وحدت نیوز(چنیوٹ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ناصر عباس شیرازی نے مجلس وحدت مسلمین ضلع چنیوٹ شعبہ خواتین کےزیر اہتمام منعقدہ عظمت شہداءکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مجلس وحدت مسلین پاکستان قوم کی امنگوں کی ترجمان اور میدان میں حاضر ملی جماعت ہے ۔اس کی کامیابیوں میں شعبہ خواتین کا کردار مثالی رہا ہے ۔کوئٹہ سے کراچی اور گلگت بلتستان سے پارا چنار تک خواتین کے زینبی کردار کی وجہ سے کامیابیاں ملیں ۔اس کردار کو منظم اور ملک گیر کرنے کی ضرورت ہے ۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے بھارتی فوج کی فائرنگ سے پروفیسرسمیت طلباء اوردیگر کشمیری نوجوانوں کی شہادت پردکھ اورافسوس کا اظہارکرتے ہوئے شہداء کی عظیم قربانیوں کوخراج عقیدت پیش کیا اورزخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعاکی۔انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاستی دہشت گردی سے اساتذہ اورطلباء بھی محفوظ نہیں، بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیرمیں سفاکیت اوردرندگی کی تمام حدیں پارکرلی ہیں اوربھارت کو ظلم اورستم ڈھانے کا یہ کھیل بند کرنا ہوگا۔
سید مبارک علی موسوی نے کہا کہ کشمیری عوام کو جبر اوراستبداد کے ذریعے حق خود ارادیت کے بنیادی حق سے زیادہ دیر محروم نہیں رکھا جاسکتا، کشمیری عوام اپنے قیمتی لہوسے آزادی کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں، عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جاگنا پڑے گا جب کہ بھارت جان لے کہ تاریخ میں کہیں بھی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے آزادی کی تحریکوں کونہیں دبایا جاسکا ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین لاہور کا اجلاس واشنگ لائن مرکزی امام بارگاہ حسینیہ میں 13 مئی یوم مردہ باد امریکہ کے حوالے سے منعقد ہوا. اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ممبران سمیت لاہور کیبنٹ اور مختلف یونٹس کے عہدیداران نے شرکت کی. اجلاس کی صدارت سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین لاہور علامہ سید حسن رضا ہمدانی نے کی جبکہ اجلاس میں 13 مئی یوم مردہ باد امریکہ کو کامیاب بنانے کیلئے تمام کارکنان و عہدیداران نے اپنی آراء پیش کیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین لاہور علامہ سید حسن رضا ہمدانی بے کہا کہ امت مسلمہ پر ظلم کی بات ہو یا بات ہو عالم اسلام کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی ہر لحاظ سے امریکہ کی پشت پناہی شامل ہے اور شیطانِ بزرگ امریکہ ہی ہے جو امت مسلمہ کے خلاف اپنی سازشوں میں دن بدن اضافہ کرتا جا رہا ہے. فلسطین پر قابض اسرائیلی ہوں یا کشمیر پر قابض ہندوستانی ان سب کی ڈوریں امریکہ سے ہی ہلائی جاتی ہیں. ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے حکم ہر لبیک کہتے ہوئے شہید عارف کی سنت ادا کرتے ہوئے میں لاہور کے تمام مسلمانوں سے گزارش کروں گا کہ آئیں اور دشمن اسلام شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف احتجاج میں ہمارا ساتھ دیں. یہ وہی امریکہ ہے جس نے بلا تفریق ہر مسلمان پر ظلم ڈھایا ہے چاہے وہ فلسطینی اہل سنت بھائی ہوں یا عراق کے اہل تشیع، لہٰذا 13 مئی کو امریکی کونسل خانہ کے سامنے ہونے والے اس عظیم احتجاج میں شامل ہو کر ایک امت ہونے کا ثبوت دیں۔
دوسری جانب ایم ڈبلیو ایم واہگہ بارڈر کی تنظیم سازی بھی کی گئی اور برادر سید عمران حیدر کو واہگہ بارڈر یونٹ کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا جبکہ علامہ سید حسن رضا ہمدانی نے برادر سید عمران سے حلف لیا۔
ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے رکن کابینہ علمدار زیدی، سید حسین زیدی ایم ڈبلیو ایم لاہور کابینہاور ٹاؤنز و یونٹس سے ایڈووکیٹ برادر ماجد کاظمی، برادر سید سجاد نقوی، برادر علی رضا کاظمی،بردار رضا شاہ، برادر ناصر حسینی، برادر سید عقیل، برادر سید حیدر، برادر سید شعیب، برادر سجاد گجر و دیگر عہدیداران و کارکنان نے شرکت کی. اجلاس میں لاہور کی بزرگ شخصیت افسر خان صاحب بھی شریک تھے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) 6 مئی 2018 کے لبنانی پارلیمنٹ کے انتخابات درحقیقت محور ظلم وشر اور محور مقاومت کے درمیان تھے. استعماری قوتیں جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے اس خطے پر اپنا ناجائز قبضہ جمانے کے لئے ہر قسم کا اسلحہ اور طاقت کا استعمال کر رہی ہیں. انکے پاس وافر مقدار میں خلیجی پٹرول اور گیس اور امریکی ڈالرز اور یورپی کرنسیز ہیں .تاکہ اس خطے کو غلام بنائیں یا اسے جلا کر تباہ وبرباد کر دیں. انکے مد مقابل حریت پسند ، غیرتمند لوگوں کا بلاک ہے جسے محور مقاومت کہتے ہیں. کل کی فتح حزب اللہ کی فقط فتح نہیں بلکہ محور مقاومت کی فتح ہے کہ جس کا دائرہ ادیان ومذاھب اور ممالک کی حدود سے وسیع تر ہے. مقاومت شیعہ مذھب کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس میں اہل سنت ، مسیحی ، درزی ، نیشنلسٹ ، سوشلسٹ اور دیگر مختلف افکار نظریات کے حامل لوگ شامل ہو چکے ہیں. اور محور مقاومت کی سرحدیں لبنان کی حدود سے تجاوز کرکے فلسطین ، شام ، عراق ، ایران ، یمن ، بحرین بلکہ افریقہ اور ایشیاء کے دیگر ممالک کو بھی اپنے دائرے میں شامل کر لیا ہے. اس لئے یہ سیاسی وانتخابی معرکہ عسکری معرکے سے کم اہمیت کا حامل نہیں تھا. دشمن نے پوری کوشش کی کہ اندھا سرمایہ لگا کر اور عوام کے ضمیر خرید کر اس محور مقاومت کی اساس اور بنیاد پر کاری ضرب لگائی جائے. لیکن غیور عوام اور حریت پسند مقاومت کی لیڈرشپ نے جیسے اس محور سر کو محدود وسائل کے ساتھ اپنے جذبہ وایمان سے شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا. آج ایک بار پھر جمھور مقاومت نے سیاسی میدان میں بھی جمھوریت کے جھوٹے دعویداروں پر انتخابی عمل میں بھر پور شرکت کر کے اور شاندار کامیابی حاصل کر کے دشمن کو ذلیل ورسوا کیا ہے. ووٹ کی طاقت سے بلاک مقاومت نے استعماری منصوبہ بندیوں کو زبردست دھچکا لگایا ہے اور اس کی تاثیر انکے نفوس پر ایٹمی ہتھیاروں اور پلاسٹر میزائلوں سے زیادہ ہے. وہ چاھتے تھے کہ مقاومت کے مرکز کو نابود کر کے قدس شریف پر اسرائیل کے تسلط کو یقینی بنائیںاور فلسطینی وسیرین مھاجرین اپنے وطن واپس نہ جا سکیں. اور تکفیری دہشتگردوں کو نئی آکسیجن وطاقت دیکر اس خطے کو مزید ویران وبرباد کریںاور مزید مقدسات کی بیحرمتی اور بیگناہ انسانیت کا قتل ہو. اس کامیابی سے دشمن کی مایوسیوں میں اضافہ ہوا ہے. اور خطے کے امن اور بیرونی مداخلت کے خلاف راھیں ھموار ہوئی ہیں. آج فقط حزب اللہ اور امل فتح کی خوشی نہیں منا رہے بلکہ یہ لبنان کی عظیم فتح ہے اور لبنان سمیت پورے خطے میں خوشی کا سماں ہے. مقاومت ہر میدان میں حاضر ہے. اور دشمن کا سیاسی میدان سے مقاومت کو بے دخل کرنے کا خواب چکنہ چور ہو چکا ہے. اور امید ہے کہ عنقریب عراق میں بھی اس سیاسی وانتخابی میدان میں مقاومت کو عزت وسرفرازی ملے گی اور پاکستان میں بھی سعودی ، امریکی اور اسرائیلی خواب چکنہ چور ہونگے. گیس وپٹرول وڈالرز کے پجاری ذلیل ورسوا ہونگے۔
تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) علم کلام کےاہم مباحث میں سے ایک حسن و قبح عقلی کا بحث ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن {اچھے} اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبیح{ برے} ہیں ۔ معتزلہ اور امامیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ بہت سے کلامی مسائل اس بحث پر موقوف ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،خدا وند متعال کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت جیسے خدا کا عادل ہونا،اسی طرح بعض صفات سلبیہ بھی اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد نہ ہونا،خداکا ظلم نہ کرنا وغیرہ ۔ جو لوگ حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ حسن و قبح کے مخالفین انسان کو مجبور اور خداکی عدالت سے انکار کرتے ہیں ۔حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔1۔اسی طرح اسلام سے پہلے ثنویہ ، تناسخیہ و براہمہ بھی حسن و قبح ذاتی کے معتقد تھے۔2۔ دوسری صدی میں کلام اسلامی میں حسن و قبح کی بحث کو ایک خاص مقام حاصل ہوا جس کی بنا پر متکلمین عدلیہ اور اشاعرہ وجود میں آئے۔
حسن و قبح کے تین معانی ذکر ہوئےہیں:
الف۔ کمال و نقص
حسن و قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن وقبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ مثلا علم حاصل کرنا حسن جبکہ جہل قبیح ہے۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبیح ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔
ب۔ ملائمت نفس یا منافرت نفس
مثلایہ منظر خوبصورت ہےیا یہ منظر خوبصورت نہیں ہے ۔ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں کبھی حسن و قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔3۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
ج۔ استحقاق مدح و ذم
عقلا کے نزدیک فعل حسن کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہےجبکہ فعل قبیح کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ بعبارت دیگر حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا لانا چاہئے اور قبیح وہ ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا نہیں لاناچاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔ 4۔ پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرےمعنی کی نسبت عدلیہ کی طرف دیتے ہیں یعنی بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ کلی طور پر اس بات سے انکار کرتے ہیں ۔5
شیعہ مذہب میں عدل الہیٰ کی تفسیر حسن و قبح عقلی کے ذریعےکی جاتی ہے ۔حسن و قبح عقلی سے مراد یہ ہے کہ فاعل مختار سے جو بھی کام سرزد ہوتا ہے وہ حقیقت میں یا مستحسن ہے یا قبیح ،یعنی یا اچھا ہے یا برا ۔انسان کی عقل بعض کاموں کے اچھے اور برے ہونے میں تمیز کر سکتی ہے اگرچہ عقل تمام کاموں کےاچھےاور برے ہونے کی شناخت نہیں کر سکتی جس کی بنا پر وہ وحی الہیٰ کی محتاج ہے ۔بعبارت دیگر حسن و قبح عقلی مقام ثبوت اور نفس الامر میں عمومیت رکھتےہیں لیکن مقام اثبات میں افعال کے حسن و قبح کی شناخت کا دائرہ عام نہیں ہے۔یہاں انسان کی عقل محدود پیمانے پر افعال کے حسن و قبح کو درک کرتی ہے ۔ قرآن کریم کی آیات سے مذکورہ مطالب واضح طورپر سامنے آتے ہیں جیساکہ قرآن کریم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماموریت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{ يَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنہاہُمْ عَنِ الْمُنکَر}6۔وہ نیکیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتاہے ۔ اس آیت کے ظاہر سےیہی معلوم ہوتا ہے کہ افعال حقیقت میں دو قسم کے ہیں جن میں سے بعض معروف { حسن }اور بعض منکر {قبیح}ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف کا حکم دیتے اور منکرات سےنہی کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام اپنی وصیت میں امام حسن مجتبی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{انہ لم یامرک الا بحسن ولم ینہک الا عن قبیح}7۔اس نے تجھے حکم نہیں دیا مگر اچھی چیز کا اور تجھے منع نہیں کیا مگر بری چیز سے ۔قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر خداوند متعال انسانی عقل و ضمیر کو فیصلے کی دعوت دیتاہے یعنی انسانی عقل بعض افعال کے {خواہ وہ نظری ہوں یا عملی } کےحسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےجیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{ ہَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ إِلَّا الْاحْسَان}8۔کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟{ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُون}9۔کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جوجانتے ہیں ان کےبرابر ہیں جو نہیں جانتے ۔
{أَ فَمَن يہَدِی إِلیَ الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يہَدِّی إِلَّا أَن يہُدَی فَمَا لَکمُ کَيْفَ تحَکُمُون}10۔اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ؟تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیسے فیصلے کررہے ہو؟{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فیِ الاَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}11۔کیاہم ایمان لانےوالوں اور نیک عمل کرنےوالوں کو زمین میں فسادبرپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقوی کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں؟
اگر ہم حسن و قبح عقلی کو قبول نہ کریں توہم حسن وقبح شرعی کوبھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ حسن و قبح شرعی کوہم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور عصمت ثابت ہو جبکہ شرعی دلیل سے ان دونوں کو ثابت کرنے سے دور لازم آتا ہے جوکہ محال ہے ۔ اگر ہم عقل کے اس حکم کو قبول کریں {جو یہ ہے کہ کسی جھوٹے شخص کو معجزہ دینا نیز کسی ایسے شخص کو لوگوں کی ہدایت کےلئےمنتخب کرنا جو خود خطا کارا و رگناہگار ہو ،قبیح ہے جبکہ خداوند متعال ہر قسم کے قبیح کاموں سے منزہ ہے }تو پھرہم نبوت اور شریعت کو ثابت کر سکتے ہیں نیز اسی طریقے سے حسن و قبح شرعی کو بھی ثابت کر سکتے ہیں ۔ تجرید الاعتقاد میں محقق طوسی لکھتےہیں :اگر حسن و قبح کو ثابت کرنے کا راستہ شرع تک محدود رہے تو افعال کا حسن و قبح کلی طور پر منتفی ہوگا اور شرع و عقل دونوں سے ثابت نہیں ہوگا ۔12۔حسن و قبح عقلی کی اثبات کے بارے میں متعدد دلائل میں سے نمونے کے طور پرتین دلیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص عدل و انصاف کی خوبی ،ظلم و ستم کی بدی، عہد وپیمان پر پابند رہنےکی اچھائی ،عہدشکنی کی برائی اور نیکی کاجواب نیکی سے دینے کودرک کرتا ہے۔ تاریخ بشریت کا مطالعہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے اور آج تک اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا کہ کسی عاقل انسان نے اس حقیقت کا انکار کیا ہو ۔
ب: اگر فرض کریں کہ عقل تمام افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے میں کلی طور پر ناتواں ہے اور انسانوں کو تمام افعال کے حسن و قبح جاننے کے لئے شریعت کی طرف رجوع کرناچاہیے توہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ حسن و قبح شرعی بھی قابل اثبات نہیں کیونکہ خود شریعت کے ذریعہ شریعت کو ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے دورلازم آتاہے جوکہ محال ہے۔اس کے علاہ قرآنی آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی عقل بعض افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اس بنا پر خداوند کریم ،انسانی عقل و ضمیر کوفیصلہ کی دعوت دیتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{افنجعل المسلمین کالمجرمین ۔مالکم کیف تحکمون}13۔کیاہم اطاعت گذاروں کو مجرموں جیسا بنا دیں؟تمہیں کیا ہوگیا ؟ کیسا فیصلہ کر رہے ہو ۔14
ج:اگر حسن اور قبح عقلی نہ ہو بلکہ شرعی ہو تو اس صورت میں شارع حسن کو قبیح اور قبیح کو حسن قرار دے سکتا ہے۔اس صورت میں لازم آتا ہے کہ احسان کرنا حسن ہونے کی بجائے قبیح اور برے اعمال قبیح ہونے کی بجائے حسن میں تبدیل ہو جائے جبکہ یہ بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ انسان کی وجدان اور ضمیر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محسن کی مذمت کرنا صحیح نہیں اسی طرح برے انسان کی مدح کرنا بھی درست نہیں ہے ۔15
حسن و قبح کے منکرین اپنی دلیل اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
الف:انسان اپنے افعال میں مجبور ہے ۔جو انسان اپنے افعال میں مجبور ہو وہان عقل حسن اور قبح کا حکم نہیں لگاسکتی ہے ۔ 16
ب:اگر جھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت موجود ہو تو بعض اوقات بعض مصالح کی خاطر جھوٹ بولنے کو قبیح تصور نہیں کیا جاتا ہے جبکہ جو چیز کسی چیز کی ذات یا لازم صفت ذات ہواس کا جدا ہونا ممکن نہیں ہے۔مثلا جھو ٹ بول کر نبی کی جان کو ظالموں سے بچائے ۔اگرجھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت ہوتی تو اس مقام پر جھوٹ بولنےکو قبیح ہوناچاہئے تھا ۔بنابرین حسن و قبح ذات کا حصہ نہیں ہیں یا ذات کے صفات لازم میں سےنہیں ہیں۔17
حسن و قبح کے منکریں کے لئے جواب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں خود مختار و آزاد ہے ۔اسی طرح اگر کسی اہم مصلحت کی خاطر جیسے نبی کی جان بچانا اگر جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو اس سے جھوٹ کی ذاتی قباحت ختم نہیں ہوتی بلکہ صرف اس اہم مصلحت کی خاطر اس شخص کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے۔18
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1. محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔
2. شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱
3. شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔
4. شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ؛ میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ، شرح المواقف،ض8 ص 181۔
5. جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔
6. اعراف،157۔
7. نہج البلاغۃ ،نامہ،31۔
8. الرحمن،60۔
9. زمر،9
10. یونس،35۔
11. ص،28۔
12. تجرید الاعتقاد،محقق طوسی۔
13. قلم،35- 36۔
14. جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ، ص 140۔
15. جعفرسبحانی،الہیات ص 246
16. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص185۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
17. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص189۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
18۔ علامہ بہبہانی الفوائد الحائریہ، ص 372۔
ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین ضلع چنیوٹ کے تحت عظمت شہداءکانفرنس کا انعقاد، ناصرشیرازی اور زہرا نقوی خطاب
وحدت نیوز (چنیوٹ) مجلس وحدت مسلمین ضلع چنیوٹ شعبہ خواتین کے زیر اہتمام عظمت شہداٗ کانفرنس کا انعقاد چنیوٹ شہر کی قدیمی امام بارگا ہ ٹھٹی شرقی میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین فیصل آباد ڈویژن اور ضلع چنیوٹ کے زیر اہتمام ایک عظیم ’’عظمت شہداء ملت کانفرنس ‘‘ منعقد ہوئی اس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل خواہر سیدہ زہراء نقوی بطور مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائیں ۔ اس کے علاوہ برادر سید ناصر شیرازی مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان، پروفیسر سمیرا نقوی رکن نظارت امامیہ اسٹوڈنٹس پاکستان شعبہ طالبات اور خواہر سیدہ معصومہ نقوی مرکزی سیکریٹری تنظیم سازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی ۔
اس کانفرنس میں فیصل ڈویژن اور ضلع چنیوٹ کی خواہران کی ایک بڑی تعداد شریک تھی ۔خواہر سیدہ زہراٗ نقوی نےاپنے خطاب میں شہداٗ ملت کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہو ئے کہا کہ کہ شہداء ملت جعفریہ کی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا اور جن مقاصد کیلئے شہداء نے اپنی جان قربان دی ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔ شہید کی موت قوم کیلئے حیات کا درجہ رکھتی ہے۔ شہیدوں کا نام اور شہادت کی ثقافت کو زندہ رکھنا ملک وملت کی بنیادی ضرورت ہے۔ شہادت کی ثقافت کا مطلب ہے عوام اور تمام انسانیت کے بلند مدت اہداف و مقاصد کے لئے ایثار اور قربانی پیش کرنے کی ثقافت اور یہ ثقافت مغرب کی انفرادیت کے کلچر کے بالکل برخلاف ہے جو ہر چیز اور ہر اقدام کو اپنے ذاتی و شخصی مفادات کی کسوٹی پر تولنے کی دعوت دیتا ہے۔ جس معاشرے میں بھی شہادت اور ایثار کا جذبہ عام ہو جائے، تووہ معاشرہ ترقی کرتا ہے اور ایسے معاشرے میں ترقی کا سفرمیں رکاوٹ یا پسماندگی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔معاشرے میں شہدا کی یاد اور شہادت کا موضوع ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا تو پھر شکست کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہے گا اور ایسی قوم ہمیشہ بے خوفی کے ساتھ ترقی و پیشرفت کے راستے پر آگے بڑھتی رہے گی۔آخر میں انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے نیٹ ورک کو توڑنے میں اپناکردار ادا کرے۔ تسلسل سے ہونیوالی قتل و غارت گری سے عوام پریشان ہیں۔
برادر ناصر عباس شیرازی مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے شہداء کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کئے جانے اور ان کی گراں بہا یادوں کو فراموش ہونے سے بچانے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہیدوں کی یاد میں نشستوں کا اہتمام در حقیقت جہاد اور شہادت کی روش کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے اور ضروری ہے کہ معاشرے میں شہیدوں کی یاد اور ان کی زندگی میں پائے جانے والے اہم نکات کی ترویج کی جائے۔
امامیہ اسٹوڈنٹس پاکستان شعبہ طالبات کی رکن نظارت پروفیسر خواہر سمیرا نقوی نے کہا کہ شہداء قوم کے محسن ہیں اور زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ شہدائے راہ حق سے تجدید عہد کرتے ہوئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔خواہر سیدہ معصومہ نقوی مرکزی سیکریٹری تنظیم سازی شعبہ خواتین نے اپنے خطاب میں کہا کہ عظمت شہداء کانفرنس کے انعقاد کا یہ پیغام ہوگا کہ ہم شہداء کے مشن اور مقصد کو فراموش ہونے نہیں دیں گے۔آج کے اس عظیم اجتماع کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اپنے شہداء کو نہ بھولے ہیں اور نہ کبھی بھولیں گے ۔بعد ازاں شہداء کی بلندی درجات کیلئے خصوصی دعا بھی کی گئی۔