وحدت نیوز(سکردو)  پاکستان کی وفاقی حکومتیں ہر بار مختلف وعدے وعید لیکر گلگت بلتستان پر حکمرانی کرتے آئے ہیں لیکن ستر سالوں سے یہاں کے عوام کو بنیادی آئینی و انسانی حقوق سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہے۔ الیکشن کے دوران بلند و بانگ دعوئے اور ہر پراجیکٹ کا کئی کئی بار افتتاح کرکے حکومت بنانیوالی جماعت سے اس خطے کے لاکھوں کی آبادی کیلئے ایک سڑک بنانے کی اہلیت نہیں تھی، اور افسوسناک بات یہ کہ یہاں کے منتخب نمائندے ہی اپنے عوام کی نمائندگی کی بجائے پارٹی کی نوکری کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، مرکزی رہنماعلامہ اعجاز بہشتی، صوبائی سکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان سرفراز نقوی اور دیگر مقررین نے چنداہ سکردو میں کیا۔

 مقررین نے سوال اٹھایا کہ جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں سے کچھ نے مجرم اور کچھ نے ملزم قرارد ے دیا تو ایسے میں وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہتا، اور انہی کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے انکوائری  کسطرح سے شفاف اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اسلئے تھوڑی سی بھی غیرت باقی ہے تو میاں صاحب کو چاہئے کہ استعفیٰ دیکر گھر جائیں جب تک انکوائری مکمل ہوکر سپریم کورٹ سے باقاعدہ فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ناپیدگی پر تشویش کا اظہا رکرتے ہوئے مرکزی صدر آئی ایس او نے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتی یہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو کیوں جان بوجھ کر اندھیروں میں رکھنا چاہی ہے۔ جب دنیا جہان سے لوگ اس جنت نظیر خطے کو دیکھنے آتے ہیں، ہر قدرتی وسائل سے یہ خطہ مالامال ہے، اور کسی بھی بد امنی سے پاک ہے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہاں ترقی کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتا ، تعلیم ، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کیلئے ترس نہیں رہے ہوتے، لیکن ان معاملات میں بدترین صورتحال کو دیکھ کر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندے عوام سے مخلص ہے نہ اپنے خطے سے،بلکہ صرف شہوت اقتدار ہی ان کا اوڑھنا بچھونا لگتا ہے۔

آغا سید علی رضوی اورعلامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ صوبائی حکومت کی نا اہلی کی بدترین مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کیلئے حصہ لے سکی،کئی بار افتتاح کے باوجود سکردو روڈ بنا سکی،وعدوں کے باوجود بلتستان یونیورسٹی کیلئے کام ہوا نہ بجلی لوڈشیڈنگ پر قابو پاسکی بلکہ ان کا سارا ہم و غم سیاسی انتقام کیلئے دہشت گردی ایکٹ کا استعمال،عوامی فنڈز پر ٹھیکہ دار نوازی ،اقربا پروری اور جھوٹے وعدے ہی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد اسکینڈل میں عوام کے منہ پر کالک ملنے والے بھی ہاتھ میں تسبیح لیکر جھوٹے بیانات دیتے نہیں تھکتے۔

وحدت نیوز(انٹرویو) ڈی آئی خان میں احتجاجی ریلی کی قیادت کے بعد اسلام ٹائمز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں، جو یہاں موجود ہیں، بنیادی طور پر یہ ذمہ داری موجود لوگوں کی تھی کہ وہ کسی کو بھی اس اراضی پر ایک اینٹ بھی نہ رکھنے دیتے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ ابھی بھی مختلف لوگوں کو محکمہ اوقاف اور سرکار کیجانب سے مختلف پیش کش ہو رہی ہیں۔ انہیں ایک آفر یہ بھی ہوئی ہے کہ ایک سو چالیس کنال ہم آپ کے نام پر انتقال کرتے ہیں، باقی اراضی آپ چھوڑ دیں۔ مگر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 327 کنال 9 مرلے میں سے ہم ایک مرلے سے بھی دستبردار نہیں ہونگے۔ کوٹلی امام حسین (ع) اراضی تشیع غیرت اور ناموس کا مسئلہ ہے۔ افسوس ہے سانپ سونگھے ان مردہ ضمیروں پر، جو بہت سارے اہم قومی یا ملکی مسائل میں اپنی سستی، خوف اور حکومت پرستی کو حکمت و مصلحت کا نام دیکر اپنی خاموشی سے ظالموں کیلئے تقویت کا باعث بنتے ہیں اور عام حالات میں گفتار کے غازی بنکر سوشل میڈیا کی حد تک عوام کے وارث بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
علامہ محمد اقبال بہشتی مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں، انکا تعلق ضلع کوہاٹ کے علاقہ بنگش سے ہے، انکے والد آرمی میں تھے اور 1965ء کی پاکستان اور بھارت جنگ میں شہید ہوئے۔ انہوں نے 1983ء میں بنوں سے ایف ایس سی کی اور آرمی میں آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ کلیئر کیا، انہی دنوں میں انکی ملاقات قائد شہید عارف حسین الحسینی سے ہوئی اور یہ ملاقات انکے لئے انقلاب سے آشنائی کا باعث بنی، جس سے انکا رجحان دین کیطرف ہوگیا اور انہوں نے 1984ء میں باقاعدہ طور پر پاراچنار کے دینی مدرسہ جعفریہ میں تعلیم کا حصول شروع کیا۔ 1992ء تک قم ایران میں پڑھتے رہے اور سال کے آخر میں پاکستان آگئے۔ 1992ء سے لے کر 2010ء تک اورکزئی ایجنسی کے مدرسے کا چارج سنبھالا، جسکی بنیاد شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے رکھی تھی۔ 2010ء کے آخر میں انہوں نے مجلس وحدت مسلمین میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کی۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کے مسئلہ پر انہوں نے ڈی آئی خان کا دورہ کیا اور احتجاجی ریلی و مظاہرے کی قیادت کی۔ خیبر پختونخوا میں تشیع املاک پہ ناجائز قبضے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں تشیع املاک پر ناجائز قبضے اور عزاداری کیلئے وقف املاک کی قانونی حیثیت میں بوگس تبدیلی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں، کیا یہ کوئی حکومتی پالیسی ہے، یا تشیع کی کمزوری۔؟
علامہ اقبال بہشتی: خیبر پختونخوا بشمول فاٹا میں زیادہ تشیع آبادی والے علاقے چند ہیں۔ جیسا کہ پارا چنار جہاں ساڑھے چار لاکھ سے زائد شیعہ، ہنگو، کوہاٹ، اورکزئی میں ساڑھے تین لاکھ، ڈی آئی خان میں اڑھائی لاکھ سے زائد شیعہ آبادی ہے۔ چونکہ یہ شیعہ اکثریتی علاقے ہیں تو یہاں پر تشیع جائیدادیں، زمینیں، املاک نجی و قومی (دونوں) زیادہ ہیں۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ شیعہ اکثریتی علاقوں کو ڈسٹرب کرے۔ اسی کا تسلسل ہے کہ ہماری املاک پر قبضے بھی ہو رہے ہیں اور ان کی قانونی حیثیت بھی تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کوششوں میں صوبائی حکومت باقاعدہ شریک ہے۔ اورکزئی ایجنسی، پاراچنار میں ہماری تقریباً بارہ ہزار کنال زمین کو ہڑپ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس زمین پر ترقیاتی کام کرکے یعنی بجلی، روڈ و دیگر سہولیات فراہم کرنے کے بعد وہاں طالبانی فکر کے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں ہم سنی بھی نہیں کہہ سکتے۔ خوارج ہیں، دہشت گرد ہیں۔ ان لوگوں کو زمین دی جا رہی ہے۔ پاراچنار، اورکزئی صوبائی حکومت کے زیرانتظام نہیں ہیں، مگر کوہاٹ اور ڈی آئی خان تو ہیں۔ اورکزئی میں پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر افسران لاکھوں روپے رشوت لیکر ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

دوسرا اہم مسئلہ جو ضلع کوہاٹ کا دیرینہ مسئلہ ہے، وہ کچئی میں ضلع اور علاقہ غیر کی حدبندی اور ہماری زمین پر مخالفین (طالبانی فکر) کے قبضے کا ہے۔ یہاں بھی زمین سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کنال ہے۔ کچئی باقاعدہ ضلع ہے۔ یہاں کی ہزاروں کنال زمین باقاعدہ ہمارے پاس انتقال شدہ ہے۔ ہمارے پاس اس کے نقشے ہیں، کاغذات ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ضلع اور علاقہ غیر کے مابین باؤنڈری کو تازہ کیا جائے۔ چونکہ اس علاقے میں اربوں کا قیمتی کوئلہ موجود ہے، لہذا افسران رشوتیں لیکر اس معاملے کو سلجھانے کے بجائے زیادہ الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قانونی طریقے سے اسے حل کرنے کی حوصلہ افزائی کے بجائے علاقائی سطح پر جرگے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاکہ اس کا رزلٹ آدھا تم لو اور آدھا تم والا معاملہ ہو جائے۔ تیسرا اہم ترین مسئلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کا ہے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی مرکزی سرکلر روڈ کے دونوں جانب لب پر واقع ہے۔ یہ کل 327 کنال اور 9 مرلے اراضی ہے، جو کہ 1837ء میں ایک ہندو مادھو لعل (جو کہ امام حسین (ع) سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتا تھا) نے امام حسین (ع) کے نام پر وقف کی تھی۔ 1837ء سے لیکر 2013ء تک اس اراضی کی قانونی حیثیت وقف امام حسین (ع) ہی رہی۔ 2013ء میں انتخابات کی گہما گہمی کے اندر اور غل غپاڑے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ اوقاف نے اس اراضی کا انتقال اپنے نام پر کر لیا۔ اول تو یہ انتقال ہی بوگس اور جعلی ہے، کیونکہ منتقلی کیلئے صاحب جائیداد کی موجودگی، دستخط ضروری ہیں۔ اس مسئلہ کو بھی ایم ڈبلیو ایم نے ہی اٹھایا ہے۔ اس جعلی انتقال کے خلاف ہمارا احتجاج جاری ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی پرانی حیثیت کو بحال کیا جائے اور دوبارہ وقف امام حسین (ع) کی جائے نہ کہ محکمہ اوقاف کے نام پر منتقل۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی کے مسئلہ پر کافی دنوں سے احتجاج جاری ہے، حکومت یا انتظامیہ کوئی نوٹس لینے پر تیار نہیں ، تو آپکا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
علامہ اقبال بہشتی: جی ہمیں بھی اندازہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، مگر تشیع قوت کوئی اتنی لاغر یا کمزور نہیں ہے کہ وقف امام حسین (ع) اراضی کی حفاظت نہ کر پائے اور اغیار اسے یوں ہتھیا لے جائیں۔ احتجاج کا سلسلہ شروع ہے۔ لوگوں میں بیداری آرہی ہے، انہیں اپنے حقوق کا اندازہ ہے اور اب انہیں اپنے حقوق لینے کا طریقہ بھی آنا چاہیئے۔ قومی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ عوامی، پرامن جدوجہد کے ذریعے حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کوٹلی امام حسین (ع) کی پرانی حیثیت کو بحال کرے۔ ہم اپنے عوامی احتجاج کا سلسلہ دراز کر دیں گے۔ اس کے علاوہ ہم دونوں راستے استعمال کریں گے۔ قانونی راستہ بھی اپنائیں گے کہ اس جعلی انتقال کو منسوخ کیا جائے اور عوامی جدوجہد کا راستہ بھی اپنائیں گے۔ کچھ بھی ہو، ہم کوٹلی امام حسین (ع) کی پرانی قانونی حیثیت کی بحالی سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اور نہ ہی ایک مرلہ زمین چھوڑیں گے۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کا مسئلہ پرانا ہے، صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ مسئلہ وفاق کے اینڈ پر ہے، ایم ڈبلو ایم ملک گیر تنظیم ہے، تو مرکزی سطح پر یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا، وفاقی حکومت کے سامنے۔؟
علامہ اقبال بہشتی: کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کا مسئلہ ہو یا خیبر پختونخوا میں دیگر قومی و تشیع املاک کا، یہ ڈیڈ مسائل تھے جنہیں مجلس وحدت مسلمین نے مرکزی سطح سے دوبارہ زندہ کیا ہے اور ان پر بات کی ہے۔ یہ مختلف مسائل تھے کہ جن کے حل کیلئے علامہ راجہ ناصر عباس طویل ترین بھوک ہڑتال پر گئے۔ ابھی چونکہ ہم املاک والے موضوع پر ہی بات کر رہے ہیں تو مرکزی سطح سے جو جدوجہد شروع ہوئی، اسی کے تسلسل میں ہم صوبائی حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ راجہ صاحب سے عمران خان نے ملاقات کی، وزیراعلٰی پرویز خٹک نے ملاقات کی۔ اس کے بعد سے ہمارے وفود وزیراعلٰی اور صوبائی وزراء سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ مسائل مرکز سے بھی اٹھا رہے ہیں اور یہاں سے بھی۔ مجلس وحدت مسلمین تشیع کے دفاع، تشیع املاک کے دفاع میں پوری طرح متحرک ہے۔ کوٹلی کی پرانی قانونی حیثیت کی بحالی تک ہمارا احتجاج تو جاری رہیگا۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کے اندر جو شیعہ قومی جماعت طویل عرصہ سے موجود ہے، وہ کوٹلی بچاؤ تحریک میں شامل نہیں اور نہ ہی اس معاملے پر آپکے ساتھ کوئی ہم آہنگی دیکھائی دیتی ہے۔؟
علامہ اقبال بہشتی: یہی ہماری غفلتیں ہیں، لاپرواہی ہے کہ جس کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری وہاں موجود لوگوں کی تھی کہ وہ کسی کو بھی اس اراضی پر ایک اینٹ بھی نہ رکھنے دیتے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ ابھی بھی مختلف لوگوں کو محکمہ اوقاف اور سرکار کی جانب سے مختلف پیش کش ہو رہی ہیں۔انہیں ایک آفر یہ بھی ہوئی ہے کہ ایک سو چالیس کنال ہم آپ کے نام پر انتقال کرتے ہیں، باقی اراضی آپ چھوڑ دیں۔ مگر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 327 کنال 9 مرلے میں سے ہم ایک مرلے سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ تشیع غیرت اور ناموس کا مسئلہ ہے۔ البتہ افسوس ہے سانپ سونگھے ان مردہ ضمیروں پر، جو بہت سارے اہم قومی یا ملکی مسائل میں اپنی سستی، خوف اور حکومت پرستی کو حکمت و مصلحت کا نام دیکر اپنی خاموشی سے ظالموں کیلئے تقویت کا باعث بنتے ہیں اور عام حالات میں گفتار کے غازی بنکر سوشل میڈیا کی حد تک عوام کے وارث بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان شہداء کی سرزمین ہے، کیا یہاں کوئی تبدیلی بھی محسوس کرتے ہیں۔؟
علامہ اقبال بہشتی: ڈیرہ اسماعیل خان شہداء کی سرزمین ہے، بہادروں تعلیم یافتہ، صاحب زیرک شجاع نوجوانوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے نوجوان، خواتین دینی، تعلیمی میدان میں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں کی گلی کوچوں میں تشیع کا بیدردی سے خون بہایا گیا۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھے۔ بے گناہ معصوم تشیع نوجوان عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں یہاں پر ظلم و جور کا بازار گرم کیا گیا۔ یہاں تک کہ جیلوں کے اندر تک بے گناہ نوجوانوں کے گلے کاٹے گئے۔ ہمارا سلام ہے ان ماؤں بہنوں کو کہ جنہیں اپنے بچوں کی، بھائیوں کی اعضاء بریدہ، لاشیں تو ملی مگر انصاف نہیں ملا۔ یہاں تشیع پر زندگی کے دروازے بند ہوئے، کاروبار ختم کئے گئے۔ چنیدہ افراد کا اہدافی قتل کیا گیا۔ خودکش حملے ہوئے، دھماکے ہوئے مگر اس کے باوجود ان کے پایہ استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اس سرزمین کے جوانوں، بہادروں کو ہمارا سلام کہ عصر یزیدیت میں حسینیت کی مالا جپھ رہے ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اصلاح اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہاں فلاحی کاموں کی ضرورت ہے۔ تعلیمی، تنظیمی حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر صحیح معنوں میں یہاں کام کیا جائے تو
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اسلام ٹائمز: آخری سوال، یہ چند دنوں سے پاراچنار شہر کے گرد خندق کی کھدائی کا ذکر عام ہے، کیا سچ ہے۔؟
علامہ اقبال بہشتی: اس حوالے سے مستند رائے دینا تو شائد میرے لئے ممکن نہ ہو، البتہ ماہرین فن اور اس فیلڈ سے متعلقہ افراد ہی اس کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ اس کے باوجود انسانی ذہن میں یہ سوال تو اٹھتے ہیں کہ کیا خندق کی کھدائی سے دہشت گردوں کا راستہ بند ہو جائیگا اور وہ پارا چنار میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔ آیا اس طرح کے اقدامات سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوں گے یا عوام کے۔ خندق کے اندر موجود علاقہ، افراد محدود ہو جاتے ہیں، تو کیا خندق سے ایسا نہیں ہوگا کہ اہل شہر مقید اور دہشت گرد آزاد۔؟ اس کے علاوہ اگر یہ عمدہ نسخہ اتنا ہی کارگر ہے تو صرف پارا چنار میں ہی کیوں اپنایا جا رہا ہے۔ کیا خندقیں دھماکے، گولیاں روک سکتی ہیں۔ کیا خندق کی کھدائی سے شہر اور آس پاس کے دیہاتوں میں فاصلہ نہیں بڑھ جائے گا، اور فاصلہ بڑھنے کی وجہ سے کیا لوگ ایک دوسرے کی مدد کیلئے بروقت پہنچ پائیں گے۔؟ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ واسطہ توڑ کر، آمدروفت میں خلل ڈال کر کیا فوج اور پولیٹیکل انتظامیہ پاراچنار کے شہریوں کیلئے مخلصانہ اقدام اٹھا رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ پاراچنار آل سعود کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ پاکستانی حکمران غاصبین حرمین کی آنکھ کے علاج پر مامور بھی ہیں اور مجبور بھی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ڈان لیکس پروفاقی حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفیکیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کو منظر عام پر لایا جائے۔وزارت داخلہ کی جانب سے کچھ روز قبل واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ڈان لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کی شفارشات کو وزیر اعظم کی منظوری کے بعد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا لیکن اب ان سفارشات کو عوام سے چھپایا جا رہا ہے ۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر حقائق سامنے لانے کے لیے دباؤ ڈالا جانا چاہیے۔ ڈان لیکس کے اصل ذمہ داران کو بچا کر حکومتی شخصیات اور ایک سرکاری ملازم کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ غیر منصفانہ ہے۔پاک فوج کی جانب سے اس نوٹیفیکیشن کا مسترد کیا جانا ہی اس کے غیر حقیقی ہونے کی دلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈان لیکس پر حکومتی موقف شروع سے ہی مبہم رہاہے۔ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن غیر واضح اور عوام کے بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش ہے۔موجودہ حکومت اپنی نااہلی اور کرپشن کی بدولت چاروں اطراف سے پھنسی ہوئی اور بوکھلاہٹ کا شکارہے ۔میڈیا میں ملکی سلامتی اور پاک فوج کے تشخص کے منافی بیان کی اشاعت ایک سنگین اور ناقابل معافی جرم ہے۔اس سازش میں ملوث تمام کرداروں کو منظر عام پر لایا جانا چاہیے۔قوم حقائق جاننا چاہتی ہے۔انکوائری رپورٹ میں کمیٹی کی سفارشات کے مندرجات کو مکمل طور پر سامنا لائے جائے۔قومی اہمیت اور سیکورٹی سے متعلق تمام معاملات کی تحقیقات کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ڈان لیکس کی انکوائری اعلی عدلیہ سے کرائی جائے۔

اندھیرا اور ستارہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) وقت وقت  کی بات ہے  ۔۔۔ کبھی انسان زیادہ تھے اور مشینیں کم ۔۔۔جبکہ آج مشینیں زیادہ ہیں اور انسان کم  ۔۔۔ اور مصروفیت کا تو نام ہی نہ لو۔۔۔ اتنی زیادہ کہ مجھے اپنی بھی خبر نہیں  ۔۔۔ مہینہ ہوگیا   ہے۔۔ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ، اپنی ماں سے کبھی 5منٹ سے زیادہ بات نہیں کرپایا  ۔۔۔

میں بات کر ہی رہا تھا کہ مظہر میری بات کاٹ کر بولا:

کیا کروں میں بھی  ایسا ہی ہوں  ۔۔۔ ۔کل سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں  ۔۔۔  جب لکھتا ہوں تو قلم نہیں چلتا  ۔۔۔ قلم چھوڑوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سانس رک  گئی ہو  ۔۔۔ ۔اور جب کبھی سونے کی کوشش کرتا ہوں تو ڈراؤنے سپنے آتے ہیں  ۔۔۔ ۔۔

ساتھ کھڑے ایک دوست نے  مسکراتے ہوئے کہا  کہ  مجھے لگتا ہے کہ تم پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔ تمھیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے  ۔۔۔ اچھا چھوڑو  ۔۔۔  چلو باہر چلتے ہیں  ۔۔۔

 مظہر : ایک منٹ یار  ۔۔۔  کیا تمھیں یاد ہے  ۔۔۔  کل جب اس کار والے سے کہا تھا کہ  چپس کے خالی پیکٹ کو Dustbin میں ڈالو  ۔۔۔ تو اس نے کیا جواب دیا   تھا۔۔۔ ؟؟؟

دوست: یہی کہ اس کے ایک پیکٹ کی وجہ سے تھوڑا ہی گند پھیل رہا ہے  ۔۔۔ یا پھر ایک پیکٹ نہ پھینکنے سے کونسا پورا شہر صاف ہو جائے گا۔

 مظہر: یار مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب ٹھیک ہوگا  ۔۔۔  ہم غلط راستوں پرچل رہے ہیں  ۔۔۔ ۔

دوست:  اب کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔؟؟ چلو  باہر چلتے ہیں نا  ۔۔۔  پلیز  ۔۔۔

 مظہر  : ( قلم کو وہیں میز پر رکھتے ہوئے اٹھتا ہے )  ۔۔۔چلو  ۔۔۔ اور کچھ دیر خاموشی کے بعد   ۔۔۔واہ کیا بات ہے  ہماری  ۔۔۔  جب کسی سے کہو کہ لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرو  ۔۔۔ تو وہ  کہتا ہے کہ میرے  لائن میں لگنے  سے کیا ہونے والا ہے  ۔۔۔، سڑک پہ کھڑے کسی ملازم کو بولو کہ رشوت کیوں لیتے ہو ۔۔۔ ۔تو بولتا ہے کہ کیا میرے 50 ۔۔100 نہ لینے سے کیا  سسٹم تبدیل ہو جائے گا  ۔۔۔ ؟اگر کسی دودھ والے سے بات کرو کہ پانی کیوں ڈالتے ہو  ۔۔۔ تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ  ۔۔۔ صاحب کیا کریں  سب کرتے ہیں اور اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہوتا ۔۔۔حالت یہ ہے کہ لوگ بازاروں میں کسی کو کھمبے سے باندھ کر مار دیں یا یونیورسٹی میں کسی کو زدوکوب کر کے قیمہ بنا دیں ، ہمارے ہاں کا عام آدمی ، فوج اور پولیس سب  جو ہورہا ہے اسے ہونے دو کے مصداق بنے کھڑے رہتے ہیں۔

ہر کسی کا اپنا دین ، آئین ، قانون اور معاملہ ہے۔۔۔بس بندے کو کمزور نہیں ہونا چاہیے، اگر کمزور ہوا تو کوئی مولوی،  عوام، پولیس ، فوج اور قانون اس کی مدد کو نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ طاقت ور ہوا تو سب اس کی پشت پناہی کریں گے۔

مظہر کی بات ختم ہوئی تو دوست نے کہا کہ  اصل کرپشن تو اوپر سے ہے  ۔۔۔ اور اگر یہ سب ٹھیک کرنا ہے تو اوپر کے نظام و سسٹم کو بدلو  ۔۔۔

 مظہر  : یار اگر مکان کی چھت پہ چڑھنا ہوتو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے  ۔۔۔ ؟؟

دوست : اب یہ کیسا سوال ہوا  ۔۔۔ ؟؟ ظاہر بات ہے سیڑھی کی اور کس کی  ۔۔۔ ۔

 مظہر  : کتنی عجیب بات ہے نا  ۔۔۔کہ انسان مکان کی چھت پر جانے کے لیے اپنا پہلا قدم سیڑھی کے سب سے اوپر والے پلّے پہ رکھے ۔۔

دوست : یہ کیسی بات ہوئی  ۔۔۔  یہ توممکن نہیں  ۔۔۔ اگر کسی نے اوپر جانا ہے تو پہلے پلّے سے آخری کی طرف جائے گا  ۔۔۔ نہ آخری سے پہلے کی طرف  ۔۔۔

 مظہر : یہی تو ہم سمجھ نہیں پا رہے  ۔۔۔ ہم اوپر سے نیچے کی طرف آنا چاہتے ہیں  ۔۔۔

مظہر نے کچھ توقف کیا اور پھر بولا : آج ہم نے علم و معلومات اور ڈگریوں  میں جس قدر ترقی کی ہے  ۔۔۔ اسی قدر  سوچ و بچار اورشعور کی دنیا سے کٹ گئے ہیں  ۔۔۔  ہم جن باتوں کو محسوس نہیں کرتے اور ان پر خاموش رہتے ہیں وہی بڑے بڑے سانحات کا پیش خیمہ بنتی ہیں  ۔۔۔

ہماری غلط خاموشی کی وجہ سے آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ۔۔۔پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ۔۔۔کھلے عام انسان کو بے رحمی سے سڑکوں پہ مارا جانے لگا   ہے ۔۔۔ اور یہ کام کسی جاہل  یا ایک دو پڑھے لکھے انسانوں نے نہیں ۔۔۔بلکہ پورے شہر نے انجام دیا۔۔۔ جب سیالکوٹ میں یہ انسان سوز واقعہ ہوا  ۔۔۔ تو ۔۔یا ۔۔تو ہم خاموش تھے یا پھر مار نے والوں میں ۔۔۔جس ملک  کی بنیاد اس دین پر رکھی گئی کہ جس نے حتی کافر کی لاش کی بھی بے حرمتی سے منع کیا  ۔۔۔  اسی ملک میں ، اسی دین کے ماننے والے آج  مسلمانوں کی لاشوں کو پامال کر رہے ہیں ۔۔۔

ہمارے ہاں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ تذلیل محسوس نہیں ہوتی،  ہمارے ہاں یونیورسٹی کا اسٹاف اپنے طالب علم کو قتل کروا دیتا ہے لیکن ہمیں اس کا درد محسوس نہیں ہوتا ، وہ اس لئے کہ جب کوئی دودھ میں پانی ملاتا تھا تو ہمیں اس کی بھی کراہت محسوس نہیں ہوتی تھی،  جب پولیس اہلکار ہم سے 50 روپے لے رہا تھا تو ہم  نے چپ چاپ دے دیے تھےاور وجہ تک نہ پوچھی تھی، آج  ایف آئی اے اہلکار  سرعام ایئرپورٹ  پر خواتین کی درگت بناتے ہیں لیکن ہمارا قانون حرکت میں نہیں آتا ، چونکہ ہم نے قانون کو ہمیشہ طاقتور کے گھر کی لونڈی بنتے ہوئے دیکھا ہے اور خاموشی اختیار کی ہے ۔۔۔

آج ہمارے پاس معلومات ہیں مگر شعور نہیں  ہے ۔۔۔قلم ہے مگر درد نہیں ہے، میڈیا ہے مگر سوچ نہیں ہے، مولوی ہیں مگر امن نہیں ہے، ڈگریاں ہیں مگر شرافت اور اخلاق نہیں ہے۔۔۔

آج ہمیں علم  کے ساتھ ساتھ شعور کی ضرورت ہے ہم میں سے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ   ۔۔۔ ایک خالی پیکٹ گند و الے ڈبے میں ڈالنے سے اگرچہ  پورا شہر صاف نہیں ہو گا  ۔۔۔  مگر اس  کی اپنی زمہ داری ادا ہو جائے گی  ۔۔۔ کیونکہ  ۔۔۔  ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ  ۔۔      حالات کی تاریکی میں ہر شخص کو ستارہ بن کر چمکنا چاہیے۔


تحریر۔۔۔ساجد علی گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام شہدائے سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس، سانحہ بابوسر کی برسی کی مناسبت اور شہدائے پاکستان و گلگت بلتستان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک عظیم الشان عظمت شہداء کانفرنس کا انعقاد گمبہ اسکردو میں ہوا۔ جس میں علماء، عوام، زعماء اور جوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ عظمت شہداء کانفرنس سے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ اعجاز حسین بہشتی، ایم ڈبلیو ایم شگر کے رہنماء شیخ کاظم ذاکر، ایم ڈبلیو ایم کھرمنگ کے سربراہ شیخ اکبر رجائی، ایم ڈبلیو ایم تحصیل گمبہ کے سربراہ شیخ کریمی، علامہ شیخ کرامتی، ابراہیم آزاد، سید نوری، شیخ ذیشان علی اور فدا حسین نے خطاب کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جی بی کے عوام سے بار بار جھوٹے وعدے کئے گئے لیکن ستر سالوں سے بنیادی آئینی حقوق سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کو منہا کیا جائے تو پاکستان چین کیساتھ اقتصادی راہداری منصوبے کا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہاں کے نااہل منتخب حکمرانوں کی وجہ سے یہاں کے عوام کیلئے ایک روپے کا منصوبہ بھی شامل نہیں کیا گیا۔

مقررین نے کہا کہ الیکشن سے قبل اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکمرانی ملنے کے بعد چار مرتبہ افتتاح کئے جانے کے باوجود اسکردو گلگت روڈ پر بھی اب تک کام شروع نہیں کیا گیا۔ اب کہ بار ایک دفعہ پھر سے افتتاح کی باتیں کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ عظمت شہداء کانفرنس کے مقررین نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم کو اعلٰی عدلیہ کے دو منصفوں نے باقاعدہ مجرم اور بقیہ تین ججز نے ملزم قرار دے کر تحقیقاتی کمیٹی کے سپرد کیا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ موصوف اب بھی کرسی وزارت عظمٰی پر فائز رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ عوام بیداری کا ثبوت دیں اور ملک میں ہونے والی ظلم و ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ جانے کیلئے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت خطے میں داعش پہنچ چکی ہے اور ملک کے اندر بھی بہت سارے انسان سوز دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری داعش قبول کر چکا ہے۔ لیکن حکمرانوں کو اپنی کرپشن اور کرسی کی فکر ہے۔

عظمت شہداء کانفرنس سے خطاب میں مقررین نے مزید کہا کہ جی بی جغرافیائی اور سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے، لیکن حکمرانوں نے اس خطے کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ یہاں معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بجائے وعدے وعید پر ٹرخایا جاتا رہا ہے، جو کہ خطے کے مستقبل کو جان بوجھ کر برباد کرنے کی سازش کے مترادف ہے۔ یہاں کے پرامن اور محب وطن عوام دہشتگردی کے واقعات کی نذر ہو جاتے ہیں، لیکن کوئی نیشنل ایکشن پلان حرکت میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس پرامن علماء اور شہریوں کو شیڈول فور میں ڈالا جاتا ہے اور یہاں کی زمینوں کو خالصہ سرکار قرار دیکر قبضہ کیا جاتا ہے، جو کہ یہاں کے عوام کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں۔ کانفرنس میں شہدائے گلگت بلتستان، شہدائے بابوسر، کوہستان اور شہدائے چلاس کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سابقہ و موجودہ حکومت کی نااہلیوں کو طشت از بام کرتے ہوئے انہیں دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیا گیا۔ سانحہ چلاس کے دہشتگردوں کے خلاف حکومت وقت سے فی الفور نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کرکے انکو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ مقررین نے حکومت کو متنبہ کیا کہ گلگت بلتستان عوام کی ملکیتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے سے باز رہے۔ انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ وطن عزیز پاکستان کب تک دوسروں کی جنگ لڑتا رہے گا۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) پورے پاکستان خصوصاپارہ چنار میں شیعہ نسل کشی جاری ہے لیکن حکومت اور سیکورٹی ادارے مسلسل غفلت برت رہے ہیں ۔حکومت اور سیکورٹی ادارے امن و امان کی بحالی اور دہشتگردی کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن ہر روز وطن عزیز کا کونہ کونہ مظلوم عوام کے خون سے رنگین ہو رہا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماو امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی میکانگی روڈ پر ملک میں دہشتگردی اور پارہ چنار میں مسلسل شیعہ نسل کشی کیخلاف ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی سے کیا ۔احتجاجی ریلی میں امام جمعہ علامہ جمعہ اسدی ، ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ ڈویژن کے سیکرٹری جنرل سید عباس،کونسلر کربلائی رجب ،رشید طوری اور دیگر معزیزین نے شرکت کی ۔

مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا کہ حکومت اور ادارے کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستانی عوام میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے حقیقی فرزندان شیعہ اور سنی ملکر ان تمام بیرونی سازشوں اور انکے ہاتھوں استعمال ہونے والے ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس کے ناپاک عزائم کو ناکام بنائینگے ۔

انہوں نے کہا کہ پارہ چنار میں تسلسل کے ساتھ تین بڑے واقعات متعلقہ سیکورٹی اداروں کی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے ، پارہ چنار کے مظلوم عوام کے غم میں برابر شریک ہے اور جب تک مظلومین کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں دینگے تب تک چین سے نہیںبیٹھیں گے،پارہ چنارکے عوام اس ملک کے اصلی وارث ہے انکواس طرح دہشتگردوں کے ہاتھوں پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتے ہم حکومت کو تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ عوام پر ظلم کرنا بند کرے اور دہشتگردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرا ¿ت نہ کریں ۔انہوں نے مزید کہا کہ احسان اللہ احسان ایک قومی مجرم ہے جسے معاف کرنا حکومت اور اداروں کے اختیار میں نہیں ہیںلیکن حکومت اسے ایک ہیرو بنا کر پیش کر رہی ہے جس سے تمام ملک دشمن دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جو قوم کیساتھ ایک بڑی خیانت ہے ۔

ریلی کے شرکاءسے امام جمعہ علامہ جمعہ اسدی نے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ پارہ چنار دہشتگردی کی زد میں ہے جو قابل مذمت ہے ،کے پی کے حکومت اس قابل نہیں کہ لوگوں کو امن فراہم کرے اور جب تک دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہے دہشتگردوں کا خاتمہ ممکن نہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی نا اہلی ہے کہ تکفیریت اور دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کر سکتی ۔ احسان اللہ احسان کسی معافی کے قابل نہیں وہ ایک دہشتگرد اورہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کا قاتل ہے اے تختہ دار پر لٹکا کر کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree