وحدت نیوز(آرٹیکل )یہ تحریر نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے دلخراش اور غمناک سانحہ کے چند دن بعد اس لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ اس سانحہ پر دنیا بھر میں مذمت کا اظہار بھی کیا گیا اور ساتھ ساتھ شہداء کے لواحقین سے ہمدردی اور یکجہتی سمیت تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دل جوئی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جس کے گھر سے کوئی سہارا چلا جائے اس پر کیا گزرتی ہے وہ تو ہی بتا سکتا ہے۔جیسے کہاوت مشہور ہے کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانے ہے۔
تا وقت تحریر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام نے دو مساجد میں گھس کر نہتے عبادت گزاروں کو جس بے رحمی سے قتل کیا اس کی منظر کشی دنیا کے کسی ذرائع ابلاغ کو دکھانے یا پیش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دہشتگرد قاتل نے یہ سارا منظر خود اپنے کیمرے میں ضبط کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا میں نشر کر دیا۔کرائسٹ چرچ کا سانحہ ہوتے ہی جہاں ایک طرف پوری دنیا کے مسلمانوں میں اضطراب کے ساتھ غم وغصہ کی لہر پیدا ہونا فطری عمل تھا کیونکہ مسلمان دین الہیٰ اور پیغمبر گرامی قدر حضرت محمد مصطفی (ص) کی احادیث کی روشنی میں جسد واحد کی طرح ہیں اور جب جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
بہر حال ایک طرف نیوزی لینڈ میں پچا س سے زائد اسلام کے نام لیواؤں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تو دوسری جانب مغربی دنیا اس خطر ناک سانحہ کی پردہ پوشی کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈوں کو سامنے لانے میں بالکل سست نظر نہیں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر عام وخاص کی زبان پر ایک ہی بات دہرائی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یقیناًالہیٰ ادیان کا دہشتگردی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں اس بات کی تکرار کرنے کی ضرورت پیش آ رہی تھی ؟ دراصل اس نعرے کا پرچار کروانے والی مغربی نام نہاد تہذیب اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دہشت گردی کا مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل یا جو بھی کہہ لیجئے یقیناًموجو دہے او ر اس کے تانے بانے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا اصل مذہب ہی ’’صہیونزم‘‘ ہے۔لیکن کیونکہ صہیونیوں نے امریکی سیاست سمیت یورپی ممالک تک اپنے پنجہ گاڑھ رکھے ہیں تو کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں ہونیو الی دہشتگردی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں صہیونی ملوث ہیں ، حالانکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کا ذرائع ابلاغ بھی یقیناًاپنے کاروبار کی فکر میں رہتا ہے اور اس فکر میں پھر کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی، یا پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی ذرائع ابلاغ کی بدولت مغرب پرست یا مغرب سے اس قدر متاثر ہو چکا ہے کہ جو کچھ مغرب کہہ دے اسے بالکل تسلیم کر لیا جاتا ہے جبکہ خود اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی اور نہ جانے کیا کچھ کہہ کر رد کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔آج ہماری نسل نو کو مغربی تہذیب و تمدن اس طرح گھو ل گھول کر پلائی جا رہی ہے کہ ہم اپنی اصل سے ہی منحرف ہو رہے ہیں۔
یہ مغربی تہذیب سے متاثر ذرائع ابلاگ اور عناصر ہی ہیں کہ جنہوں نے نیوزی لینڈ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی کو چند گھنٹوں میں ایک فرد کا عمل قرار دے کر پورے معاشرے سے ذمہ داری سلب کر لی۔جبکہ اگر پاکستان کی بات کریں تو ہم یہاں گذشتہ چالیس برس سے اسی ہی قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے ستر ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں کہ جن میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ملتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں کیونکہ مغرب کا ایجنڈا تھوڑا سا مختلف تھا تاہم انہوں نے پاکستان کو اور بالخصوص اسلام کو شدت پسند بنا کر پیش کیا۔
صرف بات یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ مغرب نے اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے نت نئے ناموں سے مقبوضہ علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کی پرورش کی اور انہیں پھر مختلف ممالک کی سرزمینوں پر اسلام کے جھنڈے کے ساتھ بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام ہی دنیا میں دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے ۔حقیقت میں ان دہشت گرد گروہوں کو پیدا کرنے سے مالی و مسلح معاونت دینے تک میں استعماری طاقتیں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اوریورپ خود ملوث تھے۔
جب سنہ1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو ایک صہیونی جا کر نذر آتش کر دے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا اور اسی طرح جب سنہ2019ء میں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کر دیا جائے تب بھی دہشت گردی کے مذہب ومسلک اور جڑ صہیونزم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے یہی کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد ی کاکوئی مذہب نہیں اور اندھا دھند گولیاں چلا کر معصوم انسانوں کی جان لینے والا نفسیاتی مریض یا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔یقیناًمغرب وصہیونزم کا دماغی توازن درست نہیں ہے ورنہ آج فلسطین سے کشمیر تک معصوم انسانی جانیں لہو لہان نہ ہوتیں ۔آج ہمیں یہ مان لینا چاہئیے کہ دنیا میں اگر دہشت گردی کی کوئی جڑ موجود ہے تو وہ خود استعماری قوتیں جو اپنے من مانے ناپاک عزائم کو حاصل کرنے اور تکبر و گھمنڈ کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا بھر میں قتل عام کرتی پھرتی ہیں ، دراصل دہشت گردی کی اصل ذمہ دار یہی استعماری قوتیں ہیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک شامل ہیں۔آج ہمیں مغربی زیر اثر ذرائع ابلاغ سے ایک ہی سبق پڑھایا جا رہاہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ۔ہم اس بات کو کیسے مان لیں کہ چالیس سال تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں قتل ہونیو الے ستر ہزار انسانوں کے قتل میں امریکن بدنام زمانہ سی آئی اے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور موساد سمیت خطے میں ان کے نمک خوار اس کے ذمہ دار نہ تھے ؟
ہم ا س بات کو کیسے تسلیم کرلیں کہ آج ستر برس سے فلسطین کی سرزمین پر جو صہیونیوں کی جانب سے دہشت گردی کی نت نئی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں اس کا تعلق صہیونزم سے نہیں ہے ؟کیا ہم افریقہ میں نسل پرستی اور اب فلسطین میں صہیونیوں کی نسل پرستی کو فراموش کر دیں اور کہہ دیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ؟ کیا صہیونیوں کے مذہب کے مطابق صہیونی دنیا کی سب سے اعلیٰ مخلوق نہیں کہلواتے ؟ کیا صہیونیوں کی مذہبی تعلیمات اورعقائد میں کسی انسان کو صہیونزم کے مفاد پر قتل کرنے کو ہم کس طرح سے دہشت گرد ی اور صہیونزم کو جدا کر سکتے ہیں؟کیا ہم کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کو بھول جائیں جس کے پس پردہ بھی صہیونیزم موجود ہے ؟کیا گذشتہ دنوں صہیونزم کی مدد سے بھارت نے پاکستان کیخلاف جو دہشت گردی انجام دی اس کو بھی فراموش کر دیں ؟ کیا ہم نیوزی لینڈ کے واقعہ کی طرح یہ کہہ دیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی انتظامیہ نفسیاتی مریض یا پاگل ہے ؟ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر ضروری ہے کہ نفسیاتی مریضوں اور پاگل عناصر کو پاگل خانوں اور اسپتالوں میں رکھا جائے نہ کہ انہیں انسانوں کے قتل عام پر مامور کیا جائے۔
سانحہ کرائسٹ چرچ پر مغرب نے اس بات کی مکمل کوشش کی ہے کہ مغرب کو دہشت گردی کا لیبل نہ دیاجائے حالانکہ اگر طول تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کی تہذیب دہشتگردی کی بے پناہ داستانوں سے بھری پڑی ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے مسلمانوں کی ہمدردی لینے کے لئے سرکاری ریڈیو اور دیگر مقامات پر اذان دلوا کر دنیا کے مسلمانوں کو خوش کر لیا ہے اور ساتھ ساتھ صہیونزم کی پردہ پوشی بھی کر گئی ہیں تا کہ دنیااصل حقائق نہ جان سکے ۔بے چارے مسلمان بھی کتنے سیدھے ہیں کہ ازانیں سن سن کر اس قدر خوش ہو رہے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ دہشت گردی کی ماں صہیونزم کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں روزانہ اذان پر پابندی عائد کی جاتی ہے لیکن پھر بھی کہا جاتا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو ، تحقیق اور مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ صہیونیزم دہشت گردی کے پیچھے کارفرما ہے ۔دنیا کا کائی حصہ ایسا نہیں جہاں دہشتگردی کے واقعات میں صہیونیزم کا ہاتھ شامل نہ رہاہو۔اس بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ دہشت گردی کا یقیناًالہیٰ ادیان سے کوئی تعلق نہیں البتہ صہیونزم ہی دہشت گردی کا اصل مذہب ومسلک اور رنگ و نسل بھی ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسلمان بالکل تہی دست تھے، 1936ء و 1937ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مکمل طور پر شکست ہو چکی تھی، ۱۱ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملاتھا، اس شکست سے مسلم لیگ کا یہ دعوی بھی خطرے میں پڑ گیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح انفارمیشن اور رابطے کے وسائل بھی نہیں تھے، مسلمانوں کی سیاسی تربیت ،اجتماعی شعور اور نظریاتی سدھار کے سامنے ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں۔
سیاست ،وطن، جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور ملت کی ایک تعریف ہندو حضرات اور کانگرسی علما اور دوسری تعریف مسلم لیگ کے رہنما کر رہے تھے۔اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابات میں شکست کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا، اپنے موقف سے عقب نشینی کر لینی چاہیے تھی اور اپنے نظریے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
بلکہ اس کے برعکس کانگرس کو دو سال اور چند ماہ کے بعد مستعفی ہونا پڑا اور مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔اس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تین دن کے لئے 22 مارچ۱۹۴۰ کو لاہور میں شروع ہوا۔اجلاس کے ابتدائی سیشن سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی خطاب کیا، 23 مارچ کو مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس کے بعد اس قرار داد کے حق میں تقاریر جاری رہیں اور 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے یہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد لاہور کو اس وقت کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور یوں یہی قراردادِ پاکستان ہی حصولِ پاکستان کے لئے مشعلِ راہ بن گئی۔
۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک کے سات سالوں کے اندر مسلم لیگ نے مسلمانوں میں مطلوبہ سیاسی بیداری بھی پیدا کی اور انہیں اس قرارداد کے مطابق ایک آزاد وطن بھی حاصل کر کے دیا۔ قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور کے مقدمے کے طورپر قراردادِ مقاصد منظور کی گئی اس قرارداد کےمطابق پاکستان نے ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا اور پہلا پاکستانی آئین 29 فروری 1956 کو منظور اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل ہوا۔چنانچہ ۱۹۵۶ سے تئیس مارچ کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا اوراس روز کوآج تک کبھی ہم نے یومِ جمہوریہ اور کبھی یوم پاکستان کے نام سے منایا تاہم اس دن کے ساتھ ہم آج تک انصاف نہیں کرپائے، ہم نے نہ ہی تو اسلامی جمہوری اقدار کی پابندی کی اور نہ ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی آبیاری کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی کسی بھی سیاسی تنظیم کو پاکستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کہہ سکتے، اور آج ہم پاکستان بننے کے ۷۲ سالوں کے بعد بھی ایک قومی سطح کی قیادت کے حوالے سے بحران کے شکار ہیں۔
قراردارِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو غیرِ خدا کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پناہ اور امان میں لانا اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہی قراردادِ مقاصد کا بھی لبِ لباب ہے لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا پاکستان ہے ،جس میں آج بھی قائداعظم کے مخالف کانگرسی علما کا قبضہ ہے،سیاسی پارٹیاں انگریزوں اور یورپ کی کاسہ لیس ہیں اور سیاسی لیڈر یوٹرن لینے پر عمل پیرا ہیں۔آج کا پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کا پاکستان نہیں بلکہ فرقوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا پاکستان ہے، ہم بحیثیت قوم، قراردادِ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔یہ انحراف اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اب مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظریاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں، ہم اب یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور کس کوچے میں کھڑے ہیں۔ہم اب تک اپنے ریاستی و نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں بھی فرق نہیں کر سکے، کہنے کو تو ہم نے ریاست ِمدینہ اور مدینہ فاضلہ کا خواب دیکھا تھا لیکن یقیناً ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے۔
منزل کھونے کا احساس بہت اہم ہے ،اس احساسِ زیاں کی حفاظت ضروری ہےلیکن فقط حالات کا نوحہ لکھنے، ماضی کا ماتم کرنے، کانگرس نواز مولویوں پر تنقید کرنے اور حکمرانوں کو کوسنے سے تاریخ بدل نہیں سکتی اور مستقبل سنور نہیں سکتا۔اگر ہم نے تاریخ کے دھارے کو بدلنا اور قومی مستقبل کو سنورنا ہے تو ہمیں اپنے حال کو قراردادِ پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ہماری قومی ، سیاسی اور دینی تنظیموں کو قرارداد پاکستان کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا بصورت دیگر اس کھوئی ہوئی منزل کو تلاش کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔جس طرح بیماری کے علاج کے لئے بیماری کا احساس ضروری ہے اسی طرح کسی بھی طرح کے زیاں کے جبران اور تلافی کے لئے اس زیاں کا احساس بھی ضروری ہے۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ جو قراردادِ پاکستان ہمارے اجداد نے پیش کی تھی ہم عملاً اس کو کھو چکے ہیں اب اس زیاں کی تلافی کا وقت ہے،قراردادِپاکستان سے لئے گئے ہر یو ٹرن نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں خزانوں کا خالی ہونا، تہی دست ہونا اور انفارمیشن و رابطے کی سہولتوں کا فقدان اتنا ضرررساں نہیں جتنا سیاسی رہنماوں کا اصولوں اور نظریات سے یو ٹرن لینا ہے، خصوصا ایسا یوٹرن جس کے بعد احساسِ زیاں بھی نہ رہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(رحیم یارخان) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع رحیم یار خان کی جانب سے ولادت امام علی ع کی مناسبت سے جشن سعید کا انعقاد کیا گیا جس سے محترمہ نوشین اور محترمہ تنویر زھرا نے خطاب کیا اور اجتماعی اعمال نوروز بھی بجا لائے گئے۔ آغاز محفل میں تلاوت حدیث کساء کی گی بعد ازاں ،محترمہ نوشین زھرا نے اپنے خطاب میں مناقب مولائے متقیانؑ بیان کرتے ہوے کہا کہ انسان کی اتنی اوقات اور ظرف نہیں کہ وہ ذات علیؑ کاو درک کر سکے ، علیؑ کے مقام و رتبے کو صرف خدا و رسولؐ جانتے ہیں ، مولا علیؑ کی ولایت نعمت عظمی ہے ، خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے جو اس نے ہم جیسوں کوعطا کر کے ہمارا شمار ان خوشنصیب لوگوں میں کیا جو علیؑ کے نام لیوا ہیں اور ان کی ولایت و محبت کا دم بھرتے ہیں ، قرآن پاک میں جس نعمت کے بارے میں پوچھے جانے کا تذکرہ ہے وہ یہی ولایت و مودت محمد و آل محمدؐ کی نعمت ہے۔
وحدت نیوز(سکھر) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع سکھر کی جانب سے 15 رجب المرجب بروز ہفتہ کو چودھری ھاؤس میں اجتماعی طور پر اعمالِ ام داؤد ادا کیے گئے۔ اعمالِ کی ابتداء میں محترمہ شازیہ بتول نے اعمال ام داؤد کی فضیلت بیان کی اس کے بعد محترمہ عقیلہ بتول نے باجماعت نماز ادا کروائی بعد از نماز محترمہ عمبرین رضا نے بمناسبت شھادت بیبی زینب سلام اللہ علیھا مصائب پڑھے۔ محترمہ عقیلہ بتول نے اپنی مصروفیات کے باوجود خواہران کی دعوت کو قبول کر کہ خصوصی طور پر شرکت کی اور خواہران وحدت سکھر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) 23مارچ یوم پاکستان کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع جیکب آباد اور المصطفیٰ اسکاوٹس کے زیراہتمام پاکستان زندہ باد ریلی نکالی گئی،ریلی کی قیادت ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی سید احسان شاہ بخاری آغا سیف علی ڈومکی نے کی،اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے جو امریکی غلامی سے آزاد ہو۔انہوں نےکہا کہ مذہبی منافرت فرقہ واریت اور دھشت گردی پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا ہے جسے وطن فروشوں نے پاک سر زمین پر مسلط کیا۔ جبکہ نا اہل حکمرانوں کی تمام تر توجہ کرپشن کرنے اور ملکی دولت لوٹنے پر لگی رہی۔ دھشت گردی اور کرپشن سے پاک پاکستان پہلا قدم ہونا چاہیے۔
وحدت نیوز(لاہور) سیدہ زہرانقوی کی گداگروں کو روزگارکی فراہمی کی قراردادپنجاب اسمبلی میں کثرت رائے سے منظورکرلی گئی،تفصیلات کے مطابق گلی محلوں، ٹریفک سگنلز،چوک چوراہوں پربھیک مانگنے والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں کثرت رائے سے منظورکرلی گئی،یہ قراردادمجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی سید ہ زہرانقوی نے ایوان میں پیش کی تھی جسے ممبران اسمبلی نے بھاری اکثریت سےمنظورکرلیاہے،زہرانقوی کی جانب سے پیش کردہ قراردادمیں کہاگیاتھاکہ گلی محلوں، ٹریفک سگنلز،چوک چوراہوں پربھیک مانگنے والے بے روزگاروں کیلئے سرکاری سطح پرروزگار کے مواقع فراہم کیئے جائیںتاکہ وہ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں،محترمہ زہرانقوی کی یہ قرارادادپنجاب اسمبلی نے کثرت منظورکرلی ہے۔