وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے سفارتی علاقے میں بم دھماکے کے نتیجے میں 80سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے دنیا کے امن و امان کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔اس دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک نے اٹھایا ہے۔پاکستان کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔خطے میں دہشت گردی کے خلاف تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ مذموم عناصر کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جا سکے۔افغانستان میں دہشت گردی کا حالیہ واقعہ افسوسناک ہے۔یہود و نصاری کے ٹکروں پر پلنے والے ناپاک عناصر عالم اسلام کو انتشار کا شکار کر کے صیہونی و نصرانی اہداف کی تکمیل چاہتے ہیں۔مسلم ممالک کا باہمی اتحاد ان مذموم قوتوں کے غیر انسانی اقدامات کو ان کی شکست میں بدل سکتا ہے۔پاکستان اور دیگر مسلم برادر ممالک کے درمیان مضبوط اور پائیدار تعلق کا فروغ ہی ہم سب کے حق میں ہیں۔ہمیں ان تعلقات کو سازشوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو انٹیلی جینس معلومات شیئرنگ سمیت مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے عفریت نے دونوں ممالک کی معشیت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔خطے کا امن و استحکام دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں سے مشروط ہے۔انتہا پسندوں کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان افواج کی رد الفساد سے موثر نتائج سامنے آئے ہیں۔اگر افغانستان بھی انہی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالا تو دونوں ممالک میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
وحدت نیوز(اورکزئی ایجنسی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان اورکزئی ایجنسی کا تیسرا باقاعدہ اجلاس آج ایجنسی ہیڈکوارٹر کلایہ میں منعقد ہوا، اس سے قبل 19 اور 26 مئی کو بھی ضلعی اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ اجلاس میں علاقہ عوام کے علاوہ نگران ایلڈر وحدت کونسل کے اراکین سید ہاشم جان، سید عینین گل، سید شعیب حسین، عابد علی، حاجی سردار علی، صدر نعیم سید میاں، سینئر نائب صدر مولانا خضر احمد، نائب صدور سیدنور جمال، سید لعل صالح جان، جنان علی اور دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ تنظیم سازی کیلئے نقاب علی اور زعفران علی، شعبہ تعلیم کیلئے رکاب علی اور رحیم علی شعبہ سیاست کیلئے ملک آیت اللہ خان اور ملک ریاست علی، تربیت کیلئے مولانا عمل حسن، شعبہ تحفظ عزاداری کیلئے حاجی عزیز خان ملک اور حاجی غفار علی خیرالعمل فاونڈیشن کیلئے ضامن علی صوبیدار اور ولی خان، مالیات کیلئے سراج علی میجر، روابط کیلئے بابو استاد اور نعیم علی، شعبہ جوان کیلئے رفیق علی، آفس مسئول گلشن علی، میڈیا کیلئے رحیم علی اور شماریات کیلئے جمشید علی کا تقرر کیا گیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی کے مطابق یہ تمام افراد اورکزئی کے نامی گرامی، معروف، سابقہ تنظیمی تجربہ رکھنے والے افراد ہیں، جو ہمیشہ قومی، مذہبی و تنظیمی امور میں پیش پیش رہے ہیں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے کوئی شخص مایوس نہیں ہوتا مگر یہاں کا حال کچھ الگ ہی تصویر کشی کرتی ہے، جمہوری نظام میں عدلیہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں ہم کامیاب نہیں رہے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عدلیہ قانون ، آئین اور انسانی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ قیام امن اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور خوف کے فیصلہ کرے اور جمہوریت کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوری عالی و امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی نے جمہوریت میں عدلیہ آئین اور انسانی حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک میں عدل و انصاف کی عدم موجودگی کا سامنا ہے اور اسکی عدم موجودگی نے ملک کے اندر کرپشن، قانون شکنی، جرائم میں اضافے اور ایسے دیگر مسائل جنم دے دیئے ہیں۔جمہوریت انصاف کی بحالی کیلئے ہوتی ہے، اس نظام میں انصاف کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے عوام حقیقی جمہوریت کے خواہش مند ہیں، ہماری قوم نے ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کی ہے اور جاگیردارانہ نظام کے مقابلے میں کھڑے ہو کر اسے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقی جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں پارلیمانی نمائندے اپنے علاقے کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں، عوامی نمائندے اپنے اختیارات کے استعمال سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں اور قوم کی خدمت حقیقی نمائندوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے کوئی شخص مایوس نہیں ہوتا مگر یہاں کا حال کچھ الگ ہی تصویر کشی کرتی ہے، جمہوری نظام میں عدلیہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں ہم کامیاب نہیں رہے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عدلیہ قانون ، آئین اور انسانی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ قیام امن اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور خوف کے فیصلہ کرے اور جمہوریت کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہو گیا ہے، بہتر نظام کیلئے عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے وگرنہ ہمارا نام صرف نام کا جمہوری نام رہ جائے گا اور اس کے اندر جمہوریت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) اللہ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کسی بھی انسان پر کسی طرح کی ظلم ہو، اپنے فرائض پورے کرکے اور عوام کے خدمت کی صورت میں سیاست کو جہاں حکمران عبادت بنا سکتے ہیں وہی اسے ایک گالی کا نام دیا گیا ہے، سیاسی میدان سے وابسطہ افراد کے دلوں میں خوف خدا کی موجودگی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ملک میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی ،ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے جنرل سیکریٹری عباس علی نے ایم ڈبلیو ایم شعبہ تربیت کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے استقبال رمضان کرنے کی خاطر فرمایا اے لوگو . خدا کی برکت اور رحمت کا مہینہ تمھاری جانب آ رہاہے یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے اسکے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے . اور اسکی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر ہیں. اس ماہ کے لحظے اور گھڑیاں دوسرے مہینوں کے لحظوں اور گھڑیوں سے بر تر ہیں . یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیاہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی ماند ہیں . تمہارا سونا عبادت ہے اور تمہارے اعمال اور دعائیں مستجاب ہیںلہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعا کرو تاکہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ بد بخت ہے وہ شخص جو اس مہینے میں خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے . اس ماہ میں اپنی بھوک اور پیاس کے ذریعہ قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو . اپنے فقراء اور مساکین پر احسان کرو . اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو اور چھوٹوں پر مہربانی کرو . رشتہ داری کے ناتوں کو جوڑ دو . اپنی زبانیں گناہ سے روکے رکھو . اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے بند رکھو جن کا دیکھنا حلال نہیں . اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکے رکھو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں پر شفقت و مہربانی کرو تاکہ تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔
ایم ڈبلیو ایم سیکرٹیری جنرل سید عباس نے نظام الٰہی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو تمام انسان برابر ہیں۔ ہم سب کا تعلق اللہ سے ایک ہی ہے اور وہ تعلق بندگی کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہم سے محبت کرتا ہے اس نے ہمیں مختلف قوموں میں، ہماری پہچان کیلئے تقسیم کیا ہے ۔ اپنی قومیت کے بنا پر خود کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھنا اور خود کو ان پر برتری دینا ہماری غلطی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام ؐ ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں اور اللہ کی بارگاہ میں ہم سب برابر ہے ۔ اس لئے نظام الٰہی قائم کرنے کی کوشش میں، ہم نے بغیر کسی قومی، نسلی یا لسانی تفریق کے ، ہر فرد کی مدد کی اور انکی خدمت کی۔ ہمارے سیاست کا مقصد کسی خاص فرقے یا قوم کی ترقی نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کی فلاح اور بہتری ہے۔ہم اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہیں اورعدل و مساوات کو ہمیشہ مد نظر رکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حاکم کو بغیر کسی تفریق کے کام کرنا چاہیے مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے افسران اور حکمران مملکت خداداد کے اچھے عہدوں اور بڑی کرسیوں پر بیٹھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کا قیام ہی اسلام کے نام پر ہوا تھا ۔ وہ اسلامی احکامات کی پیروی نہیں کرتے اور ملک میں مسائل اور دشواریاں جنم لیتے ہیں،عدل و مساوات کو ترجیح دینے سے ہی اللہ کا نظام ملک میں لایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کسی بھی انسان پر کسی طرح کی ظلم ہو، اپنے فرائض پورے کرکے اور عوام کے خدمت کی صورت میں سیاست کو جہاں حکمران عبادت بنا سکتے ہیں وہی اسے ایک گالی کا نام دیا گیا ہے، سیاسی میدان سے وابسطہ افراد کے دلوں میں خوف خدا کی موجودگی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ملک میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی اور جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ مجلس وحدت مسلمین کی پوری کوشش یہی رہی ہے کہ ملک میں بہتر نظام لایا جائے جہاں ہر شخص کو اسکا حق ملے اور ہر فرد نظام الٰہی کا حصہ بنے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) عرب ممالک اور پاکستان دینی رشتے میں منسلک ہیں، ان کے آپس میں گہرے روابط پائے جاتے ہیں، ان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس طرح کے جملے جتنے بھی لکھے جائیں ان کے لکھنے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آجائے گی۔
مثلا اگر ہم سارا دن بیٹھ کر چینی ، چینی، چینی کہتے رہیں تو اس سے ہمارا منہ میٹھا نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاض کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان اور ملت پاکستان کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی برا ہوا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمیں سچائی کو چھپانے کے بجائے عیاں کرنا چاہیے اور اپنے ملک کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
عرب ممالک کی کسی سے نہ ہی تو دینی و مسلکی دوستی ہے اور نہ ہی اس بنیاد پردشمنی، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود سوچ لیں کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ دین یا مسلک مشترک ہے، نہیں ہر گز نہیں تو پھر یہ دوستی کیوں !؟ صاف ظاہر ہے کہ مفادات کی دوستی ہے۔
اسی طرح کیا پاکستان کو ریاض کانفرنس میں نظر انداز کرنا ، پاکستان اور کشمیر کا ذکر نہ کرنا، دینی یا مسلکی اختلافات کی وجہ سے تھا!؟
نہیں ہر گز نہیں بلکہ یہ سب موقع و مناسبت کے لحاظ سے عرب ممالک کے مفادات کے خلاف تھا۔
ہم ہیں کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر اپنی امیدیں عربوں سے لگائے بیٹھے ہیں ، اورسعودی عرب کی پالیسی دیکھ لیجئے کہ اس نے عالمی فوجی اتحاد کا کمانڈر تو پاکستان سے منگوایا لیکن اس فوجی اتحاد کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کے علاوہ باقی سب کچھ ہے۔
ایسا فوجی اتحاد جس کا کمانڈر تو پاکستانی ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں کشمیر نہیں، کیوں کیا سعودی مسلک اس سے منع کرتا ہے ، نہیں بلکہ سعودی حکومت کے مفادات کو اس سے نقصان پہنچتاہے۔
جس طرح گزشتہ دنوں ٹرمپ کا ریاض میں شاندار استقبال کیا گیا ہے ،آپ خود بتائیں یہ کتنی بڑی اور اہم کانفرنس تھی ، صرف سعودی عرب سے ہی گلہ کیوں!؟ دیگر مقررین کی خبر بھی لیجئے ، کیا اس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کے حوالے سے کسی ایک مقرر نے بھی کوئی ایک لفظ بولا، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بھارت کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے !کیا انہیں ان کے مسلک نے بھارت کے خلاف بولنے سے روکا تھا!
نہیں ہر گز نہیں بلکہ بھارت کے خلاف بولنا ان کے حکومتی مفادات کے خلاف تھا۔
اچھا ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو خطاب کا موقع نہیں دیا گیا اور پوری کانفرنس میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا گیا لیکن مجال ہے کہ کسی مقررنے کوئی ایک لفظ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ہی کہا ہو یا پاکستان کے بارڈرز پر بھارت کی گولہ باری کے بارے میں کچھ کہاہو۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا!؟ کیا ان کے دین یا مسلک نے انہیں روکا تھا یا ان کے حکومتی مفاد میں نہیں تھا۔
یاد کیجئے ۱۹۵۶ ء کا وہ دن جب مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھا اور پاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے تو ایسے میں جواھر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
اس وقت بھی سعودی حکومت نے نہرو کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا اور " مرحبا یا رسول الاسلام " کے نعرے لگائے۔
اس واقعے کے اگلے روز "روزنامہ ڈان " نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔
اگلے دن سعودی عرب کی ایمبیسی نے اس کی یہ توجیہ پیش کی کہ اس سے مراد امن کا پیامبر ہے ،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ لاکھوں ہندوستانی ا ور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے امن کا پیامبر کیسے بن گیا ہے۔۔۔۔اور یہ بھی لکھا کہ پاکستانی مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے: دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ اصطلاح پیامبر اسلام ﷺسے مخصوص ہے۔
آپ نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کو ہی لیجئے، نریندر مودی کا بھی اسی طرح شاندار استقبال کیا گیا اور شاہی محل میں، شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ نریندر مودی کو عطا کیا۔ باقی جو معاہدے اور معاملات طے پائے وہ اپنی جگہ محل بحث ہیں۔
کفار کے سرداروں کے یہ استقبال اور عزت افزائی سعودی بادشاہوں کے دین کا تقاضا نہیں بلکہ ان کے حکومتی مفادات کے لئے ضروری ہے۔
ہم میں سے کچھ لوگوں نے مسلک، فرقے اور دین کا کمبل اوڑھا کر آل سعود کی حقیقت کو چھپانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ رقص سعودی بادشاہ کرتے ہیں اور تاویل ہمارے ہاں کا ملاں کرتا ہے، نامحرم عورتوں سے مصافحے سعودی حکمران کرتے ہیں اور جواز ہمارے ہاں کے جہادی ڈھونڈتے ہیں، کفار کے سرداروں کو آل سعود چومتی ہے اور اس کے جائز ہونے کے لئے احادیث ہمارے ہاں کے محدثین کرام تلاش کرتے ہیں۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ بادشاہ اپنے حکومتی مفادات کے پیچھے چلتے ہیں اور ہم میں سے بعض لوگ ان کے کرتوتوں کا دفاع مسلک کے مورچے سے کرتے ہیں۔ تاریخ ملوکیت و بادشاہت کا خلاصہ یہی ہے کہ بادشاہوں کی پالیسیاں مسالک کے تابع نہیں ہوتیں بلکہ وہ مسالک کو اپنے تابع رکھ کر مسالک سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے رمضان المبارک کے دوران ملک بھر میں بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے توانائی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔گرم کی شدت میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ماہ رمضان کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جاتی تھی لیکن موجودہ حکومت نے یہ سہولت چھین کر عوام دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے تمام حکومتی دعوی طفل تسلی ثابت ہوئے ہیں۔حکومت عوام بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ماہ رمضان میں سحری و افطاری کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے واضح اعلان کے بعد بھی بجلی کی آنکھ مچولی کا وہی سلسلہ جاری ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ واپڈا کے حکام وزیر اعظم کے احکامات کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے یا پھر وزیر اعظم نے عوام کو بے وقوف سمجھ رکھا ہے۔ایئر کنڈیشند کمروں میں بیٹھ کر عوام کا تمسخر نہ اڑایا جائے۔پورے ملک میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے رمضان المبارک کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاتمے کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کو گرمی کی اس شدت میں لوڈشیدنگ کی اذیت سے نجات حاصل ہو سکے۔