وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان کے مختلف محکموں میں تقرریوں کے حوالے سے آئے دن بے ضابطگیوں اور سیاسی اثر رسوخ کی خبریں زبان زد عام ہیں۔چیف سیکرٹری گلگت بلتستان مستحق افراد کا استحصال روکنے کیلئے اپنے زیر سایہ اچھی شہرت کے حامل آفیسران پر مشتمل ریکروٹمنٹ کمیٹی تشکیل دیں۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کسی طور پر بھی سابقہ حکومت سے پیچھے نہیں۔کرپشن اور اقربا پروری اپنے عروج پر ہے جبکہ حکومت زبانی طور پر میرٹ کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور عملی طور پر اندرون خانہ ملازمتوں کی بندربانٹ جاری ہے۔ای پی آئی اور سولڈ ویسٹ منیجمنٹ میں ملازمتوں کی بندربانٹ کی گئی ہے اور تقرریوں کیلئے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے باقاعدہ لسٹیں مہیا کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں میرٹ کا جو جنازہ نکالا گیا اس کی کوئی مثال موجود نہیں جبکہ باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت سی ٹی ایس پی نامی ادارے کو لایا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ کا ایک قریبی عزیز گلگت بلتستان میں اس ادارے کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے اور اس ادارے کے متعلق سخت تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے وفاقی سطح پر وزیر اعظم اور وزیر امور کشمیر سے ان بے ضابطگیوں کے متعلق ملاقات میں باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جاچکا ہے۔انہوں نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سے بھی ملاقات میں اپنے تحفظات کے ساتھ ثبوت بھی پیش کرینگے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام مورخہ 18 جنوری کو سانحہ 10 جنوری کے شھداء کی برسی منائی جائیگی جس میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سمیت دیگر سیاسی شخصیات کی شرکت متوقع ہے،کوئٹہ کے غیور ہزارہ مومنین سمیت ملک بھر کے مومنین یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں جس طرح 2013 میں عملی اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مومنین نے ایک بے حس حکومت کو گرایا تھا، یہ بات امام جمعہ کوئٹہ اور رکن شوری عالی علامہ سید ہاشم موسوی نے گزشتہ روز ایم ڈبلیو ایم جنرل باڈی میٹنگ کے دوران کہی۔
مرکزی رہنما رکن شوری عالی اور سابق وزیر قانون سید محمد رضا نے کہا کہ قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بہت گہرے نقوش چھوڑ جاتے ھیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں اپنے وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک دن 10 جنوری 2013 کا ہےاور آج کا دن ان شہیدوں، غازیوں اور ان مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیوئوںکو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جنہوںنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی قربانی دی۔ اور آج ایک عزم کرنے کا بھی دن ہے کہ ہم رہیں یا نہ رہیں آئیندہ آنے والی نسلیں بے گناہ شہیدوں کے خون کو رائیگاں جانے نہیں دیںگے۔
ڈویژنل جنرل سیکریٹری کربلائی رجب علی نے کہا کہ علمدار روڑ کا تاریخی پر امن احتجای دھرنے سے پوری دنیا میں ہماری مظلومیت کی سدا گونجی خود کش دھماکہ میں شہید ہونے والے شہداء نا قابل فراموش سانحات میں سے ایک ہے ڈویژنل شوری بزرگان کے سیکریٹری نے کہا کہ ہماری کامیابی کا راز اتحاد میں ہے ہمیں اپنی شہداء کو نہیں بھولنا چاہیئے۔
اس میٹنگ میں مرکزی رہنما رکن شوری عالی اور سابق وزیر قانون سید محمد رضا، رکن شوری عالی اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی ڈویژنل جنرل سکریٹری کربلائی رجب علی، شوری ڈویژنل شوری بزرگان کے ممبران و کارکنوں نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) ہزارہ قوم کی شناخت کو مشکوک بنانے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہو گی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما سید محمد رضا (آغا رضا) نے کہا ہے کہ نام نہاد قوم دوست خود پسند مفاد پرست ٹولے نے قوم کی نمائندگی اور خدمت کے بجائے پوری قوم کیلئے مشکلات پیدا کی ہے۔ جسکے نتیجے میں سرکاری دفاتر، ایف سی چیک پوسٹوں اور پولیس سٹیشنوں پر لوکل باشندوں کیساتھ امتیازی سلوک اور رویہ افسوس ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک فاشسٹ نسل پرست شخص کی غلطی کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی نادرا اور امیگریشن حکام ہزارہ قوم کے فرزندوں سے ہونے والے نا مناسب سلوک کا نوٹس لیں بصورت دیگر ہم پر امن احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یا قانونی راستہ اپنانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ آئے روز معزز شہریوں کو نادرا ملازمین پولیس صفائی کے نام پر مختلف دفاتر کا چکر لگواتے ہیں امیگریشن دفتر کا بھی یہی حال ہے سفری دستاویزات بنانے میں خود ساختہ بہانوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنا معمول بنا ہوا ہے دوسری جانب ھزارہ قوم کی شناخت پر سودے بازی کے نتیجے میں حاصل کی گئی کرسی پر براجمان فاشسٹ نسل پرست نام نہاد قوم پرست پارٹی اسمبلی میں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کی،اس موقع پر اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے مسودہ پیش کیا جب کہ عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن نے قانونی نکات پر دلائل دیے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کے مسودے پر کابینہ میں اعتراضات آئے ہیں، ابھی فی الحال یہ ایک مسودہ ہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور اس سے پہلے ایک عبوری انتظام چاہیے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ گلگت بلتستان اعلیٰ عدالتوں کے فنڈز گلگت حکومت سےگلگت بلتستان کونسل کو منتقل کردیے جہاں ججوں کی تعداد حکومت پاکستان بڑھا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا گلگت بلتستان میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا، وہاں ججوں کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سے ہونی چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا گلگت بلتستان کونسل کو قانون سازی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا نہرو نے بھی تسلیم کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت اور خود اختیاری ملنا چاہیے اور سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات اس تصور کے بہت قریب ہیں۔ جو اختیارات دیگر صوبوں کو حاصل ہیں وہی گلگت بلتستان کو ہوں گے.
چیف جسٹس پاکستان نے کہا گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جاسکتی، اس پہلو کو ذرا دیکھ لیں، اگر ریاست پاکستان کے اثاثے سے متعلق کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اور اگر جی بی سپریم اپیلٹ کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو کیا کرنا چاہیے،چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر دو صوبوں کا مسئلہ ہو تو پھر کیا کیا جانا چاہیے؟ گلگت بلتستان کے بھائیوں کو سارے حقوق دیں لیکن قانونی الجھنیں پیدا نہیں ہونی چاہیں۔
اس موقع پر وزیر قانون گلگت بلتستان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہوجائے جس پر چیف جسٹس نے کہا ایسا ممکن نہیں لیکن معاملہ اس کے بہت قریب آچکا ہے،عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کو پہلے عارضی پھر مستقل صوبہ بنانے کی بات کی گئی ہے، اگر اس سے متعلق کوئی آئینی ترمیم آتی ہے پارلیمنٹ اسے پاس کرے گی،بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے سے پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور ہوجائے گا،فریقین کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
گلگت بلتستان
1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر طاقت کے بلبوتے پر قبضہ کیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا، 1948 میں ہی اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی،آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا لیکن حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے اور 2009 میں اس علاقے ہو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے،گلگت بلتستان 10 اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے چار بلتستان میں، چار گلگت اور دو ہنزہ۔ نگر کے اضلاع ہیں، اس سے پہلے ہنزہ۔ نگر کو بھی گلگت ڈویژن میں شمار کیا جاتا تھا جسے اب علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) شہید آیت اللہ نمر باقر النمر ایک عظیم اور شجاع قائد تھے، انھوں نے ظلم وناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور زمانے کے فرعونی نظام آل سعود کے سامنے مستضعف ومحروم عوام کے حقوق کی خاطر کلمہ حق ادا کیااور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نےآیت اللہ نمر انٹرنیشنل فائونڈیشن کے زیر اہتمام مجمع امام جعفرصادقؑقم میں منعقدہ افکار شہید آیت اللہ نمر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی نے کہاکہ شہید آیت اللہ باقر النمر نے سعودی عرب کے گھٹن ذدہ اور سخت معاشرے میںظالم وجابر شہنشاہی نظام کے خلاف کلمہ حق بلند کیا ، انہوںنے اپنی جان کی پرواکیئے بغیر ببانگ دہل اس باطل شاہی نظام کےمقابل قیام کیا، اسی پاداش میں انہیں کئی بار پابند سلاسل کیا گیالیکن وہ اپنےآقا ومولاؑامام حسین ؑ کی سیرت وسنت کی پیروی کرتے ہوئے راہ حق وصداقت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے اوریہاں تک کہ شہادت کو گلے لگانا قبول کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید آیت اللہ باقرالنمر پاکستان کے شہید قائد علامہ سید عارف الحسینی، افغانستان کے شہید استاد عبد العلی مزاری ، ایران کے شہید نواب صفوی، عراق کے آیت اللہ شہید باقر الصدر ، لبنان شہید علامہ سید عباس موسوی اور یمن کے علامہ شہید سید حسین بدر الدین الحوثی کی سطح کے سرزمین حجاز مقدس کے قائد اور لیڈر تھے جنہوں نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مدرسے سے حریت وآزادی کا درس حاصل کیا اور یزیدان وقت کے خلاف قیام کیا اور جس طرح نہ ضیاء الحق کا ظالمانہ نظام رہانہ روسی قبضہ ، نہ شہنشاہی نظام اور صدام کا نظام رہا اور نہ یمن پر سعودی نواز نظام اور لبنان پر اسرائیلی تسلط اور انشاء الله شہید آیت اللہ نمر کا یہ ناحق خون آل سعود کے نظام کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹیکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹیکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پرٹیکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟…
ابھی تک جو کچھ بھی کہا گیا ہے محض باتوں کی حد تک ہے اور پتہ نہیں ہے کہ شام سے کتنے فوجی نکل رہے ہیں چونکہ ابھی تک ٹرمپ انتطامیہ کے پاس اسکا جواب نہیں ہے کہ وہ نکل تو رہیں ہیں لیکن ایران کے بڑھتے اثر کا کیا کریں گے اسی لئے فیصلہ کے بعض مخالفین اسے ایران کے بڑھتے اثرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں [۱] یہی وجہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن ابھی اسکے عملی ہونے کے لئے ہنوز دہلی دور است اور فی الحال امریکہ کی جانب سے بی بی سی کے مطابق اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ” روس، ایران، شام دولتِ اسلامیہ کے مقامی دشمن ہیں۔ ہم وہاں ان کا کام کر رہے تھے اور اب گھر واپسی کا وقت ہے، البتہ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں جبکہ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ’مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔‘ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں ہیں ۔[۲]
گزشتہ بیان کئے گئے تمام ہی نکات وہ ہیں جنکی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بڑا محاذ جنگ تشکیل پا رہا ہے اور اس محاذ کی تشکیل کو امریکی انتظامیہ کے بین السطور میں پڑھا جا سکتا ہے جہاں ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ” میں دنیا میں طاقت ور ترین فوج کی تعمیر میں جٹا ہوں جبکہ داعش نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔[۳] شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ فوجی نقل و حرکت کو شام میں چھپی ہوئی جنگ hidden war in Syria” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے [۴] چونکہ صرف شام ہی کی بات نہیں ہے افغانستان سے بھی فوج کی واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں [۵] جبکہ دوسری طرف عراق سے فوجیں بلانے کو یکسر مسترد کیا جا رہا ہے سب کچھ اپنے آپ میں اپنی نوعیت کے اعتبارے ایسا کہ کسی بھی صاحب فکر کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔
ایران کی ایک نیوز ایجنسی [۶]نے امریکی انخلاء کے پیش نظر کچھ خدشات بیان کئے ہیں جو گزشتہ و حال کی پیش نظر تحریر کو اگر سامنے رکھا جائے تو کافی حد تصویر کو واضح کر سکنے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ ایرانی تجزیہ نگار لکھتے ہیں :
“گزشتہ چند مہینوں میں ایسے متعدد امریکی اقدامات سامنے آئے ہیں جنکے پیش نظر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعا امریکہ شام سے نکل رہا ہے کیوں کہ ایسی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ امریکہ ۴۰ ہزار مقامی فورسز کی ٹریننگ کر رہا ہے اور بھاری اسلحوں کی کھیپ انکے حوالے کی گئی ہے ، دوسری طرف وہائٹ ہاووس نے گزشتہ چند دنوں قبل یہ کہا تھا کہ جب تک ایرانی فورسز شام میں ہیں، امریکا کی فورسز بھی رہیں گی، ان تمام باتوں کے پیش نظر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے، اگر ہم امریکیوں کے شام سے نکلنے کی بات کو مان بھی لیں تو چند سوالات پھر بھی قائم ہوتے ہیں جن میں اہم سوال یہ ہے کہ امریکی بالکل آسانی سے کیوں کر اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ ہم شام سے باہر نکل رہے ہیں ؟
نمبر ۱ ۔پہلا مفروضہ یہ ہے کہ امریکی فورسز کا یہ انخلاء ممکن ہے جان بولٹن ، ٹرمپ اور مائیک پامییو کی مشترکہ پالیسی ہو اور وہ یہ چاہتے ہوں کہ ایران کے مسئلہ پر فوکس کر سکیں ، اس سناریو کے مطابق واشنگٹن اپنی فورسز کو خلیج فارس کی طرف منتقل کر رہا ہے اور دوسرے مرحلہ میں ممکن ہے ایران کے خلاف قدم اٹھایا جائے ، ممکن ہے یہاں پر یہ سوال اٹھے کہ یہ مفروضہ کس قدر حقیقت سے نزدیک اور قابل قبول ہے ؟
اس سلسلہ سے ہمیں چند اشاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے؛
الف ۔ ایک طر ف امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی توانائی کے جامع معاہدہ سے خارج ہو گیا ہے تو دوسری طرف ایران کے صبر کا پیمانہ بھی اب یورپ کے خالی وعدوں سے لبریز ہو گیا ہے اور یہ احتمال بعید نہیں کہ ایران بھی اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایٹمی توانائی سے متعلق سر گرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی ، یہاں پر ممکن ہے کہ امریکہ اس سرگرمیوں کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کر ے ،لہذا جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ب ۔ دوسرا قابل غور اشارہ امریکیوں کی جانب سے زبردست طریقے سے ایران کے باہر موجود ایرانی حکومت کے مخالف عناصر کی حمایت و پشت پناہی ہے خاص کر رضا پہلوی ، اور واشنگٹن آلٹرنیٹ کی تلاش میں ہے ،انکی کوشش ہے کہ ایک متبادل سامنے رہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔
ج۔ تیسری نشانی امریکہ کا دوبارہ خلیج فارس پر توجہ دینا ہے چنانچہ امریکی بیڑوں کا وہاں جانا اسکی ایک مثال ہے۔
نمبر ۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے انخلاء کا اعلان درحقیقت روس اور ترکی کے ساتھ امریکہ کے مشترکہ سمجھوتے کا نتیجہ ہے، جسکے چلتے کچھ نہ کچھ تو واشنگٹن کے ہاتھ آہی جائے گا اور ممکن ہے اس بارے میں روس سے ڈیل بھی ہو چکی ہو کہ ہم نکل رہے ہیں اب ایران کو بھی نکالا جائے ۔
نمبر ۳ ۔ایک اور فرض یہ ہے کہ امریکیوں کا شام سے نکلنا خاشقجی کے قتل کا خون بہا ہے ، اور امریکہ نے ترکی کے خلاف جمے کردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ روک کر ممکن ہے انہیں یہ بونس دیا ہو کہ تم سکون کی سانس لو اور سعودی شہزادے کو چین سے جینے دو باقی کردوں سے خود نبٹ لو ساتھ ہی ساتھ ممکن ہے کہ امریکیوں کے ذہن میں شام میں موجود ایرانی فورسز کے اوپر حملہ کرنے کی دھن سوار ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہیں اور ایرانی مسلح افواج کے جوا ب سے بچنے کے لئے پہلے ہی اپنی فورسز کو وہاں سے نکال لیں کہ بالمقابل ایران کے ہاتھ بہت زیادہ کھلے نہ رہیں۔
نمبر ۴۔ ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ مکمل طور پر شام سے نہ نکلے بلکہ یہ ایک طرف یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ ہم انقرہ کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر پابند ہیں تودوسری طرف بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل کو سجانے کی کوشش کرے ۔
نمبر ۵ ۔ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ شمالی علاقوں میں ترکی کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے اور ایسا شگاف بنایا جا سکے جس میں ایران ، روس اور ترکی کے اتحاد میں سیندھ لگائی جا سکے اسکا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا کہ شام کے بنیادی دستور کے لئے جو کمیٹی بنی ہے وہ اپنا کام نہ کرسکے “۔
یہ سب کے سب مفروضے ہیں جن میں سے کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن جو بات یقین سی کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ میدان جنگ تبدیل ہو رہا ہے اور ہر ایک مفروضے میں ایران جھلک رہا ہے، بعید نہیں کہ مسلسل ہر محاذ پر شکست کے بعد امریکہ میں موجود یہودی لابیوں نے ایک نا ممکن ہدف کو حاصل کر نے کی چاہت ٹرمپ کے ذہن میں ڈال دی ہو اور یہاں بھی صدام کی طرح دن میں تارے دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھی ہو اور یوں ایران کو واقعی طور پر گھیرنے کی کوشش تیز ہو گئی ہو بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پر ٹکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟
(بقلم:سید نجیب الحسن زیدی)
بشکریہ ابنا نیوز