وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے معروف سماجی شخصیت اور فاطمہ جناح یونیورسٹی کے لیکچرار سلمان حیدر کے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادسے دن دیہاڑے اغوا کو سیکورٹی اداروں کی غفلت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیریت کے خلاف آواز بلند کرنااس ملک میں جرم بن گیا ہے۔ملک و قوم کے دشمن دندناتے پھر رہے ہیں اور محب و طن افراد دن دیہاڑے غائب ہو جاتے ہیں۔ سیف سٹی کے ہر اہم چوراہے پر سیکورٹی کیمرے نصب ہیں اور وزیر داخلہ اس سیکورٹی نظام کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے۔تین روز گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کی پراسرار گمشدگی ذمہ داران کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے جوحیران کن ہے۔انہوں نے وزارت داخلہ سے سلمان حیدر کی جلد از جلد بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) حرم اہلبیت اطہار ؑکی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ایران کے سات شہید کمانڈوز کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای نے فرمایا کہ شہدائے مدافع حرم پوری قوم کیلئے باعث افتخار ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شام میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے روضے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے سات شہید کمانڈوز کے اہل خانہ اور لواحقین سے ملاقات میں شہدا کے اعلی و ارفع مقام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شہداء نہ صرف فوج بلکہ پوری قوم کے لئے باعث افتخار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان شہداء کی تشیع جنازہ کے موقع پر بعض شہیدوں کی ازواج نے ایسے اعلی مفاہیم کی حامل باتیں کہیں جو مادی انسانوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
آپ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ شہدائے حرم ہی تھے کہ جنہوں نے دشمن کو دھول چٹائی اور ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا فرمایا کہ اگر بدخواہوں اور فتنہ پروروں کو جو امریکہ اور صیہونی حکومت کے آلہ کار ہیں حرم حضرت زینب سلام اللہ تک پہنچنے سے روکا نہ گیا ہوتا تو تہران، فارس، خراسان اور اصفہان میں انہیں روکنا پڑتا۔ واضح رہے کہ شہدائے حرم ان شہیدوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے شام میں نواسی رسول حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے روضے کا دفاع اور حفاظت کرتے ہوئے راہ خدا میں اپنی جان قربان کر دی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی، علامہ سید احمد اقبال رضوی ، سید ناصرشیرازی، مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی ، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور خارجہ علامہ سید ظہیر الحسن نقوی اوردیگر قائدین نے اپنے مشترکہ تعزیتی پیغام میں سابق ایرانی صدر آیت اللہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی رحلت پر ملت ایران، مرحوم کے پسماندگان اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت اقدس میں دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے،قائدین نے کہا ہے کہ مرحوم آیت اللہ رفسنجانی انقلاب اسلامی کے بنیادی ستون شمار کیئے جاتے تھے، بانی انقلاب امام خمینی اور رہبر انقلاب امام خامنہ ای کے درست راست ہو نے کے ساتھ ساتھ انقلاب کے بڑے محافظ بھی تھے جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کی خاطر متعدد بار زندانوں میں پہلوی شہنشاہیت کے شکنجے سہے لیکن امام خمینی کی قیادت کا ساتھ نہ چھوڑا۔ان کے انتقال سے اسلامی جمہوری ایران ایک مدبر اور دوراندیش سیاستدان سے محروم ہو گیا ہے۔ایم ڈبلیوایم رہنما ؤں نے پسماندگان کیلئے صبر جمیل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کی ہے۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے رہنمائوں علامہ سید اقتدار حسین نقوی، سلیم عباس صدیقی، محمد اصغر تقی اور سید عدیل عباس زیدی نے لودھراں میں ٹرین حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے 9 بچوں کے المناک واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں ریلوے جانیں لینے والا محکمہ بن گیا ہے، ریلوے کے ہر حادثے کے بعد وفاقی وزیر پریس کانفرنسوں میں قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر جائیں اور کسی اہل شخص کو یہ منصب دیا جائے۔ رہنمائوں نے کہا کہ وفاقی وزیر ریلوے کرپٹ وزیراعظم کی کرپشن بچانے اور سیاسی مخالفین کو آنکھیں دکھانے کے یک نکاتی ایجنڈے تک محدود ہیں۔ رہنمائوں نے کہا کہ کوئی اور نہیں حکومت براہ راست ان حادثات کی ذمہ دار ہے۔ ریلوے کرپشن اور نااہلی کے باعث ایک خونی ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ داخلی ڈسپلن نام کی کوئی چیز ریلوے کے محکمے میں نہیں ہے، موجودہ دور میں چُن چُن کر نااہل لوگوں کو ریلوے میں بھرتی کیا گیا، جس کا نتیجہ ریلوے کی معاشی تباہی اور عوام کو قیمتی جانوں سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں نے کہا کہ پی آئی اے ہو یا ریلوے محفوظ سفر ایک خواب بن کر رہ گیا، یہ ادارے عوام کی جانیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محض ڈرائیور کو مورد الزام ٹھہرانا کافی نہیں ہے۔ لودھراں سانحہ کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے اور اصل ذمہ داروں کو بھی کڑی سزا ملنی چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن ریلوے کے سفر کو محفوظ بنانے کیلئے ایس او پی تیار کرنے میں بھی رہنمائی کرے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل )خواجہ آصف کے اعترافی بیان کے بعد بین الاقوامی خبررساں اداروں نے اپنا جنرل راحیل شریف کے اس 34 رکنی سعووی اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی کی تصدیق کردی ہے۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر یمن پر حملے کیلئے بنایا گیا تھا اور بعد ازاں اسی کو مسلم دنیا کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے عسکری اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس کا خالق اور مالک سعودی عرب اور بالخصوص سعودی ولی عہد سلمان ہے جو خطے میں اپنی انتہاپسندانہ پالیسی کی وجہ سے معروف ہے۔ اس تعیناتی نے جہاں راحیل شریف کے بطور آرمی چیف کردار پر بعض سوالات کا جواب دے دیا ہے، وہاں سعودی عرب کی پاکستانی امور میں مداخلت کو بھی واضح کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد سعودی شاہی خاندان خصوصی جہاز کا پاکستان سے راحیل شریف کو لیکر سعودی عرب پہنچانا، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ ایک دن کی بات نہیں تھی بلکہ کھچڑی بہت دیر سے پک رہی تھی۔ آل سعود راحیل شریف سے بہت سی ضمانتیں اور رعایتیں پہلے ہی حاصل کرچکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آل سعودنے راحیل شریف کو ان خدمات کا صلہ اس نئے عہدے کی صورت میں دیا ہے۔ جس کے غبارے سے اس کے قیام سے پہلے ہی ہوا نکل چکی ہے۔ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں اس معاہدے کی تائید تو کردی ہے لیکن اس کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
سبکدوش ہونیوالے جنرل کو ریٹائرمنٹ کے دوسال بعد کسی ایسی نوکری کیلئے پہلے حکومتی اداروں سے اجازت لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جو یقیناً آل سعود کے مطالبے پر جاری کی گئی ہوگی۔ 34رکنی اتحاد ایک عجیب سراب، دھوکہ اور مسلم دنیا کے ساتھ غداری کی علامت ہے کہ آج تک اس اتحاد نے مسئلہ فلسطین کے عسکری حل پر بات نہیں کی۔ اسرائیلی مظالم کے مقابلہ میں فلسطینیوں کی عسکری حمایت کا عندیہ نہیں دیا۔ اسرائیلی جارحیت کے شکار مسلم ممالک کی مدد کرنے کا اعلان نہیں کیا اور اردن، شام، لبنان اور مصر کی زمینوں پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے حوالے سے عسکری مدد کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ عالم اسلام کے قدیم ترین اور عظیم ترین مسئلہ آزادی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کیلئے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ تو پھر یہ اتحاد ہے کن مقاصد کے حصول کیلئے۔؟ مسلم ممالک میں بیرونی جارح قوتوں کی موجودگی بالخصوص امریکہ و اسرائیل کے اڈوں کے خاتمہ کیلئے بات تک نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کی برما میں نسل کشی پر کسی جوابی عسکری اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا، تو یہ آیا یہ اتحاد صرف سعودی اور اس کے اتحادیوں کے اہداف کے حصول کیلئے تیار کیا گیا ہے۔؟؟ تو پھر ایسے اتحاد میں پاکستان کی اس درجہ شمولیت انتہائی باعث تشویش اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش محسوس ہوتی ہے۔
بطور پاکستانی ہمارے لیے مسئلہ کشمیر انتہائی اہم ہے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے اور پاکستان کی شہ رگ ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مودی حکومت سے بے نظیر تعلقات کے بعد ان ممالک سے مسئلہ کشمیر میں کس طرح کی مدد کی بات بھی بعید نظر آتی ہے، جبکہ 34 رکنی اتحاد نے مسئلہ کشمیر کے متعلق اشارے کنائے میں بھی بات کرنے سے انکار کردیا ہے، تو پھر پاکستان کے سابق آرمی چیف کا وزن سعودی اتحاد کے پلڑے میں ڈال کر کس کی خدمت کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ راحیل شریف کو حق حاصل کہ وہ کوئی ملازمت کرے، لیکن حالیہ قٖضئیہ سادہ نہیں، بلکہ انتہائی اہم ہے۔ راحیل شریف بطور آرمی چیف ملک کے اہم ترین رازوں کے امین رہے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت سمیت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے سرخیل رہے ہیں۔ کیا ان سب رازوں کو آل سعود کو منتقل کرکے وطن عزیز کے خلاف ایک نئی خیانت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ راحیل شریف سمیت دیگر ذمہ داران نے ملکی رازوں اور ملکی شخصیات کا بہت کم قیمت پر سودا کیا ہے۔ بلی تھیلے سے باہرآتی جارہی ہے اور نواز حکومت کی کرپشن پر راحیل شریف کی خاموش حمایت، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کی پردہ داری اور ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرکے پاک چائینہ اکنامک کوریڈور پر کاری ضرب لگانے کی کوششوں پر موجود سوالات کے آسان جوابات ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس سطح کی سازش کی جا سکتی تھی، جو اب آشکار ہو رہی ہے۔ راحٰل شریف کو مستقبل قریب میں ایسے بہت سے سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔ تھوڑی سی روشنی اس نام نہاد اتحاد پر ڈالتے ہیں کہ جسے کسی صورت میں ایک باقاعدہ اور باضابطہ اتحاد امہ یا الائنس قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس اتحاد کے متعلق چند اہم نکات:
1۔ داعش کے خلاف جنگ لڑنے والے مسلم ممالک یعنی عراق، شام، ایران، لبنان وغیرہ اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ان کو شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
2۔ داعش، القاعدہ، طالبان، النصرہ، بوکوحرام اور دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کے حامی، سہولت کار، خالق اور سپورٹر ممالک اپنی اسی پالیسی کے ساتھ صرف اس اتحاد کا حصہ ہیں، بلکہ اس کے پالیسی ساز بھی ہیں۔
3۔ اس اتحاد نے کشمیر اور فلسطین پر کوئی عسکری پالیسی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
4۔ اس اتحاد میں شامل ممالک کی اکثریت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی ہے۔
5۔ اس اتحاد میں شامل اور فعال ممالک براہ راست امریکی بلاک کا حصہ اور اس کی پالیسی کے سہولت کار ہیں۔
6۔ اس اتحاد کا ضابطہ کار، اہداف غیر معینہ ہیں جبکہ اس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے ۔ جو یمن جیسے مسلم ممالک پر جارحیت کا مرتکب ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اتحاد امت مسلمہ کے خلاف استعمال ہوگا۔
7 ۔ یہ اتحاد خالصتاً فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہے اور فقہ جعفریہ کی اکثریت رکھنے والے ممالک اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔
جنرل راحیل شریف جو بطور آرمی چیف اداروں کو اپنی پروجیکشن کیلئے استعمال کرنے کے حوالہ سے معروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے کردار سمیت ملک بھر راحیل شریف کی شخصیت سازی کیلئے فوجی اداروں کا استعمال سب کے علم میں ہے۔ ان کی اس متنازعہ، فرقہ ورانہ، عسکری اتحاد کیلئے نامزدگی نے کئی سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس فیصلہ کا کم از کم نتیجہ ملک میں جاری شورش میں اضافہ، سی پیک کیلئے رکاوٹوں میں اضافہ، نیشنل ایکشن پلان کی تدفین سمیت ملکی سالمیت کیلئے سنگین خطرات کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ وطن عزیز کے سلامتی کے ذمہ داروں اور پاریمنٹ کو اس مسئلہ میں کردار ادا کرنے ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ رجحان کہ ہمارے اہم جرنیل اور خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں رقم اور کچھ دیگر منافع کے حصول کیلئے خود کو یو اے ای، قطر اور سعودی عرب کا نوکر بنا رہے ہیں۔ جس میں ہماری اپنی سلامتی کیلئے خطرہ موجود ہے۔
بس یہ کہتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص نئی ملازمت کیلئے کسی بڑی کمپنی میں انٹرویو دیتا ہے، تو فیصلہ میز پر موجود وہ فائل کرتی ہے کہ جس میں اس کا سابقہ تجربہ، فعالیت، کارکردگی اور معلومات کی تٖصیلات درج ہوتی ہیں۔ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عسکری اتحاد کی سربراہی کی نوکری کیلئے جنرل راحیل شریف نے کیا فائل جمع کرائی ہوگی۔ کن تجربات، معلومات اور فعالیتوں کو اپنی کارکردگی میں شامل کیا ہوگا تاکہ اس نئی ملازمت کو حاصل کرسکیں اور سابقہ تجربات کو نئی ملازمت میں استعمال کرسکیں۔ وطن عزیز کے اہم ترین سلامتی کے اداروں میں کام کرنے کی معلومات اور کارکردگی کسی دوسرے ملک یا اتحاد کو منتقل کی جارہی ہے اور یہ کام قلیل رقم اور عارضی شہرت کے حصول کیلئے کیا جارہا ہے تو وطن سے اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی۔؟ وطن وزیز میں محب وطن قوتوں، جماعتوں اور اداروں کو اس خیانت کے خلاف رائے ہموار کرنے اور اپنے غم و غصہ کے اظہار کیلئے میدان میں آنا ہوگا تاکہ ملک کے مستقبل کی حفاظت ممکن ہوسکے۔
تحریر: سید ناصر شیرازی
مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، ایم ڈبلیو ایم
وحدت نیوز (ڈی آئی خان) مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ڈیرہ اسماعیل خان کے زیراہتمام شرافت حسین اور پولیس وین پر ہونے والے حملے کے خلاف، نماز جمعہ کے بعد کوٹلی امام حسینؑ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم ڈی آئی خان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تہور عباس شاہ نے کہا کہ ہم شہر میں ہونے والی دہشتگردی کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلے پست ہونے والے نہیں، ہم پویس اور فوج کے ساتھ ہیں، اس جنگ میں مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں، ان کاروائیوں میں کبھی شیعہ کبھی سنی، کبھی پولیس اور فوج دہشتگردی کی بھینٹ چڑھتے ہیں، ہمیں مل کر جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ اپنے شہر اور اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنا سکیں۔ کوٹلی امام حسینؑ کی اراضی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ زمین وقف امام حسینؑ ہے اور شیعہ قوم کی پراپرٹی ہے، اس کے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیں گے، اگر ہمیں جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑا تو ہم دریغ نہیں کریں گے۔ ایم ڈبلیو ایم اس حوالے سے ملک گیر احتجاج کرے گی۔ اجتماع سے آئی ایس او کے ڈویژنل صدر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔