وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین نے کراچی ، حیدرآباد ، ہالا(سندھ) کوئٹہ ،پاراچنار اور بھکرکے انتخابی حلقوں میں برادرران کے شانہ بشانہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی خواتین نے بھرپور فعال کردار ادا کیا ہے ۔ کراچی اور ہالہ میں خواہر سیدہ سیمی نقوی صوبائی سیکرٹری روابط مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین صوبہ سندھ ، خواہر غزالہ جعفری ، خواہر فرح زہراء ، خواہر نصرت نقوی ،خواہر انجم زہراء اس کے علاوہ اولڈ رضویہ کی خواہران نے الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے بھی بھر پور تعاون کیا ہے اور ابھی تک گھر گھر جاکر رجسٹریشن ، کارڈز کی تیاری اور انتخابی لسٹوں میں خواتین کی راہنمائی کے حوالے سےکافی حد تک کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔ کوئٹہ میں انتخابی مہم کے لئے خواہر نرگس سجاد جعفری اور خواہر فرحانہ گلذیب نے شعبہ خواتین کے مرکزی سیکرٹریٹ کی جانب اعزام ہوئیں جنہوں نے کوئٹہ میں مختلف مقامات پر انتخابی اجتماعات اور کارنرز میٹنگز سے خطاب کیا اور کوئٹہ میں علمدار روڈ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ڈور ٹو ڈور جاکر لوگوں کو بالخصوص کوئٹہ کی خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے اورمجلس وحدت کےنامزد امید وار کو ووٹ کاسٹ کرنے کے حوالے سے بریف کیا ۔ جب کوئٹہ سے خواہران کا فیڈ بیک لیا گیا تو برادران نے بتایاکہ شعبہ خواتین کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جن خواہران کو کوئٹہ بھیجا گیا انہوں اپنا بھرپور رول ادا کیا ہے ۔ ہم شعبہ خواتین سے التماس کرتے ہیں کہ کوئٹہ میں بھی مرکزی خواہران کی طرح کا سیٹ اپ بنادیں ۔ کیونکہ خواہرنرگس سجاد جعفری اور فرحانہ گلزیب صاحب نے کئی ایسی خواتین کو بہت اچھے انداز سے قائل کرلیا جو اپنا ووٹ کاسٹ ہی نہیں کرناچاہتی تھیں اور محلوں میں وہ خواتین اپنا اثر ورسوخ بھی رکھتی تھیں ۔ مرکز کی ان خواہران کی وجہ سے وہ خواتین جو ووٹ ڈالنے کی مخالف تھیں یا اپناووٹ کسی اور جگہ کاسٹ کرناچاہتی تھیں ،وہ آخری دنوں میں مرکز سے اعزام کی گئی خواہران کے ساتھ انتخابی مہم میں شامل ہو چکی تھیں اور یہ ایک قسم کی کوئٹہ میں بہت بڑی کامیابی تھی ۔

اسی طرح پارا چنار میں خواہر سیمی زیدی ،خواہر سمیرا اور خواہر عقیلہ مرکز سے اعزام ہوئیں۔ پاراچنار میں برادر شبیر ساجدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان وہ واحد نامزد برائے نیشنل اسمبلی امید وار ہیں جو خیمہ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ پاراچنار میں خواتین کو ووٹ کے لئے گھروں سے باہر نکالنا بہت مشکل مرحلہ تھا جسے مرکزکی جانب سے بھیجی گئی خواتیں نے بڑے اچھے انداز سے انہیں قائل کر لیا ۔ صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ مرودں کو بھی قائل کیا کہ وہ خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے اجازت دیں ۔ جس پر دیکھا کہ مرکزی کی جانب سے بھیجی گئی خواتین ۔ پارار چنار میں گائوں گائوں اور گھر گھر جا کر برادر شبیر ساجدی کے لئے کمپین چلاتی رہیں ۔پاراچنار کی تاریخ میں خواتین کا گھر گھر اور گائو ں گائوں جاکرانتخابی مہم میں خواتین کے انتخابی جلسوں سے خطاب اور انہیںاپنا ووٹ ڈالنے کی جانب راغب کرنا ،پہلی بار دیکھا گیا ہے ۔ جسے وہاں کی خواتین نے بہت سراہا اور خواہش ظاہر کی کہ یہاں پر بھی خواتین کا یونٹ قائم کیا جائے ۔

برادر شبیر ساجدی کا کہنا تھا اگرچہ میری بیگم ایک کالج کی پروفیسر ہے مگر وہ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے رہی تھیں جب سے مرکز کی خواہران آئیں انہوں نے ایسا تربیتی ماحول پیش کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم کا حصہ بن گئی اور اب جبکہ مرکزی خواہران چلی گئی ہیں وہ اپنے چند اور خواتین کو ساتھ ملا کر کمپین خود سے چلا رہی ہیں اور یہ بات یہاں کے معاشرے میں بہت اہم ہے ۔ کہ خواتین معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں ۔

 شعبہ خواتین کے مرکزی سیکرٹریٹ سے ضلع بھکر کے حلقہ این اے 90  کے لئے خواہر شاداب کی سربراہی میںتین خواہران کو اعزام کیا گیا تھا جنہوں نے حلقہ نوے میں ۵ دن کی بجائے ۹ دن تک بہت ہی عمدہ انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔ خواہران کے اس مثبت کرادر کو دیکھتے ہوئے کوئٹہ اور پارا چنار کی طرح بھکر میں بھی ۵ دن سے بڑھا کر انتخابی مہم کا دورانیہ9 دن کردیا گیا ۔ برادر احسان اللہ خان کے خاندان کی خواتین کے ساتھ ساتھ گھر گھر جاکر اور مختلف یونین کونسلز میں جاکر خواتین بہت ہی خوبصورت انداز میں انتخابی مرحلے کی کمپین کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔ انشاءاللہ خواتین کے جذبے اور کنونس کرنے کے انداز کو دیکھ کر بھکر کی خواتین جلد ہی شعبہ خواتین کا یونٹ اوپن کریں گی ۔

بھکر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نامزد امیدوار جناب احسان اللہ خان بلے کے نشان پر پی ٹی آئی کے بھی مشترکہ امیدوار ہیں ۔ شعبہ خواتین کی خواہران نے ایسا سیاسی ماحول پیدا کردیا تھا کہ خواتین اس حلقے سے نہ صرف اپنا ووٹ کاسٹ کریں گی بلکہ اپنے کنبے اور محلے کے ووٹ کے بھی کوشش کریں گی انشاء اللہ ۔

راولپنڈی کے حلقہ 60 راولپنڈی میں جناب مختار عباس کی انتخابی مہم میں ضلع راولپنڈی کی تمام خواہران نے خواہر قندیل زہراء کی سربراہی میں پورے حلقے میں بھر پورطریقے سےانتخابی کمپین میں حصہ لیا اور شب و روز گھر گھر جا کر خواتین کو ووٹنگ کے لئے قائل کیا اور این اے ۶۰ کے نامزد امیدوار برائے قومی اسمبلی جناب مختار عباس کی انتخابی مہم کو بھر انداز سے چلایا ہے ۔ جس پر جناب مختار عباس اور ان کی مسزز نے ایم ڈبلیو ایم کی خواتین کا بہت زیادہ شکریہ ادا کیا ہے ۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرمیں امن وامان کی بحالی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ایم ڈبلیو ایم کی اولین ترجیح ہے جبکہ بین الاقوامی استعماری طاقتوں کی غلامی سے آزاد اور عوامی امنگوں کے مطابق داخلہ وخارجہ پالیسی کی تشکیل کیلئے پارلیمنٹ سمیت دیگر فورمز پر آواز اٹھانا ہمارا مشن ہے ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم حلقہ پی بی27سے صوبائی اسمبلی اور این اے 265 قومی اسمبلی کے امیدوار آغا رضا نے مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نے سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر مجھے حلقہ پی بی27سے ٹکٹ دیا جس کا مقصد علاقے میں فراہمی آب ہزارہ ٹائون اور علمدار روڈ سمیت بجلی کی لوڈشیڈنگ ناقص وولٹیج سے نجات اور طلباء وطالبات کیلئے سکولز کالج یونیورسٹیز اور ٹیکنیکل سینٹرز کا قیام یقینی بنانا ہے انہوں نے کہا کہ ہماری سابقہ کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے علاقے کے عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی قبائلی ومذہبی رواداری اقلیتوں کو حقوق کی فراہمی اور خواتین کے حقوق اور انہیں معاشرے میں یکساں حقوق کی فراہمی کیلئے جدوجہد ہمارے منشور کا حصہ ہے آخر میں انہوں نے اہلیان علاقہ سے اپیل کی ہے کہ آج بروز اتوار شام چار بجے منعقد ہونے والے سید آباد برمہ علمدار روڈ کے جلسے میں بھرپورشرکت یقینی بنائیں۔

وحدت نیوز(سکردو)  امام جمعہ باغیچہ کھرمنگ حجتہ السلام شیخ اکبر رجائی نے جمعہ کے خطے میں کہا کہ ہے کہ عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور آواز بلند کرنے اور حکمران جماعت کی سیاہ کاریوں سے پردہ اٹھانے کے جرم میں عالم مبارزآغا علی ضوی اورگلگت بلتستان کی دیگر اہم شخصیات کو شیڈول فور کے نام پر انتقام کا نشانہ بنانا موجودہ حکومت کی بدترین عمل اور عوامی حقوق کے لیے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش ہے اس طرح کے فیصلوں سے نہ عوامی حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں کمی آئے گی اور نہ ہم مرعوب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے غلط اقدام کی صورت میں خطے میں جو صورتحال پیش آئے گی اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلگت بلتستان میں شیڈول فور نامی سیاسی پھندے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کھرمنگ کے عوام عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیت آغا علی رضوی ، شیخ کریمی اورایکشن کمیٹی کے دیگر ممبران کو شیڈول فور سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ دار ادارے فوری طور پر سنجیدہ اقدام اٹھائیں بصورت دیگر سخت ترین ردعمل دینے پر عوام مجبور ہونگے۔

 امام جمعہ گمبہ سکردو شیخ محمد حسن عابدی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا بدترین سیاسی استعمال ہو رہا ہے۔ پرامن عوامی جدوجہد کرنے والے علماء اور سماجی کارکنان کو شیڈول فور میں ڈالنے کی حکومتی کوشش کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مقتدر حلقے شیڈول فور کے سیاسی استعمال کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے بصورت دیگر سخت احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آغا علی رضوی اور شیخ کریمی سمیت ایکشن کمیٹی کے دیگر ممبران کو شیڈول فور میں ڈالنا سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔ ہم مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آغا علی رضوی، شیخ کریمی اور دیگر شخصیات کو فی الفور شیڈول فور سے نکالے بصورت دیگر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے عوام شیڈو ل فور کے نام سے گبھرانے والے نہیں بلکہ حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

امام جمعہ حسین آباد سکردو آغا مظاہر حسین موسوی نے جمعہ کے خطبے میں کہا ہے کہ اتحاد بین المسلمین کے داعی آغا علی رضوی کو شیڈول فورتھ میں ڈالنا پورے خطے کی توہین ہے اور عوامی حقوق کے لیے اٹھنے والی توانا آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے آغا علی رضوی کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ حکومت ہوش کے ناخن لیں اور غلط فیصلوں سے باز رہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی کے حق میں آج تمام تر مکاتب فکر کے پیروکار آواز بلند کر رہے ہیں ۔ غذر سے ہنزہ نگر اور استور سے گانچھے تک کے عوام آغا علی رضوی ، شیخ کریمی اور دیگر عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوںکو شیڈول فور میں ڈالنے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حکومت فوری طور پر اپنا غلط فیصلہ واپس لے بصورت دیگر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ پچیس جولائی کو ملک دشمنوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال جائیگا۔ دو دو اور تین تین باریاں لینے والوں نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل کئے۔پچیس جولائی ان کے احتساب کا دن ہوگا۔علامہ راجہ ناصر عباس نے 25 جولائی کو کرپٹ اور امریکہ نواز ٹولے کیخلاف فیصلہ کن دن قرار دیا۔ملیر جعفر طیار میں مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف کی جانب سے حلقہ این اے 237 اور پی ایس 89 مشترکہ امیدواروں کے انتخابی جلسہ سے خطاب میں علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھاکہ ان کا پی ٹی آئی سے اتحاد ملک دشمنوں کے خلاف ہے۔پی ٹی آئی امریکا اور ملک دشمنوں سے نمٹنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ نوازشریف نے ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کئے اور قومی دولت پر ڈاکہ مارا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں لسانیت اور مذہبیت سے نکل کر ایک قوم بننا ہوگا، جس طرح پاکستان بناتے وقت شیعہ سنی اکھٹاتھے 25 جولائی کو پاکستان بچانے کیلئے بھی اکھٹا ہونا ہوگا، یہ الیکشن پاکستان کی بقاءوسلامتی کا ضامن ہے، اگر اس الیکشن میں ملک دشمن قوتوں کے آلہ کاروں کو شکست نا دی گئی تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑجائے گا، ہماری ن لیگ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ان کی کرپشن اور ملک دشمن ایجنسیوں سے تعلقات پر اختلاف ہے، عوام پچیس جولائی کو نئے عزم وحوصلے کے ساتھ گھروں سے نکلیں اور امریکہ، اسرائیل اور ہندستان کے ایجنٹوں کو شکست فاش سے دوچار کریں۔

جلسہ سے خطاب میں این اے دو سو سینتیس سے ایم ڈبلیو ایم اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امیدوار کیپٹن (ر)جمیل خان نے پچیس جولائی کو ظلم کے نظام سے بغاوت کا دن قرار دیا ان کا کہنا تھاکہ ظالم حکمرانوں کے کتوں کیلئے اے سی لگے ہیں جبکہ غریب سے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے۔کرپٹ حکمرانوں کے خلاف ایم ڈبلیو ایم و تحریک انصاف کی قیادت کا نظریہ ایک ہی ہے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے کرپٹ نظام کو تبدیل کر دیں انشاء اللہ 25 جولائی جیت بلہ کی ہوگی۔

اپنے خطاب میں پی ایس نواسی پر مشترکہ امیدوار علی حسین نقوی نے دعویٰ کیا کہ پی ایس 89 کی نشست ہی نہیں عوام کے دل بھی جیت رہے ہیں۔پچیس جولائی کو انصاف کا سورج طلوع اور ظلمتوں کا خاتمہ ہوگا۔قائد و اقبال کے پاکستان کو لوٹنے والوں کو ملکی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ایم ڈبلیوایم کے نامزد امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 254 علامہ محمد علی عابدی نے خطاب میں کہا کہ وحدت مسلمین نے ہمیشہ اتحاد و حدت کی بات کی ملکی عوام اپنے دشمن سے آگاہ ہیں ملک لوٹنے والوں اور عوام کو زنگ و نسل اورمذہب کے نام پر تقسیم کرنے والوں کی اس ملک میں اب کوئی گنجائش نہیں۔انتخابی جلسہ میں پاکستان عوامی تحریک کے صوبائی رہنما خان محمد بلوچ نے مجلس وحدت مسلمین اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امید واروں کی حمایت کا اعلان کیا۔جبکہ جلسہ میں ایم ڈبلیو ایم رہنما علامہ صادق جعفری،علامہ نشان حیدر،علامہ۔مبشر حسن،میر تقی ظفر،پی ٹی آئی کے رہنما بلال نیازی، خطاب شاہ،شہباز بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) شہباز شریف کے ہوتے ہوئے نواز شریف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے ن لیگ عملی طور پر خاتمے کی جانب گامزن ہے۔2018 کی آئی جے آئی ایم ایم اے کی صورت میں سامنے آچکی ہے کالعدم شدت پسندگروہوں کو الیکشن میں اتارکر جنرل ضیاء کی پالیسی کو دہرایا جا رہا ہے گزشتہ روز سینٹ اجلاس میں بھی ہمارے موقف کی تائید ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ ن لیگ اپنے گناہوں کی سزا پار ہی ہے ،ملک کو دونوں ہاتھو ں سے لوٹنے والوں کا کڑا حساب ہونا چاہئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک میں امیدوارن اور جماعتوں کی مذہب کے نام الیکشن مہم کا نوٹس لے ،مذہب کے نام پر سادہ لوح عوام کو سیاسی مقاصد کے لئے گمراہ کیا جا رہا ہے۔2018 کی آئی جے آئی ایم ایم اے کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ایم ایم اے اور اس کی ٹیم نے ہمیشہ اقتدار کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کی ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ کالعدم شدت پسندگروہوں کو الیکشن میں اترا کر جنرل ضیاء کی پالیسی کو دہرایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز سینٹ اجلاس میں بھی ہمارے موقف کی گونج سنائی دی۔اگر یہ تکفیری اور شدت پسند کچھ افراد قانون ساز ادارے میں پہنچ گئے تو اس پارلیمنٹ کے تقدس کا خدا ہی حافظ ہے اس صورت میں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہو جائے گا ،اس غلطی کا خمیازہ ہماری نسلیں بھگتیں گی۔ماضی کی غلطیوں سے سبق نا سیکھا گیا تو ملکی امن شدید متاثر ہوسکتاہے۔ایم ڈبلیوایم پاکستان ملک میں وحدت واخوت کی علمبردار جماعت ہے۔انشاللہ ہم ملک سے تکفیریت کا خاتمہ کر کے رہیں گئے او ر ملک میں قائد و اقبال کا روشن ترقی یافتہ شدت پسندی سے پاک پاکستان بنائیں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ تحریک پاکستان جب چل رہی تھی تو تمام مسلمان ( شیعہ و سنی) مل کر کام کر رہے تھے  اور قیام پاکستان کی  مرکزی قیادت شیعہ و سنی رہنماوں  کے ہاتھ میں تھی  جبکہ مکتب دیوبند قیامِ پاکستا ن کا کٹر مخالف اور کانگرس کا مکمل طور پر  سیاسی حلیف تھا۔

اس وقت میں دفاعِ امامت کے نام سے حال ہی میں لکھی جانے والی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ تکفیریوں کی طرح  اہل تشیع میں بھی کچھ لوگ پاکستان میں جمہوریت کے مخالف  ہو چکےہیں  اور اس طرح پاکستان کو کمزور کرنے میں کوشاں ہیں۔ حالانکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ پاکستان کا پہلے سال کا بجٹ راجہ صاحب محمود آباد ایک شیعہ نے ادا کیا. پاکستان کا پہلا بنک بھی شیعہ نے بنایا. پاکستان کا پہلا اخبار بھی شیعہ نے قائد اعظم کے حکم پر شروع کیا. پاکستان پہلی ائر لائن کی بنیاد بھی شیعہ نے رکھی اور اسی طرح قیامِ پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک بریلوی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

رہی بات  دیوبندی و سلفی حضرات کی تو انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا اور سرکاری اداروں میں اپنے سہولتکاروں کو بٹھایا جس کی وجہ سے آج وہ پاکستان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ  اس طاقت کے حصول کے لئے انہوں نے شیعہ و سنی  دونوں کا ڈٹ کر قتلِ عام بھی کیا ہے.

تاریخ تشیع میں علامہ شہید سید عارف حسین الحسینی وہ پہلی شخصیت ہیں کہ  جنہوں نے اہل تشیع کے ضعف کے علاج کا نسخہ سیاسی طور پر طاقتور ہونا بتایا. اور انکے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے اور انہیں سیاسی طور پر مضبوط کرنے کا عہد اور عزم کیا. اور مینار پاکستان پر لاکھوں شیعیان حیدر کرار کے اجتماع میں اعلان کیا گیا کہ اب ہمیں بھی حکومت چاھیے ، اب ہمیں بھی وزارت چاہیے. اور یہ اعلان ہی شاید انکی مظلومانہ شہادت کا سبب بنا ۔

یہ  افسوس کن امر ہے  کہ آج اہلِ تشیع میں بھی وہابیوں اور دیوبندیوں کی طرح سوچنے والے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو ایک باقاعدہ جمہوری و سیاسی عمل سے گزرنے کے بجائے کسی بھی ہتھکنڈے کے ساتھ حکومت کو ہتھیانا چاہتے ہیں اور جمہوریت و سیاست کوکفر اور شجرِممنوعہ سمجھتے ہیں۔یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو طالبان و داعش کی طرح حکومت تو ہتھیانا چاہتے ہیں لیکن جمہوری سسٹم کا حصہ بنے بغیر۔ گویا ایک متشدد اور تکفیری سوچ اہل تشیع میں بھی سرایت کر رہی ہے۔

یہ لوگ پہلے اپنے ذھن میں ایک مفروضہ بناتے ہیں کہ لوگوں کا عقیدہ اور ایمان یہ ہے پھر اس پر تضحیک آمیز تجزیہ وتحلیل پیش کرتے ہیں.

  پہلے ایک حقیقت خارجی کو محض ایک مفروضہ یا حقائق کے خلاف بیان کرتے ہیں پھر اس پر مفصل طولانی بحث کو  توھین وتجریح کے کلمات کے ساتھ ذکر کرتے ہیں. نہ تو انکے پاس اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کے لئے  کوئی روڈ میپ ہے. اور نہ ہی وہ کوئی  عملی قدم اٹھاتے ہیں . خود میدان سیاست میں آتے نہیں اور دوسروں کی حوصلہ شکنی اور ان پر نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں.بالکل داعش، القائدہ اور طالبان کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک بنی بنائی حکومت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ لوگ  دوسروں کو کم عقل اور اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے شیعہ،  نظامِ امامت و ولایت پر ایمان و یقین نہیں رکھتے۔

ہمارا ان سے سوال ہے کہ آپکو کس نے کہا کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے  یعنی آپ کے علاوہ سب پاکستانی شیعہ علماء ہوں یا غیر علماء وہ نظام ولایت وامامت کو قبول نہیں کرتے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ امامت و ولایت ہی تشیع کی اساس ہے!؟

یہ لوگ  خود حکم ثانوی کے تحت حزب اللہ کو تو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ فرانس کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام اور جسے معاہدہ طائف کے تحت دوبارہ لبنان حزب اللہ کی شراکت سے چلایا جارھا ہے اس کا حصہ بنیں اور انتخابات میں شرکت کریں.  کیونکہ سیاسی طور پر طاقتور ہوئے بغیر نہ تو حزب اللہ اپنے وجود کا دفاع کر سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کا مقابلہ کر سکتی ہے.

ہمارا ان سے دوسرا سوال ہے کہ کیا پاکستان میں جب شیعہ و سنی  سیاسی طور پر کمزور ہونگے تو اس کا انہیں مزید کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اس سے تکفیریت، وہابیت اور دیوبندی مکتب کو مزید طاقت نہیں ملے گی؟

اگر پاکستان کے شیعہ و سنی سیاسی طور پر مضبوط ہوتے تو کیا انتخاباتی مہم کے دوران تکفیری عناصر انہیں اس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹ سکتے تھے!؟ اور کیا کسی کویہ کی جرات ہو سکتی تھی کہ وہ  پاکستان کو کافرستان ، پاک فوج کو ناپاک فوج اور قائد اعظم کو کافراعظم کہے!؟

 ہمارا  ان لوگوں سے سوال ہے کہ  قیام پاکستان کے دشمنوں کے لئے میدانِ سیاست خالی کر دینا عقلمندی ہے یا بیوقوفی!؟

ہم ان لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ عددی نسبت کے لحاظ سے لبنان میں شیعوں کی تعداد پاکستان کے شیعوں سے زیادہ ہے اور ملک کو اسرائیل کے قبضے سے بھی شیعوں نے اپنی مقاومت سے آزاد کروایا ہے.  اگر پاکستان میں  الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والے شیعہ حضرات انکی جگہ لبنان میں  ہوتے تو کیا شراکت اقتدار قبول کرتے یا وھاں پر نظام ولایت وامامت قائم کرتے اور جمھوری اسلامی ایران کا لبنان کو ایک صوبہ بناتے.

ان لوگوں کے  افکار کے کی ترجمان کتاب "دفاع امامت" کو آج ص نمبر 105 سے ص نمبر 124 کو دو بار پڑھا. جس سے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی  ہیں انہیں چاہیے کہ  حزب اللہ کے بارے میں مطالعہ کریں اور حزب اللہ کو تخیلاتی افسانے کے بجائے حقیقت کے قالب میں ویسا سمجھیں جیسی کہ حزب اللہ حقیقت میں ہے۔

انہوں نے حزب اللہ کے بارے میں ص 115 پر لکھا ہے :

" اسی طرح معاشی نظام انکا اپنا ہے. کاروبار انکا اپنا ہے. تجارت انکی اپنی ہے. تعلیمی سسٹم انکا اپنا ہے. تمام چیزیں انکی اپنی ہیں اور تمام چیزوں میں خود کفیل ہیں. ان تمام چیزوں میں وہ حکومت کے اسیر نہیں ہوتے. حکومت کے فیصلوں میں انکے تابع نہیں ہیں. حکومت کے معین کردہ نظام کے مطیع نہیں ہیں. ان تمام امور کے اندر حکومتی ڈھانچے کے اتباع کرنے والے نہیں ہیں. "

 اس پیرا گراف  میں یا تو بالکل سفید جھوٹ  بولا گیا ہےاور یاپھر مصنف کی معلومات بالکل صفر ہیں ، زمینی حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کا لبنانی شیعوں کے لئے کوئی مستقل معاشی نظام نہیں ہے.  ویلفیئر کے بعض ادارے ہیں جن سے بعض حاجتمند استفادہ کرتے ہیں. لیکن عوام کی معیشت ملکی نظام سے جڑی ہوئی ہے حکومت کے سب اداروں میں لوگ نوکریاں کرتے ہیں اور حکومتی خدماتی اداروں بلدیات سے وزارتوں تک  سے خدمات حاصل کرتے  ہیں ۔

حزب اللہ کی اعلی قیادت سے راقم الحروف نے  بالمشافہ سنا ہے کہ نہ تو ہماری تنظیم کی کوئی تجارت ہے اور نہ ہی کاروبار  اور آپ خود بھی مختلف ذرائع سے تصدیق کر سکتے ہیں.

اسی طرح  لبنان کے شیعوں کا  کوئی مستقل تعلیمی سسٹم نہیں  ہے. لبنانی شیعوں کی اکثریت قاطع حکومتی اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہے. بہت سے مشرقی ومغربی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں اور حزب اللہ کا بھی ایک المھدی اسکولز سسٹم ہے جس کے تحت چند علاقوں میں اسکولز قائم ہیں اور ایک تعداد بچوں کی ان اسکولوں میں پڑھتی ہے اور یہ ادارے بھی رجسٹرڈ ہیں. امریکن یونیورسٹی بیروت میں شیعہ جوان کافی تعداد میں پڑھتے ہیں اور اعلی تعلیم کے لئے فرانس امریکا جرمنی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں.  سوریہ کی یونیورسٹیوں میں بھی کافی تعداد میں لبنانی  نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں.

اسی  کتاب میں ص115  پر لکھا ہے:

"اگر کوئی یہ کہے کہ حزب اللہ طاغوتی نظام کا حصہ ہے تو اسے استغفار کرنا چاہئے.  اسے نہ نظام امامت کی ابجد کا پتہ ہے اور نہ حزب اللہ کی حیثیت کا علم ہے."

میرا مصنف سے سوال ہے کہ  کیا لبنان کا نظام حکومت طاغوتی  نہیں!؟  یا کیونکہ حزب اللہ اس میں جب عملی طور پر پارلیمنٹ ، وزارت اور ریاست ہر چیز میں شریک ہے تو اس نے اس طاغوتی نظام کا استحالہ کر دیا ہے. ؟

اس "دفاع امامت" کتاب میں جو تھیوری اور آئیڈیالوجی حزب اللہ کے عنوان کے تحت ان مذکورہ صفحات میں پڑھی یہ کافی حد تک اس تھیوری اور آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھتی ہے جسکا پروپیگنڈہ آجکل حزب اللہ مخالف اور دشمن العربیہ ، الجزیرہ یا دیگر انٹرنیشنل میڈیا کر رھا ہے.

. اور جس ویڈیو خطاب کا حوالہ دیا اسی کی بنیاد پر دشمن بھی پروپیگنڈا کر رھا ہے اور حزب اللہ کی لیڈرشپ اپنے دسیوں بیانات اور خطابات میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہمارا اصل ھدف کیا ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور واضح بیان کر چکے ہیں جب تک ملک کی اکثريت ہمارے سیاسی نظام کو قبول نہیں کرتی ہم اپنی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں گے.  اور ملک کے نظام کو معاھدہ طائف اور موجود نظام کے مطابق دوسروں کے ساتھ ملکر چلائیں گے. اس انتخابات میں حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے سیکورٹی رسک کی پرواہ کئے بغیر الیکشن کمپین کی خود سربراہی کی ہے. اور اعلان کیا کہ ہم نئی حکومت میں کرپشن کے خاتمے پر بھرپور توجہ دیں گے.

اس نہج پر سوچنے والے افراد عوام کو پاکستان سے مایوس کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی تکفیریوں اور پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے چونکہ شاید یہ اُن کے ہم مشرب ہیں اور ان کا ایجنڈہ مشترکہ ہے۔اہل تشیع کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی سازشوںمیں آکر ملک و قوم سے مایوس ہونےکے بجائے میدانِ سیاست میں آکر اپنا فعال کردار ادا کریں۔

سیاست سے علیحدگی کا  تجربہ صدام حسین کے دور اقتدار سے پہلے عراق کے  شیعہ علماء نے کیا تھا اور سیاسی نظام سے علیحدگی کی پالیسی اختیار کی تھی. اس کے بعد انہیں 35 سال تک صدام کی آمریت کا دور دیکھنا پڑا.

جب لوگوں کو جمہوریت اور عوامی طاقت سے مایوس کردیا جاتا ہے تو پھر ان پر آمریت مسلط کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ہماری شیعانِ پاکستان سے یہ درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے شیعہ و سنی کی تفریق مٹا کر سیاسی میدان میں فعال ہوں اور  مایوسی و تھکاوٹ کے مارے ہوئے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ یہ ملک ہم سب نے مل کر بنایا تھا اور اس ملک کو ہم سب نے مل کر ہی سنوارنا ہے۔

تحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree