وحدت نیوز (کوئٹہ) حلقہ پی بی 26کوئٹہ کے ضمنی انتخاب میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے کارکنان ، عہدیداران اور معززین کے اعزازمیں عصرانے کا اہتمام کیا گیا ، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر قانون آغا رضا نےکہاکہ با شعور سیاسی جد و جہد میں ہی آبرو مندانہ زندگی کا راز پنہاں ہے،ضمنی الیکشن پی بی 26 ہزارہ ٹاون میں دوسری اور مجموعی طور پر پورے حلقے میں تیسری پوزیشن لینا بڑی کامیابی ہے،مجلس وحدت مسلمین پاکستان وطن عزیز پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے درمیان عملی اتحاد کی داعی دینی سیاسی جماعت ہے، ضمنی الیکشن پی بی 26 میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے نامزد امیدوار سید محمد رضا (آغا رضا ) پر عوامی اعتماد اس حلقے کی سیاسی بصیرت کی دلیل اور بھر پور عوامی تائید عوامی بیداری کا ثبوت ہے،خصوصا چیف آف ہزارہ قبائل جناب محترم سردار سعادت علی خان، ہزارہ ٹاون سے ملحقہ تمام محلوں عوام الناس سیاسی شخصیات علماء کرام بزرگ اکابرین سب ٹرائب سیاسی سماجی شخصیات نوجوانوں خواتین ماوں بہنوں بیٹیوں اور مخلص کارکنوں کے مشکور ہے جنہوں نے 40 دنوں کی کم وقت میں انتھک محنت کیں اعتماد کا اظہار کیا اور اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت دیا ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قائدین صوبائی کابینہ ڈویژنل اقر ضلعی عہدہ داروں کی طرف سے تمام ووٹرز سپورٹرز اور کارکنوں کے بے حد مشکور ہیں،جنہوں نےبھر پور تعاون اور حمایت کا اعلان کیا ۔

وحدت نیوز (گلگت)  سیکرٹری ایجوکیشن گلگت بلتستان نے محکمے میں کرپٹ آفیسران کے ناک میں نکیل ڈال دیا ہے۔کام چوراور من مانیاں کرنے والے ملازمین فرض شناس آفیسر کے خلاف لابنگ کرنے میں مصروف ہیں۔محکمہ ایجوکیشن کو درست کرنے کیلئے ایسے فرض شناس آفیسر کو فری ہینڈ دیا جائے،مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کےپولیٹیکل سیکریٹری غلام عباس نے کہا ہے کہ سرکاری سکولوں کی مایوس کن کارکردگی میں کرپٹ آفیسران کا ہاتھ ہے جو ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں اور تبادلے کرتے رہتے ہیں اور سکولوں میں بے جا مداخلت کرکے بچوں کی تعلیم کو متاثر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کا گلگت بلتستان میں سب سے بڑا سٹرکچر ہے اور اتنے بڑے ادارے سے عوامی سطح پر جوفائدہ ہونا چاہئے وہ بد قسمتی سے حاصل نہیں ہوپارہا ہے۔گلگت بلتستان کے بیشتر عوام اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں سے نکال کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخل کروارہے ہیں اور علاقے کی اکثریتی آبادی سرکاری سکولوں سے کنارہ کشی کرچکے ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ محکمے میں بولڈ فیصلے لیکر عوامی اعتماد کو بحال کیا جائے اور سیکرٹری ایجوکیشن جیسے فرض شناس آفیسران کو حکومتی سطح پر بھرپور سپورٹ کرنا چاہئے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) ھزارہ قوم سے امتیازی سلوک انتہائی تشویش ناک ہے۔ ھمارے یہاں قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا اور عوام الناس کو بیجا اذیت دینا ایک معمول بن گیا ھے جس سے مسائل اور دشواریاں جنم لیتی ھیں خصوصا'' لوکل باشندوں کو قومی شناختی کارڈ اور سفری دستاویزات بنانے میں بہ دستور مشکلات کا سامنا ہے ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما سابق وزیر قانون سید محمد رضا نے ایم ڈبلیو ایم دفتر میں آئے ہوئے سائلین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔   

آغا رضا نے کہا کہ کسی ایک شخص کی کئے کی سزا ساری قوم کو دینا نا انصافی ھے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے رابطہ کیا جائیگا سرکاری دفاتر میں متعصب افسران کیخلاف قانونی کاروائی کرنا حکومت وقت کی زمہ داری ہے اگر حکومت نے ایسے منفی عناصر کیخلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی اور مرکزی حکومت نے بھی عملی اقدامات نہیں اٹھائے تو پر امن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) {وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ} روز ہفتہ 11جمادی الثانی 597 ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سرزمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا ۔ اس کا نام محمد کنیت ابوجعفر ،لقب نصیر الدین محقق طوسی ،استاد البشرتھے۔خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم عربی و فارسی قواعد،معانی بیان اور کچھ منقول علوم اپنے روحانی باپ سے حاصل کیا۔والد نے بیٹے کو منطق ،حکمت ،ریاضی و طبیعیات کے نامور استاد نور الدین علی ابن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر الدین کے ماموں بھی تھے۔مدت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایسا لگا کہ انکے علم کے کی پیاس ماموں نہیں بجھا سکتے اسی بنا پر وہ ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے ۔خواجہ نصیر الدین روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کرتے ہی نصیر الدین کا لقپ پاتے ہیں ۔

خواجہ نصیر الدین نےطوس میں مقدمات ومبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتےہوئے تحصیل علم کے لئے نیشاپور کا سفراختیار کرتے ہیں ۔مدرسہ سراجیہ نیشاپورمیں خواجہ نصیر امام سراج الدین کے دروس فقہ و حدیث اور رجال میں شرکت کرتے ہیں ۔فرید الدین داماد نیشاپوری جن کا شماراپنےزمانے کےبزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر ان کے [اشارات ابن سینا] کے درس میں شرکت کرتے ہیں ۔استاد وشاگرد میں علمی مباحثے کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نے نصیر الدین کی استعداد علمی اور تحصیل علم میں شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور دانشمند قطب الدین مصری شافعی سے ملائی جو فخرالدین رازی کے شاگرد تھے اور علم طب کی مشہور کتاب [قانون ابن سینا] کے بہترین شارحین میں سے تھے۔

طوسی شہررے اور قم کے علاوہ اصفہان تک جاپہنچے لیکن کوئی استاد ایسا نہیں پایا جو طوسی کےعلمی پیاس کو بجھا سکے اس بنا پر وہ عراق کا سفر کرتے ہیں ۔ اور 619ھ میں معین الدین سے اجازۃروایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔محقق طوسی نےعراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ حلی نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر الدین سےکیں۔نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت سے علم نجوم وریاضی کا حصول کیا۔خواجہ نصیر الدین  عراق میں تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے کہ سر زمیں ایران پر مغلوں کا حملہ ہوتا ہے ۔ان کادل بھی ہم وطن اور خاندان کے افراد کے لئے بےحد مضطرب ہو گئے دوسری طرف عراق میں انکی  علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت کم نظر آتے تھے اس لئےوطن کی طرف واپس آنے کا قصد کرتے ہیں۔

طوسی اپنے خاندان سے ملاقات کے لئے شھر قائن پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی ماں و بہن سے ملاقات کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت  ہو کر لوگوں کومسائل سے آگاہ کرتے ہیں ۔ماں کی رضامندی سے 628 ھ میں فخر الدین نقاش کی بیٹی [نرگس خانم] کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں ۔خواجہ نصیر الدین چند ماہ تک قائن میں رہے اور شادی کے بعد قہستان کے [محتشم ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور جو مرد فاضل و کریم تھے] نے انہیں بلا بھیجا انکی بیوی راضی ہو گئی اور دونوں نے اسماعیلوں کے قلعے کی راہ لی ۔چونکہ اس زمانے میں ہر شہر مغلوں کے حملےسے سقوط کر رہے تھے توقلعہ بہترین اور محکم ترین جگہ تھی۔جس زمانےمیں طوسی قلعہ قہستان میں رہتے تھے بڑے احترام سے زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے ناصر الدین کی فرمائش پر [طہارۃ الاعراق ]ابن مسکویہ کو عربی سےفارسی میں ترجمہ کر کے میزبان کے نام  اسے اخلاق ناصری سے موسوم کرتے ہیں ۔

خواجہ ناصر الدین کا مذہب اسماعلیوں سے میل نہیں رکھتے تھے ۔طوسی نے ایک مدح عباسی خلیفے کے نام لکھ دی اور مدد طلب کیں لیکن طوسی اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے جس کے بعد طوسی کو دوبارہ قلعوں میں رہنا پڑا۔26 سال طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں زندگی بسر کیں اور اس مدت میں متعدد کتابوں کی تالیف کی جن میں شرح اشارات ابن سینا،اخلاق ناصری ،رسالہ معینیہ ،مطلوب المومنین،روضۃ القلوب، رسالۃ تولا و تبرا ،تحریر اقلیدس ،روضۃ التسلیم قابل ذکر ہیں۔

مغلوں کے فتوحات کے بعد ہلاکو خان نے طوسی کے علم و فضل کی وجہ سے اپنے بزرگان میں شامل کئے اور جہاں جاتے طوسی کو ساتھ لے جاتے تھے ۔طوسی نے جوینی کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن بن صباح کے عظیم کتاب خانے کو آتش زنی سے بچایا۔ابن ابی الحدید اور انکا بھائی موفق الدولۃ فتح بغداد کے بعد مغلوں میں قید تھے اور قتل کئے جانے والے تھے ابن علقمی طوسی کے پاس انکی سفارش کرتے ہیں اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کر کے موت کےمنہ سے ان دونوں کو رہائی دی۔طوسی نے مراغہ میں رصدگاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم ، دانش کی بنیاد رکھ دیں ۔

مشہور مستشرق رونالڈس لکھتے ہیں : طوسی نے مراغہ میں ہلاکو خان سے کہا کہ فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنے چاہیے۔اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنائی جائے اور کام شروع کئے اور بارہ سال کی مدت میں مکمل ہو گئے اس کے بعد بہت بڑا کتاب خانہ بھی بنایا گیا جس میں تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارتگری سے بکھر گئی تھیں۔

مراغہ کی رصدگاہ 656ھ میں بننا شروع ہوا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی وفات کے سال 672ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تعمیر میں فلسفہ و طب اور علم ودین حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائی گئی تھیں جہاں  فلسفہ کے طالبعلم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم اور فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کر لیا گیا تھا۔ اس علمی کام میں جن علما ء و دانشمندوں نےطوسی کا ساتھ دیا ان میں  چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے ،نجم الدین کابتی قزوینی وفات 675 ھ صاحب کتاب منطق شمسیہ ،موید الدین عرضی  650-664،صاحب کتاب شرح آلات رصدیہ ،فخرالدین خلاصی 587-680 ھ ،محی الدین مغربی ،فرید الدین طوسی ،وغیرہ۔

مراغہ کا رصد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصدگاہیں موجود تھیں ۔طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی  رصدگاہ کے نزدیک کتابخانے کی تعمیر تھیں یہاں تک کہ اس کتابخانے میں چار لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہو گئے۔ محقق طوسی بے پناہ علم و دانش اور مختلف فنون میں ید طولی رکھنے کے ساتھ بہترین اخلاق و صفات حسنی کے حامل تھے جسکابیان تمام مورخین نےکیاہے ۔ طوسی کو
صرف قلم وکتاب والے  دانشمندوں میں شمارنہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ انکے ہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چناچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بےروح پر ترجیح دیتے تھے۔علامہ حلی جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین عالم کےطور پر جانے جاتے ہیں طوسی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ علامہ حلی اپنےاستاد کے فضائل اخلاقی کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں :خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں ،انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں ،میں نے جتنے دانشمندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔خدا انکی ضریح کو منور کرے میں نے  ان کی خدمت میں الہیات شفا ابن سینا اور علم ہیئت میں تذکرہ کا درس لیا جو خود انکی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی رہے گی۔{مفاخر اسلامی ،علی دوانی ج4 ص136}
مورخین اہل سنت میں سے ابن شاکر نے اخلاقی طوسی کی تعریف اس عبارت میں کی ہے۔[خواجہ نہایت خوش شکل و کریم و سخی برباد،خوش معاشرت اور حکیم تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا ۔[؛فوات الوفیات،ابن شاکر ج۲ ص۱۴۹؛ ] خواجہ طوسی کے شاگردوں میں علامی حلی ،ابن میثم بحرانی ،قطب الدین شیررازی ،ابن فوطی ،سید رکن استر آبادی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ کئی سو سال گزر گئے ہیں مگرآج بھی طوسی کے آثارعلم و دانش سے استفادہ جاری و ساری ہے۔طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے اور کلام،منطق ،ادبیات ،تعلیم و تربیت ،اخلاق ،فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے۔مخالفین و غیر مسلمین نے انکی جو تمجید و تعریف کی ہے وہ لائق توجہ اور خواجہ کے وسعت علمی کا ثبوت ہے ۔

جرجی زیدان اس موضوع پر لکھتے ہے[ اس ایرانی کے ذریعےحکمت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور داراز علاقوں میں یوں پہنچ گئے کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھے۔[آداب الغۃ العربیہ ،فوائد الرضویہ] نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں انکا نام نظر آتا ہے شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں سے ہےیں جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی مہارت دکھائی ہیں ۔ اختصار کے طور پر خواجہ کے تصانیف کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔تجرید العقائد ،شرح اشارات ،اوصاف الاشراف،قواعد العقائد،اخلاق ناصری،آغاز و انجام ،تحریر مجسطی،تحریر اقلیدس،تجرید المنطق،اساس الاقتباس ،زیج ایلخانی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ

18ذی الحج 673 ھ کو بغداد کےآسمان کا رنگ دگرگوں تھا گویا کوئی ایسا اتفاق واقع ہونے والا ہے جس سے اس شہر کا سکون ختم ہو جائے گا اور لوگ سوگوار ہو جائیں گے۔ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا جس کی پر شکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھر پور تھی جس نے سالہا سال تلوار و شمشیر کا نظارہ کیا اور ایک ہھر سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا ۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ اس کے سر پر رہے اور اسی بربریت کے سایہ تلے اس نے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یاد گار بے شمار کتابیں چھور گئے۔ تاریخ نقل کرتے ہے کسی نے خواجہ سے وصیت کرنےکےلئے کہے ؛ کہ آپ کو مرنے کے بعد  جوار قبر امیر المومنین علیہ السلام  میں دفن کیاجائے۔خواجہ سراپا ادب تھے جواب میں بولے [مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار میں اور اسکا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گفتگو کے بعد آنکھ بند کر کے اہل علم و دانش کو غم و عزا میں بٹھا دیے ۔بغداد سراسر غرق ماتم ہو ئے ،خواجہ کی تشیع
جنازہ میں بچے ،جوان ،بزرگ ،مردو عورت باچشم گریاں شریک تھے۔ انکی میت کو آستان مقدس امام کاظم و امام جواد علیہم السلام کے روضے لے گئے جس وقت قبر کھودنا چاہا تووہاں پہلے سے تیارقبر کا سراغ ملتے ہے ،عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک تاریخ کو ہوئی تھی ،کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام کاظم علیہ السلام نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کیں چونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کے اسیر و زندانی رہے اور زندان میں ایک لحظے کے لئے بھی  شیعی اعمال و مناجات کو ترک نہیں کیں۔
طوسی کو کاظمین میں سپرد خاک کئے گئے اور انکی قبر پر آیت شریفہ{وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ}نقش کر دی ۔خواجہ اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن افکار و قلم ہمیشہ ہمیشہ محبین کے گھروں میں باقی رہے ،صدیاں گزر گئے لیکن انکا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتے رہے اور رہینگے ۔


 
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی


منابع :
1۔تخفۃ الاحباب ،محدث قمی
2۔ روضات الجنات ،قصص العلمائ ،مرزا محمد تنکابنی
3۔شرح اشارات ،شیخ عبد اللہ نعمہ
4۔ سرگذشت و عقائد فلسفی نسیر الدین طوسی ،محمد مدرسی زنجانی
5۔ فوات الوفیات ابن شاکر
6۔فلافہ شیعہ ،شیخ عبد اللہ نعمہ
7۔الوافی بالوفیات ،ابن صفدی رکنی
8 ۔ الاقاب ،محدث قمی
9۔مفاخر اسلامی ،علی دوانی
10۔آداب اللغۃ العربیہ ،محدث قمی       
11  ۔خواجہ نصیر یاور وحی و عقل،عبد الوحید وفائی ،مترجم حسن عباس فطرت   
  12  ۔احوال و آثار خواجہ نصیر الدین،محمد تقی مدرس رضوی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ)  کئی دہائیوں سے حل طلب مسلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اور کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھنا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار کے کالے جھوٹ کیلئے کافی ہے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہزاروں کشمیری شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائیگا آئے روز قابض بھارتی فوج کی نہتے کشمیرویوں پر انسانیت سوز مظالم عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے منہ سے نقاب نوچنے کے مترادف ھے۔ دوسری جانب اسلامی ممالک کی مجرمانہ خاموشی افسوس ناک ہے، یہ بات مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما سید محمد رضا نے بین الاقوامی تعلقات عامہ اور سیاسیات کے طالب علموں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

 انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے،اسلامی تنظیم او آئی سی کو غیر فعال بنانے اور اپنی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال میں خاندان آل سعود پیش پیش ہے ریاض تل ابیب سفارتی تعلقات افسوس ناک ہے خادمین حرمیں شریفین کو عالم اسلام کے سیاسی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنا چاہیئے لیکن انہوں نے اسلام دشمنوں کیساتھ قربتیں بڑھانے کو ترجیح دی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں اسلام سے زیادہ اپنی سلطنت عزیز ہے،سید محمد رضا نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کیساتھ ہیں اقوام عالم کو چاہیئے کہ خطہ کی دیر پا امن کو یقینی بنانے کیلئے جلد از جلد مسلہ کشمیر کو حل کریں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اسرائیل جو کہ ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے اور اس کا وجود چونکہ صہیونیوں نیبوڑھے استعمار برطانیہ کی مدد سے عالم اسلام کے قلب فلسطین پرغاصبانہ طور پر سنہ1948ء میں قائم کیا تھاتاہم ستر برس کے اس غاصبانہ قبضہ اور تسلط کے نتیجہ میں آج بھی صہیونیوں کے اندر خوف اور شکست کا خطرہ پہلے کی نسبت زیادہ پایا جا تا ہے اور اس بات کا ثبوت صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ اور فلسطین کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پیداوار سمیت ان کی مدد کرنا جیسے معاملات ہیں۔جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

دوسری طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ ہے کہ جس کا ہر حکمران اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کو اپنے ایمان اور امریکی دستور کا کلیدی حصہ سمجھ کر صہیونیوں کے تمام جرائم کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان جرائم کی انجام دہی کے لئے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی امداد کے نام پر دیا جاتا ہے جبکہ فلسطینی قوم جو کہ نہتے اور پا برہنہ ہیں ہر طرح سے ان تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ اپنے وطن اور سرزمین سے کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا پہلا ہدف یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر ڈالے۔اس کام کو انجام دینے کے لئے ماضی میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبری طور پر ہجرت کروائی گئی تھی اور یوم نکبہ کو سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی وطن سے آوارہ کر کے نکال دئیے گئے تھے جو پڑوسی ممالک بشمول لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں جا کر آباد ہوئے اور آج ان کی تیسی نسل وہاں پر جوان ہو رہی ہے۔اسرائیل گذشتہ ستر برس سے یہی کوشش کر رہاہے کہ ظلم وجبر اور استبداد کے ذریعہ ملت فلسطین کو اپنے ہی وطن اور گھر سے بے گھر کر دے اور پورے فلسطین پر قابض ہو کر اسے ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ بنا لے۔

امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم سمیت تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود بھی فلسطینی قوم بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم بزرگوں اور ہر طبقہ فکر کے فلسطینی باشندوں کے دلوں سے ان کے وطن کے محبت اور لگن کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم اب امریکی شیطان اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے حالیہ دور میں نیا ہتھکنڈا جو اپنایا ہے اس میں خطے میں موجود عرب حکمرانوں اور ریاستوں کو اسرائیل کا دوست بنانے کا کام کیا جا رہاہے تا کہ ان عرب بادشاہوں کی مدد سے فلسطینیوں کی باقی ماندہ زمین اور علاقوں پر شب خون مارا جا سکے۔عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں کہ جو پہلے خفیہ تھے لیکن اب کافی حد تک اعلانیہ بھی ہو چکے ہیں ۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پر قائم ہوا ہے کہ جس کے باشندے اپنی زمین کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہیں اور ستر سالوں سے اسرائیل کے مقابلہ پر کھڑے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ایسی صورتحال کے تسلسل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا ہے ۔لیکن گزشتہ چند ایک سالوں میں اور بالخصوص گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سے عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اب صہیونیوں کا خیال ہے کہ کچھ خطرات کم ہو رہے ہیں لیکن اس کے برعکس فلسطینی مسلسل اپنی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جد وجہد نہ تو کسی عرب ملک کے حاکم کے کہنے پر شروع ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عرب ملک کے بادشاہ کے کہنے پر ختم کی جا سکتی ہے۔

فلسطین کے عوام اپنے حقوق کی بقاء اور اپنے دفاع کی جنگ اپنے حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں کافی اہم رہی ہیں، اور اس بات کی دلیل ہیں کہ سنہ1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا اب شاید اس تصور نے منحرف ہو رہے ہیں۔اسرائیلی تجزیہ نگار دورے گولڈ کے مطابق عرب اسرائیل تعلقات کی اہم پیشرفت میں گزشتہ چند ماہ میں عمان اورعرب امارات میں ہونے والے واقعات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے مطابق اسرائیلی اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئی اور گہرء پیشرفت وجود میں آ چکی ہے۔اکتوبر2018ء کے آخری دنوں میں صہیونیوں کے وزیرا عظم نیتن یاہو نے اچانک ہی عمان کا دورہ کیا اور اس دورے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی ’بات چیت بہت اچھی‘ رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم کی درج بالا بات بالکل درست ثابت ہوئی۔کیونکہ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں خوش خبری سنائی تو اس موقع پر کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں موجود تھیں جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔

ان مقابلوں میں اسرائیل کی ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا تو اس موقع پر عرب امارات کے دارلحکومت میں اسرائیلی ترانہ کی دھن بھی بجائی گئی یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔اس موقع پر صہیونی جعلی ریاست کی وزیر کھیل و ثقافت قومی ترانہ کی دھن سن کر آب دیدہ ہو گئیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کو بھی حتمی شکل دے چکا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔جاری ہے۔۔۔


تحریر: صابر ابو مریم
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree