وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان کے مطابق ضلعی سیکریٹری جنرل جعفر علی جعفری نے کہا ہے کہ ہمیں آج جن دشواریوں کا سامنا ہے ان کی بنیادی وجہ تعلیم سے محرومی اور تعلیمی میدان میں پسماندگی ہے، دور جدید میں ترقی یافتہ اقوام کے صف میں کھڑا ہونے کیلئے علم اور ٹیکنالوجی کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تعلیمی میدان میں ترقی کا واسطہ ہماری دلچسپی سے ہوتا ہے، لہٰذا طلباء کے تعلیم میں دلچسپی بے مثال کامیابی کی ضمانت دی سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے طلباء کے ایک وفد سے گفتگو کے دوران کیا ،انہوں نے مزید کہا کہ علم کا حصول معاشرے کے ہر فرد کیلئے ضروری ہے اور طلباء کی تعلیم میں دلچسپی ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔ طلباء کی تعلیم اور اضافی سرگرمیوں میں دلچسپی قابل تحسین ہے اور اسی طریقے سے وہ اپنے پوشیدہ ہنر کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ، علم سے محبت ہمیں ترقی کے پٹری پر لا سکتی ہے۔ اس وقت اساتذہ، سماجی اداروں اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طلباء کی حوصلہ افزائی کرے، مختلف تقریری مقابلوں ، کھیلوں اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں کا انعقاد کریں۔ جن قوموں کو طالب علم کے قدر کا اندازہ ہے اور جنہیں معلوم ہے کہ انکی بقاء کا واحد ذریعہ تعلیم ہے وہی اقوام کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے جدید دور میں تمام تر معلومات طلباء کے دسترس میں ہیں، جدید آلات اور مشینوں سے کسی بھی قسم کے معلومات کو منٹوں میں حاصل کیا جا سکتا ہے، طلباء کو چاہئے کہ ان سہولیات کا مثبت استعمال کر کے ان سے مستفید ہو۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ایک طالب علم پر لازم ہے کہ وہ اپنی تعلیمی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہاگیاہے کہ بلوچستان میں پولیو مہم جاری ہے اور پولیو مہم کے دوران سیکورٹی فورسز کی ایک کثیر تعداد پولیو مہم سے وابستہ اسٹاف کی سیکورٹی کے لیے تعینات کی جاتی ہے اس وجہ سے زائرین کی موومنٹ میں 3 دن کی تاخیر ہوئی ہے، بلوچستان انتظامیہ نے مجلس وحدت مسلمین کہ رکن بلوچستان آغا رضا کو بتایا کہ سیکورٹی کہ سبب ۳ دن کی تاخیر کی گئی ہے تاکہ زائرین کو کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کہ واقعہ سے بچایا جاسکے ، انشاءاللہ اٹھارہ مارچ کو کوئٹہ سے زائرین کے قافلے سکیورٹی حصارمیں کوئٹہ سے تفتان اور تفتان سے کوئٹہ کیلئے روانہ کردیئے جائیں گے۔
آغا رضا کا کہنا تھا کہ زائرین کا تحفظ اولین ترجیح ہے،اس پر سیاست نہ کی جائے ۔ بلوچستان حکومت ہرماہ دو تاریخوں ( ہر مہینہ کی ۱۵ اور ۳۰ تا ریخ ) کوزائرین کےکانوائےکو تحفظ فراہم کرتی ہے قافلہ سالار بھی انہی تاریخوں کی پابندی کریں تاکہ زائرین کو تحفظ کہ ساتھ مشکلات سے بچایا جاسکے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے مسلم لیگی رہنماء، رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کرد گیلو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ چھلگری کے متاثرین کے مسائل حل نہیں ہوئے پانچ ماہ گذر جانے کے باوجودزخمیوں کو کسی قسم کی معاونت نہیں کی گئی جبکہ سانحے میں ملوث دھشت گردوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔ وارثان شہداء انصاف کے حصول کے لئے ارباب اقتدار سے مثبت کردار ادا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایم پی اے عاصم کرد گیلو نے کہا کہ وہ چھلگری کے متاثرین کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور وہ ان کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔اس موقع پر میر عاصم کرد گیلو نے امام بارگاہ کاظمیہ پہنچ کر سانحہ کے متاثرین کے لئے مغفرت کی دعا کی ۔
در ایں اثناء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ حلقہ این اے 267 میں ہونے والے انتخابات کو مکمل طور پر شفاف ہونا چاہئے، متنازعہ ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن سے قبل متنازعہ شخصیت کی تعیناتی کے پیش نظر بلوچستان حکومت کو چاہئے کہ وہ غیر جانبدار افسران کی تعیناتی کو یقینی بنائے۔
در یں اثناء ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی رہنما سید ظفر عباس شمسی نے تنظیمی دورہ جات کا شیڈول جاری کردیا جس کے مطابق صوبائی سیکریٹری جنرل ، کابینہ کے ہمراہ ۲۰ مارچ کو صحبت پور ، ۲۱ کو مارچ کو نصیر آباد جبکہ ۲۲ مارچ کو جعفر آباد کا تنظیمی دورہ کریں گے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رکن اور کونسلر کربلائی عباس علی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او کی نااہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپٹ اور نااہل افسران ملک و قوم کے خدمت پر فائز کئے جائیں گے ، ملک کو ترقی نہیں ملے گی۔ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون کی خلاف ورزی پر ایس ڈی او کیسکو مری آباد ڈویژن کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لیا جانا چاہئے کیونکہ عہدے کا استعمال خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کیلئے کیا جارہا ہے اور جو افراد اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دے وہ کبھی محب وطن نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کرے، انہیں جو مسائل درپیش ہیں ان پر نظر رکھیں اور ان کے حل کیلئے ہم قانونی طور پر اقدامات اٹھاتے ہیں ، جسکا حق ہمیں آئین پاکستان دیتا ہے ۔ بعض علاقوں میں ٹرانسفرمرز کئی بار خراب ہوئے ہیں اور عوام کو بجلی کی عدم دستیابی کا سامنا ہوا ہے مگر نا اہل ایس ڈی او پہلے تو عوام کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہوتا اور بعداً مسلسل جد و جہد کے بعد پرانہ ٹرانسفرمر لگایا جاتا ہے، علاقے کے ضرورت کے اعتبار سے وہاں ڈھائی سو واٹ کا ٹرانسفرمر لگنا چاہئے مگر بارہاں وہی دوسو کلو واٹ کا ٹرانسفرمر لگایا جاتا ہے۔ مگر کچھ افراد اور اعلیٰ افسران جنہیں عوام کی خدمت پر فائز کیا جاتا ہے اور جنہیں ہمارا ساتھ دینا چاہئے،وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انکی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی کا سامنا ہے، جس سے کئی مسائل جنم لے رہے تھے اور ہمیں علاقوں میں سٹریٹ لائٹس لگوانے تھے۔ ہم نے قانونی چارہ جوئی کی اور قانون پر عمل کرتے ہوئے سٹریٹ لائٹس اور بجلی کے ٹرانسفرمرز لگوانے کیلئے حکومتی نوٹس حاصل کیا اورنوٹس کے حصول کے بعد ہم وقت ضائع کئے بغیر عوام کی خدمت کیلئے نکل پڑے ، جن سڑکوں اور گلیوں میں لائٹ لگوانے کی ضرورت تھی ہم نے اپنے جائزے اور علاقہ مکینوں سے مشورے کے بعد وہاں لائٹس لگوائے مگر چند ہفتوں بعد ہی کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او اسماعیل شاہ کے حکم پر متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے تمام سٹریٹ لائٹس جمع کر دیئے اور عوام کیلئے حکومت سے حاصل کردہ ٹیوب لائٹس پر قبضہ کر لیا گیا۔ جو کہ عوام کی حق تلفی اور قانون شکنی کے مترادف ہے۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے قائم کردہ اداروں میں ایسے کرپٹ افراد کی تعیناتی ملک کی پسماندگی کا اہم سبب ہے۔ نیب ایسے افسران پر کھڑی نظر رکھیں جو اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور حکومت اس بات کا نوٹس لے اور کیسکو مری آباد ڈویژن میں کسی قابل اور ہونہار ایس ڈی او کو تعینات کرے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ مارچ کا مہینہ ،ایام فاطمیہ[س] کی راتیں ،یتیم خانہ چوک لاہور،تفتان کا سنسان سفر اور اس سفر میں عجیب راستہ ہے،جہاں نہ آب ہے اور نہ پڑاو،پیاس اتنی ہے کہ دریا کے لب بھی خشک ہیں،خوف اتنا ہے کہ گھوڑوں کی زبانیں تالوں سے چپکی ہیں،دورتک نہ کوئی درخت ہے اور نہ سایہ،خشک زمین خون کی چند بوندوں کو ترس رہی ہے۔
لوگ پابرہنہ، سر ہتھیلیوں پہ لئےگزر رہے ہیں،کتنے ہی تو بدن ایسے ہیں کہ جن پر سر ہی نہیں اور لکیر کے اُس طرف میں کھڑا ہوں۔۔۔
لکیر کے اس طرف اِک شہر ہے جہاں ہر قیمتی شے بکتی ہے،جہاں شیر نہیں بکتے بلکہ شیر اس شہر میں اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنے دانت بیچتے ہیں،جہاں سانپ اپنے زہر کو باقی رکھنے کی خاطر اپنے ہی بچوں کو فروخت کر آتے ہیں،جہاں بدن تراشنے کے لئے سر کاٹ دئیے جاتے ہیں،جہاں انسان نہیں خریدے جاتے بلکہ انسانی جسم کے اعضا بکتے ہیں ،خصوصاً ہاتھ ، زبان اور آنکھیں۔۔۔
وہ ہاتھ کہ جس میں قلم اٹھانے کی طاقت ہو
وہ زبان کہ جسمیں چکھنے کی صلاحیت ہو
وہ آنکھیں جو کچھ نہ کچھ دیکھ سکتی ہوں۔۔۔ان کی قیمت کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔
لوگ دوڑ رہے ہیں اس بازار کی طرف اور گردش دائرے میں ہے۔یہ دائرہ مصلحت کا ہے۔اس دائرے کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔
دائرے کا کوئی افق بھی نہیں پھر بھی مرغ ِ سحرمجھ سے پہلے بانگِ سحر دیتاہے اور میں گلدستہ ازاں پہ کھڑے ہوکر صبح کی تھرتھراتی ہوئی لو کے پرچم پر تھوک دیتا ہوں۔تھوکتابھی ہوں تو خون آلود ۔
ازان دینے کے لئے ایک جرات چاہیے اور میں!میں اس قبیلے کا فرد ہوں ! ہاں میں وہ نامرد ہوں کہ جو اپنے شہیدوں کی گمنام قبروں پر چھپ کر فاتحہ پڑھنے کا عادی ہوچکا ہے۔میں اپنے تاریک کمرے کے گرد ایک دائرہ کھینچ کر ،چند اگربتیاں جلاتاہوں اور چند ٹھنڈی آہیں بھرتاہوں اور پھرسہم جاتا ہوں کہ اگربتیوں کا دھواں کہیں دروازے سے باہر نہ چلاجائے۔
میرے کارواں میں سب حُر ہیں ،سب جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے،لیکن سب میرے سمیت لکیر کی دوسری جانب کھڑے ہیں یعنی ابھی لشکرِ یزید سے باہر نہیں نکلے۔۔۔
آج کی شب اس شہر میں خوف اتنا ہے کہ درودیوار پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں اور کوئی ایک حُر بھی ڈر کے مارے اونچی سانس نہیں لیتا۔۔۔گھوڑوں کے نتھنے سی دئیے گئے ہیں اور ٹانگیں باندھ دی گئی ہیں ۔۔۔لوگوں میں اتحاد ہوگیاہے خاموش رہنے پر،بھیک مانگ کر کھانے پر،گدائی کرکے مسجدیں بنانے پر،ظالموں کے سامنے گڑگڑانے پر۔۔۔
اب یہاں کوئی فساد نہیں ، یہاں کوئی جھگڑا نہیں ،اس شہر والوں نے ایکا کر لیا ہے دائرے میں دوڑنے پر ۔۔۔
یہ لوگ دائرے سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتے ۔۔۔دوقدم تو بڑی بات ہے۔۔۔
اس حالت میں جو چند روز گزرے اور لوگ اس حالت کے عادی ہوگئے تو پھر لوگوں کے ہجوم میں امیرِ شہر نے امن عامہ کے بارے میں ایک لمبی تقریر کر نے کے بعد شہر کے سب سے بڑے دروازے پر یہ کتبہ نصب کروادیا “امن کے شہر میں خوش آمدید”
اب اس شہر میں تاابد جو بچہ بھی جنم لے گا وہ پُر امن ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) عراق انبیا کی سرزمین ہے۔قدیم تہذیب و ثقافت، مناسب محل وقوع اور تیل کے وسیع ذخایر کے حامل ہونے کے سبب عراق کا شمار ایشیا کے انتہائی اہم ممالک میں ہوتا ہے ۔اس کے مشرق میں ایران، جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال میں ترکی اور شمال مغرب میں شام میں واقع ہے۔عراق نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے اور اکثر انبیاء نے یہاں اپنی زندگی گزاری ہے جس کی وجہ سے فلسطین کی طرح اسے بھی انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔
اس سرزمین پر متعدد حکومتیں گزری ہیں، تاہم ہم زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتے بلکہ گذشتہ ایک دہائی میں عراق کے سیاسی حالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
۲۰۰۳ ء میں بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد ۲۰۰۵ ء کے عام انتخابات میں شیعوں کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تو سعودی عرب اور انکے حواریوں پریہاں کے شیعوں کا اقتدار میں انا سخت ناگوار گزرا۔کیونکہ ایران، حزب اللہ اور بشار اسد کی حکومت پہلے ہی سے خطے میں انکی پالیسیوں کی راہ میں رکاؤٹ تھےاور اب پڑوسی ملک عراق میں شیعوں کے مؤثر طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد تو سعودی حکام کی نیندیں ہی اڑ گئیں اور انہیں خطے میں اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آئی۔
لہذا ۲۰۱۱ ء میں امریکہ اور صہیونیزم کے ایماء پر ترکی اور چند دیگر اتحادیوں کے تعاون سےدہشت گرد تنظیم "داعش" کی بنیاد رکھی جس کا مقصدابتدائی مرحلے میں شام اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ تاہم ان دونوں ملکوں میں انہیں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید ترین جنگی ساز و سازمان سے لیس ہونے کے باوجود پانچ برسوں کی تگ و دو کے بعد شام میں وہ نہ صرف بشار اسد کی حکومت کا حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ زیرِ قبضہ علاقے بھی انکے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ جبکہ عراق میں بھی ابتدائی چند کامیابیوں کے بعد آقای سیستانی (دام ظلہ العالی) کی جانب سےداعش کے خلاف اعلانِ جہاد سے نہ صرف انکی پیش قدمی روکی گئی بلکہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔
اب جب سعودی عرب اور ترکی کی یہ مشترکہ پالیسی کارساز نہ ہوئی تو وہ عراق کو تقسیم کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۵ برسوں سے بند سفارت خانہ دوبارہ بغداد میں کھول دیا ہے اور وہاں سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے صوبہ نینوا کو "داعش" کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے رضاکار فورس "حشد الشعبی" کی شرکت کی مخالفت کی ہے اور عراق کے سرحدی علاقے کردستان کی خود مختاری اور استقلال کی کھول کر حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر یہاں داخلی انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ انکا اگلاہدف عراقی شیعوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت بدظن کرکے عراقی شیعوں کو ایران سے دور رکھنا ہے۔
دوسری جانب ترک حکومت نے بھی اپنی فوج تمام تر جنگی ساز و سامان کے ساتھ موصل کے شمال مشرق میں واقع "باشقیہ" نامی قصبہ روانہ کر دی ہے جس کا مقصد عراقی فوجیوں کی جنگی تربیت بتائی گئی ہے۔ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عراقی فوجیوں کی کمانڈینگ صوبہ نینوا کے سبکدوش گورنر اثیل النجیفی کے سپرد گی گئی ہے جواس سے پہلے موصل میں داعش کے ساتھ ہمکاری کے الزام میں اپنے عہدے سے فارغ کیا جا چکا ہے۔
در حقیقت ترکی ہمیشہ موصل ا ور صوبہ نینوا کو اپنی آبائی سرزمین سمجھتی ہے۔ ۲۰۰۹ ء میں ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داود اغلو نے موصل کے دورہ کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہمارے آباء و اجداد گھوڑوں پر یہاں آیا کرتے تھے اور ایک وقت آئے گاجب ہم جدید ترین جنگی وسائل کے ساتھ یہاں قدم رکھیں گے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ترکی ماضی کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو زندہ رکھتے ہوئے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ نینوا کو داعش کے کنٹرول سے خارج ہونے کی صورت میں اس صوبے کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا یہ ایک خود مختار ریاست بنے گی؟ یا یہ علاقہ ترکی کے زیرِ انتطام آئے گا؟ اور یا اس علاقے کے امور عراق کے مرکزی حکومت کے تحت چلائے جائیں گے؟
ادھر عراق کے پارلمانی رکن اور قومی سیکیورٹی کونسل کے رکن بھی فارس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اسے عراق کو تقسیم کرنے کی سامراجی سازشوں کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جو مالی اور دفاعی حوالے سے مرکزی حکومت سے لا تعلق ہو وہ آخر کار ہی مرکزی حکومت سے کٹ ہی جائے گا اور اس کے جدا ہوتے ہی کردستان بھی الگ ہو جائے گا کیونکہ وہاں پہلے ہی آزادی اور خود مختاری کی تحریکیں جاری ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی عراق میں امریکی پسند پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زمینہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے عراق سے دہشت گردوں کے صفایا میں تعاون کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کی صورت میں ملکی نظام ایک فیڈرل حکومت کے تحت چلایا جائے گا جو تین حصوں میں تقسیم ہوگی اور اس کی مرکزی حکومت بغداد میں ہوگی۔ اور داعش کے خلاف گذشتہ چند برسوں سے برسرپیکار رضاکار شیعہ فورسز کو منحل کیا جائے گا۔
اب عراق میں فیڈرل حکومت تشکیل ہوتی ہے تو اس سے عراق کی تقسیم کے لیے راہ ہموار ہو جائے گا اور مرکزی حکومت ہمیشہ کمزور رہے گی جس سے امریکہ، اسرائیل اور خطے میں امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور وہ آسانی کے ساتھ خطے میں من پسند پالیسیاں لاگو کر سکیں گے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد مطہری