام معنیٰ اور ان کے علاوہ دیگر معانی بھی اس کے دائرہ میں آسکتے ہیں، حیاتِ طیّبہ سے مراد وہ زندگی ہے جو تمام برائیوں، ہر قسم کے ظلم و ستم، خیانتوں، عداوتوں، اسارتوں، ذلّتوں اور حق تلفیوں اور ان جیسی دیگر مذموم صفات سے پاک و پاکیزہ ہو ۔
قرآنِ مجید میں مثالی خواتین کا تذکرہ:
    قرآن مجید کی نگاہ میں فضائل و کمالات کے حصول میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آسمانی کتاب میں صرف کلّیات کو ہی بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان تعلیمات کو عینی شکل میں بیان کر نے کے لئے عالمِ انسانیت کے سامنے بعض مثالی خواتین کو پیش کیا ہے
قرآنِ مجید کی داستانوں اورقصّوں کی روح اخلاقی اور انسانی مسائل ہیں، وہ ان اہم مسائل کو قصّہ اور داستان کے سانچے میں بیان کرتا ہے، ان قصّوں اور داستانوں میں بھی عورت کا کردار بہت نمایاں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے:
     حضرت ابراہیم ِ خلیل علیہ السّلام اور جنابِ سارہ:
    قرآنِ مجید نے اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بیان کرتے وقت جہاں صاحب فضیلت مردوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں مثالی خواتین کا نام بھی لیا ہے چونکہ نیک کردار مردو عورت دونوں ہی دیگر افراد کے لئے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں، یعنی نیک کردار مردو عورت اچھے مردو عورت کے لئے نمونۂ عمل ہیں اور بد کردار مردوعورت، برے مردو عورت کے لئے اسوہ ہیں
    حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے جن کو بڑھاپے کے عالم میں فرشتوں نے ایک عالِم اور بردبار فرزند کی بشارت دی، چنانچہ یہی خوشخبری فرشتوں نے آپ کی زوجہ کو بھی دی فرشتوں نے جنابِ ابراہیم علیہ السّلام سے کہا
 فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِيمٍ‌  (۶)
    پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت دی
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌  (۷)
ہم آپ کو ایک فرزندِ دانا کی بشارت دینے کے لئے اترے ہیں
جناب ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا:
 قَالَ أَ بَشَّرْتُمُونِي عَلَی أَنْ مَسَّنِيَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ‌  (۸)
اب جب کہ بڑھاپا چھا گیا ہے تو مجھے کس چیز کی بشارت دے رہے ہو۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے
 قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ‌ . قَالَ وَ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّالُّونَ‌  (۹)
انہوں نے کہا
ہم آپ کو بالکل سچّی بشارت دے رہے ہیں خبردار! آپ مایوسوں میں سے نہ ہو جائیں
ابراہیمؑ نے کہا کہ:
رحمتِ خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہو سکتا ہے
گذشتہ آیات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام پر بڑھاپا چھا چکا تھا لیکن فرشتوں نے آپ سے کہا: آپ مایوس نہ ہوں، چونکہ فرشتوں کی بشارت اور خوشخبری ہمیشہ ہی سچّی اور حق ہوا کرتی ہے،اس کے علاوہ کوئی بھی مؤمن شخص کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا،چونکہ مایوسی کے معنیٰ ہیں( معاذاللہ )خدا کی قدرت اور توانائی کے بارے میں بدگمانی، یہ مایوسی کفر کی حد تک ہے، کسی بھی انسان کو ناامّیدی اور مایوسی کا حق نہیں ہے ۔
    قرآن ِ مجید جنابِ ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ کی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’ وَ امْرَأَتُہُ قَائِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ‘‘ (۱۰ ) ابراہیم کی زوجہ اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دے دی اور اسحاق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی چونکہ خدا کےفرشتے صرف صاحبانِ کمال اور برگزیدہ افراد پر نازل ہوتے ہیں اور الٰہی وحی اور حقائق کو ان پر نازل کرتے ہیں لہٰذا مذکورہ بالا آیات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ بھی آپ کی ذاتِ گرامی کی طرح کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھی جس کی بنا پر فرشتوں کی بشارت کی سزاوار قرار پائیں ۔
فرعونی ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والی خواتین:
ظلم و ستم سے پیکار کے میدان میں مرد و زن دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے میں خواتین کا کردار حیرت انگیز ہے، قرآن ِ مجید نے ایسی تین خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حفاظت اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جناب موسیٰ کی مادرِ گرامی، ان کی بہن اور فرعون کی بیوی نے جناب موسیٰ کی پرورش کا بیڑا اٹھایا، ان خواتین نے اس دور کے ناگفتہ بہ سیاسی حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنابِ موسیٰ کی جان بچائی
جب حکمِ الٰہی کے مطابق جناب ِ موسیٰ کی مادرگرامی نے اپنے جگرگوشہ کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل کی موجوں کے حوالہ کردیا تو ان کی بہن سے کہا : اس صندوق کا پیچھا کرو۔فرعون کی زوجہ نے فرعون سے کہا : اس بچّہ کو قتل نہ کرو شاید اس سے ہمیں فائدہ پہنچے یا ہم اس کو گود لے لیں، قرآن ِ مجید کا ارشاد ہے
أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَأَلْقِيہِ فِي الْيَمِّ (۱۱)
وَ قَالَتْ لِأُخْتِہِ قُصِّيہِ فَبَصُرَتْ بِہِ عَنْ جُنُبٍ وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۲)
"اور ہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو، اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کا پیچھا کرو تو انہوں نے دور سے موسیٰ کو دیکھا جب کہ ان لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں تھا۔"
فرعون کی بیوی نے بھی کہا:
 قُرَّۃُ عَيْنٍ لِي وَ لَکَ لاَ تَقْتُلُوہُ عَسَی أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَداً وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۳)
"یہ تو ہماری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہٰذا اسے قتل نہ کرو کہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور وہ لوگ کچھ نہیں سمجھ رہے تھے۔"
 فرعون کے زمانہ میں نوزائیدہ بچّہ کی صنف معلوم کرنے کے لئے ہر دودھ پلانے والی عورت کا پیچھا کیا جاتا تھا، تاکہ لڑکا ہونے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے، اس خطرناک ماحول میں جنابِ موسیٰ کی بہن کی طرف سے ایک دائی کی تجویز کوئی معمولی اقدام نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک اقدام تھا، موت سے روبرو ہونے کا مقام تھا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کی مادرِگرامی کا حاملہ ہونا اور بچّہ کو پیدا کرنا سب صیغۂ راز میں تھا، یہ تجویز اور بھی زیادہ خطرناک تھی، لیکن اس پر عمل ہوا اور فرعون کی زوجہ کی تجویز کو بھی قبول کر لیا گیا۔
جنابِ مریم، ان کا مرتبہ اور مقام:
جنابِ مریم بھی ان خواتین میں سے ہیں جن کے مرتبہ، عظمت اور کرامت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، قرآن مجید نے آپ کی ذاتِ والا صفات کو صاحبانِ ایمان کے لئے نمونۂ عمل  قرار دیا ہے،
 ارشاد ہوتا ہے :
 وَ مَرْيَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيہِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌(۱۴)
 اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے ) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی
 آیاتِ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنابِ مریم کی کفالت حضرتِ زکریا علیہ السّلام کے ذمّہ تھی، جب بھی جنابِ زکریا محرابِ عبادت میں جنابِ مریم کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے تو وہاں قسم قسم کے میوہ اور غذائیں دیکھتے تھے، جنابِ مریم علیہا السّلام ان پھلوں اور غذاؤں کے سلسلہ میں فرمایا کرتی تھیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے، پروردگارِ عالم نے  انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے
 ارشادِ ربّ العزّت ہے
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّی لَکِ ہٰذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ(۱۵)
جب زکریا علیہ السّلام محرابِ عبادت میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا اور مریم جواب دیتیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب عطا کردیتا ہے۔
 قرآن کے اعتبار سے یہ بات مستند ہے کہ فرشتے جنابِ مریم سے گفتگو کیا کرتے تھے اور آپ کی باتوں کو سنا کرتے تھے،
ارشاد ہوتا ہے
 وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَی نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ .
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِي وَ ارْکَعِي مَعَ الرَّاکِعِينَ‌ (۱۶(۱۶)
 اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے اے مریم! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
پس عورت بھی عالمِ ملکوت تک رسائی حاصل کرسکتی ہے، وہ بھی فرشتوں کی مخاطب قرار پاسکتی ہے ۔مردوں اور عورتوں میں عفّت اور پاکدامنی کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قرآنِ مجید نے عفیف اور پاک دامن انسان کے تعارف کے لئے مرداور عورت دونوں کی مثال پیش کی ہے، اس میدان میں مرد اور عورت دونوں ہی جلوہ افروز ہیں
قرآن ِ مجید نے مردوں میں سے حضرت یوسف علیہ السّلام اور عورتوں میں سے جناب مریم علیہا السّلام کو عفّت اور پاکدامنی کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، حضرتِ یوسف بھی امتحان میں مبتلا ہوئے اور اپنی عفّت کی وجہ سے نجات حاصل کی، جنابِ مریم علیہا السّلام کا بھی امتحان لیا گیا وہ بھی اپنی عفّت کے سایہ میں نجات سے ہمکنار ہوئیں۔
قرآنِ مجید نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے امتحان کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
 وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَ ہَمَّ بِہَا لَوْ لاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ (۱۷)
اور یقینا اس (مصری) عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے،
اس عورت نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کا پیچھا ضرور کیا لیکن جناب ِ یوسف نے نہ صرف یہ کہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے مقدّمات کو بھی فراہم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس گناہ کا تصوّر بھی نہیں کیا چونکہ وہ اپنے پرودگار کی دلیل کا مشاہدہ کرچکے تھے، ان پر الزام لگانے والے آخر کار ان کی بے گناہی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے
 الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ(۱۸)
توعزیزمصر کی بیوی نے کہا:
اب حق بالکل واضح ہو گیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
ان الفاظ کے ذریعہ عزیزِ مصر نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کی طہارت کی گواہی دی اور بتایا کہ نہ فقط جنابِ یوسف برائی کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ برائی بھی ان کی طرف مائل نہیں ہوئی
 کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَ الْفَحْشَاءَ مِنْ (۱۹)
یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں،
 قرآن کا ارشاد ہے کہ ہم نے گناہ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنابِ یوسف کی طرف جائے
حضرت یوسف تمام عالم انسانیت کے لئے عفّت اور طہارت کا نمونہ ہیں حضرتِ مریم بھی ملکہ ٔ عفّت کے اعتبار سے جنابِ یوسف سے کسی درجہ کم نہیں ہیں بلکہ وہ جنابِ یوسف کی ہم پلّہ یا ان سے بھی بالا ہیں، چونکہ قرآنِ مجید جناب مریم کی حالت کو بیان کرتے ہوئے
 فرماتا ہے
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِيّاً (۲۰ )
 اور انہوں نے کہا کہ اگر تو خوفِ خدا رکھتا ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں،
 جنابِ مریم نہ صرف یہ کہ بذاتِ خود گناہ کی طرف مائل نہیں ہیں بلکہ اس فرشتہ کو بھی امربالمعروف کرتی ہیں جو انسانی شکل وصورت میں متمثّل ہوا تھا اور فرماتی ہیں اگر تم خوفِ خدا رکھتے ہو تو یہ فعل انجام نہ دو حالانکہ حضرتِ یوسف نے خدا کی دلیل اور برہان کا مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا۔
نتیجہ اور ماحصل :
اس مقالہ میں انسانی اقدار کے حصول میں مردو عورت کی برابری کو بیان کیا گیا اور اس حقیقت کو ثابت کیا گیا کہ مردو عورت یکساں طور پر راہِ تکامل اور کمال کو طے کرسکتے ہیں اور میدانِ عمل میں بھی فضائل و کمالات سے یکساں طور پر مزین ہو سکتے ہیں بعض کامل مردوں اور خواتین کو بطورِ مثال پیش کیا گیا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ یہ ہمسری اور یکسانیت محض تھیوری اور نظریہ تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں بھی یہ دونوں صنفیں ان اقدار سے ہمکنار ہوئی ہیں ۔


تحریر : آیۃ اللہ العظمی جوادآملی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن کربلائی


 حوالہ جات
۱۔ سورہ آل عمران، آيہ ۱۹۵.
۲۔الميزان، ج 4، ص 94.
۳۔ سورہ احزاب، آيہ 35.
۴۔ مجمع البيان، ج 7، ص 357  358؛ نورالثقلين، ج 4، ص 275.
۵۔ سورہ نحل، آيہ 97.
۶۔سورہ صافات، آيہ 101.
۷۔سورہ حجر، آيہ 53.
۸۔سورہ حجر، آيہ 54.
 ۹۔حوالہ سابق، آيہ 56
10. سورہ ہود، آيہ 71.
11. سورہ قصص، آيہ 7.
12. سورہ قصص، آيہ 11.
13. سورہ قصص، آيہ 9.
14. سورہ تحريم، آيہ 12.
15. سورہ آل عمران، آيہ 37.
16. سورہ آل عمران، آيہ 42 / 43.
17. سورہ يوسف، آيہ 24.
18. سورہ یوسف، آيہ 51.
19. سورہ يوسف، آيہ 44.
20. سورہ مريم، آيہ 17.

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی حقوق سے مراد  وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق انسانی حقوق [ [Human Rights کے لسٹ میں دیگر تمام حقوق کے ساتھ حق مساوات، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق،یہاں تک کہ جنگلات ،جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق موجود ہیں ۔لیکن آج ۶۸ سال گزرنے کے باوجود آئینی حقوق تو دور کی بات گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق دینے سے بھی انکار کیا جارہا ہے ۔جب بھی یہاں کے عوام  آئینی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں گنی چنی انسانی حقوق سے بھی محروم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور اصل مسئلے سے لوگوں کے اذہان کو ہٹانے کے لیے کبھی گندم کا بحران پیدا کیا جاتا ہے تاکہ یہاں کے لوگ بنیادی انسانی حق کے لیے بھیگ مانگتے رہے اور آئینی حقوق سے توجہ ہٹ جائے تو کبھی نفاذ ٹیکس کے معاملوں کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کو پریشان رکھا جاتا ہے۔اور کبھی اکنامک کوریڈور سے  محرومی اور کبھی  زندگی کے دیگر سہولیات سے محرومی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ انسانی حقوق سے محرومی اور کیا ہوگی کہ جو شاہراہ گلگت بلتستان کے نصف سے زیادہ عوام کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہو اسے بنوانے کے لیے عوام کو کئی سال  احتجاج کرنا پڑے  اور پھر بھی  لیت و لعل کرتے ہوئےوقت گزار ے ۔ہسپتالوں اور صحت کے سہولت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد علاج کے لیے آنے کی ضرورت پڑنا   اوربے روزگاری سے تنگ نوجوانوں کا منشیات ،فحاشی اور دیگر اخلاقی برائیوں میں مرتکب ہونا،  انسانی حقوق   کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟

ایوان اقتدار میں تخت حکومت پر متمکن حضرات وعدے بہت کرتے ہیں وعدہ وفائی ہوئی یا نہیں اس پر کچھ کہنا سعی لاحاصل ہے کیونکہ تاریخ کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔گلگت بلتستان کے غیور عوام نصف صدی سے خالی مصیبتیں اور حقوق کی پامالیوں کی المناک گھڑیاں دیکھتی چلی آئی ہے۔یہ قوم اپنے آئینی حق کے لیے لڑ مر رہی ہے اور بدلے میں اس کی آرزووں اور خواہشات کی تکمیل تو دور اسے انسانی اور بنیادی حقوق [فنڈامنٹل رائٹس]سے بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔اور ارباب اختیار لوگوں کے جائز مطالبات پر آنکھیں بند کرنے لگتے ہیں .یہاں تک کہ  ۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں  حبیب وہاب الخیری کی جانب سے ایک  پٹیشن  داخل ہوئی جس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کو فریق بنایا  گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نےاس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیےا قدامات کیے جائیں۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو ا۔ یہاں کے عوام کو کیسے انصاف ملے گا جب کہ یہاں کے منتخب نمائندے ذاتی مفادات کو ہمیشہ عوامی مفادات پر ترجیح دیتے رہے ہیں ۔ایوان میں قدم رکھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے قدم جمانے کی سوچ میں مگن نمائندے کہاں عوامی حقوق کی بات کرینگے ؟

انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے انسانی اور بنیادی حقوق حاصل کریں اور پھر آئینی حقوق کی جنگ لڑیں کیونکہ ہم ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگوں کو اس ماڈرن دور میں جدید سہولیات زندگی تو دور کی بات فنڈامنٹل رائٹس بھی میسر نہیں ہیں اس عالم میں گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق کی حصول کے سفر کو طے کر کے آئینی حقوق تک رسائی حاصل کرنے میں بڑا ہی وقت لگے گا۔

تحریر۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree