The Latest
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ملت جعفریہ کے لاپتہ افراد پر اگر کوئی الزام ہے، تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، کسی بھی شہری کو اس طرح حراست میں رکھنا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں پوری شیعہ قوم ایک پیج پر کھڑی ہے، جبری گمشدہ افراد کیلئے شروع کی گئی تحریک کا دائرہ کار بہت جلد پورے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے، بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی نے لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاََ خود کو گرفتاری کیلئے پیش کرکے ملت کے درد سے سب کو آگاہ کیا ہے۔کل بعد نماز جمعہ میں خود جامع مسجد مصطفیٰ عباس ٹاون سے گرفتاری دوں گا۔
علامہ احمد اقبال نے کہا کہ ہمارا یہ احتجاج اختیارات سے تجاوز کے مرتکب اداروں اور غیر قانونی طرز عمل کے خلاف ہے، جب تک لاپتہ شیعہ افراد کو بازیاب نہیں کرایا جاتا، تب تک ہمارا یہ پُرامن احتجاج اسی انداز سے جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر عمل ہماری حب الوطنی کا برملا اظہار ہے، ہمیں کسی سے وطن حب الوطنی اور وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان میں اہل تشیع مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ سب سے زیادہ کی گئی، ہمارے نوجوان کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں، اگر عدالتیں لاپتہ شیعہ جوانوں کو مجرم ثابت کر دیں، تو انہیں سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان میں آپریشن کرنا چاہیے، عدلیہ اور فوج کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنے کی جو کوشش نواز لیگ کر رہی ہے، وہ ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے، ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کو قوم اپنی بصیرت و دانش سے ناکام بنا دے گی۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفد کے ہمراہ بغدادی تھانہ لیاری میں لاپتہ شیعہ علماءوجوانوں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاًگرفتار بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی اور دیگر گرفتارشدگان سے ملاقات کی، وفد میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرشیرازی ،صوبائی رہنما علی حسین نقوی، احسن عباس رضوی ودیگر موجود تھے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے علامہ حسن ظفر نقوی کے عزم و حوصلے کی تعریف کی،انہوں نے کہا کہ پورا ملک لاقانونیت اور عدم تحفظ کی فضا میں جھکڑاہوا ہے،قانون و انصاف کی حکمرانی کتابی قصے کہانیاں بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، لاپتہ جوانوں کی بازیابی تک ہماری یہ مہذب او ر پر امن احتجاجی تحریک جاری رہے گی، اس موقع پر مختلف پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان کے وفد سمیت علمائے کرام، سیاسی وسماجی شخصیات نے بھی علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور علامہ حسن ظفر نقوی سے خصوصی ملاقات کی۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین،جعفریہ الائنس،شیعہ علماکونسل،شیعہ ایکشن کمیٹی،زاکرین امامیہ،ہیت آئمہ مساجد و علما امامیہ،باسبان عزا،پیام ولایت اور دیگر شیعہ جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملت تشیع کے لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ ملت کے لاپتا افراد پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔کسی بھی شہری کو اس طرح حراست میں رکھنا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔لاپتا افراد کے معاملے میں پوری شیعہ قوم ایک پیج پر کھڑی ہے۔جبری گمشدہ افراد کے لیے شروع کی گئی تحریک کا دائرہ کار بہت جلد پورے ملک تک پھیلایا جا رہا ہے۔بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی نے لاپتا افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجاََ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر کے ملت کے درد سے سب کو آگاہ کیا ہے۔علامہ احمد اقبال نے کہا کہ اگلے جمعے کو وہ خود کو بھی گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔ہمارا یہ احتجاج اختیارات سے تجاوز کے مرتکب اداروں اور غیر قانونی طرز عمل کے خلاف ہے۔جب تک لاپتا افراد کو بازیاب نہیں کرایا جاتا تب تک ہمارا یہ پُرامن احتجاج اسی انداز سے جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر عمل ہماری حب الوطنی کا برملا اظہار ہے۔ہمیں کسی سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔وطن عزیز میں اہل تشیعوں کی ٹارگٹ کلنگ سب سے زیادہ کی گئی۔ہمارے نوجوان کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔اگر عدالتیں لاپتہ جوانوں کو مجرم ثابت کردیں تو انہیں سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان میں آپریشن کرنا چاہیے۔ عدلیہ اور فوج کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنے کی جوکوشش نون لیگ کر رہی ہے وہ ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کو قوم اپنے بصیرت و و دانش سے ناکام بنا دے گی۔شیعہ علما کونسل کے رہنماعلامہ ناظر نقوی نے کہا کہ اس تحریک کا بنیادی مقصد لاپتہ افراد بارے معلومات حاصل کرنا اور انکو بازیاب کرانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا آئینی حق ہے کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں قانون و آئین کے مطابق سزا دی جائے۔پانچ کروڑاہل تشیعوں میں کوئی مسلح گروپ نہیں ہے۔ہم نے ہمیشہ آئینی راہ اختیار کی۔فوجی عدالتوں میں صرف سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے والوں کو سزا دی گئی۔ملت تشیع کے شہدا کے لواحقین آج تک انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے تشیع کے قاتلوں کو بھی سولی پر لٹکایا جائے۔ گرفتار شدگان کو نوے دن کے اندر عدالت میں پیش کرنے کے قانون کی خلاف ورزی خود حکومت کر رہی ہے۔ ہم آرمی چیف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی جائیں۔جعفریہ الائنس کے رہنما سلمان مجتبی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کے معاملے کو حکومت سنجیدگی سے لے۔ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ہمارے بچوں کے اہل خانہ کئی سالوں سے ان کا راہ تک رہے ہے۔ہمیں ان کی خیریت سے آگاہ کیا جائے۔بیت آئمہ مساجد کے رہنما مولانا نعیم الحسن نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ہمارے لیے کو ئی بھی متعصبانہ طرز عمل قابل قبول نہیں۔ہمیں آگاہ کیا جائے کہ کس قانون کے تحت ہمارے نوجوانوں کو اتنے سالوں سے یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ذاکرین امامیہ کے رہنما نے نثار قلندری کہا کہ کہا کہ جیل بھرو تحریک نے اگر شدت پکڑ لی تو حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ہمارے نوجوانوں کو فوری طور پر بازیاب نہ کرایا گیا تو ملت تشیع آئندہ انتخابات میں پورے ملک میں مسلم لیگ نون کے خلاف تحریک چلائے گی۔ پریس کانفرنس میں ممتاز بزرگ شیعہ عالم دین مولانا مرزا یوسف حسین، شیعہ علما کونسل کے رہنمایعقوب شہباز جعفریہ الائنس کے رہنما شبر رضا،آئی ایس او کے رہنما قاسم عباس،پاسبان عزا کے رہنما راشد رضوی ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی حسین نقوی،علامہ اظہر نقوی،علامہ مبشر حسن،علامہ علی انور جعفری،علامہ صادق جعفری،حسن ضغیر،عارف ترابی،ساجد چکوالی اور شیعہ ایکشن کمیٹی کے صغیر عابد رضوی اور سہیل حسن بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز (ڈیرہ اللہ یار) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری نے کہا ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ایما پر پاکستان میں اہل تشیع کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشتگردوں کیخلاف نہیں کررہیں، بلوچستان میں انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، سانحہ درگاہ فتح پور شریف اور کوئٹہ فائرنگ اور شیعہ نوجوانوں کی گمشدگی قابل مذمت عمل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اللہ یار میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سید شبیر شاہ اور دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ علامہ برکت مطہری کا کہنا تھا کہ ملک کے مختلف شہروں سے شیعہ نوجوانوں کو بغیر کسی جرم کے اغواء کیا جارہا ہے،لاپتہ شیعہ افراد کی رہائی کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کرکے خود گرفتاری پیش کردی ہے، آئے روز شیعہ شہریوں پر حملے کئے جارہے ہیں، ان حملوں میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل نواز دہشتگرد ملوث ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سانحہ فتح پور اور کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ پر ہونے والوں حملوں کے دہشتگردوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے بصورت دیگر ملک بھر میں منظم تحریک شروع کرینگے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے بارے میں آگاہی دینا ریاستی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ کسی بھی ادارے کے تحویل میں نہیں ہیں تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ جو انہیں لے گئے ہیں وہ ایلینز تھے اور ھمارے لاپتہ افراد کسی دوسرے سیارے سے ملیں گے۔ خاموشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ آئین پاکستان اور قانون پاکستان ہمیں یہ سوال پوچھنے کی اجازت دیتی ہے کہ ہمارے لاپتہ افراد کہاں ہیں۔لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے علماء کی گرفتاری پیش کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایک ذمہ دار ملت ہیں اور نازک حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔ ہم وہ ملت ہیں جنہیں بسوں سے اتارکر شناختی کارڈ چیک کرکے مارا گیا لیکن ملت جعفریہ نے آئین قانون اور اداروں پر اپنا اعتماد برقرار رکھتے ھوئے قانون کو ہاتھ میں صرف اس لئے نہیں لیا کہ اس ارض پاک کے گلشن میں ھمارے لہو رنگ گل بدلے اور نفرت کی آگ سے جھلس نہ جائیں۔ ہمارے انجینیئرز ھمارے ڈاکٹرز ھمارے پروفیسرز ھمارے علماء ھمارے ادیب دانشور شعراء ھمارے بینکرز ھمارے گولڈ میڈلسٹ ھونہار طالب علم اور جوانوں کو مسلک کی بنیاد پر چن چن کر مارا گیا۔ ھم نے ایک ایک دن میں سو سو جنازوں کی تدفین کی لیکن اسکے باوجود ھم نے پاکستان پائیندہ باد کا نعرہ لگاکر یہ ثابت کیا کہ ارض پاک کی مٹی سے ہمیں پیار ہے اور دشمن کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی ہرسازش کو ہم ہر قدم پر ناکام بناتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ھمیں گلگت بلتستان سے لیکر کراچی تک روزانہ کی بنیاد پر قتل کیا گیا اور پھر ان قتلوں کی ذمہ داری ببانگ دہل میڈیا پر قبول کیا جاتا رہا ہمیں یہ علم ہونے کے باوجود کہ ھمارا قاتل کون ہے ھمارے علماء نے ہمیں کبھی انتقام لینے کا درس نہیں دیا۔
ھمارے امام بارگاہ اور مساجد جلائ گیئں بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے حکومتی مشنری کے حفاظتی حصاروں میں ھمارے خلاف کافر کافر کے نعرے لگائے گے لیکن جواب میں ہم نے کبھی کسی کو کافر قرار دیا؟کب تک آپ ہم سے ھماری حب الوطنی کا ثبوت مانگتے رہو گے؟
کیا اتنی قربانیاں دینے کے باوجودملت جعفریہ کا حب الوطنی کا امتحان ختم نہیں ھوتا۔؟ یاد رکھیئے ہمارے لہو میں ظلم کیخلاف مزاحمت کا عنصر شامل ہے ہم کربلا سے لیکر آج تک ظلم کیخلاف مزاحمت کرتے چلے آئے ہیں 1400 سو سال کا جبر ہمارے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکا۔ تو یہ زنداں اور یہ خاموشی ہمارے حوصلوں کو کہاں شکست دے سکتی ہے۔ اس وطن کی بنیادوں میں ھمارا لہو شامل ہے اس چمن کی آبیاری ہم نے اپنے خون سے کی ہے اسلیئے اس ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیئے ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے خانوادگان کو انکا آئینی و قانونی حق دلانے کے لیئے ہم ہر قربانی دیں گے۔ یہ جیل بھرو تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیلے گی اور ملت جعفریہ کے مسنگ پرسنز کے خانوادگان کو انصاف دلانے کے لیئے آئین پاکستان اور قانون پاکستان کی بالادستی قائم ھونے تک جاری رہے گی۔
وحدت نیوز (لاہور) نون لیگ سیاست بچانے کے لئے ریاست کو داوُ پر لگانے سے باز رہے، لیگی حکومت فرقہ واریت کو ہوا دے کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے، پنجاب میں دہشتگردوں کاسب سے بڑا سہولت کار راناثنااللہ ہے،پنجاب میں کالعدم شدت پسندوں کو اب بھی پنجاب حکومت کے وزیر قانون کی آشیرباد حاصل ہے،پنجاب کے مختلف اضلاع میں اب بھی شدت پسند پولیس پر دباوُ ڈال کر مخالف مسالک کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے میں مصروف ہیں،ناروال،فاروق آباد میں پنجاب پولیس انتہا پسندوں کیساتھ مل کر فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں،آئی جی پنجاب ان واقعات کا نوٹس لیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں مختلف اضلاع سے آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا پنجاب میں آپریشن ردالفساد کے باوجود انتہا پسندوں کا کھل کر مخالفین کیخلاف جھوٹی کاروائیاں لمحہ فکریہ ہے،پنجاب میں انتہا پسندوں کیخلاف کاروائی کاغذوں اور رپورٹس کے حد تک محدود ہے،کالعدم شدت پسند گروہ اسی طرح متحرک ہے،ملت تشیع کیخلاف اس محرم میں درجنوں ایف آئی آر درج ہوئے ،پنجاب میں ہمیں مقبوضہ کشمیر جیسے حالات کا سامنا ہے،ہمیں مذہبی آزادی جیسے آئینی قانونی حق سے محروم کیا جا رہا ہے،دہشتگردوں کیساتھ بیلنس پالیسی کے تحت ہمارے درجنوں علماء اور نوجوانان تاحال غائب ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کے جن جن صوبوں میں ن لیگ کی حکمرانی ہے ملت جعفریہ وہاں مظالم کا شکار ہے،ہم انشااللہ جناح کے پاکستان کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینگے،قیام پاکستان سے اب تک ملکی سالمیت و بقا کے لئے ہم قربانیاں دیتے آئے ہیں انشااللہ دفاع پاکستان کے لئے بھی ہم اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرینگے،پاکستان میں بسنے والے تمام پاکستانی متحد ہیں،اور دشمن کے کسی بھی ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) درد اسی کو ہوتا جس کا کوئی چلا جائے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ درد اس وقت ہوتا ہے جب کسی کا کوئی عزیزگم ہوجائےاوراس کی تلاش میں دن رات ایک کردیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں کہ شاید میرےبیٹے،باپ ،بھائی یا شوہر کا کوئی سراغ مل سکے ۔ لیکن جب آگےسے یہ کہا جائے کہ اپنے پیاروں کو سرد خانوں ،یا تھانوں میں تلاش کرو! ہو سکتا اپنی مراد کو پہنچ جائو ! تویقین کریں یہ سن کر جو دل پر چوٹ لگتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔جب ہر طرف سے امید ٹوٹنے لگے توپھر کچھ صاحبان علم ودانش نے یہی فیصلہ کریں نا! اگر انہیں واپس نہیں کرتےہو، تو ہمیں بھی ان تک پہنچا دو ۔ہو سکتا ہمارے اس عمل سے کسی عمررسیدہ باپ ،ستم رسیدہ ماں،بہن کا بیٹا اور بھائی یا کسی کا سہاگ بچ جائے اور ان کی دعائوں کے ظفیل ہم بھی اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور اپنے کریم پروردگار سے یہ کہہ سکیں کہ آج ہم نے اپنی اخلاقی ،قومی اور ملی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ تو ہم سب پر رحم فرما ۔ظالمین کو ان کے انجام تک پہنچا!!
کسی نےمجھ سے سوال کیا کہ تحریک آزادی ،تحریک انقلاب ، عوامی تحریک کا تو سنا تھا مگر جیل بھرو تحر یک کا پہلی بار سن رہا ہوں ۔ہوسکتا ہے مجھے اس کا سامنا نہ رہا ہو یا پھر ۔۔۔ جیل بھرو تحریک آخر ہے کیا؟لوگ تو پولیس اور تھانے کا نام سن کے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ان پرپولیس والے بے جا ظلم نہ کریں ،اور تو اور پولیس کی ڈر سے لوگ کسی احتجاج ،ریلی اور تحریک وغیرہ میں شرکت کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں لیکن یہ لوگ جیل بھرو تحریک کا آغاز کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں؟آخر کیوں؟کیا انہیں اپنی زندگی عزیز نہیں ہے؟کیا ان کےبال بچے نہیں ہے؟اور اگر زندگی سب سے پیاری ہے تو زندگی کو خطرے میں ڈال کر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ٹھوری دیر سوچنے کے بعدوہ بولے جیل بھرو تحریک کا آغاز اس لئے ہوا ہے تاکہ کسی معصوم بچے کو اس کے باپ کے چہرئے کی زیارت ہوسکے، ستم رسیدہ ماں اور بہن اپنے گم شدہ بیٹے اور بھائی کا دیدار کر سکیں اور عمر رسیدہ باپ اپنے بوڑھاپے کے وقت کےسہارے کا سایہ دیکھ سکے،کاش ہم اس ملک میں پیدا ہی نہ ہوتے توکم از کم ہم اس اذیت سے ہمکنار بھی تو نہ ہوتے ،ٹھیک کہا نا میں نے،،وہ بولے!!اس کی داد رسی کے لئے میرئے پاس سوائے جی جی کےکہنے کو اور کچھ نہ تھا،جب وہ چلے گئے تو میں سوچ میں پڑ گیااور سوچنے لگا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے ؟ یقیناًآپ اس بات سے مانوس ہیں کہ ملک عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے،اس دو قومی نظریے کا فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن ہو تاکہ مسلمان اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی گزار سکیں،انہیں اپنے طوروطریقے سے زندگی گزارنے کی مکمل آذادی ہو اور جب وطن عزیز اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے وجود میں آیا توانگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم سے مجروح اور بے بس مسلمانوں کے قائد، قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے نوزائیدہ مملکت کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا:’’ کہ آپ لوگ آج کے بعد آفیسراور حکمران کی روپ میں اس قوم اور اس ملک میں بسنے والے تمام مسلک ورنگ ونسل کے خدمت گزارہیں،اس ملک کو بچانے کے لئے آپ نے ایک خادم کی سی خدمت انجام دینا ہے‘‘ اور آپ نے یہاں تک فرمایا تھا:’’کہ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے جان اورمال کے آپ محافظ ہے۔‘‘
لیکن افسو س آج اس وطن عزیز پاکستان میں قائداعظم ؒکے فرامین کا مذاق اڑائی جارہا ہے،قائداعظم ؒ کے فرمان کے مطابق کسی بھی شہری کے جان ومال کے ذمہ دا ری سرکاری کرسی پہ بیٹھے ہوئے لو گوں پر عائد ہوتی ہے،ایک عام سپاہی سے لیکر اسٹبلشمنٹ اور وزیر اعظم تک سب کے سب اس ذمہ داری کو انجام تک پہنچانے میں برابر کے شریک ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چور، لٹیروں اور کرپٹ مافیا نے ملک کو آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ایک عام شہری اپنے ہی غلاموں کے آگے ہاتھ پھیلائے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور یہ لوگ اپنے محسنوں کے خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی جمہوریت کے ہاتھوں غلام بنے ہوئے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو حفاظت دینے سے بالکل قا صرہےیہی وجہ ہے کہ مسنگ پرسنز کی تعداد آئے روز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے،اعلی عہداران کوسب معلوم ہے کہ کون کہاں ہے ؟سب کچھ جانتے ہوئےبقول قائداعظم ؒکے قوم کے یہ خادم اعلیٰ عوامی خدمت سے لاتعلق ہیں ہیں ،ان سے مسنگ پرسن کی ریکوری نہ ہو نے سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یا تو اعلی عہداران شہریوں کی گمشدگی میں خود شیریک ہیں یا جان بوجھ کے اس ملت کو تنگ کر رہے ہیں،جناب اعلی اس ملک کو بنانے میں تمام شہریوں کا حصہ ہے اور تمام فرقے کے لوگ اس ملک کو وجود میں لانے کے لئے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے خدارا !اس ملت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں ،اس ملک میں اتنا ہمارابھی حق ہے جتنا تمہارا حق ہے،ملک عزیز پہلے سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کی ریکوری کو یقینی بنائے تاکہ مسنگ پرسنزکی فیملیز کو ذہنی سکون حاصل ہو اور شہر ی آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو سکیں۔
تحریر۔۔۔۔ظہیر کربلائی
وحدت نیوز(آرٹیکل) افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، غیرت مند لوگ اپنی ماں کی طرح ریاست سے محبت اور اس کی حفاظت کرتےہیں، بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں چند سالوں سے اس دھرتی کے بیٹے لاپتہ ہونا شروع ہو گئے ہیں، ان لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں فی الحال ٹھیک طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن کی اگست2017کی جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد 1372 ہے، عوام کی سہولت کے لئے کمیشن نے www.coioed.pk کے نام سے ویب سائٹ بنا دی ہے جس پر کیسوں کی تفصیل اور سماعت کی تاریخوں سمیت دیگر معلومات دستیاب ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ پنجاب لاہور میں کمیشن کا باضابطہ طور پر سب آفس قائم کر دیا گیا ہے اس سب آفس کا رابطہ نمبر042-99210884ہے۔
تاہم دوسری طرف آزاد ذرائع کےمطابق صرف بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔
ہماری دانست کے مطابق اب ریاستی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چایے۔ مثلا بلوچستان کے عوام کو جسمانی طور پر اغوا کرنے کے بجائے ان کےانسانی حقوق ادا کئے جائیں، انہیں وڈیروں کی غلامی اور قبائلی تعصب سے نکالا جائے ، تعلیم اور صحت سمیت رفاہِ عامہ پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کے عوامی مطالبات کو بخوشی قبول کیا جائے اور غلط فہمیوں کو ختم کر کے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔
اسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے اگر لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز ہماری ایجنسیوں کو پتہ ہیں، بلا شبہ ان پر پابندی لگنی چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ جہاد کے عنوان کو اپنے لئے مخصوص کرے ، کسی بھی مدرسے یا مولوی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ جہاد کا علم بلند کرے۔
اگر حکومت کو یہ ضرورت ہے کہ لوگوں کو جہاد کی تربیت دی جائے تو یہ کام مسلکوں، مسجدوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر حکومتی مراکز میں ، حکومت کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔
تعلیمی اداروں سے کلاشنکوف کلچر اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ماضی کے این سی سی کے کورس کی طرح کے کورسز لانچ کر کے جوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جانی چاہیے۔
اسی طرح جن لوگوں کو افغانستان، شام یا کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کے شک میں اٹھایا گیا ہے،حکومت کو ماننا چاہیے کہ ان سارے مسائل میں خود حکومت ہی قصور وار ہے۔
ملک میں کسی کو بھی مسلکی ، علاقائی یا لسانی بنیادوں پرہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ماضی میں حکومت نے ایک مخصوص مسلک کو عسکری تربیت دی اور ان کے لئے بیرونِ ملک جاکر لڑنے کے دروازے کھولے، آج اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب حکومتی ادارے انہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں۔
اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاد کے حوالے سے تمام مسالک و مکاتب کے لئے یکساں پالیسی کااعلان کرے ، اور جو لوگ حکومت کی نئی جہاد پالیسی کو تسلیم کریں اور تعاون کا عہد کریں ، انہیں اغوا اور لاپتہ کرنے کے بجائے ، اُن سے ملک کے دفاع کے لئے استفادہ کیا جائے۔
ماضی میں جب حکومت خودایک مخصوص فرقے کے لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر مسلح کرتی تھی تو اس سے خود بخود دوسرے مسالک کے لوگوں کو بھی مسلح ہونے کی ترغیب ملتی تھی۔ یہ اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آج عقیدے کی جنگ میں پاکستانی جوان ہر محاز پر نظر آتے ہیں۔
یہ حکومت کی ہی بنائی ہوئی پالیسی ہے لہذا اب حکومت کو ہی اس کا مثبت حل سوچنا چاہیے۔اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین نے جیلیں بھرو تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، سرکاری اداروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ ان افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کو اپنے اعتماد میں لیں اور ملکی سلامتی کے لئے ان سے عہد لے کر ان کے پیاروں کو ان کے حوالے کریں۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہذا جولوگ اپنے وطن کے وفادار ہیں انہیں عقوبت خانوں سے رہائی ملنی چاہیے۔یہ وقت کی آواز، انسانی ضمیر کا فیصلہ اور یہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(لاہور) ملت تشیع کے لاپتہ افراد اگرم مجرم ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے،ہم کسی جرائم پیشہ افراد کی دفاع نہیں کرینگے،پڑھے لکھے نوجوانوں کو محض بیلنس پالیسی کی آڑ میں اُٹھا لینا یہ کہاں کا انصاف ہے،ہم حکومت وقت اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلیج کرتے ہیں کہ وہ ایک فرد ایسا دکھا دیں جس نے ملکی سلامتی کے اداروں ،افواج پاکستان،پولیس اور کسی سرکاری تنصیبات میں خدانخواستہ کسی حملے یا اس کی منصوبہ بندی میں شریک رہا ہو،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ہم لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں،لاپتہ افراد کے لواحقین آئینی قانونی جدو جہد کر رہے ہیں اور ان مظلوموں کا ساتھ دینا ہر پاکستانی پر فرض ہے۔علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ ایک طرف ہمیں شناخت کرکے قتل کیا جارہا ہے ،دوسری طرف ہمارے بے گناہ افراد غائب ہو رہے ہیں آکر ہم انصاف لینے کہا جائیں،ہم حکومت وقت اور مقتدر قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خدا را مظلوموں پر مزید ظلم کرنا بند کر دیں اور بے گناہ گمشدہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے،ہمیں سٹرکوں چوراہوں پر نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے،بے گناہ افراد کی گمشدگی پر احتجاج ہمارا آئینی قانونی حق ہے اس سے ہمیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کیا ہے ؟ آج تک اس کی کوئی متفقہ علمی تعریف سامنے نہیں آسکی ۔ ہر ایک کی نظر میں اس کی مختلف تشریح ہو سکتی ہے ۔ میری نظر میں جب کوئی فرد ، گروہ ، ادارہ یا حکومت دوسروں کے بنیادی حقوق کا احترام کئے بغیر ان پر ماؤرائے آئین اپنی مرضی ، سوچ ، نظریہ ، پالیسی یا عقیدہ دھونس دھمکی یا تشدد کے ذریعے زبردستی مسلط کرنا چاہے تو اسے دہشت گردی کہتے ہیں ۔دہشت گردی کی تاریخ اور پس منظر میں جائیں تو کتابوں پر کتابیں لکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ مختصریہ کہ دہشت گردی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔دہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کا فرما ہوسکتا ہے ۔ عقاید کی ترویج کے نام پر ہونے والے جہاد ، فاشزم کی آڑ میں ہونے والی جنگیں ، نظریاتی تبدیلی کے نام پر برپا ہونے والے انقلابات اور کشور کشائی اور فتوحات کے نام پر دنیا بھر کے حملہ آوراور جنگجوؤں کی قتل و غارت ، لوٹ مار ، آبرو ریزی اور سروں کے مینار بنائے جانے کے عمل ، طاقت کے حصول یا معاشی اور سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرنے کی خاطر لڑی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ جنگوں کو میرے خیال میں دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ،یہ الگ بات ہے کہ کسی مخصوص نظریے کا حامی اپنے مخالفین کی گردنیں کاٹنے اور انہیں سولیوں پر لٹکانے کے عمل کو حق بجانب ، جہاد یا انقلاب کا نام دیتے ہیں جبکہ انکا یہی جہاد اور احسن عمل ان کے مخالفین کی نظر میں غیر انسانی عمل اور دہشت گردی کے سوا کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا ۔
دنیا کی جدید تاریخ میں دونوں عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور اوران کے بعد کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ نے نہ صرف پوری دنیا کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لئے رکھا بلکہ اس سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے باوجود آج بھی دنیا کے اکثر ممالک دونوں عالمی طاقتوں کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہے ہیں ۔ہمارا اپنا خطہ بھی گزشتہ تقریباَ کئی دہائیوں سے ایسی ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔اس دہشت گردی کی مختلف وجوہات اور محرکات ہو سکتےہیں لیکن میرے خیال میں کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ ہے جو خطے میں اپنی من پسند پالیسیاں نا فذ کرنا چاہتی ہیں ۔
اسی کی دہائی میں وطن عزیز میں برپا ہونے والےغیر معمولی حالات ( انہیں آپ چاہیں جو بھی نام دیں) دراصل سوشلزم کے علمبردار سوویت یونین اور سرمایہ دار ممالک کے سرخیل امریکہ کے درمیان جاری کشمکش کا نتیجہ تھے جنہوں نے پورے خطے کو جنگ و جدل اور ناآرامی کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا جس سے یہاں کی عوام لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک نکلے پر قادر نہیں ہوسکی ۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان میں جس ترتیب اور مختصر وقفوں سے تبدیلیاں رونماء ہوئیں وہ بلا شک و شبہہ ان دو عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ تھیں ۔ جن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی زندگیاں قربان ہوئیں اور کروڑوں لوگ اپنی خاک اور گھربار چھوڑ کر غیر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ اسی قتل و غارت اور مہاجرت کا نتیجہ تھا کہ ان جنگ زدہ انسانوں کی ایک پوری نسل تعلیم اور بہتر روزگار سے محروم رہی جسے بعد میں مختلف طاقتوں نے بطور Tool اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا ۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ پی ڈی پی اے کی حکومت کو ناکام بنانے اور سوویت یونین کو زک پہنچانے کے لئے امریکہ نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو جہاد کے نام پرافغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر آباد کیا جوعرب ممالک کے پیسے اور امریکی و پاکستانی اسلحے کے زور پر لوگوں کی لاشیں گراتے رہے ۔ اس امریکی جہاد کے دوران جہاں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت خطے میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا وہاںعرب شیوخ نے داخلی چپقلش اور امت مسلمہ کی امامت حاصل کرنے کی دوڑ نے یہاں فرقہ واریت کو بھی اپنے عروج پر پہنچادیا ۔اور اس طرح جہادیوں کو پال پوس کر پاکستان اور افغانستان سمیت وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پھیلا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی ممالک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ۔
یہ ایک اتفاق ہرگز نہیں تھا ،جب پاکستان اور افغانستان میں عرب جہادیوں کی آمد شروع ہو گئی تھی جنکا مقصد بظاہر سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لینا تھا ۔ اس دوران عرب ممالک کی سرپرستی میں نہ صرف پورے پاکستان میں دینی مدرسوں کے نام پر جہادیوں کی تربیت گاہوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ امریکہ اور عربوں نے ملکر علاقے میں اسلامی انقلاب کے اثرات کے خاتمے کے لئے مختلف فرقہ پرست گروہوں کو نوازنے کی بھی ابتدا کی۔اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان کی سرزمین پر فرقہ واریت کی کشمکش اور پراکسی جنگ کا آغاز ہوا ۔
اکتوبر 1985 کا مہینہ پاکستان کوعملی طور فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کا نقطہ آغاز تھا جس ماہ جھنگ میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ بعد میں اسں تنظیم کے بطن سے پھوٹنے والے دیگر گروہوں (لشکر جھنگوی وغیرہ)نے مل کر پنجاب میں قتل و غارت کا جو سلسلہ شروع کیا اس نےپنجاب پر حاکم شریف خاندان کو ایک ایسے معاہدے پر مجبور کردیا جس کا بظاہر مقصد پنجاب کو اس فرقہ وارانہ دہشت گردی سے نجات دلانا تھا ۔لیکن باطن میں کچھ اور منصوبے اپنے اندر سموئے ہو ئے تھی ۔ اس معاہدے کے بعد نہ صرف وہاں کی سنّی فرقہ پرست تنظیمیں نواز شریف کی اتحادی بن گئیں بلکہ انہوں نے پنجاب سے کوچ کرکے اپنا مرکز بلوچستان میں منتقل کردیا ۔
ان فرقہ پرست گروہوں نے اپنی کاروائیوں کے لئے پہلے پہل آر سی ڈی شاہراہ پر واقع بلوچ علاقے مستونگ کا انتخاب کیا جو پاکستانی اور ایران کو ملانے والی معروف بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے ،یہاں اپنے پاؤں جمانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے انہی خاندانوں کا صفایا کرنا شروع کیا جو اپنا مسلک ترک کر کے شیعہ ہوچکے تھے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا جو ان کے خیال میں شیعہ مسلک اختیار کرکے علاقے میںشیعہ اثرو نفوذ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے تھے ۔اور دہشت گردوں کی نظر میں یہ سب کچھ (مسلک کی تبدیلی ) ہزارہ برادری کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔ اور دہشت گردوں کو ایجنسیوں نے جو غلط رپورٹ دی اسی کے تناظر میں وہ اپنا کام کرنے لگے دوسرا اس ہزارہ ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ ، اسرائیل ،عرب ، افغانستان اورہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں لوکل دہشت گردوں کے ذریعے بلوچستان میں فعال تھیں اور مقصد صرف اور صرف بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص تھا ۔ یہ بھی عالمی جنایتکار طاقتوں کا ایک فتنہ ہے جو خطے میں پھیلا رہیں۔
تب سے لیکر اب تک ہزارہ قوم کی نشل کشی (ٹارگٹ کلنگ) کے زمرجتنے دہشت گرد حملے ہوئے اور جس طرح ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یاد رہے کہ خطے میںموجود دہشت گردوں کی تکفیری سوچ کےحامل دہشت گردوں کی مالی معاونت کا تسلسل، جنہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق آل سعود اور دیگر خلیجی ملکوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر ملتے رہے ہیں ۔ دوسری طرف الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسی بھی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق ہندوستان بھی پاکستان کے اندر بعض ایسے دہشت گرد گرہوں کی سرپرستی کر رہا ہے جوبڑی تعداد میں مخالفین کے قتل میں ملوث ہیں ۔ جہاں تک حکومتی اور ریاستی اداروں کا تعلق ہے تو انہوں نے جس طرح بے گناہ لوگوں کے قتل عام سے متعلق اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں کہ انہوں نے پنجاب کو بچانے اور بوقت ضرورت ان گروہوں سے ماوارائے قانون کام لینے کی خاطر ان کے سروں پر دست شفقت رکھ کران کا رخ بلوچستان بالخصوص ہزارہ قوم کی طرف موڑ دیا گیا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ اگست 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اسے اتفاق ہر گز نہیں کہا جاسکتا ۔یاد رہے نواب بگٹی کے قتل کے بعد نہ صرف تیزی آئی بلکہ صوبے میں آباد سیٹلرز کے قتل میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ اسی دوران بلوچستان کے آئی جی پولیس کا وہ بیان شاید اکثر لوگوں کی نظروں سے گزرا ہوگا جس میں انہوں نے ٹارگٹ کلنک کا علاج ٹارگٹ کلنگ کو قرار دیا تھا ۔ جس کے بعد نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور ٹارکلنگ میں تیزی آئی بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ۔
ہزارہ قوم کے بے رحمانہ قتل عام کا ایک مقصد بلوچوں کی تحریک آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے جس میں مقتدر قوتیں کافی حد تک کامیاب رہیں ۔اور اس کے پیچھے بھارت نواز بلوچوں کا ہاتھ رہا ہے ۔
یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ دسمبر 2013 میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس کے مطابق حکومت نے ان "محب الوطن” اور "عوام دوست” گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا اعلان کیا تھا جنہیں انکے بقول اسلم رئیسانی کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا اور جو وسیع پیمانے پر صوبے میں دہشت گردی اور قتل و غارت میں ملوث تھے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ گروہ نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور قتل عام میں ملوث تھے بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف ہونے دہشت گردی کے واقعات میں بھی انہی گروہوں کا ہاتھ تھا ۔
کچھ لوگ اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی قوتوں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں جن کی نظریں بلوچستان کے جغرافیائی محل وقوع اور یہاں کی معدنیات پر ٹکی ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا معصوم ہزارہ بچّوں ، عورتوں ، بو ڑھوں اور جوانوں کا قتل عام صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان کے خزانوں کی کنجی حاصل کی جا سکیں ؟میری ناقص معلومات کے مطابق بلوچستان سے زیادہ معدنیات اور قدرتی وسائل تو مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیائی ممالک میں ہیں ۔ لہٰذا ان کا گھیراؤ کرنے کے بجائے ان پر براہ راست کمندیں کیوں نہیں ڈالی جاتیں ؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اورکیا وجہ ہے کہ ان پر ڈورے ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔ بلکہ ان سے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں ؟
لہٰذا میری نظر میں خطے با لخصوص پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ علاقائی طاقتوں کی کشمکش بالخصوص عرب نوازتکفیری دہشت گردوںاور را کے علاقے میں موجود ایجنٹوں کو قرار دیا جاسکتا ہے جو اپنی تھیو کریٹک اقتدار کو سنبھالادینے اور اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے خطے کو فرقہ وارانہ جنگ میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی عوام کے مسائل سے چشم پوشی ، عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مجرمانہ غفلت ۔، ریاستی اداروں کی آپس کی لڑائی بلکہ خارجی طاقتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے ان کے ماورائے آئین اقدامات بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ اس دہشت گردی اور قتل و غارت میں کچھ مقامی گروہ اورلینڈ مافیا کے کچھ حلقے بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو بقول ہزارہ گی ” آؤ رہ غٹول دیدہ مائی خود خو بّر مونہ ” یعنی جو موقع محل دیکھ کے اپنا کام نکالتے ہیں ۔اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بیگانہ ہوکر اپنی حدود میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں ۔وہ اونچی دیواروں اور ناکوں کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔کاروبار ، تعلیم اور ملازمت کے دروازے ان پر مسدود ہو چکے ہیں اور وہ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا گھر بار ترک کرنے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔اب رہا یہ سوال کہ دہشت گردی سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے ؟ تو میرے خیال میں یہ سوال جتنا سیدھا ہے اسکا جواب اتنا ہی ٹیڑھا ۔
اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کی آڑ میں ہم پر مسلط کی گئی اس دہشت گردی کے پیچھے کچھ بین الاقوامی یا طاقتور علاقائی قوتیں ملوث ہیں جنہیں کچھ داخلی قوتوں اور اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ تو ہمیں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا پڑے گا کہ ہمارے اندر ان قوتوں سے لڑنے کی کتنی سکت ہے ؟کیا اگر ہم سارے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں (جو میری نظر میں ناممکن اور غیر فطری سوچ ہے) تو کیا ہم اس دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ؟کیا ہمآل سعود،افغانستان اورانڈیا سمیت تمام علاقائی یا بین الاقوامی کھلاڑیوں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ خدا کے لئے وہ ہماری جان بخش دیں ؟کیا ہم بلوچوں سے اس بات کا تقاضا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی جدو جہد ترک کرکے ، صبر شکر کرکے بیٹھ جائیں؟یا پھر کیا ہم اجتماعی مہاجرت کر سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو ہمیں ہر حال میں باعزت طریقے سے زندہ رہنے کا گُر اپنانا ہوگا ۔
ہمیں اپنی صفیں ٹھیک کرنی ہونگیں اور (تمام تر اختلافات کے باوجود جو ایک فطری عمل ہے )ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کو حوصلہ دینا ہوگا ۔ہمیں دوسروں کے نظریات اور عقاید کا اتنا ہی احترام کرنا ہوگا جتنا ہم اپنے نظریات کا کرتے ہیں ۔معاشرے میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہوگا اور اس کی ابتدا اپنے آپ سے کرنی ہوگی ۔دہشت گردی اور قتل عام سے ڈر کر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس ظلم کے خلاف ہرفورم پرآواز بلند کرکے ہمیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ۔باہمی اختلافات اور گروہی ،قبائلی اختلافات کا شکار ہیں ۔ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے ہو نگے اورایک دوسرے کے دکھ درد میں عملاَ شریک ہونا ہوگا ۔ہمیں ہر حال میں مذہبی شدت پسندی اور تکفیری مائنڈ سیٹ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور ایسے عناصر کا راستہ روکنا ہوگا جو معاشرے کو منافرت اور عدم برداشت کی طرف لے جا رہے ہیں ۔مجھے امیدہے کہ اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بے شک دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہ کر سکیں لیکن ایک ایسی سوچ کی بنیاد ضرور ڈال سکتے ہیں جو ہماری نئی نسل کو دہشت گردی سے پاک ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہواور یہ وہی سوچ ہےجس کی سفارش قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے فرمودات میں ملتی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہم ایک ہو جائیں اور قوم و ملت کی خاطر اپنا کرادار ادا کر سکیں ۔
اللہ تعالیٰ نےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک قومی پلیٹ فارم دیا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جیسے بہادر انسان کا ساتھ دیا ہے جس نے قوم میں مایوسی کے بت کو توڑا ہے ۔ہمیںمخلص ہوکر اس تنظیم کاساتھ دینا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے ۔ جس نے ہمیں ہمت دی کہ آج بھی ہم میں وہ رمق موجود ہے ۔ جس سے ہم دہشت گردی جیسی ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں مگر آپ نے دیکھا کہ مسنگ پرسن کے معاملے پر خاموشی طاری تھی ۔ ہر ایک ایک دوسرے کی طرف دیکھتا اور سر جھکا لیتا ۔ اب جب مجلس وحدت مسلمین کے غیور دوستوں نے راجہ صاحب کی ہم آہنگی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ہے تو کئی برادران نے اپنے تیروں کا رخ مجلس کے راہنمائوں کی جانب پھیر دیا ۔ جبکہ دیکھا جائے تو وہ دس بیس سال اور بھی گزر جاتے اور مجلس یہ اقدام بھی نہ اٹھاتی تو ان برادران نے چپ کا روزہ تو رکھا ہی ہوا تھا ۔ بہرحالان کے اس اقدام سے نہ مجلس کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی علامہ راجہ ناصر عباس یا مجلس کے دوسرے راہنمائوں کو ۔تاریخ میں ایسے کئی کرداراپنی موجودگی کا اظہار اسی طرح کرتے آئے ہیں ۔
اگر ہم نے وحدت کو اپنا لیا اور ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو گئے تو یقین کرلیں وہ دن دور نہیں جب ہم ایک باوقار قوم کی طرح اس وطن میں جی سکیںگے اور اپنا رول ادا کر سکیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو آئے دن ہزارہ برادری کی طرح ہم بھی اس ٹارگٹ کلنگ کے لئے تیار رہیں ۔ویسے تو پاکستان پورا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص اس دہشت گردی کا آئے روز شکار ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بحق چہاردہ معصومین ؑ ان تمام شہداء ملت کو جنہوں نےوطن عزیز اور ملت نجیب و شریف کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں ،انہیں اعلیٰ علیّن میں جگہ عطا فرمائے ۔
آخر میں ہمارے لاکھوں کروڑوں سلام ہوں ان شہداء پر، جن کے خون سے یہ چمن لہلہا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں نے نذرانے دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن چاہے ان کے سروں سے فٹبال کھیلے، ان کے گلے کاٹے، انہیں ناپاک فوج کہے، ان کے خلاف کفر کے فتوے دے اور نئی دہلی سے لے کر تل ابیب تک پورا عالم کفر ایک ہو جائے، اس کے باوجود پاک فوج کے جوان کبھی بھی ارض وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ان شاء اللہ ۔
نصرمن اللہ و فتح قریب
تحریر : ظہیر کربلائی