وحدت نیوز(سکردو) قانون کے رکھوالوں کی زبانی خالصہ سرکار کی باتیں سکھ حکومت اور ڈوگرہ راج کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین کا احترام کرتے ہیں خالصہ سرکاری کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہیں لیکن ان کے قوانین کو نافذ کرنے والے دراصل نہیں چاہتے ہیں بلتستان میں پاکستان کا قانون چلے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ خالصہ سرکار کے نام پر بلتستان کے عوام کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ ریاستی ادارے یا الحاق پاکستان کو تسلیم کرے یا خالصہ سرکار کے قوانین کو۔ خالصہ سرکار کو جواز بنانے کی صورت میں پاکستان کا کوئی قانون یہاں نافذ نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ خالصہ کو تسلیم کرنے کا مطلب جنگ آزادی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس طرح کے خیالات رکھنے والے خطے اور ملک دونوں کے دشمن ہیں۔ ریاستی اداروں میں موجود افراد بھی اس خطے کے عوام پر ظلم بند کرے اور زمینوں کی بندر بانٹ ختم کیا جائے۔ ایک عرصے سے یہاں کی زمینوں پر ریاستی جبر کے ذریعے غیر قانونی اور ناجائز قبضہ ہو رہا ہے۔ عوامی تحریک چلانے سے قبل انتظامیہ ہوش کے ناخن لے۔ پاکستان کے قوانین کے علاوہ گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ تسلیم کیا ہو ا ہے اس صورت میں یہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ منافقانہ اور دوغلی پالیسی ختم کی جائے۔ آئینی حقوق کی بات کرے تو کہا جاتا ہے کشمیر کا حصہ ہے۔ کشمیر کا حصہ ہے تو سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ کیوں نہیں کیا جا تا ۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو جہاں زمیں چاہیے عوام کو معاوضہ ادا کرکے لے جائے اور ثابت عملی طور پر ریاستی ادارے ثابت کرے کہ یہاں کے عوام ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ بلتستان میں بغیر معاوضے کے زمینوں پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ خالصہ سرکار کے خلاف جلد عوامی تحریک کا آغا ز کیا جا ئے گا۔
وحدت نیوز (حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے لبیک یا رسول اللہ کانفرنس کے سلسلے میں حیدر آباد پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی، اس موقع پر صوبائی سیکریٹری فلاح برادر عالم کربلائی، سیکریٹری نشر و اشاعت آغا ندیم جعفری، ضلعی سیکریٹری جنرل رحمان رضا ایڈوکیٹ، مولانا نثاراحمد، مولانا سیف علی حیدری، وقار حیدر ودیگر ہمراہ تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ 25 دسمبر کو حیدر آباد میں تاریخی لبیک یا رسول اللہ ﷺ کانفرنس دھشت گردی اور نفرتوں کے خلاف ، اتحاد بین المسلمین اور احترام انسانیت کا عملی مظاہرہ ہوگی، جس میں تمام مکاتب اور مسالک کے لوگ شریک ہوکر امن و اتحاد کا عملی درس دیں گے۔ جبکہ اس کانفرنس کا اہم مقصد دھشت گردی اور نفرتوں کے خلاف سندہ کے بہادر عوام کا مشترکہ احتجاج رکارڈ کرانا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت پاکستان دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے مسجد، امام بارگاہ، درگاہ ، اسکول، بازار سمیت کوئی جگہ اور کوئی شخص محفوظ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ حکمرانوں کا رویہ دھشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر سامنے آرہا ہے، کمیشن رپورٹ صداقت پر مبنی ہے وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ نے غلط بیانی کی، اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہورہا۔ کمیشن رپورٹ سے ہمارے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ حکمران دھشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان کو مس یوز کررہے ہیں، اسے دھشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے امن پسند شہریوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، مذہبی اور شہری آزادی سلب کرنے کے لئے ایکشن پلان استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ارباب اقتدار کی نظر میں آج بھی ظالم اور مظلوم برابر ہیں، قاتل اور مقتول کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فوجی عدالتوں کے باوجود شکارپور ، جیکب آباد اور کراچی سمیت ہزاروں مظلوم شہداء کے وارث آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
اس تاریخی کانفرنس میں شرکت کے لئے سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادا حامد رضا، ملی یکجہتی کونسل سندہ کے سیکریٹری جنرل خطیب اہل سنت مولانا قاضی احمد نورانی، جئے سندہ محاذ کے چیئرمین ریاض حسین چانڈیو، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی نائب صدر حلیم عادل شیخ، جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولاناراشد محمود سومرو، قومی عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایاز لطیف پلیجو و دیگر کو دعوت دی گئی ہے۔
وحدت نیوز (گلگت) وزیر اعلیٰ اور اس کی پوری ٹیم میرٹ کی رٹ لگاتے تھکتے نہیں مگر عملاً ہر ادارے میںمیرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ضلع نگر کوتعصب کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،حکومت کے رویے سے ایسا لگ رہا ہے کہ ضلع نگر گلگت بلتستان کا حصہ نہیں ہے اگر نگر کے ساتھ ناانصافیوں کا یہ سلسلہ نہ رکاتو اپنے جائز حقوق کیلئے احتجاجاً سٹرکوں پر آنے پر مجبور ہونگے ۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنما و رکن صوبائی اسمبلی حاجی رضوان علی نے منگل کے روز ایوان میں پوائنٹ آف آرڈر پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نگر سے تعلق رکھنے والے تحصیلدار قربان سنیارٹی لسٹ میں سرفہرست ہیں جبکہ ان سے جونیئر تحصیلدار کو ترقی دے کر اسسٹنٹ کمشنر بنایاگیا، میرٹ کی اس خلاف ورزی اور ناانصافی پر چیف سیکرٹری کے نوٹس میں لایا گیا اور متعلقہ اداروں سے تفصیلات لینے کے بعد چیف سیکرٹری نے ناانصافی کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن تاحال وزیر اعلیٰ کے دبائو کی وجہ سے اس ناانصافی کا ازالہ نہیں ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اس ایوان میں اعلان کیا کہ نئے بننے والے تمام اضلاع کی اسامیاں تقسیم کردی گئی ہیں مگر جان بوجھ کر ضلع نگر کی اسامیاں نہیں دی جارہی ہیں اس وقت ڈپٹی کمشنرنگر اور ایکسین نگر بغیرپوسٹ کے ڈیوٹی دے رہے ہیں اوران کی تنخواہیں دوسری مد سے ادا کی جارہی ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ نگر خاص میں تیس بیڈ کا ہسپتال 2007میں مکمل ہوا ہے مگر تقریباً دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس اس ہسپتال کیلئے عملہ بھرتی کرنے کیلئے ڈی پی سی ہی منظور نہیں کیا جارہاہے اور ہسپتال بغیر عملہ کے خالی پڑی ہوئی ہے اس کے برعکس 2007ء کے بعد مکمل ہونے والے تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹرز سمیت تمام عملہ موجودہ ہے آخر نگر کوخاص کر نشانہ کیوں بنایا جارہاہے ۔انہوںنے کہا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران عوام کی خدمت کیلئے منتخب ہوئے ہیں اسمبلی کا اجلاس اس لئے ہوتا ہے تاکہ عوام کے مسائل پر بات چیت ہو انہوں نے کہا کہ اس وقت اپوزیشن بنچ اور حکومتی بنچ الگ الگ ہیں حکومتی بنچ خالی ہے اور اپوزیشن بنچوں پر ممبران موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران کسی نہ کسی عہدے پرموجود ہیں ،وزیر ہیں ، پارلیمانی سیکرٹری ہیں اور مشیر ہیں مگر اس کے باوجود یہ لوگ ایوان میں آنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں وہ وزراء جنہوںنے ممبران کے سوالوں کا جواب دینا ہے ایوان میں موجود نہیں ہیں جب بھی ہم سوال کرتے ہیں تو یہی جواب ملتا ہے کہ متعلقہ وزیر ایوان میں موجود نہیں ہے کیا ہم ایوان میں اپنے سوالوں کا جواب دیواروں سے حاصل کریں ۔اس موقع پر سپیکر فدا محمد ناشاد نے وزیروں کی ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے وزیر پلاننگ اقبال حسن سے کہاکہ وہ ان باتوں کوکابینہ میں اٹھائیں ۔
وحدت نیوز (بدین) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سندھ کے پانچ روزہ دورے پر بدین پہنچ گئے ہیں ، جہاں انہوں نےجشن میلاد مصطفیٰ ﷺ اور مختلف سطح کے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ، بدین پہنچنے پر ایم ڈبلیوایم کے کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد نے ان کا پر تپاک استقبال کیا اور ان پر گل پاشی بھی کی،آخری اطلاعات کے مطابق علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ٹنڈومحمد خان پہنچ چکے ہیں جہاں انہوں نے لبیک یارسول اللہ ﷺ ریلی میں شرکت کی اور خصوصی خطاب کیا،اس موقع پر مرکزی ترجمان علامہ مختارامامی، علامہ مقصودڈومکی اور دیگر رہنمابھی انکے ہمراہ ہیں، ٹنڈومحمد خان کےبعد ان کے نواب شاہ ، خیرپور، نوشہروفیروز اور حیدر آباد کا دورہ بھی متوقع ہے جہاں عوامی استقبال اور اجتماعات سے خطاب بھی کریں گے، جبکہ دورے کےاختتامی روز وہ پچیس دسمبر کو باغ مصطفیٰ لطیف آباد حیدر آباد میں عظیم الشان لبیک یا رسول اللہ ﷺ کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) مشی، اس کے اثرات، تاریخ اور موجودہ عراق پر بعد میں بات کریں گے، لیکن فی الحال اپنے قارئین کو عراق کی گذشہ 50 سالہ تاریخ اور درپیش بحرانوں سے سرسری آگاہ کرتے ہیں۔ عراق کی سرزمین مسلسل بحرانوں سے گزر رہی ہے، تقریباً 24 سال تک بلاشرکت غیرے صدام حسین اقتدار پر قابض رہا، 1980ء میں ایران پر جنگ مسلط کی اور 8 سالہ طویل جنگ کے ٹھیک 2 سال بعد یعنی 1990ء میں صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑا، صدام حسین کے متعدد ایسے اقدامات تھے، جنہوں نے ناصرف عراق کو عالمی سطح بلکہ خطے میں بھی چاروں اطراف سے تنہا کر دیا، 22 ستمبر 1980ء سے شروع ہونیوالی ایران عراق جنگ 8 سال بعد یعنی اگست 1988ء میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن اس جنگ نے تقریباً 10 لاکھ انسانوں کو نگل لیا۔ صدام حسین نے ایران سے یہ جنگ ایسے وقت میں شروع کی تھی، جب ایران میں رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا تھا اور انقلابیوں نے ایک اسلامی حکومت کا احیاء کیا تھا، ایران عراق جنگ کا باعث دریائے شط العرب بتایا جاتا ہے۔ مگر مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں سوائے شام کے برطانیہ، اسرائیل سمیت تقریباً تمام عرب ممالک غیر اعلانیہ طور صدام حسین کو مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔ 1990ء میں کویت پر حملے کے بعد تمام مذکورہ ممالک جو ایران کیخلاف جنگ میں عراق کے اتحادی تھے، صدام حسین کے مخالف ہوگئے اور عراق ایک بار پھر ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45 منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا، اس لئے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن امریکہ آج تک یہ الزامات ثابت نہ کرسکا، حتٰی اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کچھ عرصہ قبل یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ غلط معلومات کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا، جس پر وہ معافی چاہتے ہیں، اگرچہ امریکی برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ کے کئے جانیوالے دعووں کی تائید بھی نہیں کی تھی، تاہم اس گٹھ جوڑ نے عراق حملہ کر دیا، اپریل 2003ء میں سقوط بغداد کے بعد صدام حسین روپوش ہوگئے۔ تاہم 14 دسمبر 2003ء کو بدترین ڈکٹیٹر کو اس کے آبائی علاقے تکریت سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کر لیا گیا، یوں 30 ستمبر 2006ء میں صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
صدام حسین کی پھانسی کے بعد عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے، جو اب داعش کے فتنے کی شکل میں ظہور پذیر ہیں۔ امریکہ عراق سے تو نکل چکا ہے لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی چھوڑ گیا ہے، امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنے پیچھے فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر فسادات اور تباہی چھوڑ کر جاتا ہے اور یہی حال اس نے عراق کا کیا۔ امریکہ نے ابوبکر البغدادی کو خود رہا کیا اور بعد میں اس کے ذریعے داعش کو منظم کرکے عراق پر ایک نئی جنگ مسلط کر دی، جو اب اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ امریکہ کا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مخالف امیدوار ہلیری کلنٹن پر داعش کو جنم دینے اور اس کی مدد کرنے کا ذمہ دار قرار دے چکا ہے۔ یاد رہے کہ داعش نے کم وقت میں تکریت اور موصل سمیت عراق کے کئی علاقوں تک پیشرفت کر لی تھی، حتیٰ کئی آئل ریفائنریز قبضے میں لے لی تھیں، لیکن اب داعش سے تکریت سمیت متعدد علاقے چھن چکے ہیں اور اب موصل میں فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔
دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں امریکہ اور عرب ممالک ایک طرف ہیں، جبکہ مزاحمتی بلاک ایران، شام، عراق اور روس دوسری طرف ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ شام کے مشرق میں واقع حلب بھی داعش اور جھبۃ النصرہ سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے قریب ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد عراق اور شام کو کمزور کرکے لیبیا کی طرح حکومتوں کو گرا کر لبنان پر چڑھ دوڑنا تھا اور اپنی مرضی کی حکومتوں کا قیام تھا، ان تمام اقدامات کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا تھا۔ مسلسل جنگوں کے باعث عراق میں خواتین کی شرح بڑھ رہی ہے، 50 سال سے جاری مختلف جنگوں میں مسلسل قربانیوں کے باعث مردوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، جنگ کے آثار ہر طرف دکھائی دیتے ہیں، کمزور عراقی حکومت تاحال عراق کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ مرکوز نہیں کر سکی، یہی وجہ ہے کہ داعش کیخلاف جنگ میں ایران عراق کی پشت پر کھڑا ہے۔ عراق میں لوکل حکومتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
داعش نے عراق میں ایسے بدترین مظالم ڈھائے ہیں، جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، مخالفین کو تیل چھڑک کر زندہ آگ میں جلانا، ٹینکوں کے نیچے دیکر مارنا اور پانی میں ڈبو ڈبو کر مارنا داعش کے دہشتگردوں کا وطیرہ بن چکا ہے، انسانوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے خنجر کے ذریعے گردنیں اڑنے اور سروں میں گولیاں مار کر قتل کرنے کی ویڈیوز تک نشر کی گئیں۔ یہ ویڈیوز ایک عام انسان نہیں دیکھ سکتا، داعش کے فتنے سے فقط شیعہ ہی نہیں بلکہ اہلسنت اور عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ داعش کی جانب سے اصحاب رسول کے مزارات تک کو بم نصب کرکے اڑا دیا گیا، حتٰی سامرہ میں پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آل تک کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا، اب بھی ان مزاروں کو منہدم کرنے کیلئے اس فتنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔ بغداد اور کربلا سمیت دیگر علاقوں میں بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کاررائیاں کرکے ہزاروں انسانوں سے زندگی کا حق چھینا جا چکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ موصل میں آخری معرکہ جاری ہے، جس میں عراقی آرمی کیساتھ رضاکار فورس بھی یہ جنگ لڑ رہی ہے، اس رضا کار فورس میں ریاست میں مقیم تمام طبقات شامل ہیں۔
مشی کے راستوں پر بھی اس جنگ کے حوالے سے آگاہی کیلئے بڑی سکرینیں نصب کی گئی تھیں، جن کے ذریعے عربی زبان میں لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا تھا اور داعش کیخلاف تشویق دلائی جا رہی تھی، داعش کے ہاتھوں مارے جانیوالے عراقی شہداء کی تصاویر بھی جگہ جگہ نصب کی گئی تھیں، حتیٰ وہ علماء جو داعش کے فتنے کیخلاف محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے، ان کی قربانیوں کا بھی تذکرہ سننے کو ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ داعش کی جانب سے پھیلائے جانیوالے خوف کے باوجود کروڑوں انسانوں کا سمندر مشی میں شرکت کیلئے کربلا پہنچا، جو ایک بڑی کامیابی تصور کی گئی۔ مشی سے متعلق جو راقم نے درک کیا وہ یہ ہے کہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل اپنی انا کو فنا کرنا، ایثار و قربانی کی لازوال مثالوں کو زندہ کرنا، انسانوں کا احترام اور اسلام کے صحیح پیغام کو اجاگر کرنے کا نام مشی ہے۔ کئی جگہوں پر دیکھا کہ اگر راستے میں کسی کو غلطی سے دھکا لگ بھی گیا تو جس کو دھکا لگا وہ معافی کا خواستگار دکھائی دیا۔
کربلا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال عوام کی شرکت بہت زیادہ ہے، داعش کے خوف پھیلانے کے تمام تر حربوں کے باوجود تقریباً 3 کروڑ 60 لاکھ لوگوں نے مشی میں شرکت کی اور داعش سمیت ان تمام طاقتوں کو پیغام دیا کہ تم بےگناہ انسانوں کو مار کر خوف کی فضا قائم نہیں کرسکتے، تم اپنے اہداف میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ داعش نے اس سال بھی زائرین کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، 10 صفر کو سامرہ اور 22 صفر کو حلہ کے مقام پر ایرانی زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد زائرین شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے، 17 صفر کے بعد سامرہ میں سکیورٹی صورتحال کے باعث 15 کلو میٹر پہلے گاڑیوں کو آگے نہیں جانے دیا جا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود زائرین پیدل چل کر مقدس مقامات تک پہنچے۔
تحریر۔۔۔۔نادر بلوچ
وحدت نیوز(جہلم ویلی) انجمن جعفریہ جانثاران عباس ؑ ضلع جہلم ویلی کے زیر اہتمام مسجد امام علی(ع) نیالی مہاجر کیمپ میںجشن میلادالنبی( ص) وامام جعفرصادق (ع) کا انعقاد،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ا ٓزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی مہمان خصوصی تھے،جشن کے اختتام پر میلاد الصادقین ؑ کی مناسبت سے کیک بھی کاٹا گیا،،جشن میلاد سے خطیب اہلسنت قاضی محمد فہد ایڈووکیٹ کوآرڈینیٹر سیرت کمیٹی ضلع جہلم ویلی،علامہ سید یاسر حسین سبزواری،سید ریاض حسین ہمدانی،علامہ سید وزیرحسین کاظمی،سید ذاکر کاظمی،سید منور کاظمی اور دیگر نے بھی خطاب کیااس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وحی الہی کے ٓاخری سفیر خاتم الانبیاء، فخر موجودات، سرور کائنات، حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مسرت آفرین دن کہ جب عالم بشریت کی پیشانی درخشاں ہوئی اورحضورکے وجود کی عطر بیزہواؤں سے آج بھی مشام ہستی مطہر و معطر ہے۔ہم خدا کے رسول حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو اپنے تمام برادران اسلام بلکہ پوری دنیائے بشریت کو لباس نور سے مزین، مادیت کے سایے سے بھی آزاد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ورود مسعود کی مبارک باد پیش کرتے ہیں تمام مذاہب میں ان کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ہی خدا کی نبوت الہی اور پیغام رسانی کا اختتام ہواہے،سبھی کو دور جہالت سے رہائی اور بشریت کی فلاح و نجابت کی فکر اور آرزو تھی اور ہر ایک ظلم و ستم کی برائیوں سے آزادی اور آدمیت کے کمال و ارتقاء کامتمنی اور خواہشمند تھا، امن و سلامتی سے معمور دنیا کی تعمیر کے لئے خدا کے آخری مبشر و نذیرکی دنیا راہ تک رہی تھی ۔
علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہاکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھااس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں اور حضور کا اپنا وجود نوید مسیحائی اور دعائے ابراہیم ؑ تھا آپ نے امیر غریب کا نہ صرف فرق مٹایا بلکہ گلام کو آقا کے برابر مقام دیا حتیٰ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو موذن مقرر کرنا بھی جہاںحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے باعث عزت وشرف تھا وہیں عربوں کے غرور کو خاک میں ملانے کا ذریعہ تھا کل تک جس بلال کو عب اپنے اشاروں پہ چلاتے تھے آج وہی عرب اسی بلال کی آواز اذان اور اشارے پر چل کر نماز کے لئے آئیںآنحضرت کی پیدائش پروہ معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (ع) مٹی اور پانی کے درمیان تھے،میںحضرت ابراہیم (ع) کی دعا،حضرت عیسیٰ (ع) کی بشارت اور اپنی ماں کاوہ خواب ہوںجو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگے،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیھا بیان کرتی ہیں کہ وقت ولادت میں نے ہاتف غیبی کی آواز سنی کہ مشرق سے مغرب گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کروان کے جیساکون ہوسکتاہے تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، آدم(ع) کی طرح صفا و پاکیزگی، نوح(ع) کی طرح نرمی و سادگی، ابراہیم (ع) کی طرح خلت ومحبت ،اسماعیل (ع) کی طرح رضا و خوشنودی ،یوسف (ع) کی طرح حسن و زیبائی اور عیسی(ع) کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے۔
علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضور کی سیرت کو پروردگار نے اسوہ حسنہ قراردیا اور آپ کی حیات مبارکہ بنی نوع انسان کے لئے ایک جامع اور کامل واکمل نمونہ ہے آج امت مسلمہ کی جملہ مشکلات کاحل اسوہ حسنہ کی پیروی میں مضمر ہے حضور نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اہم کتاب کو بھی اتحاد کی دعوت دی آج بھی واحد ذات حضرت رسالتمآب کی ہے جس پر امت مسلمہ کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ریاست کشمیر میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم شمع رسالت کے پروانے شیعہ سنی کی تقسیم سے بالا تر ہوکرمحرم الحرام ہو یا ربیع الاول رسول اور خاندان رسول سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔